Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 186

سورة البقرة

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾

And when My servants ask you, [O Muhammad], concerning Me - indeed I am near. I respond to the invocation of the supplicant when he calls upon Me. So let them respond to Me [by obedience] and believe in Me that they may be [rightly] guided.

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah hears the Servant's Supplication Allah says; وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُوْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ And when My servants ask you (O Muhammad concerning Me, then answer them), I am indeed near (to them by My knowledge). I respond to the invocations of the suppl... icant when he calls on Me (without any mediator or intercessor). So let them obey Me and believe in Me, so that they may be led aright. Imam Ahmad reported that Abu Musa Al-Ashari said, "We were in the company of Allah's Messenger during a battle. Whenever we climbed a high place, went up a hill or went down a valley, we used to say, `Allah is the Most Great,' raising our voices. The Prophet came by us and said: يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّكُمْ لاَا تَدْعُونَ أَصَمَّ ولاَا غَايِبًا إنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا إنَّ الَّذي تَدْعُونَ أَقْربُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ يا عَبْدَاللهِ بْنَ قَيْسٍ أَلاَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَةً مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ لاَا حَوْلَ وَلاَا قُوَّةَ إِلاَّ بِالله O people! Be merciful to yourselves (i.e., don't raise your voices), for you are not calling a deaf or an absent one, but One Who is All-Hearer, All-Seer. The One Whom you call is closer to one of you than the neck of his animal. O Abdullah bin Qais (Abu Musa's name) should I teach you a statement that is a treasure of Paradise: `La hawla wa la quwwata illa billah (there is no power or strength except from Allah).' This Hadith was also recorded in the Two Sahihs, and Abu Dawud, An-Nasa'i, At-Tirmidhi and Ibn Majah recorded similar wordings. Furthermore, Imam Ahmad recorded that Anas said that the Prophet said: يَقُولُ اللهُ تَعَالى أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ إِذَا دَعَانِي "Allah the Exalted said, `I am as My servant thinks of Me, and I am with him whenever he invokes Me.' Allah accepts the Invocation Imam Ahmad also recorded Abu Sa`id saying that the Prophet said: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو اللهَ عَزَّ وَجَلَّ بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيها إِثْمٌ ولاَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ إلاَّ أَعْطَاهُ اللهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ إِمَّا أَنْ يُعَجِّل لَهُ دَعْوَتَهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الاُخْرَى وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا No Muslim supplicates to Allah with a Du`a that does not involve sin or cutting the relations of the womb, but Allah will grant him one of the three things. He will either hasten the response to his supplication, save it for him until the Hereafter, or would turn an equivalent amount of evil away from him." They said, "What if we were to recite more (Du`a)." He said, اللهُ أَكْثَر There is more with Allah. Abdullah the son of Imam Ahmad recorded Ubaydah bin As-Samit saying that the Prophet said: مَا عَلى ظَهْرِ الاَرْضِ مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَدْعُو اللهَ عَزَّ وَجَلَّ بَدَعْوَةٍ إِلاَّ اتَاهُ اللهُ إيَّاهَا أَوْ كَفَّ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِم There is no Muslim man on the face of the earth who supplicates to Allah but Allah would either grant it to him, or avert harm from him of equal proportions, as long as his supplication does not involve sin or cutting the relations of the womb. At-Tirmidhi recorded this Hadith. Imam Malik recorded that Abu Hurayrah narrated that Allah's Messenger said: يُسْتَجَابُ لاَحَدِكُمْ مَالَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي One's supplication will be accepted as long as he does not get hasty and say, `I have supplicated but it has not been accepted from me." This Hadith is recorded in the Two Sahihs from Malik, and this is the wording of Al-Bukhari. Muslim recorded that the Prophet said: لاا يَزَالُ يُسْتَجابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْم أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ مَا لَمْ يَسْتَعْجِل The supplication of the servant will be accepted as long as he does not supplicate for what includes sin, or cutting the relations of the womb, and as long as he does not become hasty. He was asked, "O Messenger of Allah! How does one become hasty?" He said, قَدْ دَعَوْتُ وقَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ أَرَ يُسْتَجَابُ لِي فَيَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذلِكَ وَيَدَعُ الدُّعَاء He says, `I supplicated and supplicated, but I do not see that my supplication is being accepted from me.' He thus looses interest and abandons supplicating (to Allah). Three Persons Whose Supplication will not be rejected In the Musnad of Imam Ahmad and the Sunans of At-Tirmidhi, An-Nasa'i and Ibn Majah it is recorded that; Abu Hurayrah narrated that Allah's Messenger said: ثَلَثةٌ لاَ تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ الاْمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّايِمُ حَتَّى يُفْطِرَ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللهُ دُونَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَتُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ يَقُولُ بِعِزَّتِي لاََنْصُرَنَّكَ وَلَوْ بَعْدَ حِين Three persons will not have their supplication rejected: the just ruler, the fasting person until breaking the fast, and the supplication of the oppressed person, for Allah raises it above the clouds on the Day of Resurrection, and the doors of heaven will be opened for it, and Allah says, `By My grace! I will certainly grant it for you, even if after a while.'   Show more

دعا اور اللہ مجیب الدعوات ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کرلیں یا دور ہے؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری ( ابن ابی حاتم ) ایک ا... ور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے؟ یہ آیت اتری ( ابن جریر ) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب آیت ( رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ) 40 ۔ غافر:60 ) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہئے؟ اس پر یہ آیت اتری ( ابن جریج ) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آکر فرمانے لگے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ، اے عبداللہ بن قیس ! سن لو! جنت کا خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے ( مسند احمد ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے قریب ہی ہوتا ہوں ( مسند احمد ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ ) 16 ۔ النحل:128 ) جو تقویٰ واحسان وخلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ، حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے آیت ( اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى ) 20 ۔ طہ:46 ) میں تم دونون کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں ، مقصود یہ ہے کہ باری تعالیٰ دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے ، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ ارحم الراحمین اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے ( مسند احمد ) حضرت ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے ، لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے؟ ( مسند احمد ) عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو ( مسند احمد ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے جلدی کرنا یہ کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا ( موطا امام مالک ) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے ، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ ناامیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کرے دے یہ جلدی کرنا ہے ، ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں ، اے لوگوں تم جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو ، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا ( مسند احمد ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے دعا کی کہ الہ العالمین! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں ( ابن مردویہ ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بےمثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے ، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت ودوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں ( ابن مردویہ ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ گویا میرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا ( بزار ) دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے ( ابوداود طیالسی ) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے دعا اللہم انی اسألک برحمتک اللتی وسعت کل شئی ان تغفرلی یعنی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے اور حدیث میں تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ ، روازے دار اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بلند کرے گا مظلوم کی بددعا کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں ( مسند ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ )   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

186۔ 1 رمضان المبارک کے احکام و مسائل کے درمیان دعا کا مسئلہ بیان کر کے یہ واضح کردیا کہ رمضان المبارک میں دعا کی بڑی فضیلت ہے جس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے خصوصا افطاری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت بتلایا گیا ہے۔ تاہم قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے ان آداب شرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو قرآن و حدیث میں ... بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح احادیث میں حرام خوراک سے بچنے اور خشوع و خضوع کا اہتمام کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔   Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣٨۔ ١] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض لوگوں نے پوچھا تھا کہ ہمارا پروردگار اگر دور ہے تو ہم اسے بلند آواز سے پکارا کریں اور اگر قریب ہے تو آہستہ آواز سے پکارا کریں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتلا دیا کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں۔ حتیٰ کہ تمہاری رگ جان سے بھی قریب ہوں۔ پھر ... اللہ تعالیٰ نے صرف ان کے سوال کے جواب پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اور بھی کئی باتیں ارشاد فرما دیں جو انسانی ہدایت کے لیے ضروری تھیں اور جن سے شرکیہ عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ مثلاً یہ کہ جب کوئی شخص مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار یا دعا کو صرف سنتا ہی نہیں بلکہ شرف قبولیت بھی بخشتا ہوں اس سے ان لوگوں کے باطل خیال کا رد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ اللہ ہم گنہگاروں کی دعا کب سنتا اور قبول کرتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم کسی بزرگ اور اللہ کے پیارے کی معرفت اللہ سے اپنی حاجات طلب کریں۔ اس جواب میں عمومیت سے یہ وضاحت ہوگئی کہ جیسے اللہ اپنے پیاروں کی سنتا ہے ویسے ہی اپنے گنہگاروں کی بھی سنتا اور اسے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ دوسری وضاحت یہ فرمائی کہ بندے میرا حکم بجا لائیں۔ مجھی سے مانگیں، دوسروں سے نہ مانگیں۔ کیونکہ پکار یا دعا بھی اصل عبادت ہے اور تیسری یہ کہ میرے متعلق اس بات کا یقین بھی رکھیں کہ میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا اور یہی ہوشمندی، سمجھداری اور ان کے فائدے کی بات ہے۔ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے کچھ آداب ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حرام خور کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اس بات کی صراحت احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ دوسری یہ کہ وہ دعا ممکنات سے ہو۔ مثلاً اگر ایک غریب آدمی جسے امور سیاست کی خبر تک نہ ہو یہ دعا کرنے لگے کہ یا اللہ مجھے اس ملک کا بادشاہ بنا دے تو ظاہر ہے کہ ایسی دعا قبول نہ ہوگی۔ نہ ہی کوئی ایسی دعا کرنی چاہیے جس کا تعلق قطع رحم یا کسی گناہ کے کام سے ہو۔ تیسری یہ دعا کی قبولیت کا بھی اللہ کے ہاں ایک مقرر وقت ہوتا ہے۔ لہذا اس سلسلہ میں انسان کو نہ جلد بازی کرنی چاہیے اور نہ مایوس ہونا چاہیے کیونکہ بعض دفعہ دعا کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے کوئی نازل ہونے والی مصیبت دور کردی جاتی ہے اور چوتھی یہ کہ جو دعا کی جائے پوری خلوص نیت سے اور تہ دل سے کی جائے۔ بےتوجہی سے اور عادتاً دعا کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور پانچویں یہ کہ دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجنے کے بعد اپنی حاجت کے لیے دعا کی جائے اور چھٹے یہ کہ اگر اسے اپنی دعا قبول ہوتی نظر نہ آرہی ہو تو بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ صرف اللہ سے دعا کرنے اور کرتے رہنے کا حکم ہے۔ اس کی قبولیت بسا اوقات اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتوں کے تابع ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کی دعا کی قبولیت سے کسی دوسرے شخص یا زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو اللہ کی حکمت کا تقاضا یہی ہوگا کہ اسے قبول نہ کرے تاہم ایسی دعا کا یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ اس کے نامہ اعمال میں دعا مانگنے کی نیکی لکھی جائے گی اور اس کا اجر اسے آخرت میں مل جائے گا یا اس پر آنے والی کوئی بیماری یا مصیبت اٹھا لی جاتی ہے۔ پھر بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ مثلاً لیلۃ القدر میں یا سجدہ کے وقت یا جمعہ کے دن اور ان کی تفصیل کتب احادیث میں موجود ہے۔ پھر کچھ حالات بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں دعا فوراً قبول ہوتی ہے۔ مثلاً مضطر اور مصیبت کے مارے کی دعا، یا مظلوم کی ظالم کے حق میں بددعا یا والدین کی اپنی اولاد کے حق میں بددعا۔ اس لیے کہ عادتاً والدین اپنی اولاد کے ہمیشہ خیر خواہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے حق میں بددعا اسی وقت کرسکتے ہیں جبکہ اولاد کی طرف سے انہیں کوئی انتہائی دکھ پہنچا ہو۔ رہی اللہ کو بلند آواز یا آہستہ آواز سے پکارنے کی بات تو اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اللہ قریب ہے۔ لہذا اسے آہستہ آواز سے پکارنا چاہیے۔ تاہم اس میں بھی انسان کی نیت ارادہ کا بہت دخل ہے اور حسن نیت سے ہی عمل میں خوبی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مکی دور میں ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو نکلے تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) آہستہ اور پرسوز آواز سے نماز میں قرآن پاک پڑھ رہے ہیں۔ آپ آگے گئے تو دیکھا کہ حضرت عمر (رض) بلند اور گرجدار آواز سے پڑھ رہے ہیں۔ صبح آپ نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے دریافت فرمایا کہ تم اتنی آہستہ آواز سے قرآن پاک کیوں پڑھ رہے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس لیے کہ میرا رب میرے نزدیک ہے۔ پھر آپ نے عمر (رض) سے بلند آواز سے قرآن پڑھنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ میں سونے والوں کو جگاتا ہوں اور شیطان کو بھگاتا ہوں۔ آپ نے دونوں کے جواب سن کر دونوں کی ہی تحسین فرمائی۔ اور بعض دفعہ حالات کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اللہ کا نام بلند آواز سے پکارا جائے جیسے حج وعمرہ کے درمیان تلبیہ پکارنا یا تکبیرات عیدین یا جہاد کے سفر میں اللہ اکبر کہنا یا دوران جنگ یا کفار کے مقابلہ اور ان کا جی جلانے کے لیے بلند آواز سے نعرہ لگانا ایسے تمام مواقع پر اللہ کو بلند آواز سے ہی پکارنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اس آیت سے پہلے اور بعد میں ماہ رمضان کا ذکر ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماہ رمضان، خصوصاً روزے کی حالت دعا کی قبولیت کا خاص سبب ہے اور پھر افطار کا وقت قبولیت دعا کا وقت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” روزے دار کے لیے افطار کے وقت ایک قبول کی جانے والی دعا ہے (یعنی رد نہیں ہو... تی) ۔ “ [ ابن ماجہ، الصیام، باب فی الصائم لا ترد دعوتہ : ١٧٥٣ ] چناچہ حدیث کے راوی عبداللہ بن عمرو (رض) جب روزہ افطار کرتے تو اپنے اہل و اعیال کو بلاتے اور دعا کرتے۔ [ مسند أبی داوٗد الطیالسی : ٢٢٦٢ ] یہ حدیث حسن لغیرہ ہے۔ [ ہدایۃ المستنیر ] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ” عِبَادِيْ “ کہہ کر اپنے بندوں پر اپنی خاص رحمت ظاہر کی ہے اور پھر اپنے قریب ہونے کا ذکر کر کے دعا کرنے کی ترغیب دی ہے، فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرے جس میں نہ کوئی گناہ ہو اور نہ قطع رحمی، مگر اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک عطا فرما دیتا ہے، یا تو اس کی دعا جلد قبول کرلیتا ہے، یا آخرت میں اس کا ذخیرہ کرلیتا ہے، یا اس سے اتنی برائی ٹال دیتا ہے۔ “ صحابہ نے کہا : ” پھر تو ہم بہت دعا کریں گے۔ “ فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے پاس اس سے کہیں زیادہ ہے۔ “ [ مسند أحمد : ٣؍١٨، ح : ١١٣٩۔ صحیح ] (فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ ) دعا کی قبولیت کے سلسلے میں دو حکم دیے، ایک تو یہ کہ ان پر بھی لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں۔ اگر کوئی شخص اللہ کے احکام پر عمل نہیں کرتا تو خواہ وہ دعویٰ کرتا رہے مگر (توبہ کے بغیر) اس کے دل میں اللہ کی رحمت کی امید کا چراغ روشن نہیں ہوتا۔ (دیکھیے بقرہ : ٢١٨) ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا، جو طویل سفر کرتا ہے، بکھرے ہوئے بالوں والا ہے، غبار سے بھرا ہوا ہے، وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتا ہے (اور کہتا ہے) ” یا رب ! یا رب ! “ حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور وہ حرام غذا کے ساتھ پلا بڑھا ہے تو اس کی دعا کیسے قبول کی جائے ؟ [ مسلم، الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ ۔۔ : ١٠١٥ ] دوسرا حکم یہ کہ مجھ پر ایمان لائیں اور یقین رکھیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے، جب تک کہ کوئی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، بشرطیکہ جلدی بھی نہ کرے۔ “ پوچھا گیا : ” یا رسول اللہ ! وہ جلدی کیا ہے ؟ “ فرمایا : ” یہ کہ کوئی کہے کہ میں نے دعا کی اور میں نے (دوبارہ) دعا کی تو میں نے نہیں دیکھا کہ وہ میری دعا قبول کرتا ہو، سو اس وقت وہ تھک ہار کر رہ جائے اور دعا کرنا چھوڑ دے۔ “ [ مسلم، الذکر والدعاء، باب بیان أنہ یستجاب ۔۔ : ٩٢؍٢٧٣٥ ]  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Allah is near His servants Injunctions and merits concerning fasting and Ramadan were mentioned in three previous verses. This strain continues even after the present verse when details of fasting and I` tikaf اعتکاف appear in a long verse. In between, this brief verse has been introduced to persuade servants of Allah to obey the commands of Allah by recognizing how He, in His special grace, hears...  and answers their prayers. There is no doubt about fasting being a difficult obligation despite many concessions and permissions. It is to make the trial bearable that special grace has been mentioned إِنِّي قَرِ‌يبٌ &1 am near My servants. When they pray, I answer their prayers and take care of what they need.& Under these conditions, it is befitting that servants of Allah should bear by hardships that come during the performance of given injunctions. Ibn Kathir has pointed out to another wisdom behind this sentence appearing in the middle of injunctions of fasting. According to him, this verse gives a hint that a prayer (دعاء : du&a) made at the completion of a fast is accepted, therefore, one should be very particular about making prayers at that time. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: للصایٔم عند فطرہ دعوۃ مستجابۃ The prayer made by one who is fasting at the time of his iftar is accepted. This is why the blessed Companion, ` Abdullah ibn ` Urnar (رض) would assemble his family members around him at the time of iftar and would pray. Ruling By saying إِنِّي قَرِ‌يبٌ (I am near) in this verse, it has been hinted that prayer should be made slowly and quietly; to raise voice while praying is not desirable. This is confirmed by the background in which this verse was revealed. According to Ibn Kathir, a visitor from a village asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : |"Tell me if our Lord is near us, then we shall pray in a lowered voice; and if He is far, we shall call Him with raised voices.|" Thereupon, this verse was revealed.  Show more

خلاصہ تفسیر مع ربط آیات : پچھلی تین آیتوں میں روزہ اور رمضان کے احکام اور فضائل کا ذکر تھا اور اس کے بعد بھی ایک طویل آیت میں روزہ اور اعتکاف کے احکام کی تفصیل ہے درمیان کی اس مختصر آیت میں بندوں کے حال پر حق تعالیٰ کی خاص عنایت ان کی دعائیں سننے اور قبول کرنے کا ذکر فرما کر اطاعت احکام کی ترغیب دی...  گئی ہے کیونکہ روزہ کی عبادت میں رخصتوں سہولتوں کے باوجود کسی قدر مشقت ہے اس کو سہل کرنے کے لئے اپنی مخصوص عنایت کا ذکر فرمایا کہ میں اپنے بندوں سے قریب ہی ہوں جب بھی وہ دعاء مانگتے ہیں میں ان کی دعائیں قبول کرتا ہوں اور ان کی حاجات کو پورا کردیتا ہوں۔ ان حالات میں بندوں کو بھی چاہئے کہ میرے احکام کی تعمیل میں کچھ مشقت بھی ہو تو برداشت کریں اور امام ابن کثیر نے اس درمیانی جملہ ترغیب دعا کی یہ حکمت بتلائی ہے کہ اس آیت میں اشارہ کردیا کہ روزہ کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اس لئے دعاء کا خاص اہتمام کرنا چاہئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ للصائم عند فطرہٖ دعوۃ مستجابۃ (ابوداؤد طیالسی بروایۃ عبداللہ بن عمر) یعنی روزہ افطار کرنے کے وقت روزہ دار کی دعا مقبول ہے، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عمر افطار کے وقت سب گھر والوں کو جمع کرکے دعا کیا کرتے تھے تفسیر آیت کی یہ ہے، اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں (کہ میں ان سے قریب ہوں یا دور) تو (میری طرف سے ان سے فرما دیجئے کہ) میں قریب ہی ہوں (اور باستثناء نامناسب درخواست کے) منظور کرلیتا ہوں (ہر) عرضی درخواست کرنے والے کی جب کہ وہ میرے حضور میں درخواست دے سو (جس طرح میں ان کی عرض معروض کو منظور کرلیتا ہوں) ان کو چاہئے کہ میرے احکام کو (بجاآوری کے ساتھ) قبول کیا کریں (اور چونکہ ان احکام میں کوئی نامناسب نہیں اس لئے اس میں استثناء ممکن نہیں) اور مجھ پر یقین رکھیں (یعنی میری ہستی پر بھی میرے حاکم ہونے پر بھی میرے حکیم ہونے پر اور رعایت ومصالح پر بھی اس طرح) امید ہے کہ وہ لوگ رشد (و فلاح) حاصل کرسکیں گے، مسئلہ : اس آیت میں اِنِّىْ قَرِيْبٌ فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ دعا آہستہ اور خفیہ کرنا چاہئے دعا میں آواز بلند کرنا پسند نہیں ابن کثیر نے آیت کا شان نزول یہی ذکر کیا ہے کہ کسی گاؤں والے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ہمارے رب اگر ہم سے قریب ہے تو ہم آہستہ آواز سے مانگا کریں اور دور ہو تو بلند آواز سے پکارا کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝ ٠ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝ ٠ ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝ ١٨٦ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الم... اضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ( ج و ب ) الجوب الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ رشد الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] ( ر ش د ) الرشد والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة/ 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) امت کا اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہر ایسا روزہ جو واجب فی الذمہ ہو اس کی صحت کی شرط ہے کہ اس کے لیے نیت کی جائے۔ اس لیے رمضان کے روزوں کا بھی یہ حکم ہونا چاہیے کہ ان کی صحت کے لیے نیت شرط قرار دی جائے۔ امام زفر نے اسقاط نیت کے لحاظ سے رمضان کے روزوں کو طہارت کے مشا... بہ قرار دیا ہے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ طہارت متعین اعضاء میں فرض کی گئی ہے ۔ اس لیے روزہ اس حیثیت سے اس کے مشابہ ہوجائے گا وہ بھی ایسے وقت میں فرض کیا گیا ہے جو صرف اسی کے لیے متعین و مخصوص ہے۔ لیکن دوسرے تمام فقہاء کے نزدیک امام زفر کا یہ طرز استدلال درست نہیں ہے ۔ اس لیے کہ جس علت کا ذکر امام زفر نے طہارت میں کیا ہے وہ روزہ میں موجود نہیں ہے کیونکہ انہوں نے طہارت کی یہ علت قرار دی ہے کہ وہ خاص جگہ یعنی جسم کے خاص اعضاء میں فرض کی گئی ہے اور یہ مفہوم روزہ میں موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہ روزہ خاص جگہ کے لیے موضوع نہیں ہے بلکہ وہ ایک وقت معین کے لیے موضوع ہے۔ نیز امام زفر کی بیان کردہ علت طواف کعبہ کی صورت میں ٹوٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ طواف ایک معین جگہ میں فرض کیا گیا ہے۔ اگر کوئی قرض خواہ اپنے مقروض کا پیچھا کرتے ہوئے یوم النحر یعنی قربانی کے دن بیت اللہ کا چکر لگالے تو اس کا یہ چکر طواف زیارت نہیں کہلائے گا ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص بیت اللہ کے گرد اور صفا و مرو ہ کے درمیان لوگوں کو پانی پلاتا پھرے تو اس کا یہ عمل اس پر فرض شدہ عمل کے قائم مقام نہیں ہوگا ۔ اب اگر یہ علت اپنے معلول یعنی طواف اور سعی میں متعلقہ حکم کی موجب نہیں بن سکتی تو پھر جہاں پر علت سرے سے موجود نہ ہو وہاں اس کا متعلقہ حکم کی موجب نہ بننا بطریق اولیٰ ہوگا ۔ نیز جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں طہارت اس حیثیت سے روزے سے جدا ہے کہ یہ مقروض بالذات نہیں ہے یہ تو دوسری عبادتوں کے لیے صرف شرط ہے جو کسی اور کا بدل نہیں ۔ اس لیے اس میں نیت کا شرط ہونا ضروری نہیں ٹھہرا ۔ گویا کہ یوں کہا گیا کہ تم نماز نہ پڑھو مگر اس وقت جب تم حدث اور نجاست سے پاک ہو ۔ یا تم نماز نہ پڑھو مگر اس وقت جب تمہارے اندر ستر عورت پائی جائے اب نجاست کو دھونے اور ستر عورت کے لیے نیت شرط نہیں ہے۔ اسی طرح پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنے کے لیے نیت شرط نہیں ہے ۔ رہا روزہ تو وہ مقصود بالذات فرض ہے جس طرح کہ وہ تمام فرائض جن کا ہم پہلے ذکر آئے ہیں اس بنا پر نیت کا دل میں پیدا کرنا اس کی صحبت کے لیے شرط ہے۔ ایک اور پہلو ملاحظہ کیجئے۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ صوم کی دو قسمیں ہیں ۔ صوم لغوی اور صوم شرعی اور یہ دونوں ایک دوسرے سے صرف اس نیت کی بنا پر جدا ہوتے ہیں ۔ جس کی شرائط کا ہم نے پہلے ذکرکر دیا ہے ۔ روزہ میں جب نیت نہیں ہوگی تو یہ روزہ لغوی طور پر تو صوم کہلائے گا لیکن اس میں شریعت کا کوئی حصہ نہیں ہوگا ۔ اسی بنا پر رمضان کے روزوں میں نیت کا اعتبار کیا گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص غیر رمضان میں ان چیزوں سے امساک کرے جن سے ایک روزہ دار باز رہتا ہے لیکن روزے کی نیت نہ ہو تو اس کا یہ امساک صوم شرعی نہیں کہلائے گا ۔ نفلی روزہ اس حیثیت سے رمضان کے روزے کے مشابہ ہے کہ اس میں رات سے نیت نہ کرنے کی گنجائش ہے جس طرح کہ رمضان کے روزے میں ہے۔ اب جبکہ ایک شخص صرف امساک کے ذریعے نیت کے بغیر نفلی روزہ دار نہیں کہلا سکتا اسی طرح یہ ضروری ہے کہ رمضان کے روزے کی بھی یہی حیثیت ہو۔ امام زفر کے استدلال کی بنا پر ان پر یہ لازم آتا ہے کہ ہو ایسے شخص کو جو رمضان میں چند دن کھائے پئے بغیر بےہوشی کی حالت میں رہا ہو، روزہ دار قرار دیں اس لیے کہ امساک کا وجود پایا گیا ، اگر کوئی شخص اس صورت حال کا قائل ہوجائے تو یقینا وہ ایک بہت ہی ناپسندیدہ بات کا قائل ہوجائے گا ۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ روزہ دار کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ہر ورز یا تو رات سے یا زوال سے قبل تک روزے کی نیت کرے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ بیان کر آئے ہیں کہ رمضان کا روزہ نیت کے بغیر درست نہیں ہوتا اور جب اسے مہینے کی پہلی تاریخ میں نیت کی ضرورت ہے تو دوسری تاریخ یعنی دوسرے دن بھی ایسا ہونا واجب ہے اس لیے کہ روزہ داررات ہوتے ہی روزے سے نکل آتا ہے اور جب روزے سے نکل آئے تو دوبارہ داخل ہونے کے لیے نیت کی ضرورت ہوگی ۔ امام مالک کا یہ قول ہے کہ جس روزے کے وجوب معین نہ ہو تو ایسا روزہ اسی وقت درست ہوگا جب رات سے اس کی نیت کی جائے گی اور جس روزے کا وجوب ایک معین وقت میں ہو جس کے متعلق اسے علم ہو کہ وہ اس وقت روزے سے ہوگا تو اس بنا پر وہ نیت کرنے سے مستغنی ہوگا ۔ یعنی اسے نیت کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ، مثلاً ایک شخص یہ کہے کہ میں اللہ کے لیے ایک مہینہ لگاتار روزے رکھوں گا ۔ پھر اس نے مہینے کے پہلے دن روزہ رکھ لیا تو نیت کے بغیر بقیہ امام کے روزے بھی درست ہوجائیں گے ۔ امام لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر نفلی روزہ میں روزہ دار نے دن کے آخری میں حصے میں بھی نیت کرلی تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ ثوری نے ابراہیم نخعی کا قول نقل کیا ہے کہ ایسے روزہ دار کو آئندہ کا اجر مل جائے گا ۔ یہی حسن بن صالح کا مسلک ہے ۔ رمضان کے روزے کے متعلق ثوری کا یہ مسلک ہے کہ اس کے لیے رات سے نیت کرنے کی ضرورت ہے ۔ امام اوزاعی نے کہا ہے کہ رمضان کے روزے میں اگر روزہ دار نے نصف النہار کے بعد بھی نیت کرلی تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر واجب روزے میں خواہ رمضان کا ہو یا غیر رمضان کا رات سے نیت کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے بغیر روزہ درست نہیں ہوگا ۔ البتہ نفلی روزے میں اگر زوال سے پہلے نیت کرلے تو روزہ درست ہوجائے گا ۔ جو لوگ پورے رمضان کے روزوں کے لئے ایک دفعہ نیت کے قائل ہیں ان کے قول کے بطلان پر ہمارا وہ استدلال دلالت کرتا ہے جس کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے کہ دوسرے دن کے روزے میں نئے سرے سے دخول ہوتا ہے اس لیے کہ رات آتے ہی وہ پہلے دن کے روزے سے باہر نکل آتا ہے۔ اب دوسرے دن کے روزے میں دخول کے لیے اسے نئے سرے سے نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر دخول درست نہیں ہوتا ۔ اس بنا پر یہ واجب ہوگیا کہ پہلے دن کی طرح دوسرے دن کے روزے کی صحت کے لیے نئے سرے سے نیت کو شرط قرار دیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پہلی نیت ہی کافی ہے جو کہ پورے مہینے کے لیے ہوتی ہے جس طرح نماز کی ابتداء میں نیت کافی ہوتی ہے اور ہر رکعت کے لیے نئے سرے سے نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ان دونوں صورتوں میں مشترک بات یہ ہے کہ جس طرح ایک نماز کی رکعتوں کے درمیان دوسری نماز کی خلل اندازی نہیں ہوتی اسی طرح رمضان کے روزوں میں دوسرے کسی روزے کی خلل اندازی نہیں ہوتی ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر پورے مہینے کے روزوں کے لیے ایک نیت کی کفالت کا جواز ہوتا تو ساری عمر کے روزوں کے لیے بھی ایک ہی نیت جائز ہوتی ۔ مگر چونکہ یہ بات غلط اور باطل ہے اور اس کے لیے پہلے دن روزے کی نیت کرنا ضروری ہوتا ہے اسی لیے پورے مہینے کے روزوں کی نیت کرنا درست نہیں ہوگا ۔ جس طرح کہ ساری عمر کے روزوں کے لیے ایک دفعہ نیت کرلینا درست نہیں ہے رہ گئی نماز کے ساتھ اس کی مشابہت تو یہ ایک بےمعنی بات ہے کیونکہ نماز کے لیے ایک دفعہ نیت اس لیے کافی ہوتی ہے کہ ایک نماز کے تمام افعال ایک ہی تحریمہ کے ذریعے سر انجام پاتے ہیں ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ تحریمہ کے بعد ایسا نہیں ہوتا کہ اس نماز کا کچھ حصہ درست ہوجائے اور کچھ باطل ہوجائے اس بنا پر اس نماز کی رکعتوں کی بنا پر تحریمہ پر ہوتی ہے ۔ اگر نمازی ایک رکعت چھوڑ کر نماز سے باہر نکل آئے تو اس کی پوری نماز باطل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر روزہ دار رمضان کے درمیان ایک روزہ چھوڑ دے تو اس وجہ سے اس کے پورے مہینے کے روزے باطل قرار نہیں دیے جاتے۔ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ نمازی نماز کی ایک رکعت ادا کرنے کے بعد نماز سے باہر نہیں آ جاتا بلکہ نماز کے اندر ہی ہوتا ہے اسی لیے اسے نئی نیت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ نیت کی ضرورت تو نماز میں داخل ہونے کے لیے پیش آتی ہے ، اس کے برعکس رات آتے ہی روزہ دار روزے سے باہر نکل آتا ہے۔ اسی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( اذا اقبل اللیل من ھھنا وغابت الشمس فقد افطر الصائم) جب رات اس جگہ یعنی افق سے ظاہر ہوجائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار کا روزہ کھل جاتا ہے) اس لیے پہلے دن کے روزے سے باہر نکل آنے کے بعد اسے دوسرے کے دن کے روزے میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دخول نئی نیت کے بغیر درست نہیں ہوتا ۔ ہمارے اصحاب یعنی احناف نے ہر ایسے روزے میں جو مستحق العین ہو یعنی وہ ایک وقت معین میں فرض ہو ، رات سے نیت نہ کرنے کی اجازت اس لیے دی ہے بشرطیکہ زوال سے پہلے پہلے نیت کرلے کہ اس کی وجہ یہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اب اس شخص کو شہود رمضان ہوگیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس کے روزے رکھنے پر مامور ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس فعل پر مامور ہوا ہے اگر اسے انجام دے دے تو اسکا یہ فعل درست ہوجائے۔ سنت سے اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے عاشورہ کے دن مدینہ کی بالائی آبادی کو یہ پیغام بھیجا کہ جس شخص نے صبح کچھ کھالیا ہے وہ باقی دن کچھ نہ کھائے ، اور جس نے کچھ نہیں کھایا وہ روزہ رکھ لے۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے کھا لینے والے کو قضا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ یہ روایت ہمیں عبد الباقی قانع نے کی ، انہیں احمد بن علی بن مسلم نے ، انہیں محمد بن منہال نے ، انہیں یزید بن ربیع نے انہیں شعبہ نے قتادہ سے ، قتادہ سے عبد الرحمن بن مسلمہ سے ، انہوں نے اپنے چچا سے ، چچا نے کہا کہ میں عاشورہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ آیا تم لوگوں نے آج روزہ رکھا ہے ، سب نے نفی میں جواب دیا اس پر آپ نے فرمایا ، آج کا دن پورا کرلو اور پھر روزہ قضا کرو ۔ اس حدیث کی دو باتوں پر دلالت ہوئی ۔ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ عاشورہ کا روزہ فرض تھا اسی لیے آپ نے ان لوگوں کو اس کی قضا کا حکم دیا جنہوں نے صبح سے کچھ کھالیا تھا۔ دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ آپ نے کھا لینے والوں اور کچھ نہ کھانے والوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے پہلے گروہ کو شام تک کچھ نہ کھانے اور دوسرے گروہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایسا روزہ جس کے لیے دن معین ہو اس میں رات سے نیت نہ کرنا جائز ہے کیونکہ اگر ایسے روزے کی صحت کے لیے رات سے نیت کرنے کی شرط ہوتی تو آپ کچھ نہ کھانے والوں کو روزہ رکھ لینے کا حکم نہ دیتے اور ان لوگوں کی حیثیت کھا لینے والوں کی طرح ہوتی ۔ یعنی ان کا روزہ درست نہ ہوتا اور انہیں بھی قضا کرنے کا حکم ملتا ۔ اس سے ہماری یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایسا روزہ جو مستحق العین ہو یعنی ایک وقت معین میں فر ض ہو اس کے لیے رات سے نیت کا وجود شرط نہیں ہے اور ایسے روزہ دار کے لیے دن کے بعض حصے میں نیت کرلینا جائز ہے۔ اگر درج بالا استدلال پر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس صورت میں رات سے ترک نیت کی گنجائش اس لیے ہوئی کہ جس وقت لوگوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچا روزے کی فرضیت اسی وقت سے شروع ہوئی ۔ اس وقت سے پہلے فرضیت نہیں شروع ہوئی تھی بلکہ اس کی فرضیت دنت کے بعض حصے میں جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام گیا تھا شروع ہوئی تھی اس بنا پر رات سے نیت نہ کرنا ان کے لیے جائز ہوگیا لیکن روزے کی فرضیت کے ثبوت کے بعد اس کے سوا اور کسی بات کی گنجائش نہیں رہی کہ رات ہی سے اس کے لیے دل میں نیت پیدا ہو ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر رات سے دل میں نیت کا پیدا کرلینا روزے کی صحت کے لیے شرط ہے تو پھر نیت کا عدم وجود روزے کی صحت سے مانع ہوگا ، جس طرح کہ ترک اکل روزے کی صحت کی شرائط میں سے ہے اور وجود اکل روزے کی صحت سے مانع ہے۔ پھر اس میں اس صورت حال میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے کہ خواہ روزے کی فرضیت کی ابتدادن کے بعض حصے میں ہوئی یا یا خواہ اس کی فرضیت پہلے سے معلوم ہو دونوں کا حکم یکساں ہونا چاہیے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو جنہوں نے صبح سے کچھ کھالیا تھا بقیہ دن کچھ نہ کھانے اور اس کے ساتھ روزہ قضا کرنے کا حکم دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ترک اکل روزے کی صحت کے لیے شرط ہے لیکن آپ نے رات سے روزے کی نیت نہ کرنے والوں کو قضا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ان کے روزے کی صحت کا حکم لگا دیا جب کہ انہوں نے یہ روزہ دن کے بعض حصے میں شروع کیا تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایسا روزہ جو ایک وقت معین میں فرض ہو اس کے لیے رات سے دل میں نیت پیدا کرنے کی شرط نہیں ہے۔ یہی مثال اس کے نظائر کے لئے اصل اور بنیاد بن گئی ۔ مثلاً ایک شخص اپنے اوپر کسی خاص دن میں روزہ واجب کرے تو اگر وہ رات سے نیت نہ بھی کرے بلکہ زوال سے پہلے پہلے دن کے کسی حصے میں نیت کرے تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عاشورہ کے روزے کی فرضیت رمضان کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے اس لیے ایک منسوخ حکم سے اس روزے پر استدلال کیسے درست ہوگا جو فرض ہے اور جس کا حکم ثابت و متحقق ہے اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگرچہ اس کی فرضیت منسوح ہوچکی ہے لیکن اپنے نظائر پر اس کی دلالت منسوخ نہیں ہوئی۔ آپ دیکھتے نہیں کہ نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا اگرچہ منسوخ ہوچکا ہے لیکن اس کی وجہ سے نماز کے دوسرے تمام احکام منسوخ نہیں ہوئے۔ اسی طرح صلوٰۃ اللیل یعنی تہجد کی فرضیت اگرچہ منسوخ ہوگئی لیکن نماز کے باقی ماندہ تمام احکام اسی طرح ثابت ہیں اور اس کی منسوخی اللہ تعالیٰ کے اس قول فاقروا ماتیسر من القرآن قرآن میں جہاں سے میسر ہو قرات کرو سے حسب منشاء قرأت کے وجواب میں اختیار کے ثبوت پر استدلال سے مانع نہیں ہوئی اگرچہ اس آیت کا نزول بنیادی طور پر صلاۃ اللیل کے سلسلے میں ہوا تھا۔ فقہاء کا یہ قول کہ اگر روزہ دار زوال سے پہلے پہلے روزے کی نیت کرلے گا تو روزہ درست ہوجائے گا ۔ زوال کے بعد نیت کرنے پر روزہ درست نہیں ہوگا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت کہ آپ نے مدینہ کے بالائی حصے میں رہنے والوں کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ ( عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کے سلسلے میں) جس شخص نے غذا نہیں کیا یعنی کھانا نہیں کھایا وہ روزہ رکھنے اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ باقی ماندہ دن کھانے پینے سے باز رہے۔ غذا زوال سے پہلے پہلے ہوتا ہے ۔ پھر حدیث میں غذا کا ذکر دو میں سے ایک وجہ کی بنا پر ہوا ہے ۔ یا تو اس وجہ سے کہ آپ نے یہ بات دن کے اول حصے میں زوال سے پہلے پہلے فرمائی تھی یا اس وجہ سے کہ آپ نے لوگوں کے سامنے یہ واضح کردیا کہ نیت کے جواز کا تعلق اس صورت سے ہے کہ اس کا وجود زوال سے پہلے پہلے ایسے وقت میں ہوجائے جو دن کا پہلا حصہ کہلاتا ہے۔ اگر زوال سے ما قبل اور اس کے ما بعد کا حکم ایک جیسا ہوتا تو آپ صرف اکلی کے ذکر پر اکتفاء فرماتے اور دن کے اول حصے کا ذکر کرتے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لفظ سے حاصل ہونے والے فائدے اور معنی کا لحاظ رکا تو اب یہ بات واجب ہوگئی کہ زوال سے پہلے اور زوال کے بعد کے حکم میں فرق رکھا جائے تا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کلام کا کوئی لفظ بےفائدہ نہ رہے۔ نفلی روزے میں رات سے نیت نہ کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث مروی ہے جس کی ہمیں عبد الباقی بن قانع نے ، انہیں اسماعیل بن فضل بن موسیٰ نے ، انہیں مسلم بن عبد الرحمن سلمی بلخی نے ، انہیں عمرو بن ہارونے یعقوب بن عطا سے روایت کی ہے ، یعقوب نے اس کی روایت اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض دفعہ صبح کے وقت اٹھتے اور روزے کا کوئی پکا ارادہ نہ ہوتا ۔ پھر دل میں کوئی بات آتی اور آپ روزہ رکھ لیتے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر تشریف لاتے اور پوچھتے کہ کھانے کے لیے کچھ ہے اگر ہوتا تو کھالیتے ورنہ فرماتے کہ چلو میں روزہ رکھے لیتا ہوں ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر روزہ دار نے رات سے روزے کا پکا ارادہ نہیں کیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو وہ دن کے ایک حصے میں روزے کے بغیر پایا جائے گا ایسی صورت میں اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگی جس نے کچھ کھالیا ہو اس لیے اس کا اس دن کا روزہ درست نہیں ہوگا ۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ نے نفلی روزے کی ابتدا دن کے ایک حصے میں کی ، جیسا کہ درج بالا حدیث میں ذکر ہوچکا ہے اور فقہاء نے بھی اس پر اتفاق کیا ہے اور انہوں نے دن کے اس حصے کو جو نیت صوم سے خالی گزر گیا اس دن کے روزے کی صحت کے لیے مانع قرار نہیں دیا اور جب یہ صورت حال نفلی روزے کی صحت سے مانع نہ ہونے کی حیثیت سے اس صورت حال کی طرح نہیں ہوئی جس میں کوئی شخص دن کے اول حصے میں کچھ کھالے کہ یہ دوسری صورت لا محالہ صحت صوم سے مانع ہے، تو اسی طرح صوم مستحق العین یعنی معین وقت میں فرض روزے میں روزے کی نیت کا نہ ہونا روزہ شروع کرنے سے مانع نہیں ہوگا اور روزے کی ابتدا میں نیت کا نہ ہونا دن کی ابتدا میں کچھ کھا لینے کے مترادف نہیں ہوگا جس طرح کہ نفلی روزے میں اس کا حکم گزر چکا ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک شخص نے رات سے روزے کی نیت کرلی پھر اس کی نیت غائب ہوگئی تو اس کی نیت کا غائب ہوجانا اس کے روزے کی صحت کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گا ۔ نیز روزے کی بقا کے لیے نیت کا مسلسل ساتھ رہنا شرط نہیں ہے ( یعنی یہ ممکن ہے کہ روزہ دار کے ذہن سے روزے کی نیت پوشیدہ غائب ہوجائے یا اس کا دھیان روزے کی طرف نہ رہے ، ان تمام صورتوں میں اس کے روزے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا) اسی بنا پر بعض روزوں میں ان پر دلالت کی موجودگی کے مطابق دن کے اول حصے میں نیت نہ کرنے کو جائز کردیا گیا ہے اور یہ چیز اس کے روزے کی صحت کے لیے مانع نہیں قرار دی گئی ہے۔ اب اگر کسی نے دن کے اول حصے میں کچھ نہ کھایا اور آخری حصے میں کھالیا تو اس سے اس کا روزہ باطل ہوجائے گا اور اس طرح وجود اکل نیت کے غائب ہوجانے کے بمنزلہ قرار نہیں پایا اس لیے ابتدا میں یا آخری حصے میں کھا لینے کا حکم ایک جیسا ہوگا لیکن نیت کے سلسلے میں اس میں فرق ہوگا ۔ ا س لحاظ سے دن کے اول حصے میں نیت کا نہ ہونا اور کھانے کے فعل کا پا جانا دوالگ چیزیں ہوگئیں اور اس طرح ان دونوں حالتوں کا حکم بھی الگ الگ ہوگیا اور اس بات کی صحت میں کوئی امتناع نہیں کہ دن کے اول حصے میں وہ روزے کی نیت نہ کرے اور پھر اس کے بعض حصے میں نیت کرے تو بےنیت گزرے ہوئے حصے پر بھی اسی طرح روزے کا حکم لگا دیا جائے جس طرح نیت کے غائب ہوجانے کی صورت میں گزرنے والے حصوں پر روزے کا حکم لگا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص کے لیے نماز میں داخل ہونا اسی وقت درست ہوتا ہے جب کہ اس کے ساتھ نیت بھی ہو، تو اسی طرح روزہ کا حکم بھی ہونا چاہیے ۔ اس سے کہا جائے گا کہ یہ قیاس غلط ہے اس لیے کہ مسلمانوں کے درمیان اس شخص کے روزے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے جس نے رات سے روزے کی نیت کرلی پھر سو گیا اور صبح ہونے تک سوتا رہا ۔ ایسے شخص کا روزہ مکمل اور درست قرار پائے گا اگرچہ روزے میں داخل ہونے کے وقت نیت صوم ساتھ نہیں تھی ۔ اس کے برعکس اگر کسی نے نماز کی نیت کی پھر کسی اور کام میں لگ گیا اور اس کے بعد تحریمہ باندھ لیا تو اس کی نماز اس وقت تک درست نہیں ہوگی جب تک کہ وہ نماز میں داخل ہونے کے وقت نئے سرے سے نیت نہ کرے۔ اب جبکہ تمام اہل اسلام کے نزدیک نیت صوم کے ساتھ ہونا یعنی مقارنت روزے میں داخل ہونے کی شرط نہیں ٹھہر جبکہ نیت کی مقارنت نماز میں داخل ہونے کی شرط ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا کہ روزے پر بھی وہی حکم لگایا جائے جو نماز پر لگایا جاتا ہے ۔ یعنی نیت کے سلسلے میں روزے کو نماز پر قیاس کرنا درست نہیں ۔ خاص کر جب کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نفلی روزہ دن کے بعض حصے میں شروع فرماتے تھے اور فقہاء نے بھی اس روایت کو قبول کیا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوئے ہیں ۔ نیز ان کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ نیت کی مقارنت کے بغیر نفل نماز میں داخل ہونا درست نہیں ہے اسی سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ روزے کی نیت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا جس کی تفصیل درج بالا سطور میں گزری ۔ البتہ ایسا روزہ جو کسی کے ذمہ واجب ہو مگر یہ ایک معین دقت میں فرض نہ ہو تو اس میں رات سے نیت کا نہ کرنا درست نہیں ہے ۔ اس کی اصل حضرت حفصہ (رض) کی حدیث ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا الاصیام لمن لم یعزم علیہ من اللیل اس شخص کا روزہ نہیں ہوتا جو رات سے اس کا پکا ارادہ نہ کرے۔ اس حدیث کے عموم کا تقاضا یہ تھا کہ روزے کی تمام اقسام میں رات سے نیت کرنا ضروری ہے مگر جب معین وقت میں فرض روزے اور نفلی روزے کے متعلق شرعی دلیل قائم ہوگئی تو ہم نے اسے تسلیم کرتے ہوئے ان روزوں کے حکم کو درج بالا حدیث کے عموم سے خاص کرلیا اور باقی ماندہ روزوں کو اس عموم کے تحت رہنے دیا ۔ کفارہ کے دو ماہ کے سلسلہ روزے اور قضا روزے بھی اس حکم کے تحت رہے کیونکہ یہ روزے ایک وقت معین میں فرض نہیں ہوتے بلکہ جس وقت یہ شروع کیے جاتے ہیں وہی ان کے فرض کا وقت ہوتا ہے اس لیے ان کی حیثیت بھی ان روزوں کی سی ہے جو کسی کے ذمے واجب ہوتے ہیں۔ ارشاد باری فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ سے نکلنے والے احکام میں سے ایک حکم یہ ہے کہ جب شخص کو شہود رمضان حاصل ہوجائے گا اس پر روزہ لازم ہوجائے گا پھر شہود رمضان کے تین پہلو ہیں اول یہ کہ اس کا علم ہو ، عربی کا محاورہ ہے شاھدت کذاوکذا میں نے فلاں فلاں چیز کا مشاہدہ کیا یعنی اس کا علم ہوا ۔ دوم شہر یا آبادی کے مقام میں اقامت ، جس طرح تم محاورے میں کہتے ہو، مقیم و مسافر و شاھد و غائب یعنی شہر یا آبادی میں اقامت پذیر انسان کو مقیم اور شاہد کہا جاتا ہے جبکہ سفر پر گئے ہوئے انسان کو مسافر اور غائب کہا جاتا ہے۔ سوم یہ کہ وہ شخص اہل تکلیف یعنی مکلفین میں سے ہو ، اس کے متعلق ہم پہلے بیان کر آئے ہیں ۔ اس آیت سے ، ان لوگوں کے قول کے مطابق جو اس بات کے قائل ہیں کہ ابتدا میں ایام معدودات کے روزے فرض تھے پھر رمضان کی وجہ سے یہ منسوخ ہوگئے، ان ایام کی منسوخی مستفاد ہوتی ہے نیز اس آیت سے تندرست اقامت پذیر انسان کے لیے روزہ رکھنے اور فدیہ ادا کرنے کے درمیان اختیار کی بھی منسوخی ہوگئی ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص کو تنہا رمضان کا چاند نظر آ جائے اس پر روزہ رکھنا لازمی ہوجاتا ہے۔ ایک مسئلہ اور بھی نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کو صبح کے وقت رمضان کی آمد کا علم ہوا یا وہ بیمار تھا اور پھر رمضان کی پہلی تاریخ کی صبح وہ تندرست ہوگیا یا وہ مسافر تھا اور صبح اپنے گھر پہنچ گیا تو ایسے تمام لوگوں پر اس دن کا روزہ لازمی ہے بشرطیکہ انہوں نے کچھ کھایا پیا نہ ہو ۔ اس لیے کہ ان سب کو شہود رمضان حاصل ہوگیا ہے۔ آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ روزے کی فرضیت صرف ایسے لوگوں کے ساتھ مخصوص ہے جنہیں اس مہینے کا شہود ہوگیا ہو ، نہ کہ ان لوگوں کے ساتھ جنہیں شہود نہیں ہوا ۔ اس لیے جو شخص اہل تکلیف میں سے نہ ہو ، یا مقیم نہ ہو یا جسے رمضان کی آمد کا علم ہی نہ ہوسکا ہو اس پر اس کا روزہ لازم نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان کے روزوں کے لیے یہی مہینہ متعین ہے اور شاید رمضان کے لیے اس میں تقدیم و تاخیر کی گنجائش نہیں ۔ اس لیے یہ بھی مستفاد ہوا کہ لزوم صوم کی شرط کے طور پر شہود سے مراد رمضان کے بعض حصے کا شہود ہے نہ کہ پورے رمضان کا ۔ اس لیے جب کوئی کافر رمضان میں مسلمان ہوجائے یا خا بالغ بالغ ہوجائے تو ان دونوں پر مہینے کے باقی ماندہ دنوں کے روزے لازم ہوں گے۔ آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص نے رمضان میں نفل کی نیت سے روزے رکھے تو اس کی یہ نیت رمضان کے فرض کی نیت کے لیے کافی ہوگی ۔ اس لیے کہ روزے کے فعل کا حکم آیت میں مطلقا ً وارد ہوا ہے۔ کسی صفت کے ساتھ مخصوص یا کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ اس بنا پر رمضان کے روزے کا جواز ہوگا چاہے وہ کسی طرح کی بھی نیت کرے۔ اس آیت سے ان لوگوں کا بھی استدلال ہے جو اس کے قائل ہیں کہ جس شخص کو رمضان کی آمد کا علم نہ ہو اور وہ روزے کھ لے تو اس کا روزہ جائز نہیں ہوگا ۔ اسی طرح ان لوگوں کا بھی استدلال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک شخص پر حالت اقامت میں رمضان آ جائے اور پھر وہ مسافر ہوجائے تو اس کے لیے اب روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ قول باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) یہ وہ چند فوائد ہیں جو ہم نے قول باری فمن شھد منکم الشھر سے استنباط کیے ہیں اور ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ آیت مذکورہ میں ان کے سوا اور فوائد نہیں ہیں جن کا احاطہ ہمارا علم نہیں کرسکا ۔ ہوسکتا ہے کہ ان فوائد کا علم ہمیں بعد میں ہوجائے یا ہمارے علاوہ کوئی اور اہل علم ان کا استنباط کرے۔ ارشاد باری ہے فلیصمہ اس ارشاد کی تشریح کرتے ہوئے ہم ان امور کا تذکرہ کر آئے ہیں جن سے روزے کی حالت میں امساک کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ تو متفق علیہ ہیں اور کچھ کے متعلق فقہاء میں مختلف آراء ہیں ۔ اسی طرح ہم نے روزے کی شرائط بھی بیان کردی ہیں اگرچہ یہ شرائط نفسہٖ روزہ نہیں ہیں ۔ اسی طرح مریض اور مسافر کا حکم بھی گزشتہ صفحات میں بیان ہوگیا ہے۔ شہود رمضان کی کیفیت ارشاد باری ہے ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اسی طرح ارشاد ہے ( یسئلونک عن الاھلۃ قلھی ماقیت للناس والحج) لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں ۔ محمد بن بکر نے ہم سے حدیث بیان کی ، انہیں ابو دائود نے سنائی ۔ انہیں سلیمان بن دائود نے بیان کی ، انہیں حماد نے ایوب سے ، جنہوں نے نافع سے روایت کی ، نافع نے ابن عمر سے روایت کی جنہوں نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( الشھر تسع و عشرون ۔ ولا تصوموا حتی تروہ ولا تفطو وا حتی تروہ، فان غم علیکم فاقدروالہ) مہینے کے انتیس دن بھی ہوتے ہیں جب تک رمضان کا چاند نظر نہ آ جائے روزہ نہ رکھو اور جب تک شوال کا چاند نظر نہ آ جائے روزہ نہ چھوڑ و ، اگر بادل وغیرہ کی وجہ سے چاند نظر نہ آسکے تو اس کا حساب لگا لو۔ حضرت ابن عمر (رض) کا طریق کاریہ تھا کہ جب شعبان کی انتیسویں تاریخ ہوتی تو چاند دیکھنے کے لیے نکلتے ، اگر چاند نظر آ جاتا تو فبہا اور اگر چاند نظرنہ آتا جبکہ کسی بادل وغیرہ یا گرد و غبار کی رکاوٹ بھی نہ ہوتی تو پھر آپ روزہ نہ رکھتے۔ اسی طرح انتیسویں رمضان میں اگر بدلی یا گرد و غبار نہ ہونے کے باوجودچاند نظر نہ آتا تو اگلے دن روزہ رکھتے۔ نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) لوگوں کے ساتھ روزہ ختم کرتے تھے اور اس حساب یعنی نجومیوں کے قول پر عمل نہیں کرتے تھے۔ ابوبکر جصاص فرماتے ہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ ( صوموا الرویتہ) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے موافق ہے کہ (یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج) تمام مسلمانوں کا اس آیت اور حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس معنی پر اتفاق ہے کہ رمضان کے روزوں کے وجوب کے لیے روایت ہلال کا اعتبار ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رویت ہلال ہی شہود رمضان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ( یسئلونک عن الاھلۃ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس رات چاند نظر آ جائے وہ رات آئندہ ماہ یعنی رمضان کا جز ہے نہ کہ گزشتہ ماہ یعنی شعبان کا البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول ( فان غم علیکم فاقدروالہ) کے معنی میں اختلاف رائے ہے۔ کچھ لوگوں کا قول ہے کہ اس قول سے مراد یہ ہے کہ چاند کے منازل کا اعتبار کیا جائے ۔ اگر چاند اپنی منزل میں ہو اور کوئی بادل یا گرد و غبار حائل نہ ہو اور وہ نظر آ جائے تو اس پر روایت کا حکم لگایا جائے گا اور اس طرح روزہ شروع یا ختم کیا جائے گا ۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس پر رویت کا حکم نہیں لگایا جائے گا ۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ بادل یا گرد و غبار کی وجہ سے اگر چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دنوں کی گنتی پوری کی جائے۔ پہلی تاویل بلا شک و شبہ قابل اعتبار نہیں ہے ، کیونکہ اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ رویت ہلال کے سلسلے میں نجومیوں اور چاند کے منازل کے حساب دانوں کے قول کی طرف رجوع کیا جائے۔ جبکہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے اس قول کے خلاف ہے کہ ( یسئلونک عن الاھلۃ قلھی مواقیت للناس والحج) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکم کو روایت ہلال پر معلق فرمایا ہے ۔ اب جب رویت ہلال ایسی عبادت قرار دی گئی ہے جو تمام لوگوں کے لیے لازم ہے ، تو اس میں یہ بات جائز نہیں ہوگی اس کا حکم کسی ایسے علم کے ساتھ متعلق کردیا جائے جو صرف خاص خاص لوگوں کو حاصل ہو اور جن کی حیثیت بھی نہ ہو کہ ان کی بات پر لوگوں کو اطمینان ہو ۔ اس لیے دوسری تاویل ہی درست ہو۔ یہی عام فقہاء اور اس حدیث کے راوی حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے ۔ حدیث کے متعلق حضرت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ آپ اس حساب یعنی نجومیوں کے قول پر عمل نہیں کرتے تھے ایک دوسری حدیث میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد ( فاقدروالہ) کا مفہوم ایسے واضح الفاظ میں بیان ہوا ہے جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں یہ حدیث عبد الباقی بن قانع نے سنائی ، انہیں محمد بن العباس مؤدب نے ، انہیں شریح بن النعمان نے ، انہیں فلح بن سلیمان نے نافع سے اور نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں رمضان کے مہینے کا تذکرہ آیا تو آپ نے فرمایا ( لا تصوموا حتی تروا الھلال فان غتم علیکم فاقدروا ثلاثین) جب تک چاند نظر نہ آئے روزہ رکھو ، اگر مطلع صاف نہ ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو تیس دنوں کا اندازہ لگائو) اس حدیث سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ( فاقدروا) کے معنی کی ایسی وضاحت ہوگئی جس سے پہلے گروہ کی تاویل کا خاتمہ ہو گیا نیز اس تاویل کے بطلال پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جسے حماد بن سلمہ نے سماک بن حرب سے ، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( صوموا الرویتہ وافطروا الرویتہ فان حال بینکم و بین منظر ہ سحاب او قطرۃ فعدوا ثلاثین ) چاند دیکھ کر روہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو اگر تمہارے اور رویت ہلال کے درمیان کوئی بادل یا گرد و غبار حائل ہوجائے تو تیس کی گنتی پوری کرلو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے اور ہلال کے درمیان بادل یا گرد و غبارحائل نہ ہونے کی صورت میں روایت ہلال کے جواز کے ساتھ ساتھ تیس کی گنتی کا بھی حکم دیا اور ان لوگوں کے قول کی طرف رجوع کرنا ضروری قرار نہیں دیا جو یہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے اور ہلال کے درمیان بادل وغیرہ حائل نہ ہوتا تو ہم اسے دیکھ لیتے۔ اس سلسلے میں اس سے بھی واضح حدیث مروی ہے کہ جس کی ہم سے عبد اللہ بن جعفر بن احمد بن فارس نے روایت کی ہے ، انہیں یونس بن حبیب نے ، انہیں ابو دائود طیالسی نے ، اور انہیں ابوعوانہ نے سماک سے روایت کی ہے۔ سماک نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ( صوموا رمضان لرویتہ فان حال بینکمغمامۃ او ضابۃ فاکملوا عدۃ شھر شعبان ثلاثین ولا تستقبلوا رمضان بصوم یوم من شعبان ) رمضان کے روزے چانددیکھ کر رکھو، اگر بادل یا کہر حائل ہوجائے تو اس صورت میں شعبان کے مہینے تیس دنوں کی گنتی پوری کرو اور شعبان کے مہینے کے ایک دن کے روزے کے ساتھ رمضان کا استقبال نہ کرو) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے اور رویت ہلال کے درمیان بادل وغیرہ ک حائل ہونے کی صورت میں شعبان کے تیس دنوں کی گنتی واجب کردی ۔ اس لیے چاند کے منازل اور نجومیوں کے حساب کے اعتبار کا قول شریعت کے حکم سے خارج قرار پایا ، نیز اس قول میں اجتہاد کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ کتاب اللہ کی دلالت ، سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نص اور فقہاء کا اجماع اس کے خلاف ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ ( صوموا الرئویتہ وافطروا الرویتہ ، فانہ غم غلیکم فعدو اثلاثین) شعبان کے مہینے کے تیس دنوں کی گنتی کے اعتبار کی اصل ہے ۔ الایہ کہ اس سے پہلے پہلے چاند نظر آجائے ۔ اس لیے ہر ایسا قمری مہینہ جس میں انتیس کو چاند نظر آسکے اس کے تیس دنوں کی گنتی پوری کی جائے یہ حکم ان تمام قمری مہینوں کا ہے جن کا احکام کے ساتھ تعلق ہے اور صرف رویت ہلال کی بنیاد پر ہی تیس سے کم کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص نے کسی مہینے کے دوران اپنا گھر دس ماہ کے لیے کرائے پر چڑھایا تو اس صورت میں نو ماہ چاند کے حساب سے پورے کئے جائیں گے اور ایک مہینہ کے تیس دن پورے کئے جائیں گے وہ اس طرح کہ پہلے مہینے کے جتنے دن گزر چکے ہوں گے ان کو آخری مہینے کے دنوں سے پورا کیا جائے گا اس لیے کہ پہلے مہینے کی ابتدا چاند کے حساب سے نہیں ہوئی تھی اس لیے اس کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور باقی ماندہ نو مہینوں کے دن چاند کے حساب سے مکمل کی جائیں گے ان مہینوں میں چاند کے سوا اور کسی چیز کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔ اگر اس شخص نے مہینے کی پہلی تاریخ کو امکان کرائے پر دیا ہو تو تمام مہینوں کا حساب چاند کی تاریخوں سے کیا جائے گا ۔ رویت ہلال کے متعلق مختلف آراء رویت ہلال کی گواہی کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے جملہ اصحاب یعنی احناف کا قول یہ ہے کہ اگر آسمان میں کوئی علت یا رکاوٹ ہو تو رمضان کے چاند کے متعلق ایک عادل انسان کی گواہی قبول کرلی جائے گی ( عادل سے مراد ایسا شخص ہے جس کی نیکی اور صداقت نیز اچھے چال چلن کے عام طور پر لوگ قائل ہوں مترجم) اور اگر آسمان صاف ہو تو صرف ایک ایسے بڑے گروہ کی گواہی قبول کی جائے گی کہ جس کی اطلاع سے یقینی طور پر علم کا حصول ہوجاتا ہے۔ امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ آپ نے اس کی حد پچاس افراد مقرر کی ہے ۔ یہی مسئلہ شوال اور ذوالحجہ کی رویت ہلال کا ہے بشرطیکہ آسمان صاف ہو ۔ اگر آسمان میں کوئی رکاوٹ ہو تو پھر کم ازکم دو ایسے عادل انسانوں کی گواہی قابل قبول ہوگی جن کی گواہی حقوق کے فیصلے میں قبول کرلی جاتی ہو ۔ امام مالک ، سفیان ثوری ، امام اوزاعی ، لیث ، حسن بن جی اور عبید اللہ کا قول ہے کہ رمضان اور شوال کی رویت ہلال میں دو عادل آدمیوں کی گواہی قبول کرلی جائے گی ۔ مزنی نے امام شافعی سے روایت کی ہے کہ اگر رمضان کے چاند کے متعلق ایک عادل آدمی بھی گواہی دے دے تو میرا خیال ہے کہ اس کی گواہی قبول کر لینی چاہیے اس لیے کہ اس بارے میں روایت موجود ہے اور احتیاط بھی اسی میں ہے، جبکہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ دو گواہوں کی گواہی قابل قبول ہونی چاہیے ۔ البتہ شوال کے چاند کی رویت کے سلسلے میں دوعادل کی آدمیوں سے کم کی گواہی میں قبول نہیں کروں گا ۔ امام ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے مطلع صاف ہونے کی صورت میں ایک ایسے بڑے گروہ کی گواہی کو قابل اعتبار قرار دیا ہے جس کی اطلاع سے یقین طور پر علم حاصل ہوجاتا ہو ۔ اس لیے یہ ایسا فرض ہے جس کی ادائیگی کی عمومی طور پر ضرورت ہے اور لوگوں کو چاند کی تلاش کا حکم بھی دیا گیا ہے، تو یہ ایک ناروا سی بات ہوگی کہ کثیر تعدا د میں لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کریں ، مطلع بھی صاف ہو اور لوگ بھر پور زور لگا رہے ہوں اور اس بارے میں ان پر ذوق و شوق کا غلبہ بھی ہو لیکن اس پورے پس منظر کے ہوتے ہوئے چاند صرف چندلوگوں کو نظر آئے اور باقی لوگ بینائی کی درستی اور رکاوٹیں کی عدم موجودگی کے باوجود اسے دیکھ نہ سکیں۔ اس لیے ایسی صورت حال میں اگر چند لوگ رویت ہلال کی خبریں دیں تو ہم یہی سمجھیں گے کہ انہیں غلطی لگ گئی ہے اور ان کی بات درست نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے خیالی طور سے کوئی چیز دیکھ کر اسے چاند گمان کرلیا ہو یا انہوں نے کسی مصلحت کی خاطر جان بوجھ کر جھوٹ بولاہو کیونکہ ان سے اس کا صدور ممتنع نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی بنیادی بات ہے جس کی صحت کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور اس پر شریعت کے معاملات کی بنیاد ہے۔ اس جیسے معاملہ میں غلطی کرنے کے نقصانات بڑے دور رس ہوتے ہیں ۔ بےدین اور ملحد لوگ عوام الناس کے دلوں میں شبہات پیدا کرنے کے لیے اس کا سہارا لیتے ہیں اور جن لوگوں کو ہمارے بیان کردہ اصول پر یقین نہیں ہے انہیں بھی اس سے موقع ملتا ہے۔ اس لیے ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ شریعت کے ایسے احکام جن کی معرفت کی عوام الناس کو ضرورت ہوتی ہے ان کے ثبوت کا ذریعہ استفاضہ یعنی تواتر کے ساتھ لوگوں کی طرف اس کی اطلاع اور ایسی خبر ہے جو یقینی طور پر علم کا موجب ہو ۔ ایسے احکام کا اثبات اخبارآحاد یعنی اکا دکا لوگوں کے اطلاعات پر جائز نہیں ہے، مثلاً مس ذکر یا عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو کا واجب ہونا یا آگ پر پکی ہوئی چیز کھا لینے سے وضو کرنا یا وضو میں بسم اللہ پڑھنے پر نئے سرے سے وضو کرنا ۔ ہمارے فقہاء کا کہنا ہے کہ چونکہ عام طور پر تمام لوگ ان جیسی باتوں میں مبتلا ہوتے ہیں یعنی ان امور میں عموم بلویٰ ہے اس لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ان امور میں اللہ کا حکم بطریق تو قیف ہو یعنی محدود افراد کو حکم کی اطلاع دے دی جائے اور بس ، بلکہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حکم کو لوگوں تک پہنچا دیں اور تمام لوگوں کو اس سے آگاہ کردیں۔ جب تمام لوگ اس سے آگاہ ہوجائیں تو پھر اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ لوگ اسے آگے نقل نہ کریں اور صرف اکادکا لوگ ہی اس کی اطلاع دیں، جبکہ لوگوں پر اسے آگے نقل کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس نقل شدہ حکم کے لیے لوگ ہی حجت ہوتے ہیں ۔ اب موضع حجت یعنی لوگوں کی کثیر تعداد میں اس حکم کی نقل کرنے کی صورت کو ضائع کردینا اور اس کی بجائے اکا دکا روایت پر انحصار کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان امور میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے صرف محدود پیمانے پر چند افراد کو اطلاع نہیں دی جاتی رہی ۔ اس میں یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بات فرما دی ہو جس میں کئی معافی کا احتمال ہو ۔ اب اس حکم کے اکا دکا ناقلین اسے اس طرح بیان کریں جس طرح انہوں نے اسے سمجھا ہو کسی اور طرح اسے بیان نہ کریں ۔ مثلاً آلہ تناسل کو ہاتھ لگانے سے وضو کرنے کے حکم میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد ہاتھ دھونا ہو جس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول ہے اذا استیقظ احد کم من منامہ فلیغسل یدہ ثلاثا قبل ان یدخلھا فی الاناء نافہ لا یدری این بانت یدہ ۔ جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں ڈالنے سے پہلے اسے تین دفعہ دھو لے اس لیے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کے ہاتھ کی رات کہاں گزری ہے ہم نے اصولی فقہ میں اس اصل کی پوری وضاحت کردی ہے۔ ایک شبہ کے ازالہ اس اصل کی نظر انداز کرنے کی وجہ سے ان لوگوں اہل تشیع کے متعلق شبہ پیدا ہوگیا جنہوں نے یہ بات گھڑلی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک متعین فرد ( حضرت علی (رض)) کو واضح الفاظ میں امت پر اپنا خلیفہ مقرر کیا اور امت نے اس بات پر پردہ ڈالے رکھا اور اسے چھپائے رکھا۔ ایسے لوگ خود بھی گمرا ہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور اپنے غلط عقیدے کی بنا پر اسلامی شرائع کے ایک بڑے حصے کو ٹھکرا دیا اور اسلام میں ایسی باتوں کا دعویٰ کیا جو بےبنیاد تھیں اور نہ تو گروہوں کی نقل کردہ روایات میں ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی آحاد یعنی اکا دکا لوگوں کی نقل کردہ اخبار میں ۔ ایسے لوگوں نے بےدین افراد کے لیے راہ ہموار کردی کہ وہ شریعت میں ایسی باتوں کا دعویٰ کریں جن کا اس سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ اور اسی طرح اسماعیلیوں یعنی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں اور زندیقوں کے لیے دروازہ کھل گیا کہ وہ ضعف الاعتقاد اور جاہل لوگوں کو امر مکتوم پوشیدہ بات کی طرف بلائیں اور جب لوگ ان کی طرف مائل ہوگئے تو انہوں نے کتمان امامت کا عقیدہ گھڑ لیا ۔ حالانکہ امت کی امامت کا معاملہ پوری امت کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور لوگوں کے دل و دماغ پر اس کے بڑے دور رس اثرات ہوتے ہیں ۔ جب جاہلوں نے ان لوگوں کے اس عقیدے کو تسلیم کرلیا تو پھر انہوں نے ان جاہل کے لیے شرعی احکام گھڑے اور دعویٰ یہ کیا کہ ان کا تعلق مکتوم یعنی سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے علم سے ہے اور ان احکام کے ایسے معنی پہنائے جن کے متعلق یہ کہہ دیا کہ یہ سب کچھ اما م کی طرف سے ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے اپنے ان جاہل پیروئوں کو اسلام سے نکال کر بعض صورتوں میں مذہب خرمیہ ایک بےدین فرقہ جو ایران کے ایک ملحد بابک خرمی کا پیروکار تھا میں اور بعض صورتوں میں صائبین اہل کتاب یعنی ایک عیسائی فرقہ کے مذہب میں انہیں دھکیل دیا۔ انہوں نے یہ کارروائی اس حد تک کی جس حد تک ان کے ماننے والوں نے ان کے جھوٹے دعوئوں کو تسلیم کیا اور ان کے دل و دماغ انہیں قبول کرلینے پر آمادہ ہوئے۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ جو شخص امامت کے کتمان کو درست سمجھنے والا ہو اس کے لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو ثابت کرنا اور آپ کے معجزات کو درست مان لینا ممکن ہی نہیں ہے۔ تمام انبیاء کے بارے میں اسی کا یہی رویہ ہونا چاہیے اس لیے کہ ایسے لوگوں کی کثرت تعداد بلند ہمتی اور ان کے اوطان کی ایک دوسرے سے دور ی کے باوجود اگر ان لوگوں کے خیال میں کتمان امامت کی سازش ہوسکتی ہے تو جھوٹ پر اتفاق کرلینے کی بھی سازش ہوسکتی ہے ۔ اس لیے کہ کتمان امامت ، پر لوگوں کا اتفاق ہوسکتا ہے تو ایسی روایت گھڑنے پر بھی اتفاق ہوسکتا ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو ، پھر اس سے یہ خوفناک نتیجہ برآمد ہوگا کہ ہمارے دلوں میں یہ کھٹکا پیدا ہوجائے کہ کہیں (نعوذ باللہ ) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کی خبر دینے والوں صحابہ کرام (رض) نے ایسا تو نہیں کیا کہ جھوٹ پر اسی طرح اتفاق کرلیا ہو جس طرح امام کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخصوص حکم کو چھپا لینے پر اتفاق کرلیا گیا تھا ( نعوذ باللہ) اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ جن لوگوں یعنی صحابہ کرام نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کو دوسروں تک نقل کیا ہے۔ ان کے متعلق اس فرقہ باطلہ کا عقیدہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد یہ لوگ نعوذ باللہ کا فر اور مرتد ہوگئے تھے کیونکہ انہوں نے امام کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کو چھپا لینے کے جرم کا ارتکاب کیا تھا اور صرف پانچ یاچھ افراد یا چھ افراد کفر و ارتداد سے بچ گئے تھے ۔ اب اتنی چھوٹی تعداد کی خبر موجب علم نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس سے کسی معجزے کا ثبوت ہوسکتا ہے جب کہ دوسری طرف جم غفیر یعنی جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم کی خبران گمراہ لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک ان حضرات کا نعوذ باللہ جھوٹ پر اتفاق کرلینا ممکن ہے اس بنا پر نقل اخبار کی صحت کا دار و مدار اس چھوٹی سی تعداد پر ہوگیا جس سے ان پر یہ بات لازم ہوگئی کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کو بھی ٹھکرا دیں اور آپ کی نبوت کا بھی ابطلا ل کردیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اذا، اقامت ، رکوع تکبیر کہتے وقت رفع یدین ، تکبیرات عیدین اور تکبرات ایام تشریق ایسے امور میں جن میں عموم بلوی پایا جاتا ہے یعنی ان کا تعلق تمام لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے ، لیکن ان میں بھی اختلاف ہے ، ان امور کے متعلق جو شخص بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی روایت کرتا ہے تو وہ بطریق احاد روایت کرتا ہے اس لیے اس کی دو میں سے ایک وجہ ضرور ہوگی یا تو اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان امور میں عموم حاجت کے باوجود تمام لوگوں کو ان سے واقف نہیں کرایا اور ان کو اطلاع نہیں دی ۔ اگر یہ صورت ہے تو اس سے آپ کا وہ اصول ٹوٹ جاتا ہے کہ ہر ایسا حکم جس کو عوام الناس کو ضرورت ہوتی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے پوری امت کو اس سے ضرور واقف کرایا جاتا ہے یا یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ساری امت کو اس کی اطلاع دے دی تھی لیکن تمام لوگوں نے انہیں آگے نقل نہیں کیا جس کی بنا پر یہ ہم تک آحاد کی صورت میں پہنچی ہیں ۔ اگر یہ بات ہے تو پھر آپ کا وہ قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے مسائل جن میں عموم بلویٰ ہو ان میں تمام لوگوں کی نقل روایت کا اعتبار کیا جائے گا ۔ اس اعتراض کا یہ جواب دیا جائے گا کہ جو شخص ہمارے بیان کردہ اصل کو پوری طرح ضبط کرنے سے قاصر رہے گا وہ یہ سوال اٹھائے گا ۔ ہم نے اپنی پوری گفتگو کی جس اصول پر بنیاد رکھی تھی وہ یہ تھا کہ ایسا حکم جو تمام لوگوں کو لازم ہوا اور وہ اس کی اطاعت اس فرض کی بنا پر کریں جس کا ترک کردینا یا جس کی مخالفت کا کوئی جواز نہ ہو مثلاً مسئلہ امامت یا ایسے فرائض جو تمام لوگوں کے لیے لازم ہیں ایسے مسائل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمام لوگوں کو ان کی خبر دینا ضروری ہے اور پھر ان کی آگے منتقلی جم غفیر کی روایت کے ذریعے ہونی چاہیے ، اکا دکا لوگوں کی روایت سے ان کا اثبات نہیں ہوسکتا ۔ مترجم۔ اگر وہ فرض نہ ہو تو پھر لوگوں کو اختیا ر ہے کہ جس طرح چاہیں کریں اس سلسلے میں فقہا میں صرف یہ اختلاف ہوتا ہے کہ افضل صورت کو ن سی ہوتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے افضل صورت کی تمام لوگوں کو اطلاع نہیں دی جاتی جب آپ کی طرف سے لوگوں کو ایک مسئلے میں اختیار مل جاتا ہے تو پھر افضل صورت کے توقیف کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس تشریح کی روشنی میں اعتراض میں اٹھائے گئے امور مثلاً اذان ، اقامت ، تکبرات ، عیدین اور تکبرات تشریق وغیرہ ایسے ہیں جن میں شریعت کی طرف سے ہمیں اختیار دیا گیا ہے۔ اور فقہاء کے درمیان صرف ان کی افضل صورتوں کے متعلق اختلاف ہے۔ اس لیے ان کے متعلق روایات اگر اخبار آحاد کی شکل میں اور وارد ہوں تو اس کی گنجائش اور اس کا جواز ہے اور انہیں اس معنی پر محمول کیا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تمام صورتیں صحیح ہیں اور امت کو تخیر کے طور پر ان کی تعلیم دینا مقصود ہے۔ ان کی حیثیت ان مسائل کی طرح نہیں ہے جن کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمام امت کو اطلاع دی گئی ہو یا ان سے ممانعت کی خاطر ان کے قریب پھٹکنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہو جبکہ ان میں عموم بلوی کی صورت موجود ہو۔ روایت ہلال کے سلسلہ میں جب کہ آسمان پر کوئی رکاوٹ نہ ہو اور مطلع صاف ہوا س کی اطلاع کے لیے ہمارا بیان کردہ اصول یہ ہے کہ جس چیز میں عموم بلوی ہو تو اس کا در و اخبار متواترہ کے ذریعے ہونا چاہیے جو موجب علم ہوں ۔ البتہ اگر آسمان پر کوئی رکاوٹ بادل یا گرد و غبار کی شکل میں موجود ہو تو ایسی صورت میں اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ چاند اکثر لوگوں کی نظروں سے تو مخفی رہا اور بادلوں کے درمیان سے صرف ایک یا دو کو نظر آگیا اور قبل اس کے کہ دوسروں کو نظر آئے پھر اس پر بادل آ گئے ، اس بنا پر اس کے متعلق ایک یا دو کی اطلاع قبول کرلی جائے گی اور رجم غفیر کی اطلاع کی جو موجب علم ہوتی ہے شر ط نہیں لگائی جائے گی۔ ہمارے اصحاب نے رمضان کے چاند کے متعلق ایک شخص کی اطلاع کی اس حدیث کی بنا پر قابل قبول قرار دیا ہے جس کی محمد بن بکر نے ہمیں روایت کی ، انہیں ابو دائود نے انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے انہیں حماد بن مسلمہ نے سماک سے اس کی روایت کی ۔ سماک نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس سے یہ روایت کی کہ ایک دفعہ لوگوں کو رمضان کے چاند کے متعلق شک ہوگیا اور انہوں نے تراویح نہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے کا ارادہ کرلیا ۔ اسی دوران حرہ سے ایک بدو آیا جس نے چاند نظر آ جانے کی گواہی دی ، اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں ، اس نے اثبات میں اس کا جواب دیا نیز یہ گواہی بھی دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ یہ سن کر آپ نے حضر ت بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز تراویح ادا کرنے اور روزہ رکھنے کا اعلان کردیں ۔ اس روایت کے ایک لفظ وان یقوموا کے متعلق ابو دائود کا کہنا ہے کہ یہ لفظ صرف حماد بن سلمہ نے کہا ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمود بن خالد اور عبد اللہ بن عبد الرحمن سمر قندی نے ابو دائود نے درمیان میں کہا کہ مجھے عبد اللہ بن عبد الرحمن کی حدیث کا زیادہ اتفاق ہے ان دونوں کو مروان بن محمد نے عبد اللہ بن وہب سے روایت کی انہوں نے یحییٰ بن عبد اللہ سے انہوں نے ابوبکر بن نافع سے، انہوں نے اپنے والد نافع سے اور انہوں نے حضر ت ابن عمر سے یہ روایت کی کہ ایک موقع پر لوگوں نے رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کی ، چاند مجھے نظر آگیا ، میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع دی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میری بات سن کر لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا ۔ اس کا ایک پہلو اور ہے وہ یہ کہ رمضان کا روزہ ایسا فرض ہے جو دینی طور پر لازم ہوتا ہے۔ اگر اس میں استفاضہ یعنی تواتر کے ساتھ لوگوں کی اطلاع نہ پائی جائے تو اخبار آحادہ کو قبول کرنا واجب ہوگا ۔ جیسا کہ ان اخبار آحاد میں ہوتا ہے جو احکام شرع کے سلسلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہوتی ہے اور جن میں استفاضہ شرط نہیں ہوتا ۔ اسی بناء پر فقہاء نے عورت ، غلام اور حد قذف میں سزا یافتہ کی خبر کو عادل ہونے کی صورت میں قابل قبول قرار دیا ہے جس طرح کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی مرویات کو قبول کرلیا گیا ہے جبکہ ان سے قیاس کی تائید بھی ہو رہی ہے۔ جہاں تک شوال و ذی الحجہ کے چاند کا تعلق ہے تو اس میں احناف نے کم از کم دو عادل مردوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا ہے ۔ یہ دونوں افراد ایسے ہوں جن کی گواہی احکام شرعیہ میں قابل قبول تسلیم کی جاتی ہو ۔ اس کی بنیاد وہ روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن عبد الرحیم ابو یحییٰ البزاز نے ، انہیں سعید بن سلیمان نے ، انہیں عبادنے ابو مالک اشجعی سے روایت کی ، ابو مالک نے کہا کہ انہیں حسین بن الحرث الجدلی نے ( جن کا تعلق قبیلہ جدید قیس سے ہے) خبر دی کہ امیر مکہ نے خطبہ دیا جس میں کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہ وصیت کی ہے اور ہمارے دمہ لگایا ہے کہ ہم چاند دیکھ کر نسک بجا لائیں ( یعنی عید الاضحی کے موقع پر نماز عید ادا کریں اور قربانی دیں) اگر ہمیں چاند نظر نہ آئے اور دو عال آدمی چاند دیکھنے کی گواہی دے دیں تو بھی ہم نسک بجا لائیں ( میں نے حسین بن الحرث سے امیر مکہ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا بعد میں جب میری ملاقات حسین بن الحرث سے ہوئی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ امیر مکہ محمد بن حاطب کے بھائی الحرث بن حاطب ہیں) امیر مکہ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تمہارے درمیان ایسے بزرگ بھی موجود ہیں جو مجھ سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کو جاننے والے ہیں اور جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ امیر مکہ نے یہ کہہ کر ایک شخص کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ حسین بن الحرث کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے سے پوچھا کہ امیر نے جس شخص کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کون ہیں ؟ بوڑھے نے جواب دیا وہ عبد اللہ بن عمر (رض) ہیں اور امیر نے سچ کہا ہے یقینا ابن عمر امیر سے بڑھ کر اللہ کو پہچانتے ہیں ۔ پھر امیر نے کہا ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی کا حکم دیا ہے۔ اب امیر کا یہ قول کہ ہمیں چاند دیکھ کر نسک بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے، اس کا اطلاق عید کی نماز اور قربانی پر ہوگا اس لیے کہ نسک کا اطلاق ان ہی دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔ رمضان کے روزے پر نہیں ہوتا اس لیے کہ لفظ نسک مطلقاً صوم کے معنی میں نہیں بولا جاتا ۔ البتہ نماز اور ذبح کے معنوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ارشاد باری ملاحظہ فرمایئے ( فقد یۃ من صیام او صدقۃ اونسک) فدیہ دو روزے کی صورت میں یا صدقہ کی شکل میں یا قربانی کی صورت میں اس آیت میں روزے کو نسک کے علاوہ کوئی اور چیز قرار دیا گیا ہے ۔ لفظ نسک کا اطلاق عید کی نماز پر ہوتا ہے اس کی دلیل حضرت براء بن عازب کی حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کو فرمایا ( ان اول نسکنا فی یومنا ھذا الصلاۃ ثم الذبح ) آج کے دن ہمارا پہلا نسک نماز ہے پھر قربانی آپ سے نمازکو نسک کا نام دیا اور اللہ تعالیٰ نے ذبح کو نسک قرار دیا ہے۔ ارشاد باری ہے ( ان صلاتی و نسلک و محیاری ومماتی للہ رب العالمین) میری نماز ، تیری قربانی ، میرا جینا ، میرا مرنا سب کچھ اللہ کے لیے ہے جو پروردگار عالم ہے) اسی طرح قوم باری ہے ( او صدقۃ اونسک) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امیر مکہ کا یہ قول کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ذمے یہ لگایا ہے کہ ہم دو عادل گواہوں کی گواہی کی بنا پر نسلک بجا لائیں ۔ عید الفظر کی نماز اور دسویں ذی الحجہ میں قربانی کو شامل ہوگیا ہے۔ اس بنا پر واجب ہے کہ اس میں دو سے کم کی گواہی قبول نہ کی جائے ۔ ایک اور جہت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ کسی فرض کی انجام دہی میں احتیاط کرنا اسے ترک کردینے میں احتیاط کرنے سے بہتر ہے ۔ اس بنا پر فقہا نے روزہ ختم کرنے کے لیے احتیاط کرتے ہوئے دو مردوں کی گواہی کو لازمی قرار دیا ہے اس لیے کہ جس دن روزہ نہ ہو اس دن کچھ نہ کھانا پینا روزے کے دن کھانے پینے سے بہتر ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے اس صورت میں ترک احتیاط ہے ۔ اس لیے کہ یہ جائز ہے کہ وہ دن یوم الفطر ہو ، جب کہ ایک گواہ نے اس کی گواہی بھی دے دی ہے۔ اب آپ جب اس کی گواہی قبول نہیں کرتے اور دو آدمیوں کی گواہی کو احتیاط کا نام دیتے ہیں تو آپ کو اس بات کی گواہی ضمانت حاصل نہیں ہوتی کہ آپ یوم الفطر میں روزہ دار ہوں ، اور ایسی صورت میں ممنوع چیز میں وقوع اور احتیاط کے خلاف اقدام لازم آئے گا ( عید الفطر کے دن روزہ رکھنے کی شرعا ً ممانعت ہے) اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ روزے کی ممانعت پر ہم اس وقت لازم آئے گی جبکہ یہ معلوم ہوا کہ آج یوم الفطر ہے۔ اگر یوم الفطر ہونے کا ثبوت مہیا نہ ہو سکے تو اس دن روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوگا ۔ اگر اس دن میں یوم الفطر کا ثبوت مہیا نہ ہو سکے تو ہم ورزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے درمیان ٹھہرے ہوں گے ایسی صورت میں ہمارے بیان کردہ اصول کے مطابق روزہ رکھ لینے میں زیادہ احتیاط کی بات ہوگی حتیٰ کہ ایسے لوگوں کی گواہی سے یہ ثابت ہوجائے کہ آج یوم الفطر ہے جن کی گواہی کی بنیاد پر حقو ق سے متعلقہ مقدمات کے فیصلے ہوتے ہوں ( پھر جب یوم الفطر کی بات قطعی ہوجائے گی تو روزہ توڑ دیا جائے گا) اللہ تعالیٰ کا یہ قول ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رمضان کے دخول کے متعلق شک والے دن میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے کیونکہ شک کرنے والے کو دراصل شہود رمضان ہو ہی نہیں اس لیے کہ اسے اس کا علم ہی نہیں ہے ، اس بنا پر اس کے لیے جائز نہ ہوگا کہ وہ اس دن رمضان کا روزہ رکھ لے ۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ ( صوم الرویتہ وافطر والمرویتہ فان غم علیکم فعد و اشعبان ثلثین) آپ نے اس دن پر شعبان کے دن ہونے کا حکم لگا دیا جس دن چاند نظر نہ آئے ، اس لیے یہ بات جائز نہیں کہ آنے والے رمضان کا روزہ شعبا ن میں رکھا جائے۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی عبد الباقی بن قانع نے ہمیں روایت کی ، عبد الباقی کو فضل بن مخلد المودب نے ، انہیں محمد بن ناصح نے ، انہیں بقیہ نے علی القرشی سے یہ حدیث سنائی ، علی القرشی کو احمد بن عجلان نے صالح سے جو التوئتہ کے مولیٰ تھے ، اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوم الدادۃ میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ یہ شک کا وہ دن ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ آج شعبان ہے یا رمضان ۔ ہمیں محمد بن بکر نے حدیث بیان کی ، انہیں ابو دائود نے ، انہیں محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے ، انہیں ابو خالد الاحمر نے عمروبن قیس سے ، جنہوں نے ابو اسحاق سے ، ابو اسحاق نے صلۃ سے جنہوں نے فرمایا کہ ہم یوم الشک میں حضرت عمار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک بکری لائی گئی ، لوگ ذرا پرے ہوگئے ۔ حضرت عمار نے فرمایا کہ جس شخص نے آج روزہ رکھ لیا اس نے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی ۔ عبد الباقی نے ہمیں حدیث بیان کی ، انہیں علی بن محمد نے ، انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے انہیں حماد نے محمد بن عمرو سے ، جنہوں نے ابو سلمہ سے ، ابو سلمہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ۔ آپ نے فرمایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( صوم الرئویتہ وافطروالریتہ ولا تقدموا بین یدیہ بصیام یوم او یومین الاان یوافق ذلک صوما ً کان یصومہ احد کم ) چاند دیکھ کر ورزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرو اور رمضا ن سے ایک یا دو دن پہلے سے روزہ رکھنانہ شروع کردو ، البتہ اگر کسی کو اس دن روزہ رکھنے کی عادت ہو تو وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔ ان احادیث کے معافی اللہ تعالیٰ کے قول ( فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) کے مدلول کے موافق ہیں ۔ ہمارے اصحاب اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ اس دن نفلی روزہ رکھ لے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن کے متعلق جب یہ حکم لگا دیا کہ یہ شعبان کا دن ہے تو ساتھ ہی ساتھ اس میں نفلی روزہ رکھنے کی اجازت بھی دے دی ۔ اس ہلال کے متعلق اختلاف ہے جو دن کے وقت نظر آئے ۔ امام ابوحنیفہ ، امام محمد ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر دن کے وقت ہلال نظر آگیا تو وہ آنے والی رات کا چاند ہوگیا ۔ اگر ایسا چاند زوال سے پہلے یا زوال کے بعد نظر آئے تو اس سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ یہی قول حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت ابن عمر ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عثمان بن عفان ، حضرت انس بن مالک ، حضرت ابو وائل ، سعید بن المسیب ، عطار بن ابی رباح اور جابر بن زید سے مروی ہے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر (رض) سے دو روایتیں ہیں ۔ پہلی روایت تو یہ ہے کہ اگر ہلال زوال سے پہلے نظر آ جائے تو وہ گزشتہ رات کا ہوگا اور اگر زوال کے بعد نظر آئے تو وہ آنے والی رات کا ہوگا ۔ امام ابو یوسف اور سفیان ثوری نے اس روایت کو اپنا مسلک بنایا ہے ۔ سفیان ثوری نے الرکین بن ربیع سے ، انہوں نے اپنے ربیع سے یہ روایت کی ہے ۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں سلیمان بن ربیعہ کے ساتھ بلجز کے مقام میں تھا۔ میں نے چاشت کے وقت ہلال دیکھا۔ میں نے یہ بات سلیمان کو بتائی سلیمان نے یہ سن کر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو کر اس کا مشاہدہ کیا جب انہیں بھی ہلال نظر آگیا تو انہوں نے لوگوں کو روزہ توڑ دینے کا حکم دے دیا ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ارشاد باری ہے ( ولکلوا وشربوا حتی یتبین لکم الخیط الالبیض من الخیط الاسود من الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل) اس آیت میں جسے مخاطب بنایا گیا تھا اسے آخر رمضان میں بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس ارشاد باری ( وکلوا واشربوا حتیٰ یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر) کی یہی مراد ہے۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ ایسا شخص ارشاد باری ( ثم اتموا الصیام الی اللیل) کے خطاب میں بھی داخل ہو ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو کسی ایک حالت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا بلکہ اس کا تعلق تمام احوال کے ساتھ ہے خواہ اس نے اس کے بعد چاند دیکھ لیا یا ہو نہ دیکھا ہو ۔ اس پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر ایسا شخص زوال کے بعد چاند دیکھ لے تو اس پر اتمام صوم کا خطاب پھر بھی قائم رہے گا بلکہ وہ اس لفظ کے حکم میں داخل رہے گا جب زوال کے بعد چاند نظر آنے کی صورت میں اس کا یہ حکم ہوگا تو زوال سے پہلے بھی چاند نظر آنے کی صورت میں اس شخص کا یہی حکم ہوگا اس لیے کہ لفظ کے عموم میں یہ صورت بھی داخل ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے کہ ( صوم الرویتہ وافطروالریتہ) یہ بات ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ روزہ ہے جو رویت ہلال کے بعد ہوگا ۔ اس پر دو طرح سے دلالت ہو رہی ہے ۔ اول یہ کہ گزرے ہوئے دن کے روزہ رکھنے کا حکم دینا محال ہے اور دوم یہ کہ مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر اسے شعبان کی آخری رات کو چاند نظر آگیا تو اس پر آگے آنے والے دنوں کو روزے فرض ہوجائیں گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ( صوم الرویتہ) میں وہ صوم مراد ہے جو روایت کے بعد ہو ۔ اس بنا پر جس شخص کو شعبان کے آخری دن زوال سے پہلے چاند نظر آگیا اس پر آنے والے دنوں کے روزے فر ہوگئے نہ کہ گزرے ہوئے دن کا ۔ اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کا اقتصاد اس روزے پر ہے جو وہ رویت کے بعد رکھے۔ پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد کہ صوموالرویتہ وافطروالرویتہ فان غم علیکم فعدواثلاثین اس سے ہر اس کی تیس کی گنتی پوری کرنا ضروری ٹھہرا جس کا ہلال ہماری نظروں سے مخفی رہے۔ اب اگر دن کے وقت نظر آنے والے ہلال میں گزشتہ رات کا احتمال ہو اور آنے والی رات کا بھی احتمال ہو تو یہی احتمال اسے اس ہلال کے حکم میں کردیتا ہے جو ہماری نظروں سے مخفی رہے۔ اس صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے تحت اس ماہ کے تیس دنوں کی گنتی پوری کرنا واجب ہوگا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرما دیا کہ وافطر والریتہ تو اس امرکا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ جس وقت بھی چاند نظر آئے روزہ ختم کردیا جائے۔ اب جبکہ تمام کا اس پر اتفاق ہے کہ زوال کے بعد ہلال نظر آنے کی صورت میں روزہ دار کو روزہ تو ڑ دینے سے روک دیا گیا ہے تو ہم نے اس اتفاق کی بنیاد پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درج بالا ارشاد سے اس صورت کو خاص کر کے الگ کردیا لیکن زوال سے پہلے چاند نظر آنے کی صورت میں اس حکم کا عموم باقی رہے گا یعنی زوال سے قبل رویت کی صورت میں اسے روزہ ختم کردینا چاہیے۔ جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مراد یہ ہے کہ ہلال کی رویت رات کے وقت ہوئی ہو اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر زوال کے بعد اسے چاند نظر آگیا تو اس سے روزہ ختم کرنا واجب نہیں ہوگا کہ اس نے دن کے وقت چاند دیکھ لیا ہے ۔ اب چونکہ یہی مفہوم زوال سے پہلے چاند دیکھنے کی صورت میں بھی پایا جاتا ہے اس لیے اس کا بھی حکم وہی ہوگا جو زوال کے بعد کا ہے۔ نیز اگر اس فقرے کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے تو اس سے یہ ضروری ہوجائے گا کہ دن میں رویت سے ما قبل کے حصے کو رمضان قرار دیا جائے اور مابعد کے بعد حصے کو شوال ۔ اس لیے کہ اس بات کای یقین حاصل ہوچکا ہے کہ حضور کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ روزہ چھوڑ نا اسی وقت ہوگا جب پہلے چاند نظر آ جائے نہ کہ بعد میں نظر آنے والے چاند کی بنا پر پہلے روزہ کھول دیا جائے ، کیونکہ اسے ایسے وقت میں افطار کا حکم دینا محال ہے جو رویت سے پہلے ہو۔ اس سے یہ بات واجب ہوجائے گی کہ رویت کے بعد کا وقت شوال ہوا ور قبل کا وقت رمضان ۔ اس صورت میں مہینہ انتیس دن اور تیسویں دن کے کچھ حصے پر مشتمل ہوگا جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہینے کو دو میں سے ایک عدد کے ساتھ پورا کرنے کا حکم دیا ہے یعنی یا تو انتیس یا پھر تیس کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے کہ ( الشھر تسعۃ وعشرون ) مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔ نیز آپ کا یہ بھی قول ہے کہ الشھر ثلاثون مہینہ تیس دنوں کا ہوتا ہے اور امت کا اس پر اتفاق ہے کہ ان احادیث سے حاصل ہونے والے مفہوم پر اعتقاد واجب ہے جو یہ ہے کہ مہینہ ان ہی دو عددوں میں سے ایک کا ہوگا اور جن مہینوں کے ساتھ احکامات کا تعلق ہے وہ یا تو انتیس کے ہوں گے یا تیس کے نہ کہ انتیس اور تیس کا بعض حصہ۔ اسلامی مہینوں میں کسری طور کمی بیشی نہیں ہوتی ہے ۔ غیر اسلامی مہینوں مثلاً رومیوں کے مہینوں میں ایسا ہوتا ہے ، ان کے بعض مہینے اٹھائیس دن اور انتیس کے چوتھائی دن کے ہوتے ہیں ۔ یہ شباط کا مہینہ ہے جو انگریزی مہینہ فروری کے مطابق ہوتا ہے ۔ البتہ لیپ کے سال میں شباط انتیس دنوں کا ہوتا ہے ۔ رومی مہینوں میں بعض اکتیس دن کے ہوتے ہیں اور بعض تیس دنوں کے ، لیکن اسلامی مہینوں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ جب اسلامی مہینے کے لیے اس کے سوا اور کوئی صورت باقی نہیں رہی کہ وہ یا تو انتیس دنوں کا ہوگا یا تیس دنوں کا تو ہمیں اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول صوموا الرویتہ وافطروا لرئویتہ سے مراد ہی یہ ہے کہ رویت ہلال رات کے وقت ہو اور دن کے قریب رویت ہلال کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دن کا ایک حصہ کسی اور مہینے کا جز ہو اور دوسرا حصہ کسی اور مہینے کا پھر جس ذات نے صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ ارشاد فرمایا اسی ذات نے فان غم علیکم فعدوا ثلاثین بھی ارشاد فرمایا ۔ اب دن کے وقت رویت ہلال کا معنی یہی ہے کہ ہم پر چاند کا معاملہ اس لحاظ سے مشتبہ ہوگیا کہ ہمیں پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا تعلق گزشتہ رات سے ہے یا آنے والی رات سے۔ یہ اشتباہ اس امر کو واجب کردیتا ہے کہ ہم اس ماہ کے تیس دن کی گنتی پوری کریں نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ قول بھی ثابت ہے کہ صوموا الرویتہ وافطروالرویتہ فان حال بینکم و بینہ سحاب او قترۃ فعد واثلاثین چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو ۔ اگر تمہارے اور چاند کے درمیان کوئی بادل یا گرد و غبار حائل ہوجاتے تو تیس دنوں کی گنتی پوری کرلو۔ حضرت ابن عباس نے اس کی روایت کی ہے اور اس روایت کی سند پہلے گزر چکی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چاند پر جس کے نظر آنے میں کوئی بادل وغیرہ حائل ہوجائے اس چاند کا حکم لگایا جو بادل وغیرہ کے بغیر بھی نظر نہیں آیا ہو ۔ یہ جانتے ہوئے کہ اگر ہمارے اور چاند کے درمیان کوئی بادل وغیرہ حائل نہ ہوتا تو وہ نظر آ جاتا ۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول کا یہ مفہوم نہ لیا جائے تو آپ کے اس قول فان حال بینکم و بینہ سحاب او قترۃ فعدوا اثلاثین کا کوئی معنی نہ ہوتا اس لیے کہ اگر بادل وغیرہ کے حائل ہونے کی صورت میں چاند کے متعلق معلوم کرلینا محال ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر گزند کو رہ بالا فقرہ نہ فرماتے کیونکہ اس صورت میں آپ گویا بادل وغیرہ کے حائل ہونے کو تیس کی گنتی پوری کرنے کی شرط قرار دیتے۔ جب کہ آپ کو اس کا علم تھا کہ ہمارے لیے چاند کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس صورت حال کے تحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ جب ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ ہمارے اوپر چاند کے درمیان بادل وغیرہ حائل ہوگیا ہے اگر یہ نہ ہوتا تو ہمیں چاند نظر آ جاتا تو ایسی صورت میں ہم اس دن پر رویت ہلال کا حکم نہ لگائیں یعنی سمجھ لیں کہ آج چاند نہیں ہوا ۔ اس لحاظ سے دن کے وقت نظر آنے والے ہلال کے متعلق یہ خیال کرنا اولیٰ ہوگا کہ اس کی روایت رات سے نہیں ہوئی۔ اس بنا پر اس دن کا حکم وہی ہوگا جو اس کے ما قبل دن کا ہے اور یہ گزشتہ ماہ کا دن ہوگا نہ کہ آنے والے مہینے کا ۔ اس لیے کہ رات سے رویت تو ہوئی نہیں ، بلکہ اس کی صورت اس صورت حال سے بھی زیادہ کمزور ہوگی جب کہ ہمارے اور رویت ہلال کے درمیان کوئی بادل وغیرہ حائل ہوجائے اور رویت نہ ہو سکے ۔ کیونکہ بادل وغیرہ حائل ہونے کی صورت میں ہمیں یہ علم ہوجاتا ہے کہ چاند موجود نہیں ہے اور اس کا تعلق گزشتہ رات سے نہیں ہے جبکہ دوسری صورت میں ہمیں اس کا علم نہیں ہوتا کہ اس کا تعلق گزشتہ رات سے ہے بلکہ ہمارے علم میں صرف بات ہوتی ہے کہ ہم نے اسے گزشتہ رات نہیں دیکھا ہے باوجودیکہ ہمارے اور اس کے درمیان کوئی بادل وغیرہ حائل نہیں تھا اور ظاہر ہے کہ دوسری صورت میں رویت ہلال کا معاملہ پہلی صورت کے مقابلے میں کمزور ہے۔ واللہ الموافق للصواب۔ رمضان کی قضا ارشاد باری ہے ومن کن منکم مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر یرا للہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر تم میں سے جو شخص بیمار یا سفرپر ہو تو وہ دوسرے دنوں سے روزوں کی گنتی پوری کرے، اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا چاہتا ۔ امام ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اوپر کی تلاوت کردہ آیت تین وجوہات سے اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا متفرق دنوں میں جائز ہے ۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری فعدۃ من ایام اخر میں ایام کو نکرہ کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اس کے لیے معین دن نہیں ہیں اس لیے اس سے یہ مفہوم پیدا ہوگیا کہ قضا کرنے والے کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ چاہے تو متفرق دنوں میں قضا کرلے اور چاہے تو لگام تار روزے رکھ لے۔ اب جس فقہیہ نے رمضان کی قضا میں لگا تار روزے رکھنے کی شرط لگائی ہے اس نے دو طریقوں سے ظاہر آیت کی خلاف ورزی کی ہے ۔ اول یہ کہہ کر اس نے ایام کے لیے ایسی زائد صفت لازم کردی جس کا آیت میں ذکر نہیں ہے جبکہ کسی نص میں کسی دوسری نص کی بنا پر ہی زیادتی کی جاسکتی ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حج کے موقع پر ہدی نہ دے سکنے کی صورت میں عرفات میں جانے سے پہلے تین روزے اور واپس ہو کر سات روزے رکھنے کا حکم دیا تو اس میں لگا تار رکھنا لازم قرار نہیں پایا ۔ اس لیے کہ آیت میں اس کا ذکر نہیں ہے ۔ دوم یہ کہ اسے قضا کو معین دنوں میں خاص کردیا جبکہ آیت میں اس کے لیے غیر معین دن ہیں اور یہ بات جائز نہیں ہے کہ آپ کسی دلالت کے بغیر کسی حکم کے عموم کی تخصیص کردیں۔ دوسر ی وجہ یہ ہے کہ ارشاد باری ہے یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر اس کے ظاہر کا تقاضا ہے کہ روزہ قضا کرنے والے کے لیے جس صورت میں زیادہ آسانی ہوگی وہ صورت اختیار کرنا اس کے لیے جائز ہوگا ۔ اب ظاہ رہے کہ لگا تار رکھنے کی صورت میں یسر کی نفی ہوجائے گی اور عسر کا اثبات ہوجائے گا جب کہ ظاہر آیت اس بات کی نفی کر رہی ہے۔ تیسری وجہ یہ ارشاد ہے ( ولتکموا العدۃ) اور تا کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کا زیادہ علم ہے کہ ان ایام کی تعداد کیا ہے جن میں اس نے روزہ نہیں رکھا اور جن کی اب قضاکر رہا ہے۔ ضحاک اور عبد اللہ بن زید بن اسلم سے اسی طرح کی روایت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ وہ ہم سے ان دنوں کی تعداد پوری کرانا چاہتا ہے جن دنوں کے ہم نے روزے چھوڑے ہیں ۔ اب کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ آیت میں اس معنی کے سوا اور کسی چیز کی شرط لگائے اس لیے کہ اس سے آیت کے حکم میں زیادتی لازم آئے گی ۔ جس کے عدم جواز کا ہم نے کئی مواقع پر دلائل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ البتہ اس معاملے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حرت معاذ بن جبل ، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ، حضرت انس بن مالک ، حضرت ابوہریرہ (رض) ، مجاہد ، طائوس ، سعید بن جبیر اور عطاء بن ابی رباح سے یہ قول مروی ہے کہ قضا کرنے والا چاہے تو متفرق دنوں میں قضا کرلے اور اگر چاہے تو لگا تار روزے رکھ لے۔ شریک نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے حرث سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ حضر ت علی (رض) نے فرمایا : ” کہ رمضان کی قضا ، لگا تار دنوں میں کرو اور اگر متفرق دنوں میں اس کی قضاء کی تو تمہارے لیے یہ بھی جائز ہے “ ۔ حجاج نے ابو اسحاق سے ، انہوں نے حرث سے اور انہوں نے حضرت علی (رض) سے یہ روایت کی ہے کہ رمضان کی قضا کے متعلق آپ نے فرمایا کہ یہ متفرق دنوں میں نہیں کی جائے گی ہوسکتا ہے کہ حضرت علی (رض) کے اس قول کا مفہوم یہ ہو کہ مسلسل رکھنا مستحب ہے۔ اور اگر الگ الگ رکھے گئے تو بھی جائز ہے ، جیسا کہ شریک کی روایت میں مذکور ہے۔ حضرت ابن عمر سے قضا رمضان کے متعلق مروی ہے کہ جس ترتیب سے روزے چھوڑے ہوں اسی ترتیب سے قضا کی جائے ۔ اعمش نے ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ رمضان کی قضا لگا تار ہونی چاہیے امام مالک نے حمید بن قیس مکی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : ” میں مجاہد کے ساتھ طواف کر رہا تھا ایک شخص نے ان سے مسئلہ پوچھا کہ جس کسی نے رمضان کے روزے چھوڑے ہوں تو آیا وہ قضا میں لگا تار روزے رکھے گا ؟ ابھی مجاہد نے کچھ نہیں کہا تھا کہ میں بول اٹھا ” نہیں لگا تار نہیں رکھے گا “ یہ سن کر مجاہد نے میرے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ” میرے والد نے اس آیت کی جو قرأت کی ہے اس میں لفظ ” متتا بعات “ ( لگا تار) بھی موجود ہے۔ عرو بن الزبیر کا قول ہے کہ لگا تار روزے رکھے گا ۔ امام ابوحنیفہ ، ابو یوسف ، محمد زفر ، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر چاہے تو متفرق دنوں میں رکھ لے اور اگر چاہے تو مسلسل رکھ لے۔ امام مالک ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ لگا تار رکھنا ہمیں زیادہ پسندیدہ ہے اور اگر متفرق دنوں میں رکھ لے تو بھی جائز ہے۔ اس طرح فقہاء امصار کا اس پر اجماع ہوگیا کہ متفرق دنوں میں قضاء کرنا جائز ہے۔ ہم نے اس سے یہ ذکر کردیا ہے کہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ حماد بن سلمہ نے سماک بن حرب سے ، انہوں نے ہارون بن ام ہانی یا ابن بنت ام ہانی سے یہ روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ام ہانی کو پئے ہوئے پانی کا بچا ہوا حصہ پینے کے لیے دے دیا ، ام ہانی نے پی لیا پھر کہنے لگیں :” اللہ کے رسول ، میں تو روزے سے تھی لیکن میں نے آپ کا جو ٹھا واپس کرنا پسند نہیں کیا “۔ اس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اگر یہ رمضان کی قضا کا روزہ تھا تو اس کے بدلے روزہ رکھ لو ۔ اگر نفلی روزہ تھا تو پھر چاہو تو قضا کرلو چاہو تو نہ کرو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن کی بجائے روزہ رکھنے کا حکم تو دیا لیکن نئے سرے سے تمام روزے دوبارہ رکھنے کا حکم نہیں دیا ۔ اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے دو باتوں پر دلالت ہوتی ہے۔ اول یہ کہ لگاتار رکھنا واجب نہیں ہے۔ دوم یہ کہ لگا تار رکھنا متفرق طور پر رکھنے سے افضل نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر یہ افضل ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لازمی طور پر حضرت ام ہانی کو اسی کی ہدایت کرتے۔ عقلی طور پر بھی اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ رمضان کے روزے بھی لگا تار نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل ایام میں رکھے جاتے ہیں اور تتابع ان روزوں کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص درمیان سے ایک روزہ چھوڑ دے تو اس پر نئے سرے سے روزہ لازم نہیں ہوگا اور گزشتہ دنوں میں رکھے ہوئے روزے درست ہوجائیں گے جن میں اس ایک دن کے افطار کی وجہ سے تتابع کی صفت ختم ہوچکی تھی ۔ اب اگر اصل رمضان میں لگا تار یعنی تتابع کی شرط نہیں ہے تو اس کی قضاء میں تتابع کی شرط کا نہ ہونا بطریق اولی ہوگا ۔ اگر رمضان کے روزوں میں تتابع ضروری ہوتا تو ایک دن روزہ چھوڑ دینے پر اسے نئے سرے سے لگا تار روزے رکھنے پڑتے۔ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کے کفارہ کے روزوں کے مطلق رکھا ہے اور اس میں تتابع کی شرط نہیں لگائی لیکن آپ نے یہ شرط لگا کر نص کتاب میں اضافے کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ چیز ثابت ہوچکی ہے کہ عبد اللہ کی قرأت میں منتابعات کا لفظ بھی موجود ہے۔ یزید بن ہارون نے کہا کہ انہیں ابن عون نے یہ بتایا کہ میں نے قسم کے کفارہ کے روزوں کے متعلق ابراہیم سے دریافت کیا ۔ ابراہیم نے جواب دیا کہ اسی طرح ہیں جس طرح کہ ہم نے قرأت کی ہے یعنی ” فصیام ثلاثۃ ایام متشابعات “ تین دن کے مسلسل روزے۔ ابو جعفر رازی نے ربیع بن انس سے اور انہوں نے ابو العالیہ سے روایت کی کہ ابو العالیہ نے کہا : ” میرے والد اس آیت کی ” فصیام ثلاثۃ ایام متتابعات “ قرأت کرتے تھے، ہم نے اصول فقہ میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ( فعدۃ من ایام اخر اور ہم سب کے نزدیک امر پر فی الفور عمل ہونا ضروری ہوتا ہے تو اس سے یہ واجب ہوگیا کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے اول امکانی حال میں قضا شروع کردے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ قضا میں تعجیل کی خاطر پے در پے روزے کھتا چلا جائے اگر اسے ایسا کرنا واجب ہوگا تو اس سے تتابع لازم آئے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امر کے فی الفور یحا آوری سے تتابع لازم نہیں آتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امر میں فی الفور کا لزوم حسب امکان ہوتا ہے اور اگر ایک شخص کے لیے پہلے دن کا روزہ رکھنا ممکن ہوگیا ، اس نے روزہ رکھ لیا ، پھر بیمار پڑگیا اور روزہ چھوڑ دیا تو ایسی صورت میں امر کے فی الفور بجا آوری کی بنا پر اس پر نہ تو تتابع لازم آئے گا اور نہ ہی نئے سرے سے اس دن کا روہ رکھنا جس دن اس نے روزہ چھوڑ دیا تھا ، اس سے یہ دلالت ہوتی ہے کہ تتابع کے لزوم کا تعلق امر کے فی الفور بلا مہلت بجا آوری کے ساتھ نہیں ہے اور تتابع کی ایک اور صفت ہے جو امر علی الفور کے ماسوا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ (بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں)  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨٦) اور جب آپ سے اہل کتاب میرے متعلق دریافت کریں کہ میں قریب ہوں یا دور تو اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ انہیں بتادیجیے کہ میں دعا کے قبول کرنے میں بہت ہی قریب ہوں، لہٰذا میرے رسول کی اطاعت کرو، اور دعوت سے قبل میرے رسول پر ایمان لاؤ تاکہ تمہیں ہدایت نصیب ہو اور پھر تمہاری دعا بھی (جلد) قبو... ل کی جائے۔ شان نزول : (آیت) ” واذا سالک عبادی “۔ (الخ) ابن جریر (رح) اور ابن ابی حاتم (رح) ابن مردویہ (رح) اور ابوالشیخ (رح) وغیرہ نے بذریعہ جریر (رح) بن عبدالحمید (رح) ، عبدہۃ السجستانی (رح) ، حلت بن حکیم (رح) حکیم بن معاویہ (رح) ، معاویۃ بن حیدہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک عربی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ ہمارا پروردگار قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی کریں یاد رہے کہ اسے پکاریں آپ اس پر خاموش رہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی کہ جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو بالکل فرما دیجیے کہ میں بالکل قریب ہوں، اور عبدالرزاق نے حسن سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہمارا پروردگار کہاں ہے، اس پر یہ آیت کریمہ اتری، یہ حدیث مرسل ہے اور دیگر طریقوں سے بھی مروی ہے۔ ابن عساکر نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، دعا میں عاجز نہ ہوؤ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا، حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارا پروردگار دعا سنتا ہے اور اس کی کیا صورت ہے، اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح ) ابن جریر (رح) نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا ہے کہ انھیں اس بات کا پتہ چلا کہ جس وقت یہ آیت مقدسہ کہ تمہارے پروردگار فرماتے ہیں کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا کو قبول کرتا ہوں نازل ہوئی تو صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ یہ انھیں معلوم نہیں کہ وہ کس وقت دعا مانگیں تو اس پر یہ آیت کریمہ اتری۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٦ (وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط) میرے نزدیک یہ دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور (Magna Carta) ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے۔ فصل اگر ہے تو وہ تمہاری اپنی خباثت ہے۔ اگر تمہاری نیت میں فساد ہے کہ حرام خوری تو کرنی ہی کرنی ہے تو اب کس منہ سے ال... لہ سے دعا کرو گے ؟ لہٰذا کسی پیر کے پاس جاؤ گے کہ آپ دعا کردیجیے ‘ یہ نذرانہ حاضر ہے۔ بندے اور خدا کے درمیان خود انسان کا نفس حائل ہے اور کوئی نہیں ‘ ورنہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو یہ ہے کہ : ؂ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے ‘ راہ رو منزل ہی نہیں ! اس تک پہنچنے کا واسطہ کوئی پوپ نہیں ‘ کوئی پادری نہیں ‘ کوئی پنڈت نہیں ‘ کوئی پروہت نہیں ‘ کوئی پیر نہیں۔ جب چاہو اللہ سے ہم کلام ہوجاؤ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے : ؂ کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے ؟ پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو ! اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ میرا ہر بندہ جب چاہے ‘ جہاں چاہے مجھ سے ہم کلام ہوسکتا ہے۔ (اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا) اجابت کے مفہوم میں کسی کی پکار کا سننا ‘ اس کا جواب دینا اور اسے قبول کرنا ‘ یہ تینوں چیزیں شامل ہیں۔ لیکن اس کے لیے ایک شرط عائد کی جا رہی ہے : (فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ ) (وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ ) یہ یک طرفہ بات نہیں ہے ‘ بلکہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ جیسے ہم پڑھ چکے ہیں : (فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ ) پس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا تم میرا شکر کرو گے تو میں تمہاری قدردانی کروں گا۔ تم میری طرف چل کر آؤ گے تو میں دوڑ کر آؤں گا۔ تم بالشت بھر آؤ گے تو میں ہاتھ بھر آؤں گا۔ لیکن اگر تم رخ موڑ لو گے تو ہم بھی رخ موڑ لیں گے۔ ہماری تو کوئی غرض نہیں ہے ‘ غرض تو تمہاری ہے۔ تم رجوع کرو گے تو ہم بھی رجوع کریں گے۔ تم توبہ کرو گے تو ہم اپنی نظر کرم تم پر متوجہ کردیں گے۔ سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں الفاظ آئے ہیں : (اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ ) (آیت ٧) اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ لیکن اگر تم اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاؤ ‘ ان کے ساتھ تمہاری ساز باز ہو اور کھڑے ہوجاؤ قنوت نازلہ میں اللہ سے مدد مانگنے کے لیے تو تم سے بڑا بیوقوف کون ہوگا ؟ پہلے اللہ کی طرف اپنا رخ تو کرو ‘ اللہ سے اپنا معاملہ تو درست کرو۔ اس میں یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے ولی کامل بن جاؤ ‘ بلکہ اسی وقت خلوص نیت سے توبہ کرو ‘ سارے پردے ہٹ جائیں گے۔ آیت کے آخر میں فرمایا : (لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ ) ۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور اس کے احکام پر چلنے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

188. Even though people can neither see God nor subject Him to any other form of sense perception this should not make them feel that God is remote from them. On the contrany, He is so close to each and every person that whenever any person so wishes he can communicate with his Lord. So much so that God hears and responds even to the prayers which remain within the innermost recesses of the heart....  People exhaust themselves by approaching false and powerless beings whom they foolishly fancy to be their deities but who have neither the power to hear nor to grant their prayers. But God, the omnipotent Lord and the absolute Master of this vast universe, Who wields all power and authority, is so close to human beings that they can alway's approach Him without the intercession of any intermediaries, and can put to Him ther prayers and requests. 189. This announcement of God's closeness to man may open his eyes to the Truth, may turn him to the right way wherein lies his success and well-being.  Show more

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :188 یعنی اگرچہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کر سکتے ہو ، لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دور ہوں ۔ نہیں ، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے ، مجھ سے عرض معروض کر سکتا ہے ، جتّٰی کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ... ہے میں اسے بھی سن لیتا ہوں اور صرف سنتا ہی نہیں ، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں ۔ جن بے حقیقت اور بے اختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الٰہ اور رب قرار دے رکھا ہے ، ان کے پاس تو تمہیں دوڑ دوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کوئی فیصلہ صادر کر سکیں ۔ مگر میں کائنات بے پایاں کا فرماں رواے مطلق ، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک ، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو ۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بے اختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو ۔ میں جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں ، اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو ، میری طرف رجوع کرو ، مجھ پر بھروسہ کرو اور میری زندگی و اطاعت میں آجاؤ ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :189 یعنی تمہارے ذریعے سے یہ حقیقت حال معلوم کر کے ان کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اس صحیح رویے کی طرف آجائیں ، جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

117: رمضان کے ذکرکے عین درمیان اس آیت کو لانے کی وجہ شاید یہ ہو کہ پیچھے رمضان کی گنتی پوری کرنے کا جو ذکر آیا تھا اس سے کسی کو خیال ہوسکتا تھا کہ رمضان گزرنے کے بعد شاید اللہ تعالیٰ سے وہ قرب باقی نہ رہے جو اس مبارک مہینے میں حاصل ہوا تھا، اس آیت نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے واضح فرمادیا کہ اللہ ت... عالیٰ ہر آن اپنے بندوں سے قریب ہے اور ان کی پکار سنتا ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بعض لوگوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ اللہ تعالیٰ پاس ہے یا دورا گر وہ پاس ہو تو ہم چپکے چپکے اس سے دعا مانگا کریں اور اگر دور ہو تو چلا کر دعا مانگا کریں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ہدایت فرما دی کہ جو کوئی اللہ کی اطاعت پوری کرے گا اور اللہ کے حکم کو مانے گا...  اللہ اس سے قریب ہے اور اس کی ہر خواہش کا جواب دینے اور اس کی دعا قبول کرنے کو موجود ہے اوپر سے یہ آیت روزہ کے ذکر میں تھی ابھی روزہ کا ذکر پورا نہیں ہوا تھا کہ بیچ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کو ذکر فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دعا کو روزہ کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ جس کی وجہ سے روزہ دار کی دعا بہ نسبت بےروزہ دار کے زیادہ قبول ہوتی ہے۔ ترمذی ابن ماجہ نسائی اور مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تین شخص حاکم عادل اور روزہ دار اور مظلوم کی دعا رائیگاں نہیں جاتی بلکہ ان کے دعا کے لئے فوراً آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ میں تمہاری ضرور مدد کروں گا فقط وقت مقررہ کے آنے کی دیر ہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ٣۔ اور چس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قبولیت دعا کے لئے شرط ٹھہرائی ہے کہ دعا کرنے والا اللہ کا مطیع اور احکام الٰہی کا پابند ہو اسی طرح حدیث میں تفصیل سے مقبولیت دعا کے شرائط وارد ہوئے ہیں مثلاً اکل حلال قبولیت میں دیر ہونے سے مایوس نہ ہونا کیوں کہ تقدیر الٰہی میں ہر کام کا وقت مقرر ہے اور دعا کے پہلے اللہ کی حمد اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود کا ہونا حضور قلب سے دعا کا مانگنا ممنوعات شرعیہ کی دعا نہ مانگنا شرائط کے ساتھ جو دعا ہو اس کی نسبت سند معتبر سے جو مسند امام احمد مستدرک حاکم مسند ابی یعلیٰ وغیرہ میں روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ ایسی دعا یا تو فورًا قبول ہوجاتی ہے اور اگر مصلحت الٰہی میں وہ دعا اس شخص کے لئے فائدہ مند نہیں ہے تو کوئی برائی اس شخص سے ٹل جاتی ہے اور آخرت میں اس شخص کے لئے ایک اجر اس دعا کا مقرر ہوجاتا ہے ١۔ انسان اپنے نیک و بد کے انجام کے جاننے سے ایسا بیخبر اور غافل ہے کہ بہت سی چیزیں یہ اپنے حق میں بہتر جان کر ان کے ظہور کی آرزو کرتا ہے۔ مگر علم الٰہی میں ان چیزوں کا ظہور اس شخص کے لئے مضر ہوتا ہے۔ اس لئے مصلحت الٰہی میں اس کی آرزو پوری کرنے کے قابل نہیں ہوتی مثلاً ایک شخص کی دوسرے شخص سے دشمنی ہوتی ہے اس دشمنی کی وجہ سے یہ شخص اپنے دشمن کی ہلاکت کی دعا مانگتا ہے اور علم الٰہی میں یہ بات قرار پائی ہوتی ہے کہ یہی دشمن دوست ہوجائے گا اور اس بددعا کرنے والے شخص کو بہت بڑا نفع پہونچائے گا۔ اس واسطے مصلحت الٰہی میں اس شخص کی دعا قبول کرنے کے قابل نہیں قرار پاتی دعا کی فضیلت میں بہت سی صحیح حدیثیں آئی ہیں بعض صحیح روایتوں میں یہ بھی ہے کہ آدمی کی تقدیر میں جو برائی لکھی ہے وہ دعا کے اثر میں ٹل سکتی ہے۔ ٢۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:186) واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب۔ اذا ظرف زمان ہے۔ سئل فعل ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ عبادی۔ مضاف مضاف الیہ مل کر فاعل ، منی جار مجرور مل کر متعلق فعل۔ اذا سئلک عبادی عنی جملہ شرطیہ۔ فانی قریب ای قل لہم (ای عبادی) انی قریب۔ جواب شرط۔ اجیب۔ مضارع واحد متکلم ۔ اجابۃ (باب افعال) مصدر بمعنی قبول...  کرنا۔ میں قبول کرتا ہوں۔ الداع۔ بلانے والا۔ پکارنے والا۔ دعاء (د ع و مادہ) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر بحالت رفع وجر۔ دعوۃ الداع۔ مضاف مضاف الیہ مل کر اجیب کا مفعول۔ دعان۔ اصل میں دعانی تھا۔ ی ضمیر واحد متکلم حذف ہوگئی اور ن وقایہ ہے دعا ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ۔ اس نے مجھے پکارا۔ اس نے مجھ سے دعا کی۔ فلیستجیبو الی۔ ف سببیہ ہے لیستجیبوا فعل امر کا صیغہ جمع مذکر غائب ہے۔ استجابۃ (باب استفعال) ان کو چاہیے کہ میرا حکم مانیں ان کو چاہیے کہ میرا امر قبول کریں۔ ای اذا دعوتھم الیٰ الایمان والطاعۃ کما انی اجبتھم اذا دعونی لحوائجہم۔ یعنی جب میں ان کو ایمان اور اطاعت کی طرف بلاؤں تو ان کو میرا حکم ماننا چاہیے جیسا کہ میں ان کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے اپنی حاجات کے لئے پکارتے ہیں ۔ استجابۃ بمعنی اجابۃ (افعال) ہے۔ والاجابۃ فی اللغۃ الطاعۃ فالاجابۃ من العبد الطاعۃ و من اللہ الا ثابۃ والعطائ۔ لغت میں اجابت بمعنی اطاعت ہے۔ بندہ کی طرف سے اجابت بمعنی اطاعت اور اللہ کی طرف سے جزا عطا کرنا ۔ قرآن مجید میں آیا ہے فاستجاب لہم ربھم (3:195) تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی۔ اور والذین استجابوا لربھم (82:38) اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں۔ ولیؤمنوابی اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے واؤ عاطفہ لیؤمنوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر غائب اور چاہیے کہ وہ مجھ پر ایمان لائیں یرشدون۔ مضارع جمع مذکر غائب رشد (باب نصر) مصدر وہ سیدھے راہ پر آجائیں۔ وہ ہدایت پاجائیں۔ الرشدغی کی ضد ہے۔ اور ہدایت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ قد تبین الرشد من الغی (2:256) گمراہی سے ہدایت الگ ہوچکی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ایک شخص نے آنحضر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہمارا رب نزدیک ہے تو ہم اس سے مناجات کریں دور ہے تو ہم اس کو پکاریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو سنتا ہے لہذا تمہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ماہ رمضان کے سلسلہ م... یں اس آیت کے اجانے کا مطلب یہ ہے کہ ماہ رمضان خصوص روزے کی حالت دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص سبب ہے۔ ( ابن کثیر) ایک حدیث کے ضمن میں ہے کہ روزے دار کی دعا رائگاں نہیں جاتی۔ اس کی دعا کے لیے بھی آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (ترمذی۔ نسائی) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ افطار کے وقت دعاقبول ہوتی ہے۔ مشکوہ۔ کتاب الدعوات) یہی وجہ ہے یہ ماہ رمضان کے دران میں کثرت استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (ترغیب۔ درمنشور)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہ جو فرمایا کہ میں قریب ہوں تو جیسے حق تعالیٰ کی ذات کی حقیقت بیچون وبیجگوں ہونے کی وجہ سے ادراک نہیں کی جاسکتی اسی طرح ان کی صفات کی حقیقت بھی معلوم نہیں ہوسکتی لہذا ایسے مباحث میں زیادہ تفتیش جائز نہیں اجمالا اتنا سمجھ لیں کہ جیسی ان کی ذات ہے ان کی شان کے مناسب ان کا قرب بھی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : رمضان کی راتوں اور روزہ کی حالت میں دعا جلد قبول اور اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے دعا سے متعلق سوال کا جواب دینا یہاں مناسب سمجھا گیا تاکہ مومن دل کھول کر اپنے رب سے مانگیں۔ دعا کا معنٰی و مفہوم : دعا عبادات کا خلاصہ، انسانی حاجات اور جذبات کا مرقّع، بندے اور اس کے...  رب کے درمیان لطیف مگر مضبوط واسطہ، اللہ تعالیٰ کے مزید انعامات کا حصول اور نقصانات سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے دعا مکمل یکسوئی، خلوص نیت اور انتہائی توجہ، اصرار اور تکرار کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ارض و سماء کے مالک کی خوشی اور اس کا حکم ہے کہ اس سے براہ راست مانگا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگنا تکبر ہے۔ فوت شدگان کے واسطے، حرمت، طفیل اور وسیلے سے دعا کرنا شرک ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے مقصدو مفہوم کو نہایت ہی مختصر مگر جامع کلمات میں بیان فرمایا ہے : ( اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْْعِبَادَۃُ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلوۃ، باب الدعاء ] ” دعا عبادت ہے۔ “ دعا بمعنٰی عبادت : تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے بےپروائی کرتے ہیں انہیں ذلیل و خوار کرکے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔[ المؤمن : ٦٠] دعا بمعنٰی مدد طلب کرنا : اللہ کے سوا اپنے مدد گاروں سے مدد مانگو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔[ البقرۃ : ٢٣] دعا بمعنٰی پکار : اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکا رو جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔ [ یونس : ١٠٦] دعا کی اہمیت : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَنْ یَّنْفَعَ حَذْرٌ مِنْ قَدْرٍ وَلٰکِنَّ الدُّعَاءَ ےَنْفَعُ مِمَّا نُزِّلَ وَمِمَّا لَمْ ےُنْزَلْ فَعَلَےْکُمْ بالدُّعَاءِ عِبَاد اللّٰہِ ) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث معاذ بن جبل ] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا کوئی بھی احتیاط اور پرہیز تقدیر سے نہیں بچا سکتی، لیکن دعا نازل شدہ اور آئندہ نازل ہونے والے مصائب و تکالیف سے فائدہ پہنچاتی ہے۔ پس اے بندگان خدا دعا ضرور کیا کرو۔ “ دعا کے آداب درود، توبہ، استغفار : اخلاقیات کے حوالے سے اس بات کو کبھی بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا کہ کمزور آدمی اور حاجت مند کسی بڑے سے سوال کرے تو وہ آداب واکرام کو بالائے طاق رکھ کر سوال پر سوال ڈالتا چلا جائے۔ اس انداز سے نہ صرف مانگنے والا محروم رہ سکتا ہے بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ دینے والا اس طرح مانگنے پر ناراض ہوجائے۔ لہٰذا جب رب کی بارگاہ میں دست سوال دراز کیا جائے تو پہلے حمد و ستائش اور اس کی عنایات کا اعتراف واقرار کیا جائے۔ اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر پر درود پڑھا جائے جو بذات خود بہترین دعا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ” جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب الصلٰوۃ، باب الصلٰوۃ علی النبی ] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اگر تو اپنی دعا میں تمام وقت درود پڑھنے پر صرف کرے تو تیرے سارے دکھوں کے لیے کافی اور گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا۔[ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق، باب منہ ] درود کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا احترام ومقام اور انسانیت کا شرف یہ ہے کہ کچھ مانگنے سے پہلے اس کے حضور اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش طلب کی جائے۔ عاجزی، درماندگی : (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ) [ الاعراف : ٥٥] ” اپنے رب کو عاجزی اور خوف کے ساتھ پکارو۔ “ دعا کے آداب میں شکر، حمد، درود اور توبہ و استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا اور فقیرکا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری اور در ما ندگی کے ساتھ اس کے سامنے دست سوال دراز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو انکساری اس قدر پسند ہے کہ جب انسان پریشانیوں کے ہجوم، مسائل کے گرداب اور مصائب کے بھنور میں پھنس جائے اعزہ و اقرباء اور رفقاء و احباب منہ پھیر جائیں، حالات کے تھپیڑوں نے زمین کی پستیوں پردے مارا ہو، تمام وابستگیاں ختم اور ہر قسم کی امیدیں دم توڑ گئی ہوں ‘ نہ اٹھنے کی ہمت ہو نہ بیٹھنے کی سکت اور آدمی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہو تو اس وقت یہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا کر التجا کرے کہ اے اللہ ! میں نے اپنے گلشن حیات کو اپنی خطاؤں اور گناہوں کے جھکڑوں، غلطیوں اور جرائم کی آندھیوں سے برباد کرلیا ہے۔ میری وادئ حیات کو تیرے بغیر کوئی سیراب نہیں کرسکتا۔ مجھے تیرے ہی در کی امید اور تیری ہی رحمتوں کا سہارا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سر سبز و شاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے حیات نو سے ہمکنار کر دے۔ جب یہ کہتے ہوئے اس کا دل موم اور آنکھیں پر نم ہوجاتی ہیں۔ تو اسی لمحے رحمت خداوندی اس کی روح کو تھپکیاں اور دل کو تسلیاں دیتے ہوئے ان الفاظ میں اسے حیات نو کی امید دلا رہی ہوتی ہے۔ (قُلْ ےَا عِبَادِیَ الَّذِےْنَ اَسْرَفُوْا عَلآی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِےْعًا إِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِےْمُ ) [ الزمر : ٥٣] ” اے نبی ! کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کرنے والا ہے ‘ وہ غفور الرحیم ہے۔ “ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں : (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرٰی کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَالْمَےِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ ) [ حجۃ اللّٰہ ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت و عظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس میت کی طرح سمجھے جو نہلانے والے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ “ ہاتھ آگے بڑھائیے ! انسان کی عزت وشرف اور غیرت و حمیّت کا تحفظ کرتے ہوئے دین کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔ مگر بارگاہ ایزدی میں ہاتھ پھیلانے کا حکم ہی نہیں یہ تو انسانیت کا شرف ہونے کے ساتھ دعا کے آداب میں سے ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے جب دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندے کے ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے حیا محسوس کرتا ہے۔ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ رَبَّکُمْ حَیِیٌّ کَرِےْمٌ ےَسْتَحْیِیْ مِنْ عَبْدِہٖ إِذَارَفَعَ ےَدَےْہِ اَنْ یَّرُدَّھُمَا صِفْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب الدعاء ] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا رب نہایت ہی مہربان اور بڑا ہی حیا والا ہے۔ بندہ جب اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے اسے شرم آتی ہے۔ “ یقین کے ساتھ مانگیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا کرتے تھے دعا مانگنے والے کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور یقین ہونا چاہیے کہ میری دعا اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ کیونکہ آدمی جس طرح اللہ کے بارے میں گمان کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک فرمائے گا۔ لہٰذا دعا کرتے ہوئے یقین محکم ہونا چاہیے کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی۔ ہر دعا قبول ہونے کی گارنٹی 1 ۔ دعا کا فی الفور قبول ہوجانا۔ 2 ۔ زندگی کے کسی حصّہ میں مستجاب ہونا۔ 3 ۔ مقصود حاصل ہونے کے بجائے اس کے بدلے میں کسی ناگہانی مصیبت کا ٹل جانا۔ 4 ۔ زندگی میں دعا قبول نہیں ہوئی تو اس کا آخرت میں پورا پورا بدلہ چکا دیا جائے گا۔ رِفعتیں اور قربتیں اپنے گناہوں اور غلطیوں کی وجہ اور اللہ تعالیٰ کے عرش پر متمکن ہونے کے عقیدے سے انسان یہ بات سمجھتا رہا ہے کہ جس طرح میرا اللہ تک پہنچنا مشکل ہے اس طرح میری فریاد بھی اس تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے مجھے ایسے طریقے اور وسائل بروئے کار لانے چاہییں جس سے میری آواز خالق حق تک پہنچ سکے۔ ابتداءً ایسا ہی خیال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفقائے کرام کے دل میں پیدا ہوا وہ اس فکری الجھن کی وجہ سے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اے ذات اقدس ! ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا رب ہم سے کتنی دوری اور مسافت پر جلوہ افروز ہے تاکہ ہم اپنی آواز کو اسی قدر بلند کرنے کی کوشش کریں۔ اس محدود سوچ اور فکری الجھن کو دور کرنے کے لیے فرمایا گیا کہ میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کرتے ہیں کہ میں ان سے کتنا دور ہوں۔ اے نبی ! آپ ان کو اطمینان اور یقین دلائیں کہ میں قدرت وسطوت اور اپنے فضل وکرم کے لحاظ سے ہر وقت ان کے ساتھ ہی ہوا کرتا ہوں۔ میری رفاقت اس قدر پکّی اور ان کے قریب ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں۔ یہاں تک کہ انسان کے دل میں پیدا ہونے والے جذبات اور اس کے ذہن میں ابھرنے والے خیالات سے ہر لمحہ مجھے آگاہی حاصل رہتی ہے۔ (وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِےْب۔ ) [ البقرۃ : ١٨٦] ” جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو انہیں فرمائیے کہ میں ان کے بالکل قریب ہوں۔ “ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ إِلَےْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِےْدِ ) [ قٓ: ١٦] ” ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ “ (اِنَّہُ عَلِےْمٌم بِذَات الصُّدُوْرِ ) [ الملک : ١٣] ” یقیناً وہ سینے کے رازوں کو جانتا ہے۔ “ وسیلہ کی بحث المائدۃ آیت :35 میں آئے گی انشاء اللہ۔ نوٹ : مزید تفصیل میری کتاب ” انبیاء کا طریقۂ دعاء “ میں ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب اور اس کی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ ٢۔ بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہوئے اس کا حکم ماننا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کا حکم ماننے سے رشدو ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ ٤۔ دعا بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان قریب ترین واسطہ ہے۔ ٥۔ مواحد کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن دعا کا مفہوم قرآن مجید میں : ١۔ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین میں سے نباتات پیدا فرمائے۔ (البقرۃ : ٦١) ٢۔ مساجد اللہ کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ (الجن : ١٨) ٣۔ اور ان کا آخری قول اللہ تعالیٰ کی حمدو تعریف ہوگی۔ (یونس : ١٠) ٤۔ مشرک دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢١) ٥۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو قبول کرو جب وہ تم کو بلائیں۔ (الانفال : ٢٤) ٦۔ اگر تم کہتے ہو کہ آپ نے اس قرآن کو ازخود بنا لیا ہے تو تم بھی ایسی دس سورتیں لے آؤ اور جن کو تم بلا سکتے ہو بلالو۔ (ہود : ١٣)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

” میں قریب ہوں۔ “ پکارنے والا جب بھی مجھے پکارے میں اس کی پکار سنتا ہوں۔ کیا نرمی ہے ؟ ذرا نظرکرم ملاحظہ ہو ؟ الفاظ و معانی کی صفائی دیکھو ! انس و محبت دیکھو ! روزے کی تکالیف کیا ۔ بلکہ تمام عبادات کی تکالیف مشقتیں اس قریب و محبت کے مقابلے میں کہاں رہتی ہیں ؟ اس انس اور محبت کے ٹھنڈے سایے میں احساس ... مشقت کہاں باقی رہتا ہے ؟ اس آیت کے لفظ لفظ پر انس و محبت کی تازہ شبنم ہے ۔” میرے بندے ! اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادیجئے کہ میں تو ان سے قریب ہوں پکارنے والا جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکارسنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں ۔ “ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ عجیب آیت ہے یہ ! دل مومن کو میٹھی تازگی ، خوشگوار محبت ، پرسکوں ورضامندی اور یقین محکم سے بھردیتی ہے ۔ مومن تسلیم ورضا کی جنت میں پہنچ جاتا ہے ۔ اسے پر شفقت وصال نصیب ہوتا ہے ۔ وہ پرامن پناہ گاہ اور پرسکون آرام گاہ میں پہنچ جاتا ہے انس و محبت کی اس فضا میں پرجوش باریابی کے اس ماحول میں اور الہامی قبولیت کے اس پس وپیش میں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ایمان اور یہ اطاعت انہیں راہ ہدایت اور راہ مستقیم پر پہنچادے ۔ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ” لہٰذا انہیں چاہئے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لے آئیں شاید وہ راست پالیں ۔ “ تسلیم ورضا اور ایمان باللہ کا آخری فائدہ بھی بندوں کا ہے یعنی ہدایت و راہنمائی اور اصلاح حال ۔ خود اللہ کو ایمان اور بندگی سے کیا فائدہ ۔ وہ تو دونوں جہانوں سے مستغنی ہے ۔ غرض ہدایت وہی ہے جو اللہ پر ایمان اور اللہ کی اطاعت پر مبنی ہو۔ صرف اسلامی نظام ہی انسان کو راہ ہدایت دے سکتا ہے اور اسلامی نظام ہی صحیح راہ ہے ۔ اس کے علاوہ تمام نظام عین جاہلیت ہیں۔ عین حماقت ہیں ۔ کوئی حق پسند ان پر راضی نہیں ہوسکتا ۔ نہ ان نظاموں کے ذریعے انسان راہ ہدایت پاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمان برداری بھی تب ہی ممکن ہے کہ جب لبیک کہنے والا راہ ہدایت پر ہو ۔ متلاشیان راہ حق کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکاریں ، لیکن قبولیت دعا میں جلدی نہ کریں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکیمانہ مصلحتوں کے مطابق اور ہر پکار کا جواب اپنے وقت اور مناسب انداز میں دیتے ہیں ۔ ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ نے ابن میمون کی حدیث اپنی سند کے ساتھ حضرت سلمان فارسی (رض) سے روایت کی ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اللہ تعالیٰ کے سامنے اگر کوئی ہاتھ پھیلائے اور اللہ سے خیر کا طلب گار ہو تو اللہ تعالیٰ ان ہاتھوں کو نامراد لوٹانے سے بہت حیاء کرتے ہیں ۔ “ ترمذی نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن کے ذریعہ سے ابن ثوبان کی حدیث اپنی سند سے اور اسی حدیث کو عبداللہ بن امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبادہ ابن الصامت سے روایت کیا ہے ۔ دونوں نے کہا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اس روئے زمین پر جو شخص بھی اللہ کو پکارے اور کوئی خیر طلب کرے ، اللہ تعالیٰ یا تو اس کو وہ چیز عطا کردیتا ہے یا اس مطلوب کے مطابق اس سے کوئی درپیش آنے والی مصیبت کو دور کردیتا ہے بشرطیکہ وہ کسی بری چیز یا قطع صلہ رحمی کا طالب نہ ہو۔ “ بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری دعا قبول نہ ہوگی بشرطیکہ تم نے جلد بازی نہ کی ۔ مثلاً کوئی کہے :” میں نے تو اللہ کو بہت پکارا مگر میری دعا قبول نہ کی گئی۔ “ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بندے کی دعا ضرور قبول ہوگی بشرطیکہ وہ گناہ قطع رحمی کا طلب گار نہ ہو اور جلد بازی نہ کرے ۔ صحابہ (رض) نے فرمایا رسول اللہ ! جلد بازی کیسے ہوتی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ کہے کہ میں نے بار بار اللہ کو پکارا ، مجھے یقین نہیں ہے کہ میری دعاق قبول ہوگی ۔ یوں وہ دعاچھوڑ کر خسارے میں پڑجائے۔ “ روزہ دار تو ہوتا ہی مستجاب الدعوات ہے ۔ امام ابوداؤد (رح) اپنی مسند میں ، اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں ۔ فرمایا : میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے سنا ہے کہ ” افطار کے وقت ہر روزہ دار ایک دعا کی قبولیت کا حق دار ہوتا ہے۔ “ چناچہ عبداللہ بن عمر (رض) جب بھی افطار کرتے تو اہل خاندان کو بلاتے اور دعا کرتے۔ ابن ماجہ نے اپنے سنن میں اپنی سند کے ساتھ عبداللہ بن عمررضی اللہ سے روایت کی ہے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہر روزہ دار کے لئے افطار کے وقت ایک دعا کی قبولیت کا حق ہے۔ “ مسند احمد ، ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت فرمائی ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تین افراد ایسے ہیں جن کی دعا مسترد نہیں ہوتی ۔ امام عادل ، روزہ دار یہاں تک کہ افطار کرے اور مظلوم کی پکار ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے بادلوں کے اوپر اٹھائے گا اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا :” میری عزت کی قسم میں ضرور تمہاری امداد کروں گا اگرچہ قدرے دیر سے ۔ “ یہی وجہ ہے کہ ذکر صیام میں دعا کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ اب اہل ایمان کے لئے رواے کے ضروری احکام بیان کردیئے جاتے ہیں ۔ روزہ دار کو اس بات کی اجازت مل جاتی ہے کہ ماہ رمضان میں مغرب سے لے کر طلوع فجر تک اپنی بیویوں کے پاس جاسکتے ہیں ، اسی طرح اس عرصہ میں کھانا بھی کھاسکتے ہیں ۔ روزے کا وقت بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک ہے ۔ اسی طرح مدت اعتکاف کے دوران بیویوں کے پاس جانے کا حکم بھی دے دیا جاتا ہے ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دعا کی فضیلت اور آداب تفسیر درمنثور ج ١ ص ١٩٤ میں ذکر کیا ہے کہ ایک شخص حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارا رب قریب ہے۔ جس سے ہم آہستہ طریقے پر مناجات کریں یاد و رہے جسے ہم زور سے پکاریں۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خامو شی اختیار...  فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت (وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ ) آخر تک نازل فرمائی اور حضرت عطاء بن ابی رباح نے بیان فرمایا کہ آیت (وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ) نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا کہ اگر ہمیں معلوم ہوجاتا کہ ہم کس وقت دعا کریں تو اچھا تھا اس پر آیت (وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ ) اخیر تک نازل ہوئی۔ گزشتہ آیات میں روزے کے احکام بیان ہوئے۔ رمضان المبارک کا مہینہ آخرت کمانے کا سیزن ہے اس میں کمائی بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٥٥) اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر رات ایک منا دی ندا دیتا ہے کہ اے خیر کی تلاش کرنے والے آگے بڑھ اور اے شر کے تلاش کرنے والے رک جا (سنن التر مذی ج ١ ص ١٢٢) اور اہل ایمان کی طبیعتیں نیکیوں کی طرف بہت زیادہ راغب ہوجاتی ہیں۔ روزے بھی رکھتے ہیں۔ نمازوں کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ فرضوں کے علاوہ مزید نمازیں پڑھتے ہیں ذکر و تلاوت میں لگتے ہیں۔ دعاؤں میں مشغول ہوتے ہیں۔ شب قدر کو زندہ رکھتے ہیں۔ رمضان میں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ مناسب ہوا کہ احکام رمضان کے درمیان دعا کی قبولیت کا ذکر کردیا جائے۔ آیت بالا میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قریب ہے وہ سب کی دعا سنتا ہے اور قبول بھی فرماتا ہے۔ اسی لیے اسْمَعُ نہیں فرمایا بلکہ اُجِیب فرمایا تاکہ قلبی دعا کو بھی شامل ہوجائے۔ سورة ق میں فرمایا۔ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ ) ” اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے نفس میں جو خیالات آتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ۔ “ صحیح بخاری ج ٢ ص ٩٤٤ میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم کسی اونچائی پر چڑھتے تو بلند آواز سے اللہ اکبر کہتے تھے آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کرو کیونکہ تم کسی ایسے کو نہیں پکار رہے ہو جو بہرہ ہے اور غائب ہے۔ تم تو سمیع اور بصیر کو پکار رہے ہو ...... حضرت سلمان فارسی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بیشک تمہارا رب شرمیلا ہے کریم ہے وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ بندہ جب اس کی طرف ہاتھ اٹھائے تو وہ ان ہاتھوں کو بغیر کسی خیر کے واپس فرمادے۔ (اخرجہ الترمذی فی ابواب الدعوات وحسنہ واخرجہ الحاکم فی المستدرک وقال علی شرط الشیخین اقرہ الذھبی) ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ دعا کرنے والا جلدی نہ کرے وہ کہتا ہے کہ میں نے دعا کی وہ قبول نہ ہوئی۔ (صحیح بخاری ج ٢ صفحہ ٩٣٨) ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کی دعا برابر قبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے بشرطیکہ جلدی نہ مچائے عرض کیا گیا کہ جلدی مچانے کا کیا مطلب ہے فرمایا جلدی مچانا یہ ہے کہ یوں کہنے لگے میں نے دعا کی اور لیکن مجھے قبول ہوتی نظر نہیں آتی یہ سمجھ کر تھک کر بیٹھ جائے اور دعا کو چھوڑ دے (صحیح مسلم ج ٢ صفحہ ٣٥٢) دعا برابر کرتے رہیں۔ رغبت کے ساتھ دل کو حاضر کرکے دعا کریں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : لیس شی اکرم علی اللّٰہ من الدعاء کہ اللہ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز فضیلت والی نہیں ہے اور ایک حدیث میں ہے الدعاء مخ العبادۃ کہ دعا عبادت کا مغز ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ ارشاد ہے فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ جس شخص کو یہ خوشی ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور بےچینیوں کے وقت اس کی دعاقبول کرے سو چاہئے کہ وہ اچھے حالات میں کثرت سے دعا کرے۔ دعا قبول ہونے کا کیا مطلب ہے اس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو بھی کوئی شخص کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سوال کے مطابق اسے عطا فرما دیتا ہے یا اس جیسی آنے والی کسی مصیبت کو روک دیتا ہے جب تک کہ گناہ گاری اور قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ (أخرج الاحادیث الاربعۃ الترمذی فی ابواب الدعوات) اور مسند احمد میں ایک بات کا اضافہ ہے اور وہ یہ کہ یا اس کی دعا کو اللہ تعالیٰ آخرت کے لیے ذخیرہ بنا کر رکھ دے گا (جو اسے آخرت میں کام دے گی) ۔ (مشکوۃ المصابیح ص ١٩٦) لوگ کہتے ہیں دعا قبول نہیں ہوتی حقیقت میں مانگنے والے ہی نہیں رہے۔ اول تو حضور قلب سے دعا نہیں کرتے۔ دوسرے حرام سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ حدیث شریف میں ہے کہ کوئی شخص لمبے سفر میں ہو۔ اس کے بال بکھرے ہوئے ہوں، جسم پر گرد و غبار اٹا ہوا ہو۔ وہ آسمان کی طرف ہاتھ پھیلاتے ہوئے یارب یارب کہہ کر دعا کرتا ہو اور حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے پینا حرام ہے اور اس کو حرام سے غذا دی گئی۔ پس ان حالات میں اس کی دعا کیوں کر قبول ہوگی۔ (صحیح مسلم ص ٣٢٦ ج ١) سنن ترمذی میں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ دعا ان مصیبتوں کے دور ہونے کے لیے بھی نافع ہے جو نازل ہو چکیں اور ان مصیبتوں کو روکنے کے لیے بھی جو نازل نہیں ہوئیں۔ سو اے اللہ کے بندو ! تم دعا کو لازم پکڑ لو۔ (ابواب الدعوات) سنن ترمذی میں ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ سے تم اس طرح دعا کرو کہ قبولیت کا یقین ہو اور یہ جان لو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ غافل اور لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔ آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا : (فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ ) کہ میرے تمام احکام کو قبول کریں اور میری ذات وصفات پر ایمان لائیں مجھ پر یقین اور بھروسہ رکھیں۔ ایسا کریں گے تو ہدایت پر ثابت قدم رہیں گے اور مزید ہدایت پائیں گے۔ قال صاحب الروح أی فلیطلبوا اجابتی لھم اذا دعوتھم للایمان والطاعۃ کما أنی اجیبھم اذا دعونی لحوائجھم (ج ٢ ص ٦٤) ۔ وقال القرطبی ج ٢ صفحہ ٢١٤ قال الھروی الرشد والرشد والرشاد الھدی والاستقامۃ و منہ قولہ تعالیٰ لعلھم یرشدون۔ وقال البیضاوی ج ا صفحۃ ١٣٠ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ اذا دعوتھم للایمان والطاعۃ کما اجیبھم اذا دعونی لمھماتھم وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ امر بالثبات والمداومۃ علیہ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ راجین اصابۃ الرشد وھو اصابۃ الحق۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

344 یہ جملہ معترضہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے سے قرب کا بیان ہے روزہ چونکہ قرب الٰہی حاصل کرنے کا موجب ہے اس لیے روزہ کے بعد قرب الٰہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ نیز پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور بڑائی کا بیان تھا اس لیے اس سے اللہ کے بعد کا تصور آسکتا تھا۔ اس لیے صحابہ (رض) نے عرض کی کہ یار... سول اللہ ہمارا خدا دور ہے یا نزدیک۔ اگر دور ہے تو اس کو زور زور سے پکاریں اور اگر نزدیک ہے تو آہستہ پکاریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ عَنِّىْ کے معنی ہیں میرے قرب اور بعد کے متعلق یعنی پیگمبر جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں کہ آیا ہمار رب قریب ہے یا دور، تو آپ ان سے فرمائیں کہ میں نزدیک ہوں دور نہیں ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ہر جگہ قریب ہے جہاں چاہو اس کی عبادت کرو اور جہاں سے چاہو پکارو لیکن مشرکین جو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی قبروں پر جا کر ان کو مافوق الاسباب حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارتے ہیں وہ اللہ کے بندے وہاں بھی ان سے دور ہوتے ہیں اور ان کی دعاء و پکار کو نہ سن سکتے ہیں اور نہ ان کی حاجت روائی کی قدرت رکھتے ہیں۔ 345 اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۔ یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کی دلیل بیان فرمائی ہے۔ یہاں اجابت کے معنی قبول کرنے کے ہیں اور دعاء کے معنی عبادت کے اور مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خالص میری عبادت کرتے ہیں اور توحید کے پابند ہیں ان کی عبادت اور پکار قبول کرلیتا ہوں تو اس سے معلوم ہوا کہ مشرک کی عبادت اور دعاء مردود ہوتی ہے ای اقبل عبادۃ من عبدنی فالدعاء بمعنی العبادۃ والاجابۃ بمعنی القبول (قرطبی ص 308 ج 2)346 جس طرح وہ مجھے حاجات میں پکارتے ہیں اور میں ان کی پکار سنتا ہوں اسی طرح انہیں بھی چاہئے کہ وہ میری دعوت ایمان و توحید قبول کریں اور میری اطاعت وفرمانبرداری کریں۔ فلیستجیبوا لی اذا دعوتھم للایمان والطاعۃ کما انی اجیبھم اذا دعونی لحوائجھم (مدارک ص 75 ج 1، روح ص 64 ج 2) ۔ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ ۔ اور خالص ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اس میں شرک کی ملاوٹ نہ کریں۔ امر بالثبات والمداومة علی الایمان (روح ص 64 ج 2) ۔ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ۔ تاکہ ان پر رشدوہدایت کے دروازے کھل جائیں اور وہ دین ودنیا کی مصالح کو سمجھ سکیں۔ ای یھتدون لمصالح دینھم ودنیا ھم (روح ص 64 ج 2)  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں کہ وہ قریب ہے یا بعید ہے تو میں تو قریب ہی ہوں اور اپنے بندوں سے دور نہیں ہوں اور جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے اور دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں اور اس کی پکار کو پہنچتا ہوں لہٰذا ان بندوں کو بھی چاہئے...  کہ وہ میرے احکام کو قبول کیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں اور میرے حاکم اور قادر مطلق ہونے پر یقین رکھیں ان کے اس طرز عمل سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ خیر و فلاح حاصل کرسکیں گے۔ (تیسیر) چونکہ اوپر کی آیتوں میں روزہ اور احکام صیام میں رعایتوں کا ذکر تھا اور رعایتوں کی حکمت اور تکبیر و شکر کا بیان تھا اس لئے اس آیت میں اپنے علم اور اپنے با خبر ہونے کا اظہار فرمایا کہ میں قریب ہی ہوں بندوں کے جملہ احوال سے واقف ہوں۔ اجابت اور استجابت مترادف المعنی ہیں جب اللہ تعالیٰ کی طرف یہ افعال منسوب ہوں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بندے کی درخواست قبول فرماتا ہے اور بندے کی طرف منسوب ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے احکام کو قبول کرے۔ مطلب یہ ہے کہ جب میرے بندے آپ سے سوال کریں تو آپ میری جانب سے فرما دیجئے کہ میں قریب ہی ہوں ان کے قریب سے مراد ان کا علم ہے یعنی میرے علم نے ہر شے کا احاطہ کر رکھا ہے اور مجھ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے مجھے میرے علم کے اعتبار سے یوں سمجھو کہ میں تم سے قریب ہی ہوں جب کوئی مجھ سے دعا کرتا ہے بشرطیکہ کسی نا مناسب اور بےہودہ بات کی درخواست نہ کرے اور دعا کے آداب کا لحاظ رکھے تو میں اسکی دعا کو قبول کرلیتا ہوں پھر یا تو جو مانگتا ہے وہی عطا کردیتا ہوں یا کبھی وہ تو نہیں دیتا بلکہ اس پر سے کوئی بلا اس دعا کی وجہ سے ٹال دیتا ہوں یا اس دعا کے بدلے میں اس کے لئے ثواب کا ذخیرہ کردیتا ہوں یعنی دعا تو ضرور قبول ہوتی ہے یہ نہ سمجھناچاہئے کہ دعا قبول نہیں ہوتی البتہ قبولیت کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ تفصیلات احادیث میں مروی ہیں۔ قرآن میں بھی دوسری جگہ ارشاد ہے ادعونی استجب لکم یعنی مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروں گا لیکن تمام باتیں ان کی مصالح پر موقوف ہیں بندہ بعض دفعہ ایسی چیز مانگ لیتا ہے جو دے دی جائے تو بندے کو ضرر پہنچ جائے اس لئے چونکہ حکیم ہیں ان کا ہر کام حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور وہی عطا کرتے ہیں جو بندے کے لئے مفید ہو۔ بعض لوگ عیش میں دعا نہیں کرتے اور مصیبت کے وقت دعا کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے جو شخص مجھ کو عیش و آرام میں پکارتا رہتا ہے میں مصیبت کے وقت اس کی دعا کو قبول کرلیتا ہوں اور جو بندہ عیش میں مجھ سے بےتوجہی کرتا ہے تو میں مصیبت کے وقت اس کی دعا قبول کرنے میں تاخیر کرتا ہوں۔ بہرحال چونکہ دعا کے قبول کرنے والے وہی ہیں اس لئے ان پر ایمان رکھنا چاہئے اور ہمیشہ ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور ان کے ہر حکم کے آگے گردن جھکانی چاہئے اگر تم نے اطاعت و فرمانبرداری کا شیوہ اختیار کیا تو امید ہے کہ بندے خیر و فلاح سے ہم کنار ہوسکیں گے اور دین و دنیا کی بھلائی کا راستہ پالیں گے رشد کے معنی ہیں راہ پانا اہل لغت نے کہا کہ یہ غی کا مقابل ہے جس کے معنی ہیں گمراہی کے رشد اور رشاد ہم معنی ہیں راہ یابی، استقامت حصول خیر ان سب معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اوپر کی آیت میں فرمایا کہ بڑائی کرو اللہ کی یعنی عید کے دن جو تکبیر کہتے ہیں بآواز بلند اس واسطے دوسری آیت میں فرمایا اللہ دور نہیں اور بلند آواز اور فائدے کے واسطے ہے ایک شخص نے حضرت سے پوچھا کہ ہمارا رب دور ہے تو ہم اس کو پکاریں یا نزدیک تو ہم آہستہ بات کہیں اس پر یہ آیت اتری۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عید کے دن جو تکبیر بلند آواز سے پڑھی جاتی ہے اس کے لئے فرمایا کہ وہ تو ایک خاص غرض سے ہے ہر موقعہ پر بلند آواز سے پکارنے کی ضرورت نہیں شاید وہ غرض یہ ہو کہ منکر دیکھیں کہ یہ مسلمان لوگ تیوہار کے دن بھی اللہ تعالیٰ ہی کی بڑائی بیان کرتے ہوئے عید گاہ جاتے ہیں دوسری قوموں کی طرح ان کے ہاں تیوہار میں بھی گانے بجانے کا حکم نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) اب آگے پھر رمضان کے متعلق احکام کا بیا ہے۔ ( تسہیل )  Show more