Noun

قَدِيرٌ

All-Powerful

قدرت والاہے

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
قَدَرَ
يَقْدِرُ
اِقْدِرْ
قَادِر
مَقْدُوْر
قَدْر/قُدْرَة
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْقُدْرَۃُں (قدرت) اگر یہ انسان کی صفت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اﷲ تعالیٰ کے قادر ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اﷲ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کاملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کی طرف نسبت ہوسکتی ہے اس لیے انسان کو مطلقاً ھُوَ قَادِرٌ کہنا صحیح نہیں ہے۔ بلکہ تقیید کے ساتھ ھُوَ قَادِرٌ عَلٰی کَذَا کہا جائے گا لہٰذا اﷲ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے۔ اَلْقَدِیْرُ: اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے۔ لہٰذا اﷲ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے۔ قرآن پاک میں ہے: (وَ ہُوَ عَلٰی جَمۡعِہِمۡ اِذَا یَشَآءُ قَدِیۡرٌ) (۴۲:۲۹) اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر… قادر ہے۔ اور یہی معنی تقریباً مُقْتَدِر کے ہیں جیسے فرمایا: (عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ) (۵۴:۵۵) ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں ۔ (فَاِنَّا عَلَیۡہِمۡ مُّقۡتَدِرُوۡنَ) (۴۳:۴۲) ہم ان پر قابو رکھتے ہیں۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے۔ اور جب اﷲ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں۔ محاورہ ہے۔ قَدَرْتُ عَلٰی کَذَا قُدْرَۃً کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی۔ قرآن پاک میں ہے: (لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا) (۲:۲۶۴) (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔ اَلْقَدْرُ واَلتَّقْدِیْرُ کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے: قَدَرْتُہٗ وَقَدَّرْتُہٗ اور قَدَّرَہٗ (تفعیل) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاورہ ہے۔ قَدَّرَنِیَ اﷲُ عَلٰی کَذَا وَقَوَّانِیْ عَلَیْہِ: اﷲ نے مجھے اس پر قدرت عطا فرمائی پس ’’تقدیرالٰہی‘‘ کی دو صورتیں ہیں (۱) اﷲ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا (۲)یا اﷲ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرزمخصوص پر بنانا جیساکہ اس کی حکمت کا تقاصا ہے اس لیے کہ فعل الٰہی دو قسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء ہی سے کسی چیز کو ایسا کامل وجود عطا کرنا کہ جب تک مشیت الٰہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیہا کی تخلیق (کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجود عطا فرمانا اور ان کو اس اندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پذیر نہ ہوسکیں جیساکہ خرما کی گٹھلی کے متعلق تقدیرالٰہی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب یا زیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان ہی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے۔ پس تقدیرالٰہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا۔ عام اس سے کہ وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چنانچہ آیت: (قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا) (۶۵:۳) خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے۔ میں یہی معنی مراد ہیں، دوم کسی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (فَقَدَرۡنَا فَنِعۡمَ الۡقٰدِرُوۡنَ) (۷۷:۲۳) پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم کیا ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اﷲ کا ہر حکم قابل ستائش ہے۔ اور آیت: (قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا) (۶۵:۳) خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قرأت فَقَدَّرْنَا (تشدید دال) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ: (نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ ہم نے تم میں مرنا ٹھہرا دیا۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اﷲ تعالیٰ ہی ہے اس لیے یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ زعم غلط ہے کہ اﷲ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے۔ اور آیت کریمہ: (اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ) ہم نے اس (قرآن پاک) کو شب قدر میں نازل کرنا شروع کیا۔ میں لَیْلَۃُ الْقَدْرِ سے خاص رات مراد ہے جسے امور مخصوصہ کی انجام دہی کے لیے اﷲ نے مقرر کررکھا ہے۔ نیز فرمایا: (اِنَّا کُلَّ شَیۡءٍ خَلَقۡنٰہُ بِقَدَرٍ) (۵۴:۴۹) ہم نے ہر چیز اندازۂ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے۔ اور آیت کریمہ: (وَ اللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ؕ عَلِمَ اَنۡ لَّنۡ تُحۡصُوۡہُ ) (۷۳:۲۰) اور خدا تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے۔ میں سلسلہ لیل و نہار کے اجراء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ: (مِنۡ نُّطۡفَۃٍ ؕ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ) (۸۰:۱۹) نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا۔ میں ان قوی کی طرف اشارہ ہے جو اﷲ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ دیعت کررکھے ہیں اور وہ وَقْتًا فَوَقْتًا صورت کا لباس پہن کر ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اور آیت کریمہ: (وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقۡدُوۡرَۨا) (۳۳:۳۸) اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جاچکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت ﷺ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:(1) (۷۸) (فَرَغَ رَبُّکُمْ مِنَ الْخَلْقِ وَالْاَجَلِ وَالرِّزْقِ) کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ خلق، عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جو وقتاً فوقتاً ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ جن کی طرف کہ آیت: (کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ) (۵۵:۲۹) وہ ہر روز کام میں مصروف رہتا ہے۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا: (وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ) (۱۵:۲۱) اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قَدَرٌ وَقَدُوْرٌ (بفتح الدال وسکونہا) دونوں طرح بولا جاتا ہے چنانچہ محاورہ خُذْبِقَدَرٍ کَذَا وَقَدْرٍ کَذَا (کہ اتنی مقدار میں لے لو) فُلَانٍ یُخَاصَمُ بَقَدَر وَقَدْر اور آیت کریمہ: (عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ) (۲:۲۳۶) (یعنی) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے۔ اور آیت کریمہ: (وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی ۪) (۸۷:۳) اور جس نے (اس کا) اندازہ ٹھہرادیا (پھر اس کو) رستہ بتایا کہ معنی یہ ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر چیز کو وہ کچھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمر ہے جیسے فرمایا: (الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی) (۲۰:۵۰) جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی۔ جب ’’تقدیر‘‘ کا فاعل انسان ہو تو اس کے دو معنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل و فکر کے مطابق کسی امر پر غوروفکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرانجام دینا۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غوروفکر کرے اور عقل و فکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا: (اِنَّہٗ فَکَّرَ وَ قَدَّرَ …… فَقُتِلَ کَیۡفَ قَدَّرَ) (۷۴:۱۸،۱۹) اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی۔ اور استعارہ کے طور پر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لیے مقرر ہوچکا ہو چنانچہ فرمایا: (اِلٰی قَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ) (۷۷:۲۲) ایک معین وقت تک۔ نیز فرمایا: (فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا ) (۱۳:۱۷) پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہہ نکلے۔ یعنی نالے اپنے اپنے ظرف کے مطابق بہہ نکلتے ہیں ایک قرأت میں بِقَدْرِھَا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ … کے ہے اور آیت کریمہ: (وَغَدَوْا عَلٰی حَرْدٍ قَادِرِیْنَ) (اور کوشش کے ساتھ) سویرے ہی جاپہنچے (گویا کھیتی پر) قادر ہیں۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کررکھا تھا۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جاپہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ: (فَالۡتَقَی الۡمَآءُ عَلٰۤی اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ ) (۵۴:۱۲) تو پانی ایک کام کے لیے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا۔ میں مراد ہیں۔ اور قَدَرْتُ عَلَیْہِ الشَّیْئَ کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب (یعنی بے اندازہ) آتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے۔ (وَ مَنۡ قُدِرَ عَلَیۡہِ رِزۡقُہٗ ) (۶۵:۷) اور جس کے رزق میں تنگی ہو۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو۔ نیز فرمایا: (اَللّٰہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ) (۱۳:۲۶) خدا جس پر چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ (فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ ) (۲۱:۸۷) اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ اور ایک قرأت میں لن نقدرعلیہ ہے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اور اقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے۔ اور آیت کریمہ: (وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ) (۳۹:۶۷) ان لوگوں نے اﷲ کی قدرشناسی جیسے کرنا چاہیے تھی نہیں کی۔ یعنی یہ لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادراک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہ (وَ الۡاَرۡضُ جَمِیۡعًا قَبۡضَتُہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ) (۳۹:۶۷) اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی۔ اور آیت کریمہ: (اَنِ اعۡمَلۡ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرۡ فِی السَّرۡدِ) (۳۴:۱۱) کہ کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑدو۔ میں قَدِّرْ فِی السَّرْدِ کے معنی یہ ہیں کہ مضبوط اور محکم زرہیں بناؤ۔ اور مِقْدَارُالشَّیْئِ: اس وقت یا زمانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ قرآن پاک میں ہے: (فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ) (۷۰:۴) اور اس روز (نازل ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا۔ اور آیت کریمہ: (لِّئَلَّا یَعۡلَمَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَلَّا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ ) (۵۷:۲۹) (یہ باتیں) اس لیے (بیان کی گئی ہیں) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے۔ پر بحث تاویل کے ساتھ مختص ہے (یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے۔) اَلْقِدْرُ: (دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: (وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ) (۳۴:۱۳) اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں۔ اور قَدَرْتُ اللَّحْمَ کے معنی ہنڈیا میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہنڈیا میں پکائے ہوئے گوشت کو قَدِیْرٌ کہا جاتا ہے۔ اَلْقُدَارُ: (قصاب) وہ شخص جو اونٹ کو نحر (ذبح) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے(2) (الکامل) (۳۵۱) ضَرْبَ الْقُدَارِ نَقِیْعَۃَ الْقُدَّامِ جیساکہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لیے گوشت کاٹتا ہے۔

Lemma/Derivative

45 Results
قَدِير
Surah:2
Verse:20
قدرت والاہے
All-Powerful
Surah:2
Verse:106
قدرت رکھنے والا ہے
(is) All-Powerful?
Surah:2
Verse:109
قدرت رکھنے والا ہے
(is) All-Powerful
Surah:2
Verse:148
خوب قدرت رکھنے والا ہے
All-Powerful
Surah:2
Verse:259
قادر ہے
All-Powerful"
Surah:2
Verse:284
قدرت رکھنے والا ہے
(is) All-Powerful
Surah:3
Verse:26
قادر ہے
All-Powerful
Surah:3
Verse:29
قادر ہے
All-Powerful"
Surah:3
Verse:165
قدرت رکھنے والا ہے
All-Powerful
Surah:3
Verse:189
قادر ہے
All-Powerful