Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 236

سورة البقرة

لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمۡ تَمَسُّوۡہُنَّ اَوۡ تَفۡرِضُوۡا لَہُنَّ فَرِیۡضَۃً ۚ ۖ وَّ مَتِّعُوۡہُنَّ ۚ عَلَی الۡمُوۡسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الۡمُقۡتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۲۳۶﴾

There is no blame upon you if you divorce women you have not touched nor specified for them an obligation. But give them [a gift of] compensation - the wealthy according to his capability and the poor according to his capability - a provision according to what is acceptable, a duty upon the doers of good.

اگر تم عورتوں کو بغیر ہاتھ لگائے اور بغیر مہر مقرر کئے طلاق دے دو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ، ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ دو ۔ خوشحال اپنے انداز سے اور تنگدست اپنی طاقت کے مطابق دستور کے مطابق اچھا فائدہ دے بھلائی کرنے والوں پر یہ لازم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Divorce before consummating the Marriage Allah says; لااَّ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاء مَا لَمْ تَمَسُّوهُنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدْرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ There is no sin on you, if you divorce women while yet you have not touched them, nor appointed for them their due (dowry). But give them a Mut`ah (a suitable gift), the rich according to his means, and the poor according to his means, a gift of reasonable amount is a duty on the doers of good. Allah allowed divorce after the marriage contract and before consummating the marriage. Ibn Abbas, Tawus, Ibrahim and Al-Hasan Al-Basri said that; `touched' (mentioned in the Ayah) means sexual intercourse. The husband is allowed to divorce his wife before consummating the marriage or giving the dowry if it was deferred. The Mut`ah (Gift) at the time of Divorce Allah commands the husband to give the wife (whom he divorces before consummating the marriage) a gift of a reasonable amount, the rich according to his means and the poor according to his means, to compensate her for her loss. Al-Bukhari reported in his Sahih that Sahl bin Sa`d and Abu Usayd said that; Allah's Messenger married Umaymah bint Sharahil. When she was brought to the Prophet he extended his hand to her, but she did not like that. The Prophet then ordered Abu Usayd to provide provisions for her along with a gift of two garments.

حق مہر کب اور کتنا: عقد نکاح کے بعد دخول سے بھی طلاق کا دینا مباح ہو رہا ہے ۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں مراد مس سے نکاح ہے دخول سے پہلے طلاق دے دینا بلکہ مہر کا بھی ابھی تقرر نہیں ہوا اور طلاق دے دینا بھی جائز ہے ، گو اس میں عورت کے بیحد دِل شکنی ہے ، اسی لئے حکم ہے کہ اپنے مقدور بھر اس صورت میں مرد کو عورت کے ساتھ سلوک کرنا چاہئے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اس کا اعلیٰ حصہ خادم ہے اور اس سے کمی چاندی ہے اور اس سے کم کپڑا ہے یعنی اگر مالدار ہے تو غلام وغیرہ دے اور اگر مفلس ہے تو کم سے کم تین کپڑے دے ۔ حضرت شعبی فرماتے ہیں درمیانہ درجہ اس فائدہ پہنچانے کا یہ ہے کہ کرتہ دوپٹہ لحاف اور چادر دے دے ۔ تشریح فرماتے ہیں پانچ سو درہم دے ، ابن سیرین فرماتے ہیں غلام دے یا خوراک دے یا کپڑے لتے دے ، حضرت حسن بن علی نے دس ہزار دئیے تھے لیکن پھر بھی وہ بیوی صاحبہ فرماتی تھیں کہ اس محبوب مقبول کی جدائی کے مقابلہ میں یہ حقیر چیز کچھ بھی نہیں ۔ امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ اگر دونوں اس فائدہ کی مقدار میں تنازعہ کریں تو اس کے خاندان کے مہر سے آدھی رقم دلوا دی جائے ، حضرت امام شافعی کا فرمان ہے کہ کسی چیز پر خاوند کو مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ کم سے کم جس چیز کو متعہ یعنی فائدہ اور اسباب کہا جا سکتا ہے وہ کافی ہوگا ۔ میرے نزدیک اتنا کپڑا متعہ ہے جتنے میں نماز پڑھ لینی جائز ہو جائے ، گو پہلا قول حضرت الامام کا یہ تھا کہ مجھے اس کا کوئی صحیح اندازہ معلوم نہیں لیکن میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ کم سے کم تیس درہم ہونے چاہئیں جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے ، اس بارے میں بہت سے اقوال ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ اسباب دینا چاہئے یا صرف اسی صورت کو جس سے میل ملاپ نہ ہوا ہو ، بعض تو سب کیلئے کہتے ہیں کیونکہ قرآن کریم میں ہے کہ آیت ( وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ ۭحَقًّا عَلَي الْمُتَّقِيْنَ ) 2 ۔ البقرۃ:241 ) پس اس آیت کے عموم سے سب کیلئے وہ ثابت کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی دلیل یہ بھی ہے آیت ( فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:28 ) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے کہو کہ اگر تمہاری چاہت دنیا کی زندگی اور اسی کی زینت کی ہے تو آؤ میں تمہیں کچھ اسباب بھی دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ چھوڑ دوں ، پس یہ تمام ازواج مطہرات وہ تھیں جن کا مہر بھی مقرر تھا اور جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی آ چکی تھیں ، سعید بن جبیر ، ابو العالیہ ، حسن بصری کا قول یہی ہے ۔ امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے اور بعض تو کہتے ہیں کہ ان کا نیا اور صحیح قول یہی ہے واللہ اعلم ۔ بعض کہتے ہیں اسباب کا دینا اس طلاق والی کو ضروری ہے جس سے خلوت نہ ہوئی ہو گو مہر مقرر ہو چکا ہو کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا ) 33 ۔ الاحزاب:49 ) یعنی اے ایمان والو تم جب ایمان والی عورت سے نکاح کر لو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر تمہاری طرف سے کوئی عدت نہیں جو عدت وہ گزاریں تم انہیں کچھ مال اسباب دے دو اور حسن کردار سے چھوڑ دو ، سعید بن مسیب کا قول ہے کہ سورۃ احزاب کی یہ آیت سورۃ بقرہ کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے ۔ حضرت سہل بن سعد اور ابو اسید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیہ بنت شرجبیل سے نکاح کیا جب وہ رخصت ہو کر آئیں اور آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے برا مانا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو اسید سے فرمایا اسے دو رنگین کپڑے دے کر رخصت کرو ، تیسرا قول یہ ہے کہ صرف اسی صورت میں بطور فائدہ کے اسباب و متاع کا دینا ضروری ہے جبکہ عورت کی وداع نہ ہوئی ہو اور مہر بھی مقرر نہ ہوا ہو اور اگر دخول ہو گیا ہو تو مہر مثل یعنی خاندان کے دستور کے مطابق دینا پڑے گا اگر مقرر نہ ہوا ہو اور اگر مقرر ہو چکا ہو اور رخصت سے پہلے طلاق دے دے تو آدھا مہر دینا پڑے گا اور اگر رخصتی بھی ہو چکی ہے تو پورا مہر دینا پڑے گا اور یہی متعہ کا عوض ہوگا ۔ ہاں اس مصیبت زدہ عورت کیلئے متعہ ہے جس سے نہ ملاپ ہوا نہ مہر مقرر ہوا اور طلاق مل گئی ۔ حضرت ابن عمر اور مجاہد کا یہی قول ہے ، گو بعض علماء اسی کو مستحب بتلاتے ہیں کہ ہر طلاق والی عورت کو کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے ان کے سوا جو مہر مقرر کئے ہوئے نہ ہوں اور نہ خاوند بیوی کا میل ہوا ہو ، یہی مطلب سورۃ احزاب کی اس آیت تخیر کا ہے جو اس سے پہلے اسی آیت کی تفسیر میں بیان ہو چکی ہے اور اسی لئے یہاں اس خاص صورت کیلئے فرمایا گیا ہے کہ امیر اپنی وسعت کے مطابق دیں اور غریب اپنی طاقت کے مطابق ۔ حضرت شعبی سے سوال ہوتا ہے کہ یہ اسباب نہ دینے والا کیا گرفتار کیا جائے گا ؟ تو آپ فرماتے ہیں اپنی طاقت کے برابر دے دے ، اللہ کی قسم اس بارے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا اگر یہ واجب ہوتا تو قاضی لوگ ضرور ایسے شخص کو قید کر لیتے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

236۔ 1 یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے ہم بستری کے بغیر طلاق دے دی تو انہیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو یہ فائدہ ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری نہیں۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے کسی نے کہا خادم کسی نے کہا 500 درہم کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ وغیرہ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے واللہ اعلم۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں تلخی کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر جو طلاق کا سبب ہوتا ہے احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی و دلداری کا اہتمام کرنا مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں ٰخاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٣٠] یعنی نکاح کے وقت نہ تو حق مہر مقرر ہوا اور نہ ہی صحبت کی نوبت آئی تو ایسی صورت میں حق مہر تو ہے ہی نہیں البتہ کچھ نہ کچھ دینے کی تاکید اس لیے فرمائی کہ رشتہ جوڑنے کے بعد صحبت سے پہلے ہی طلاق دینے سے عورت کو جو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی کسی حد تک تلافی ہو سکے۔ اس لیے تمام نیک لوگوں کو اس کی تاکید کی گئی اور اس سلسلہ میں جہاں تک ممکن ہو فراخدلی سے کام لینا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یعنی جس عورت کا عقد نکاح کے وقت کوئی مہر مقرر نہ ہوا ہو، اگر شوہر اسے ہاتھ لگانے (یعنی جماع یا خلوت صحیحہ) سے پہلے طلاق دے دے تو شوہر پر مہر وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا مالی تاوان نہیں۔ آیت میں ’ لَاجُنَاحَ ’‘ فرما کر اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ شوہر اپنی مالی حالت کے مطابق اسے کچھ دے کر رخصت کرے، اس اعانت کو ” متعۂ طلاق “ کہا جاتا ہے، سورة احزاب (٤٩) میں مزید بتایا کہ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق کی صورت میں عورت پر عدت بھی نہیں، بلکہ وہ شوہر سے رخصت ہو کر فوراً نکاح کرسکتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Keeping dower and consummation in view, divorce can be of four situations. The injunction concerning the first two of these has been stated in these verses. (1) Dower is not fixed and consummation has not taken place. (2) Dower is fixed but consummation has not taken place. (3) Dower is fixed and consummation has taken place. Here the fixed dower will have to be paid in full. This injunction appears elsewhere in the Holy Qur&an. (4) Dower has not been pre-fixed but divorce was given after consummation. Here full mahr al-mithl مھر المثل (a dower as in the divorcees& family) will have to be paid. It means the amount of the dower will be the same as customarily given in the immediate family circle of the woman. This too has been taken up in yet another verse of the Holy Qur&an. The injunction related to the first two situations has been stated in the verses appearing here. Out of the two, the injunction for the first situation is: No dower is due but it is obligatory for the husband to give something on his own to the woman -- the least being a set of clothes. In fact, the Holy Qur&an has not fixed any amount for this gift. However, it does indicate that the affluent should give in accordance with their capacity, which carries an element of persuasion for the man of means who should not behave tight-fisted in this act of grace. Sayyidna Hasan (رض) ، in a situation like this, gave a gift of twenty thousand dirhams to the divorced woman, and Qadi Shurayh, that of five hundred dirhams; and Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that the lowest degree here is to give one set of clothes. (Qurtubi)

خلاصہ تفسیر : حکم نمبر ٣٣ طلاق قبل الدخول کی صورت میں مہر کے وجوب اور عدم وجوب کا بیان : طلاق قبل الدخول کے معنی یہ ہیں کہ زوجین میں یک جائی اور خلوت صحیہ سے پہلے ہی طلاق کی نوبت آجائے اس کی دو صورتیں ہیں یا تو اس نکاح کے وقت مہر مقرر کی مقدار متعین نہیں کی گئی یا مقدار متعین کردی گئی پہلی صورت کا حکم اولا مذکور ہے۔ لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ (الی قولہ) حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ یعنی تم پر (مہر کا) کچھ مواخذہ نہیں اگر بیبیوں کو ایسی حالت میں طلاق دے دو کہ نہ ان کو تم نے ہاتھ لگایا ہے اور نہ ان کے لئے کچھ مہر مقرر کیا ہے (سو اس صورت میں مہر اپنے ذمہ مت سمجھو) اور (صرف) ان کو (ایک) فائدہ پہنچاؤ صاحب وسعت کے ذمہ اس کی حیثیت کے موافق ہے اور تنگدست کے ذمہ اس کی حیثیت کے موافق ہے، ایک خاص قسم کا فائدہ پہنچانا جو قاعدہ کے موافق واجب ہے خوش معاملہ لوگوں پر (یعنی سب مسلمانوں پر کیونکہ خوش معاملگی کا بھی سب ہی کو حکم ہے مراد اس سے ایک جوڑا کپڑوں کا دینا ہے) اور دوسری صورت کا حکم یہ ہے وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ (الی قولہ) اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ اور اگر تم ان بیبیوں کو طلاق دو قبل اس کے کہ ان کو ہاتھ لگاؤ اور ان کے لئے کچھ مہر بھی مقرر کرچکے تھے تو (اس صورت میں) جتنا مہر تم نے مقرر کیا ہو اس کا نصف (واجب) ہے (اور نصف معاف) مگر (دو صورتیں اس مجموعی حکم سے مستثنیٰ ہیں ایک صورت تو) یہ کہ وہ عورتیں (اپنا نصف) بھی معاف کردیں (تو اس صورت میں نصف بھی واجب نہ رہا) یا دوسری صورت یہ (ہے) کہ وہ شخص رعایت کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کا تعلق (رکھنا اور توڑنا) ہے (یعنی خاوند پورا مہر ہی اس کو دیدے تو اس صورت میں خاوند کی مرضی سے پورا ہی مہر ادا کرنا ہوگا) اور (اے اہل حق) تمہارا (اپنے حقوق کو) معاف کردینا (بہ نسبت وصول کرنے کے) تقویٰ سے زیادہ قریب ہے (کیونکہ معاف کرنے سے ثواب ملتا ہے اور ثواب کا کام کرنا ظاہر ہے کہ تقویٰ کی بات ہے) اور آپس میں احسان (اور رعایت) کرنے سے غفلت مت کرو (بلکہ ہر شخص دوسرے کے ساتھ رعایت کرنے کا خیال رکھا کرے) بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو خوب دیکھتے ہیں (تو تم اگر کسی کے ساتھ رعایت و احسان کرو گے اللہ تعالیٰ اس کی جزائے خبر تم کو دیں گے) (بیان القرآن) معارف و مسائل : لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ (الیٰ قولہ) اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ طلاق کی مہر اور صحبت کے لحاظ سے چار صورتیں ہو سکتی ہیں ان میں سے دو کا حکم ان آیات میں بیان کیا گیا ہے ایک یہ کہ نہ مہر مقرر ہو نہ صحبت وخلوت، دوسری یہ کہ مہر تو مقرر ہو لیکن صحبت وخلوت کی نوبت نہ آئے، تیسری صورت یہ ہے کہ مہر بھی مقرر ہو اور صحبت کی بھی نوبت آوے اس میں جو مہر مقرر کیا ہے پورا دینا ہوگا، یہ حکم قرآن مجید میں دوسرے مقام پر بیان کیا گیا ہے چوتھی صورت یہ ہے کہ مہر معین نہ کیا، اور صحبت یا خلوت کے بعد طلاق دی اس میں مہر مثل پورا دینا ہوگا یعنی جو اس عورت کی قوم میں رواج ہے اس کا بیان بھی ایک دوسری آیت میں آیا ہے۔ مذکورہ آیت میں پہلی دو قسموں کا حکم بیان کیا گیا ہے، اس میں سے پہلی صورت کا حکم یہ ہے کہ مہر کچھ واجب نہیں مگر زوج پر واجب ہے کہ اپنے پاس سے عورت کو کچھ دیدے کم ازکم یہی کہ ایک جوڑا کپڑے کا دیدے دراصل قرآن کریم نے اس عطیہ کی کوئی مقدار متعین نہیں کی البتہ یہ بتلا دیا کہ مالدار کو اپنی حیثیت کے مطابق دینا چاہئے جس میں اس کی ترغیب ہے کہ صاحب وسعت اس میں تنگی سے کام نہ لے۔ حضرت حسن نے ایسے ہی ایک واقعہ میں مطلقہ عورت کو بیس ہزار کا عطیہ دیا اور قاضی شریح نے پانسو درہم کا اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک جوڑا کپڑے کا دیدے (قرطبی)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَۃً۝ ٠ ۚۖ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۝ ٠ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۝ ٠ ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ۝ ٠ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ٢٣٦ جناح وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ في غير موضع، وجوانح الصدر : الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔ طلق أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] ( ط ل ق ) ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق/ 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ مسس المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] ، ( م س س ) المس کے معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔ اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة/ 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی فرض الفَرْضُ : قطع الشیء الصّلب والتأثير فيه، کفرض الحدید، وفرض الزّند والقوس، والمِفْرَاضُ والمِفْرَضُ : ما يقطع به الحدید، وفُرْضَةُ الماء : مقسمه . قال تعالی: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] ، أي : معلوما، فَرْضٌ. وكلّ موضع ورد ( فرض اللہ عليه) ففي الإيجاب الذي أدخله اللہ فيه، وما ورد من : ( فرض اللہ له) فهو في أن لا يحظره علی نفسه . نحو . ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] ( ف ر ض ) الفرض ( ض ) کے معنی سخت چیز کو کاٹنے اور اس میں نشان ڈالنے کے ہیں مثلا فرض الحدید لوہے کو کاٹنا فرض القوس کمان کا چلہ فرض الزند چقماق کا ٹکڑا اور فر ضۃ الماء کے معنی در یا کا دہانہ کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبادِكَ نَصِيباً مَفْرُوضاً [ النساء/ 118] میں تیرے بندوں سے ( غیر خدا کی نذر ( لو ا کر مال کا یاک مقرر حصہ لے لیا کروں گا ۔ ۔ اور فرض بمعنی ایجاب ( واجب کرنا ) آتا ہے مگر واجب کے معنی کسی چیز کے لحاظ وقوع اور ثبات کے ۔ اور ہر وہ مقام جہاں قرآن میں فرض علٰی ( علی ) کے ساتھ ) آیا ہے ۔ اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرا ردینے کے ہیں اور جہاں ۔ فرض اللہ لہ لام کے ساتھ ) آیا ہے تو اس کے معنی کسی چیز سے بندش کود ور کرنے اور اسے مباح کردینے کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما کان عَلَى النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيما فَرَضَ اللَّهُ لَهُ [ الأحزاب/ 38] پیغمبر پر اس کام میں کچھ تنگی نہیں جو خدا نے ان کے لئے مقرر کردیا ۔ متع ( سامان) وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء . ( م ت ع ) المتوع ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے وُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ قتر القَتْرُ : تقلیل النّفقة، وهو بإزاء الإسراف، وکلاهما مذمومان، قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] . ورجل قَتُورٌ ومُقْتِرٌ ، وقوله : وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، تنبيه علی ما جبل عليه الإنسان من البخل، کقوله : وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، وقد قَتَرْتُ الشیء وأَقْتَرْتُهُ وقَتَّرْتُهُ ، أي : قلّلته . ومُقْتِرٌ: فقیر، قال : وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، وأصل ذلک من القُتَارِ والْقَتَرِ ، وهو الدّخان الساطع من الشِّواء والعود ونحوهما، فكأنّ الْمُقْتِرَ والْمُقَتِّرَ يتناول من الشیء قتاره، وقوله : تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] ، نحو : غَبَرَةٌ «2» وذلک شبه دخان يغشی الوجه من الکذب . والقُتْرَةُ : ناموس الصائد الحافظ لقتار الإنسان، أي : الریح، لأنّ الصائد يجتهد أن يخفي ريحه عن الصّيد لئلّا يندّ ، ورجل قَاتِرٌ: ضعیف كأنّه قَتَرَ في الخفّة کقوله : هو هباء، وابن قِتْرَةَ : حيّة صغیرة خفیفة، والقَتِيرُ : رؤوس مسامیر الدّرع . ( ق ت ر ) ( القتر ( ن ) کے معنی بہت ہی کم خرچ کرنے اور بخل کرنے کے ہیں یہ اسراف کی ضد ہے اور یہ دونوں صفات مذمومیہ سے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم اسی سے صفت مشبہ کا صیغہ قتور ومقتر آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان فطرۃ کنجوس واقع ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں قترت الشئی واقتر تہ وقتر تہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے کے ہیں اور مقتر بمعنی فقیر ہے قرآن میں ہے : ۔ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] اور تنگد ست اپنی حثیت کے مطابق ۔ اصل میں یہ قتار وقتر سے ہے جس کے معنی اس دھواں کے ہیں جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے گویا مقتر اور مقتر بھی ہر چیز سے دھوئیں کی طرح لیتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی میں قترۃ غبرۃ کی طرح ہے مراد دھوئیں کی طرح سیاہی اور افسر دگی ہے جو جھوٹ کیوجہ سے چہرہ پر چھا جاتی ہے ۔ القترۃ شکار ی کی کین گاہ جو انسان کی بوکو بھی شکار تک نہیں پہچنے دیتی کیونکہ شکاری کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کی بو بھی شکار تک نہ پہنچنے تاکہ شکار بھاگ نہ جائے ۔ رجل قاتر کمزور آدمی ۔ گو یا وہ ضعف میں دھوئیں کی طرح ہے جیسا کہ کمزور آدمی کو ھو ھباء کہا جاتا ہے ۔ ابن قترۃ ایک بار یک اور چھوٹا سا سانپ القتیرۃ زرہ کی میخوں کے سرے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] . ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة/ 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت/ 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة/ 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة/ 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل/ 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مطلقہ کے متعہ کا بیان قول باری ہے (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء ما لم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ و متعوھن، تم پر کچھ گناہ نہیں اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو اس صورت میں انہیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے) مفہوم کے لحاظ سے عبارت اس طرح ہے۔ ” مالم تمسوھن ولم تفرضوا لھن فریضۃ “ (جب تک ہم نے انہیں ہاتھ نہ لگایا ہو اور ان کے لئے کوئی مہر مقرر نہ کی ہو) ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس آیت پر اس قول باری کا لطف ہے (و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ فنصف ما فرضتم، اور اگر تم نے انہیں طلاق دے دی جبکہ تم نے ان کے لئے مہر مقرر کی ہو تو مقرر شدہ رقم کا نصف ادا کرو) ۔ اگر پہلی آیت کا مفہوم یہ ہوتا کہ ” مالم تمسوھن و قد فرضتم لھن فریضۃ اولم تفرضوا۔ “ (جب تک کہ تم نے انہیں ہاتھ نہ لگایا ہو جبکہ تم نے ان کے لئے مہر مقرر کردی ہو یا نہ مقرر کی ہو) تو اس پر اس مطلقہ کا عطف نہ ہوتا جس کے لئے مہر کی رقم مقرر کردی گئی ہو۔ یہ تشریح اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آیت زیربحث میں حرف ” او “ بمعنی ” وائو “ ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے۔ قول باری ہے (ولا تطع منھم اثما او کفورا، آپ ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکرے کی بات نہ مانیں) اس کا معنی ہے۔ ” نہ کسی گنہگار کی اور نہ ہی کسی ناشکرے کی۔ “ اسی طرح قول باری ہے (و ان کنتم مرضی او علی سفر او جاء احدمنکم من الغائط، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو…) اس کا معنی یہ ہے۔ ” تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو درآنحالیکہ تم مریض اور مسافر ہو۔ اسی طرح قول باری (و ارسلناہ الی مائۃ الف او یزیدون) اور ہم نے اسے یعنی یونس (علیہ السلام) کو، ایک لاکھ یا اس سے زائد لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا) اس کا معنی ہے۔ ” ایک لاکھ اور اس سے زائد۔ “ ان مثالوں سے اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ لغت میں حرف او کا حرف وائو کے معنی میں استعمال موجود ہے۔ جب حرف ” او “ منفی فقرے میں موجود ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کا حرف ” وائو “ کے معنی میں استعمال زیادہ واضح ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ قول باری ہے (ولا تطع منھم آثما او کفورا) چونکہ اس حرف کا نفی پر دخول ہوا ہے اس لئے یہاں (او کفورا) کا معنی ” ولا کفورا “ ہے۔ ایک اور مثال یہ قول باری ہے (و حرمنا علیھم شحومھما الا ما حملت ظہورھما اوالحوایا او مااختلط بعظم) اور گائے اور بکری کی چربی بھی ہم نے ان پر حرام کردی تھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی ہڈی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے) ۔ ان تمام مواقع میں حروف ’ او ‘ بمعنی وائو ہے اس لئے ضروری ہے کہ قول باری (لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ) میں بھی حرف ’ او ‘ کو حرف وائو کے معنی میں لیا جائے کیونکہ نفی پر اس کا خول ہوا ہے اس بنا پر متعہ یعنی مطلقہ کو طلاق کے بعد ساز و سامان دینے کے وجوب کی دو شرطیں ہیں اول عدم مسیس یعنی ہاتھ نہ لگانا ہو اور مہر مقرر نہ کیا ہو۔ یعنی ان دونوں باتوں کا بیک وقت موجودگی پر وجوب متعہ لازم آتا ہے۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ہمبستری سے قبل حالض حیض میں بھی طلاق دے سکتا ہے۔ کیونکہ آیت میں طلاق کی مطلقاً اباحت ہے اور یہ تفصیل نہیں ہے کہ طلاق حالت طہر میں دی جائے حیض میں نہ دی جائے۔ وجوب متعہ کے متعلق سلف اور فقاء امصار کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ مطلقہ کو متعہ دیا جائے گا۔ زہری کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ ہر مطلقہ کو متعہ دی جائے گا البتہ اسے نہیں دیا جائے گا جس کے لئے مہر کی رقم مقرر کردی گئی ہو اور شوہر نے اسے ہاتھ نہ لگایا ہو۔ ایسی مطلقہ کے لئے مقررہ مہر کی نصف رقم کافی ہے۔ قاسم بن محمد سے بھی یہی مروی ہے۔ قاضی شریح، ابراہیم نخعی اور حسن بصری کا قول ہے کہ جس مطلقہ کے لئے مہر نہ مقرر کیا گیا ہو اور اسے ہمبستری سے پہلے ہی طلاق دے دی گئی ہو اسے متعہ لینے یا نہ لینے کا اختیار دیا جائے گا۔ قاضی شریح سے لوگوں نے قول باری (متاعا بالمعروف حقا علی المتقین، معروف طریقے سے متاع دو یہ متقین پر حق ہے) کے سلسلے میں متاع کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ” ہم متقین میں شامل ہونے سے انکار نہیں کرتے “۔ سائل نے کہا کہ ” میں محتاج ہوں یعنی میں متاع نہیں دے سکتا۔ “ اس پر قاضی شریح نے جواب میں پھر مذکورہ بالا فقرہ کہا۔ حسن بصری اور ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ ہر مطلقہ کو متاع یعنی متعہ ملے گا۔ سعید بن جبیر سے متعہ کے متعلق پوچھا گیا کہ آیا یہ تمام لوگوں پر واجب ہے، انہوں نے جواب میں کہا : ” نہیں، متقین پر واجب ہے “۔ ابن ابی الزناد نے کتاب البیعۃ میں اپنے والد سے روایت کی ہے کہ لوگ مطلقہ کو متاع دینا واجب نہیں سجھتے تھے۔ لیکن اللہ یک طرف سے یہ خصوصیت اور فضیلت جسے حاصل ہوجائے۔ عطاء نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے لئے مہر مقرر کر دے اور ہاتھ لگانے سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اب اسے متعہ یا متاع کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا۔ محمد بن علی کا قول ہے کہ متعہ اس مطلقہ کو ملے گا جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور جس کے لئے مہر مقرر کردیا ہو اسے متاع نہیں ملے گا۔ محمد بن اسحاق نے نافع سے روایت کی کہ حضرت ابن عمر (رض) مطلقہ کے لئے متعہ واجب نہیں سمجھتے تھے، البتہ اس مطلقہ کو متعہ دینا واجب خیال کرتے تھے جس کے ساتھ کسی معاوضے پر نکاح کیا گیا ہو اور ہمبستری سے پہلے یہ اسے طلاق مل گئی ہو۔ معمر نے زہری سے روایت کی ہے کہ متعہ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک متعہ وہ ہے جس کا فیصلہ سلطان کرتا ہے اور دوسرا وہ جو متقین پر لازم ہوتا ہے جس شخص نے اپنی بیوی کو مہر مقرر کرنے اور ہمبستری کرنے سے قبل طلاق دے دی اس سے متعہ وصول کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کے ذمے مہر کی رقم واجب نہیں ہوتی اور جس نے ہمبستری کرنے یا مہر مقرر کرنے کے بعد طلاق دے دی ہو تو اس پر متعہ حق یعنی لازم ہے۔ مجاہد سے بھی یہی منقول ہے۔ متعہ کے متعلق سلف کے یہ اقوام منقول ہیں۔ فقائے امصار میں سے امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، اور زفر کا قول یہ ہے کہ جس مطلقہ کو ہاتھ لگانے اور ہمبستری کرنے سے پہلے طلاق مل گئی ہو اسے متعہ دینا واجب ہے اگر ہمبستری ہوگئی ہو تو اسے بھی متعہ ملے گا لیکن مرد کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ یہی سفیان ثوری، حسن بن صالح اور اوزاعی کا قول ہے تاہم امام اوزاعی کا قول ہے کہ اگر زوجین میں سے ایک مملوک ہو تو متعہ واجب نہیں ہوگا خواہ شوہر نے ہمبستری سے قبل طلاق دے دی ہو اور اس کے لئے مہر بھی مقرر نہ کیا ہو۔ ابن ابی لیلیٰ اور ابوالزناد کا قول ہے کہ متعہ واجب نہیں ہے۔ مرد اگر چاہے تو متعہ دے دے اگر نہ چاہے تو نہ دے اسے مجبور نہیں کیا جائے گا۔ ان دونوں فقاء نے اس مسئلے میں مدخول بہا اور غیرمدخول بہا کے درمیان اور اسی طرح مہر کی رقم مقرر ہونے کی صورت اور نہ ہون کی صورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ کسی کو متعہ دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا خواہ اس نے مہر کی رقم مقرر کی ہو یا نہ کی ہو اور خواہ اس نے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو۔ متعہ دینا ایک ایسا فعل ہے جسے کرلینا چاہیے۔ اس پر کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ لعان کی صورت میں عورت کو کسی حال میں بھی متعہ نہیں دیا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر مطلقہ کے لئے متعہ واجب ہے۔ اسی طرح ہر بیوی کے لئے بھی علیحدگی جب شوہر کی جانب سے ہوئی ہو یا اس نے علیحدگی کے عمل کو اختتام تک پہنچایا ہو۔ البتہ اگر شوہر نے اس کے لئے مہر مقرر کیا ہو لیکن دخول سے پہلے طلاق دے دی ہو اس کے لئے متعہ واجب نہیں ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم سب سے پہلے ایجاب متعہ پر گفتگو کریں گے اور پھر ان لوگوں کے دلائل کا جائزہ لیں گے جو ہر مطلقہ کے لئے وجوب متعہ کے قائل ہیں۔ متعہ کے وجوب کی دلیل یہ قول باری ہے (لاجناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضۃ و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ حقا علی المحسنین، تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو ہاتھ لگانے یا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو ، البتہ انہیں متعہ دو ، خوش حال پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، نیکو کاروں پر ایک حق ہے۔ ایک دوسری آیت میں فرمایا (یایھا الذین امنوا اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن و سرحوھن سواحا جمیلا، اے ایمان والو ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت نہیں جو وہ گزاریں گی، انہیں متعہ دو اور بھلے طریقے سے انہیں رخصت کر دو ) ۔ ایک اور آیت میں فرمایا (وللمطلقات متاع بالمعروف حقا علی متقین) طلاق پانے والی عورتوں کے لئے معروف طریقے سے متعہ ہے، اور یہ متقین پر ایک حق ہے۔ یہ آیات وجوب متعہ پر مشتمل ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول قول باری (فمتعوھن) میں متعہ کا امر ہے اور امر وجوب کا مقتضی ہوتا ہے۔ البتہ اگر استحباب پر دلالت قائم ہوجائے تو پھر وجوب مراد نہیں ہوتا۔ دوم قول باری (متاعاً بالمعروف حقا علی محسنین) ایجاب کے لئے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان میں ’ حقا ‘ سے بڑھ کر کوئی اور لفظ تاکید کا معنی نہیں دیتا۔ سوم قول باری (حقا علی محسنین) اس کے ایجاب کی تاکید کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کو احسان کی شرط قرار دیا اور ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ نیکو کاروں میں شامل ہو۔ ای طرح (حقا علی المحسنین) کی دلالت وجوب پر ہو رہی ہے اور (حقاً علی متقین) اس کے ایجاب کی تاکید ہے۔ اسی طرح قول باری (فمتعوھن و سرحوھن) چونکہ امر کے صیغے پر مشتمل ہے۔ اس لئے وجوب پر دلالت کر رہا ہے۔ نیز قول باری (وللمطلقات متاع بالمعروف) وجوب کا مقتضی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ مطلقہ عورتوں کے لئے مقرر کیا ہے اور جو چیز کسی کے لئے مقرر کردی جائے وہ اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اسے اس کے مطالبہ کا حق ہوتا ہے مثلاً آپ کہتے ہیں ” ھذہ الدار لزید “ (یہ گھر زید کے لئے ہے) یعنی یہ زید کی ملکیت اور بوقت ضرورت اسے اس کے مطالبہ کا حق حاصل ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے متعہ کے ایجاب کے سلسلے میں محسنین اور متقین کا خصوصیت سے ذکر کیا تو اس سے دلالت حاصل ہوئی کہ متعہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ اس لئے کہ واجبات کے لزوم میں محسن یا غیرمحسن اور متقی یا غیرمتقی میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ محسنین اور متقین کا ذکر متعہ کے وجوب کی تاکید کے لئے ہے اور خصوصیت سے ان کے ذکر سے دوسروں پر اس کے وجوب کی نفی لازم نہیں آتی۔ اس کی مثال قول باری (ھدی للمتقین، یہ کتاب پرہیزگاروں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے) ہے۔ جبکہ قرآن مجید تمام انسانوں کے لئے ذریعہ ہدایت ہے۔ چناچہ قول باری ہے (شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس، رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لئے ہدایت ہے) ۔ اس لئے قول باری (ھدی للمتقین) سے یہ بات واجب نہں ہوتی کہ قرآن مجید متقین کے علاوہ دوسروں کے لئے باعث دایت نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح قول باری (حقا علی المحسنین) اور (حقا علی المتقین) سے ان کے علاوہ دوسروں پر اس کے حق ہونے کی نفی ہو ری ہے۔ نیز ہم محسنین اور متقین پر متعہ اس آیت کے ذریعے واجب کرتے ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں پر قول باری (فمتعوھن و سیدحوھن سراحا جمیلا) سے واجب کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ آیت بالاتفاق سب کے لئے عام ہے۔ کیونکہ فقائے امصار میں سے جن لوگوں نے محسنین اور متقین پر متعہ واجب کیا ہے انہوں نے دوسروں پر بھی اسے واجب کیا ہے۔ معترض کے استدلال سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ متعہ کو ندب یعنی مستحب قرار نہ دے اس لئے کہ جو چیز مستحب ہوتی ہے اس میں متقی اور غیرمتقی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اب جبکہ متعہ کے استحباب کے سلسلے میں متقین اور محسنین کا خصوصیت سے ذکر جائز ہے حالانکہ اس معاملے میں وہ اور ان کے سوا دوسرے لوگ یکساں ہوتے ہیں تو پھر متعہ کے ایجاب کے سلسلے میں خصوصیت سے ان کا ذکر جائز ہے اور وہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ اس معاملے میں یکساں ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب مہر کی وجہ سے عائد ہونے والی رقموں نیز ادھار اور قرض کے تحت لین دین کی تمام صورتوں میں متعلقہ لوگوں پر رقوم واجب کرتے وقت متقین اور محسنسن کا خصوصیت کے ساتھ ذکر نہیں کیا لیکن متعہ کے سلسلے میں ان کا ذکر کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ متعہ واجب نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب لفظ ایجاب تمام صورتوں میں موجود ہے تو ہمارے لئے لفظ کے مقتضیٰ کے بموجب حکم لگانا ضروری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے متعہ کے سلسلے میں جن لوگوں پر لفظ حق کے ساتھ وجوب کا اطلاق کیا تو اس کی تاکید کی خاطر تقویٰ اور احسان کے ذکر کے ساتھ ایسے لوگوں کی تخصیص کردی۔ اب تاکید کی صورتیں مختلف ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ تقویٰ اور احسان کی شرطوں کے ساتھ مقید ذکر کے ساتھ تاکید کا معنی پیدا کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں لفظ ادا کی تخصیص کے ساتھ ایسا کیا جاتا ہے مثلاً قول باری ہے (و اتوا النساء صدقاتھن نحلۃ) اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ فرض جانتے ہوئے ادا کرو) نیز قول باری ہے (فلیود الذی ائو تمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ، جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کر دے اور اللہ اپنے رب سے ڈرتا رہے) کسی صورت میں گواہ مقرر کرنے اور رن رکھنے کا حکم دے کر یہ معنی پیدا کیا جاتا ہے۔ اس لئے تاکید کے لفظ سے ایجاب کی نفی پر کس طرح استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور پہلو سے دیکھئے ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ عقد نکاح میں بدل واجب کرنا ضروری ہوتا ہے بشرطیکہ وہ بدل مقررہ مہر کی صورت میں ہو اور اگر یہ نہ ہو تو پھر مہر مثل ہوتا ہے۔ پہلی صورت میں جبکہ مہر کی رقم مقرر ہو۔ ہمبستری سے پہلے ہی اگر طلاق وارد ہوجائے تو بضع (یعنی تلذذ جنسی کے حصول کے لئے اعضائے نسوانی پر قدرت) بدل کا ضرور مستحق ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نکاح دوسرے تمام عقود سے جدا ہے۔ اس لئے کہ فروخت شدہ چیز کا فروخت کنندہ کی ملکیت میں واپس آ جانا پورے ثمن یعنی قیمت کے سقوط کو واجب کردیتا ہے۔ دوسری طرف ہمبستری سے قبل طلاق کی وجہ سے عورت کے بضع سے شوہر کے حق کا سقوط اسے کسی نہ کسی بدل کے استحقاق سے خارج نہیں کرتا اور یہ بدل مقررہ مہر کا نصف ہوتا ہے۔ اس لئے اگر عقد نکاح میں مہر مقرر نہ ہو تو اس صورت میں بھی بضع کو بدل کا مستحق ٹھہرا کر اسے کچھ نہ کچھ دیا جائے گا۔ ان دونوں صورتوں میں جو مشترک بات ہے وہ یہ کہ دونوں میں ہمبستری سے قبل ہی طلاق ہوگئی ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہے کہ مہر مثل کا استحقاق عقد نکاح کے ساتھ ہی ہوجاتا ہے اور متعہ مہر مثل کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا وجوب اسی طرح ضروری ہے جس طرح مقرر شدہ مہر کا نصف کا وجوب لازمی ہوتا ہے جب اسے دخول سے پہلے طلاق ہوجائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مہر تو نقدی یعنی دراہم و دنانیر اور روپوں پیسوں کی صورت میں ہوتا ہے جبکہ متعہ جنس یعنی کپڑوں وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ متعہ بھی ہمارے نزدیک درہم و دینار کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر شوہر اسے نقدی کی شکل میں متعہ دے دیتا ہے تو اسے کسی اور شکل میں متعہ دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے یہ جو کہا ہے کہ متعہ مہر مثل کا بعض حصہ ہوتا ہے۔ یہ امام محمد کے مسلک کے مطابق درست ہے۔ اس لئے کہ ان کا قول یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو مہر مثل کیب دلے رہن رکھ دیا اور اسے ہمبستری سے قبل طلاق دے دی تو اب رہن متعہ کے بدلے ہوگا اور رہن کا حبس اسی متعہ کے بدلے میں سمجھا جائے گا۔ اگر رن ہلاک ہوجائے تو اس کے ساتھ متعہ بھی جاتا رہے گا۔ لیکن امام ابو یوسف کے نزدیک یہ رہن متعہ کے بدلے نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے اگر رہن ہلاک ہوجائے تو اس کے ساتھ کوئی چیز ہلاک نہیں ہوگی اور شوہر پر متعہ واجب رہے گا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ امام ابو یوسف متعہ کو مہر مثل کا ایک حصہ نہیں سمجھتے لیکن انہوں نے ظاہر قرآن کے مقتضیٰ کے بموجب اور اس استدلال کے مطابق شوہر پر متعہ واجب کیا ہے کہ ہمبستری سے قبل طلاق مل جانے پر بضع کو کوئی نہ کوئی بدل ملنا چاہیے اور یہ کہ خواہ عقد نکاح میں مہر کی مقدار مقرر کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو اس سے اس حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ملک بضع کا حصول کسی بدل کے بغیر جائز نہیں ہے۔ اس لئے عقد نکاح کے وقت مہر کی رقم مقرر نہ کرنے کی صورت میں مہر مثل کا اسی طرح وجوب ہوجاتا ہے جس طرح مقرر شدہ مہر کا ہوجاتا ہے۔ اس لئے دخول سے پہلے طلاق مل جانے پر بضع کے بدل کے طور پر ان دونوں صورتوں کے حکم کا یکساں ہونا ضروری ہے اور یہ کہ متعہ مہر مثل ک ایک حصے کا قائم مقام بن جائے گا اگرچہ متعہ مہر مثل کا ایک حصہ نہیں ہوتا۔ متعہ کا مہر مثل کے ایک حصے کے قائم مقام ہونے کی صورت بعینہ وہی ہے جس طرح کہ قیمتیں صرف شدہ چیزوں کی قائم مقام بن جاتی ہیں جس عورت کے لئے مہر مقرر کردیا گیا ہو اور اسے ہمبستری سے قبل طلاق مل گئی ہو۔ اس کے متعلق ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اسے نصف مہر کی جو رقم ملے گی وہی اس ک متعہ بن جائے گی اس بنا پر متعہ ہر اس چیز کا نام ہوگا جس کا ہمبستری سے قبل طلاق ملنے کی صورت میں استحقاق ہوگا اور یہ بضع کا بدل بن جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب متعہ مہر مثل کے بعض حصے کا قائم مقام ہوتا ہے تو یہ مر کا عوض ہوگا اور مہر کا عوض طلاق سے پہلے واجب نہیں ہوتا تو یہ طلاق کے بعد بھی واجب نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ متعہ مہر مثل کا بدلہ ہے اگرچہ وہ اس کا قائم مقام مانا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ قیمتیں صرف شدہ چیزوں کا بدل بن جاتی ہیں بلکہ جب یہ قیمتیں ان چیزوں کی قائم مقام بن جاتی ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ گویا قیمتیں ہی چیزیں ہیں۔ دیکجھئے جب مشتری کوئی چیز خرید لیتا ہے تو اس چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کے لئے جائز نہیں ہوتا کہ وہ بیع یا اور کسی وجہ سے اس چیز کا بدل لے لے۔ اس چیز کو اگر کسی صارف نے صرف کرلیا ہو تو مشتری اس صارف سے اس چیز کی قیمت وصول کرے گا۔ کیونکہ قیمت ہی اب اس چیز کی قائم مقام بن جائے گی۔ گویا قیمت ہی اب وہ چیز ہے اس میں عوض کا مفہوم شامل نہیں ہوتا۔ اس لئے متعہ کی صورت میں بھی عوض کا مفہوم شامل نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ بضع کے بدل کے طور پر لازم ہونے والے مہر مثل کے بعض حصے کا قائم مقام بن جائے گا جس طرح کہ مقررہ مہر کا نصف طلاق کی صورت میں بضع کا بدل بن جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ متعہ اگر بضع کے بدل کے طور پر لازم ہونے والے مہر مثل کیب عض حصے کے قائم مقام ہوتا تو عورت کی حیثیت کے لحاظ سے اس کا اعتبار کرنا ضروری ہوتا جس طرح کہ مہر مثل میں ہوتا ہے اس میں شوہر کی حیثیت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول (و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) سے مرد کی حیثیت کے اعتبار کو واجب قرار دے دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ متعہ بضع کا بدل نہیں ہوتا تو یہ طلاق کا بدل بھی نہیں بنس کتا کیونکہ بضع کو متعہ کا حصول طلاق کی بناء پر ہوتا ہے۔ اس لئے یہ جائز نہیں کہ متعہ کا استحقاق اس چیز کے بدل کے طور پر ہو جو اسے یعنی بضع کو حاصل کرنے والا ہو۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ متعہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا اور جب بدل نہیں ہوتا تو یہ واجب بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں کا جائے گا کہ معترض کا یہ قول درست نہیں ہے کہ متعہ میں مرد کی حیثیت کا اعتبار کیا جاتا ہے عورت کی حیثیت کا نہیں کیونکہ ہمارے متاخرین فقاء کا اس کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے شیخ ابوالحسن (رح) کہا کرتے تھے کہ اس میں عورت کی حیثیت کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔ اس صورت میں آیت کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی کیونکہ ہ اس کے ساتھ مرد کی حیثیت کا اعتبار کر کے آیت کے حکم پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارے بعض فقہاء کا قول ہے کہ اس میں مرد کی حیثیت کا اعتبار کیا جائے گا عورت کی حیثیت کا نہیں لیکن اس قول پر بھی معترض کا اعتراض لاحق ہوتا ہے کیونکہ اس کا کہنا یہ ہے کہ مہر مثل کے سلسلے میں عورت کی حیثیت کا اس حالت میں اعتبار واجب ہوتا ہے جب شوہر کو ملک بضع حاصل ہوتا ہے یعنی ہمبستری کے ذریعے یا موت کے ذریعے جو اس لحاظ سے ہمبستری کی قائم مقام ہوتی ہے کہ اس سے پورے مہر کا استحقاق ثابت ہوجاتا ہے۔ اس لئے مہر مثل بمنزلہ تلف کردہ چیزوں کی قیمتوں کے ہوجائے گا جن کا اعتبار ان چیزوں کی اپنی ذات کے لحاظ سے کیا جاتا ہے جبکہ متعہ ہمارے نزدیک اسی وقت واجب ہوتا ہے جب مرد کی طروف سے کسی سبب کی بناء پر بضع سے اس کا حق ساقط ہوجاتا ہے اور ابھی ہمبستری یا ہمبستری کے قائم مقام کوئی بات پیش نہیں آئی ہوتی۔ اس لئے متعہ کے سلسلے میں عورت کی حیثیت کا اعتبار واجب نہیں ہوتا۔ کیونکہ بضع زوج کو حاصل نہیں ہوا بلکہ شوہر کی طرف سے کسی سبب کی بنا پر عورت کو ہی حاصل رہا اور ہمبستری کا حکم بھی ثابت نہیں ہوا۔ اس لئے متعہ میں مرد کی حالت کا اعتبار کیا جائے گا عورت کا نہیں نیز اگر ہم معترض کا یہ قول تسلیم کرلیں کہ متعہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا تو یہ بات اس کے وجوب سے مانع نہیں ہے۔ کیونکہ نان و نفقہ کی مثال میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہی ہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بضع کا بدل مہر ہے اور مرد عقد نکاح کے ساتھ ہی اس کا مالک ہوجاتا ہے۔ اب رہ گئی ہمبستری اور تلذد جنسی تو وہ صرف اپنے ملک میں تصرف کی ایک صورت ہوتی ہے اور کسی کا اپنے ملک میں تصرف اس پر کسی بدل کو واجب نہیں کرتا لیکن یہ بات نان و نفقہ کے وجوب کے لئے بھی مانع نہیں ہے۔ اسی بنا پر نص کتاب اور اتفاق امت کی رو سے ایک شخص پر اس کے باپ اور اس کے نابالغ بچے کا نفقہ واجب ہوتا ہے حالانکہ یہ کسی چیز کا بدل نہیں ہوتا اور بدل نہ ہونا اس کے وجوب کے لئے مانع بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح زکوٰۃ اور کفارہ کی تمام صورتیں کسی چیز کا بدل نہیں ہوتیں حالانکہ یہ واجب ہوتی ہیں۔ اس بناء پر متعہ کے بدل نہ ہونے کو اس کے ایجاب کی نفی کے لئے دلیل بنانا غفلت کی نشانی ہے نیز یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ متعہ کے سلسلے میں مرد اور عورت کی حیثیتوں کا اعتبار دراصل متعہ کی مقدار سے تعلق رکھنے والی بحث ہے اور ظاہر ہے کہ اس بحث کا متعہ کے ایجاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی اس کی نفی سے نیز اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ اگر متعہ واجب نہ ہوتا تو اس کی مقدار کا تعین قول باری (علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) کی بنا پر مرد کی حیثیت کے مطابق نہ ہوتا کیونکہ جو چیز واجب نہیں ہوتی اس کا اعتبار مرد کی حیثیت کے لحاظ سے نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اسے اختیار ہوتا ہے کہ خوشحالی اور تنگ دستی میں وہ اس چیز کے متعلق جو رویہ اپنانا چاہے اپنا سکتا ہے۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے مرد کی حیثیت کی روشنی میں اس کی مقدار کے تعین کا حکم دیا اور اسے مطلق نہیں رکھا کہ مرد جو چاہے کرے تو یہ چیز متعہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اس استدلال میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے کہ یہ اس زیر بحث مسئلہ میں ابتدائی دلیل کا کام دے۔ اس قائل کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ (علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ) تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ متعہ اس تنگ دست پر واجب ہی نہ ہو جو کسی چیز کا مالک نہیں ہے اور جب اسے لازم نہیں ہوگا تو خوش حال پر بھی واجب نہیں ہوگا۔ اور جو شخص تنگ دست پر متعہ واجب کرے گا وہ ظاہر کتاب کے دائرے سے خارج قول کا قائل ہوگا کیونکہ جس شخص کے پاس کوئی مال نہیں ہوگا آیت اس پر متعہ کے وجوب کا تقاضا نہیں کرے گی اس لیے کہ اس کے پاس مال ہی نہیں ہے کہ اس کی مقدار کا تعین کیا جاسکے۔ اس لیے یہ جائز ہی نہیں ہے کہ ہم متعہ کو اس کے ذمے دین قرار دیں اور نہ ہی وہ اس متعہ کے لزوم کا مکاطب ہی ہے۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا قائل کا یہ قول آیت کے معنی سے اس کے غفلے کی نشانی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ خوشحال پر اس کے مال کی مقدار متعہ ہے اور تنگدس پر اس کے مال کی مقدار بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ۔ اس لیے تنگ دست کی جو حیثیت ہوگی اس کے مطابق متعہ کا اعتبار کیا جائے گا اور وہ حیثیت یہ ہے کہ اس کے ذمہ متعہ کا ثبوت ہوجائے گا یہاں تک کہ مال اس کے ہاتھ ٓجائے گا تو وہ اسے ادا کردے گا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد باری ہے۔ و علی المولود لہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف۔ اللہ تعالیٰ نے معروف طریقے سے بچے کے باپ پر دودھ پلانے والی کا کھانا اور کپڑا واجب کردیا اور اگر وہ تنگ دست ہوتا کہ اس کی ملکیت میں کوئی چیز نہ ہوتی پھر بھی وہ آیت کے حکم سے خارج نہ ہوتا کیونکہ اس کے اوپر ایک ذمہ داری ہے جس کے تحت نفقہ واجب ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اسے جب یہ حاسل ہوجائے گا وہ اس کی ادائیگی کردے گا۔ متعہ اور تمام دوسرے حقوق کے سلسلے میں جو انسان کے ذمے واجب ہوتے ہیں اور یہی ذمہ اعیان کی طرح ہوتا ہے۔ تنگ دست کا بھی یہی حکم ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تنگ دست کو اس مال کے بدلے خرید لینا جائز ہے جو اس کے ذمے ہو یہاں عین کے بدل کے سلسلے میں ذمہ عین کے قائم مقام بن گیا۔ اسی طرح تنگ دست مفلوک الحال شوہر کا ذمہ شرعی لحاظ سے درست اور صحیح ذمہ ہے جس میں متعہ کا اثبات اسی طرح درست ہے جس طرح تمام نفقات اور دیون کا اثبات درست ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں مہر مقرر کئے بغیر نکاح کے جواز پر دلالت موجود ہے اس لئے کہ اببہ تعالیٰ نے طلاق کی صحت کا حکم لگا دیا ہے خواہ مہر مقرر نہ بھی ہو اور طلاق تو صرف نکاح صحیح پر ہی واقع ہوتی ہے۔ آیت میں یہ مفہوم بھی موجود ہے کہ اگر شوہر نے نکاح میں مہر نہ ہونے کی شرط لگا دی ہو تو اس سے نکاح فاسد نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں جب مہر سے سکوت اور مہر مقرر نہ کرنے کی شرط کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے تو آیت کے حکم کا اطلاق دونوں صورتوں پر ہوگا۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر مرد نے نکاح میں مہر نہ ہونے کی شرط لگا دی تو اس کا نکاح فاسد ہوگا۔ اگر دخول ہوجائے تو نکاح کی صحت کا حکم لگا دیا جائے گا اور عورت کو مہر مثل مل جائے گا زیر بحث آیت نے جو از نکاح کا فیصلہ دے دیا ہے اور اگر اس نے مہر نہ ہونے کی شرط لگا بھی دی تو یہ بات مہر نہ مقرر کرنے سے بڑھ کر نہیں ہے۔ اب اگر مہر مقرر نہ کرنا عقد نکاح کے لئے قادح نہیں ہے تو عدم مہر کی شرط بھی اس کے لئے قادح نہیں ہوسکتی۔ ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ متعہ مدخول بہا کے لئے واجب نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ متعہ ملک بضع کا بدل ہوتا ہے اور یہ بات درست نہیں ہے کہ عورت دو بدل کے مستحق قرار دی جائے جب دخول یا ہمبستری کے بعد عورت مقررہ مہر یا مہر مثل کی مستحق ہوجاتی ہے تو اب یہ جائز نہیں کہ اس کے ساتھ متعہ کی بھی مستحق ٹھہرائی جائے۔ نیز فقہائے امصار کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دخول سے پہلے طلاق یافتہ عورت وجوب کے طور پر متعہ کی مستحق نہیں ہوتی بشرطیکہ اس کے لئے نصف مہر کا وجوب ہوچکا ہو۔ یہ بات دو طرح سے ہمارے دعویٰ یک صحت پر دلالت کر رہی ہے اول یہ کہ جب عورت مہر کے بعض حصے کے وجوب کے ساتھ متعہ کی مستحق نہیں ہوتی تو پورے مہر کے وجوب کی صورت میں اس کا مستحق نہ ہونا اولیٰ ہوگا۔ دوم یہ کہ اس میں یہ مفہوم موجود ہے کہ وہ مہر کے کچھ حصے کی مستحق ہوچکی ہے اور یہی مفہوم مدخول بہا میں بھی موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مہر کے کسی حصے کے عدم وجوب کی صورت میں جب متعہ واجب ہوگیا تو مہر کے استحقاق کی صورت میں متعہ کا وجوب اولیٰ ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ پھر یہ چاہیے کہ نصف مہر کے وجوب کی صورت میں بھی وہ متعہ کی مستحق قرار پائے۔ کیونکہ اس صورت میں بھی مہر کے ایک حصے کے عدم وجوب کی بناء پر متعہ واجب ہوگا۔ نیز اس میں یہ پہلو ہے کہ عورت مہر کے فقدان کی صورت میں متعہ کی مستحق ہوئی ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ ملک بضع طلاق سے پہلے اور طلاق کے بعد بدل سے خالی نہیں ہوتا۔ اب جب مہر واجب نہیں ہوا تو متعہ واجب ہوگیا اور جب وہ ایک اور بدل کے مستحق ہوگئی تو متعہ کے استحقاق کا جواز باقی نہیں رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (واللمطلقات متاع بالمعروف حقا علی المتقین) اور یہ حکم ہر قسم کی مطلقہ کے لئے عام ہے۔ صرف وہی مطلقہ عور تاس حکم سے خارج ہوگی جس کے لئے کوئی دلیل موجود ہو۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ بات اس طرح ہے البتہ یہ پہلو ضرور موجود ہے کہ لفظ متاع ہر ایسی چیز کے لئے بطور اسم استعمال ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ قول باری ہے (وفاکھۃ و ابا متاعاً لکم ولانعامکم، اور میوے اور چارے تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لئے) نیز یہ قول باری (متاع قلیل ثم ماواھم جھنم، یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے) اسی طرح ارشاد ہے (انما ھذہ الحیوۃ الدنیا متاع، دنیا کی یہ زندگی تو محض چند روز کا تھوڑا سا لطف ہے) مشہور شاعر افوہ اودی کا شعر ہے انما نعمۃ قوم متعۃ و حیاۃ المرء ثوب مستعار کسی قوم کی نعمت یعنی آرام و راحت گھڑی بھر کے لئے فائدہ اٹھانے کی صورت ہے اور انسان کی زندگی عاریۃً لئے ہوئے لباس کی طرح ہے۔ لفظ متعہ اور متاع ایسا اسم ہے جس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اب جب ہم نے مطلقہ عورتوں کے لئے مہر یا نفقہ کی کوئی ایسی شکل واجب کردی جس سے وہ فائدہ اٹھا سکے تو گویا آیت کے حکم سے عہدہ برا ہوگئے۔ اب ایسی مطلقہ جس کے ساتھ ہمبستری نہیں ہوئی اس کا متعہ مقررہ مہر کا نصف ہے اور جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اس کا متعہ مرد اور عورت کی حیثیتوں کے مطابق ہوگا۔ ایسی مطلقہ جو مدخول بہا ہو اس کا متعہ کبھی تو مقرر مہر ہوگا اور کبھی مہر مثل ہوگا جبکہ مہر مقرر نہ کیا گیا ہو۔ یہ سب متعہ کی صورتیں ہیں لیکن واجب نہیں ہیں اگر ہم متعہ کی ایک صورت کو واجب کریں گے تو پھر تمام صورتوں کو واجب کرنا ضروری ہوگا کیونکہ قول باری (وللمطلقات متاع بالمعروف) کا اقتضاء یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ادنیٰ صورت ہے جس پر لفظ متعہ یا متاع کا اطلاق ہو سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (وللمطلقات متاع) طلاق کے بعد ایجاب متاع کا مقتضی ہے اور طلاق سے پہلے عورت جس مہر کی مستحق ٹھہرتی ہے اس پر اس لفظ اطلاق نہیں ہوسکتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ایسی نہیں ہے اس لئے آپ اگر یہ کہیں کہ ” مطلقہ عورتوں کے لئے مہر کی وہ رقمیں ہیں جو طلاق سے پہلے ان کے لئے واجب ہوچکی تھیں “ تو آپ کا یہ کہنا درست ہوگا۔ طلاق کے بعد مہر کے وجوب کے ذکر میں کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو طلاق سے پہلے اس کے وجوب کی نفی کرتی ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو طلاق کے ذکر کے ساتھ دونوں حالتوں میں اس کے وجوب کا ذکر جائز نہ ہوتا۔ اب طلاق کے بعد اس کے وجوب کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں بتادیا گیا کہ طلاق کے ساتھ متعہ واجب ہوجاتا ہے کیونکہ اس بات کی گنجائش تھی کہ کوئی شخص یہ سوچ لے کہ طلاق واجب وہنے والی چیز کو ساقط کردیتی ہے اس لئے طلاق کے بعد اسے واجب کر ک یہ بتادیا کہ طلاق سے قبل اس کا وجوب بھی اسی طرح ہے۔ نیز اگر اس سے مراد وہ متعہ ہے جو طلاق کی وجہ سے واجب ہوا تو اس کی تین قسمیں ہوں گی یا تو یہ مدخول بہاء کے لئے عدت کا نفقہ ہوگا یا متعہ ہوگا یا غیرمدخول بہاء کے لئے مقرر شدہ مہر کا نصف ہوگا۔ ان سب کا اطلاق کے ساتھ ہے ہم جس طرح بیان کر آئے ہیں نفقہ پر متاع کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ قول باری ہے (فالذین یتوڑون منکم و یذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول غیراخراج) اس آیت میں روٹی کپڑا اور مکان کو جو مطلقہ کے لئے واجب ہوتے ہیں متاع کہا گیا ہے۔ مہر کے ساتھ متعہ واجب نہیں ہے اس پر سب کا یہ اتفاق دلالت کرتا ہے کہ عورت طلاق سے قبل اس کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ اب اگر طلاق کے بعد مہر کے ساتھ متعہ واجب ہوتا تو طلاق سے قبل بھی واجب ہوتا کیونکہ متعہ ملک بضع کا بدل ہے طلاق کا بدل نہیں۔ اس لئے اس کا حکم وہی ہوگا جو مہر کا حکم ہے اس بات میں متعہ اور مر کے وجوب کے امتناع کی دلیل موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ لوگ طلاق کے بد اس مطلقہ کے لئے متعہ واجب کرتے ہیں جس کے لئے مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور نہ ہی اس سے ہمبستری کی گئی ہو اور اسے طلاق سے پہلے واجب نہیں کرتے۔ اب طلاق سے قبل اس کے وجوب کا انتفاء طلاق کے بعد اس کے وجوب کے انتفاء کی دلیل نہیں بن سکتا۔ مدخول بہاء کے متعلق بھی ہمارا یہی قول ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے کہ متعہ مہر مثل کا بعض حصہ ہوتا ہے کیونکہ وہ اس بعض حصے کے قائم مقام ہوتا ہے اور عورت کے لئے طلاق سے پہلے مہر کا مطالبہ واجب ہے اس بناء پر طلاق کے بعد بھی مہر کے بعض حصے کا مطالبہ درست ہے اور معترض چونکہ متعہ کو مہر کا بعض حصہ قرار نہیں دیتا اس لئے اس کا ایجاب یا تو ملک بضع کا بدل ہوگا یا اطلاق کا۔ اگر مہر مثل کے ساتھ ساتھ یہ ملک بضع کا بدل ٹھہرا دیا جائے تو پھر ضروری ہوگا کہ طلاق س پہلے بھی عورت اس کی مستحق بنے۔ اگر یہ ملک بضع کا بدل نہیں ہوگا تو پھر اسے طلاق کا بدل ٹھہرانا محال ہوگا جبکہ طلاق کی وجہ سے بضع کی ملکیت عورت کو حاصل ہوچکی ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ واجب ہونے والے متعہ کی مقدار کا بیان قول باری ہے (و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدر متاعا بالمعروف، اور انہیں متعہ دو ، خوش حال پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق معروف طریقے سے متاع یعنی متعہ دو ) ۔ اب خوشحالی اور تنگ دستی میں مرد کی حیثیت کے مطابق اس متعہ کی مقدار کا اثبات اجتہاد اور غالب گمان کی بنا پر ہوگا اور مختلف زمانوں میں یہ مختلف ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مقدار میں دو چیزوں کی شرط لگائی ہے اول یہ کہ مرد کی خوشحالی اور تنگ دستی کی روشنی میں اس کا اعتبار کیا جائے اور دوم یہ کہ اس کے ساتھ معروف طریقے کا بھی لحاظ رکھا جائے اس لئے اس میں ان دونوں باتوں کا اعتبار واجب ہے۔ جب یہ بات معلوم ہوگئی اور دوسری طرف ان دونوں حالتوں میں معروف طریقہ لوگوں کی عادات پر موقوف ہے اور عادات مختلف ہوتی ہیں اور بدلتی رہتی ہیں تو اب مختلف زمانوں میں لوگوں کی عادات کی رعایت واجب ہوگئی۔ نئے پیدا شدہ امور میں اجتہاد کی گنجائش کی یہ ایک بنیاد ہے کیونکہ درج بالا حکم ایسا ہے جس کا انطباق ہماری رائے کو کام میں لا کر یعنی اجتہاد کر کے ہی ہوگا۔ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ہمارے شیخ ابوالحسن (رح) کہا کرتے تھے کہ متعہ میں مرد کی حیثیت کے ساتھ عورت کی حیثیت کا بھی اعتبار کرنا واجب ہے۔ علی بن موسیٰ قمی نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کی مقدار کے تعین کے حکم کو دو باتوں کے ساتھ متعلق کردیا ہے : خوشحالی ا اور تنگ دستی کے لحاظ سے مرد کی حیثیت کے ساتھ اور معروف طریقے کے ساتھ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم صرف مرد کی حیثیت کا اعتبار کرلیں اور عورت کی حیثیت کو نظرانداز کردیں تو اگر کسی کی زوجیت میں دو بیویاں ہوں ایک شریف اور دوسری گھٹیا طبقے سے تعلق رکھنے والی لونڈی۔ پھر وہ انہیں دخول سے پہلے طلاق دے دے اور ان کے لئے مہر بھی مقرر نہ کیا ہو۔ اس صورت میں یہ واجب ہوگا کہ دونوں کے لئے متعہ میں یکسانیت ہو یعنی جو متعہ شریف زادی کو ملے وہی دوسری کو بھی ملے جبکہ یہ بات لوگوں کی عادات و اخلاق کی روشنی میں نہ صرف انتہائی ناپسندیدہ ہے بلکہ غیر معروف بھی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ متعہ کے سلسلے میں جو شخص صرف مرد کی حیثیت کا اعتبار کرتا ہے اس کا یہ قول ایک اور اعتبار سے بھی فاسد ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کوئی شخصی انتہائی خوشحال اور شان و شوکت والا ہو اور وہ ایسی گھٹیا عورت سے شادی کرلے جس کا مہر مثل ایک دینار ہو۔ اب اگر اس نے ہمبستری کرلی تو اس کے لئے مہر مثل واجب ہوگا کیونکہ اس نے اس کے لئے مہر کی رقم مقرر نہیں کی تھی اور یہ مہر مثل ایک دینار ہوگا اور اگر اس نے دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی تو مرد کی حیثیتی ک مطابق اس کے لئے متعہ واجب ہوگا اور یہ اس کے مہر مثل سے کئی گنا زیادہ ہوگا۔ اس طرح ایک عجیب دل چسپ کیفیت پیدا ہوجائے گی وہ یہ کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں اسے جو رقم ملے گی وہ اس رقم سے کہیں ز یادہ ہوگی جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گی۔ اس سے تخلف فی القول لازم آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دخول سے پہلے طلاق یافتہ عورت کے لئے اس مقدار کا نصف مقرر کیا ہے جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گا جبکہ درج بالا مثال میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اسے دلیل خلف یا تخلف فی القول کہا جاتا ہے۔ اب جبکہ متعہ کے سلسلے میں صرف مرد کی حیثیت کے اعتبار کا قول کتاب کے معنی اور اس کی دلالت کی مخالفت کی موجب ہے نیز معروف عادات کے بھی خلاف ہے تو یہ ساقط ہوجائے اور اس کے ساتھ عورت کی حیثیت کا اعتبار بھی واجب ہوجائے گا۔ یہ قول ایک اور وجہ سے بھی فاسد ہے وہ اس طرح کہ اگر دو مالدار آدمی دو بہنوں سے نکاح کرلیں اور ان میں سے ایک اپنی بیوی سے ہمبستری بھی کرلے اور پھر طلاق دے دے تو مرد کی حیثیت کے مطابق اس کے لئے متعہ واجب ہوگا اور یہ اس کے مہر مثل س کئی گنا زیادہ ہوگا۔ اس طرح ایک عجیب دل چسپ کیفیت پیدا ہوجائے گی وہ یہ کہ دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں اسے جو رقم ملے گی وہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہوگی جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گی۔ اس سے تخلف فی القول لازم آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دخول سے پہلے طلاق یافتہ عورت کے لئے اس مقدار کا نصف مقرر کیا ہے جو دخول کے بعد طلاق کی صورت میں اسے ملے گا جبکہ درج بالا مثال میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اسے دلیل خلف یا تخلف فی القول کہا جاتا ہے۔ اب جبکہ متعہ کے سلسلے میں صرف مرد کی حیثیت کے اعتبار کا قول کتاب کے معنی اور اس کی دلالت کی مخالفت کی موجب ہے نیز معروف عادات کے بھی خلاف ہے تو یہ ساقط ہوجائے گا اور اس کے ساتھ عورت کی حیثیت کا اعتبار بھی واجب ہوجائے گا۔ یہ قول ایک اور وجہ سے بھی فاسد ہے وہ اس طرح کہ اگر دو مالدار آدمی دو بہنوں سے نکاح کرلیں اور ان میں سے ایک اپنی بیوی سے ہمبستری بھی کرلے اور پھر طلاق دے دے تو مہر مقرر نہ ہونے کی وجہ سے اسے مہر مثل ایک ہزار درہم ملا۔ دوسرے نے دخول سے پہلے اسے طلاق دے دی اور مہر بھی مقرر نہیں تھا۔ اس صورت میں اسے متعہ ملے گا جو مرد کی حیثیت کے مطابق ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ متعہ اس کی بہن کے مہر مثل سے مقدار میں کئی گناہ زیادہ ہوگا اور اس طرح مدخول بہا کو جو رقم ملے گی وہ مطلقہ کو ملنے والے متعہ سے کہیں کم ہوگی حالانکہ ملک بضع کی قیمت ایک جیسی ہوتی ہے اور مہر کے لحاظ سے یہ دونوں یکساں تھیں۔ اس طرح ہمبستری اس کے لئے ضرر رساں ثابت ہوئی اور اس سے اس کے بدل میں کمی آ گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ قول انتہائی ناپسندیدہ ہے اور لوگوں کے لئے نامانوس اور غیر معروف ہے یہ تمام وجوہ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ متعہ میں مرد کی حیثیت کے ساتھ ساتھ عورت کی حیثیت کا بھی اعتبار کیا جائے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب شوہر دخول سے پہلے طلاق دے دے اور مہر بھی مقرر نہ ہو اب اگر اس کے متعہ کا نصف اس کے مہر مثل کے نصف سے زائد ہو تو اس صورت میں اسے جو متعہ دیا جائے وہ اس کے مہر مثل کے نصف سے تجاوز نہ کرے۔ اس طرح مہر مثل کے نصف اور متعہ میں سے جو کم ہوگا وہ اسے مل جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں مطلقہ کے لئے مقرر شدہ مہر کی نصف رقم سے زائد رقم مقرر نہیں کی اس لئے یہ جائز نہیں ہے کہ مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں اسے مہر مثل کے نصف سے زائد رقم دے دی جائے اور جب مہر مقرر ہو اور اسے دخول سے پہلے طلاق مل جائے اس صورت میں اگر وہ مقرر مہر کے نصف سے زائد کی مستحق نہ ہوئی تو مر مثل کی صورت میں یہی بات بطریق اولیٰ ثابت ہوگی۔ ہمارے اصحاب نے متعہ کی کوئی ایسی مقدار مقرر نہیں کی ہے کہ اس میں کمی بیشی نہ کی جاسکے بلکہ ان کا قول ہے کہ اس کا انحصار وقت کے لحاظ سے متعارف اور معتاد مقدار پر ہے۔ البتہ ہمارے اصحاب سے تین کپڑوں یعنی قمیض، دوپٹہ اور ازار کا قول منقول ہے۔ ازار سے مراد وہ چادر ہے جس کے ذریعے باہر جانے کی صورت میں اپنا بدن ڈھانپ سکے۔ سلف سے اس کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں۔ ہر قائل نے اپنی رائے اور غالب ظن سے کام لے کر بات کہی ہے۔ اسماعیل بن امیہ نے عکرمہ کے واسطے سے حضرت ابن عباس (رض) سے وایت کی ہے کہ بہترین متعہ ایک خدمت گار کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ اس سے کم نفقہ اور اس سے کم کپڑے دینا ہے۔ ایاس بن معاویہ نے ابو مجلز سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر (رض) سے متعہ کے متعلق دریافت کیا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں مالدار ہوں اپنی حیثیت کے مطابق فلاں فلاں لباس دیتا ہوں۔ ابومجلز کہتے ہیں کہ میں نے حساب لگایا تو اس کی قیمت تیس درہم بنی۔ عمرو نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ متعہ میں کوئی مقررہ چیز نہیں ہے۔ اس کی مالی حیثیت کے مطابق اس کا اندازہ لگایا جائے گا۔ حماد کا قول ہے کہ مرد عورت کے مہر مثل کے نصف کے مساوی متعہ دے گا۔ عطا بن ابی رباح کا قول ہے کہ سب سے زیادہ گنجائش والا متعہ ایک قمیض، دوپٹہ اور چادر ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ عورت گھر میں جو لباس پہنتی ہو وہی اسے متعہ میں دیا جائے یعنی ایک قمیص، دوپٹہ، چادر اور ایک جلباب یعنی لمبی چادر، یونس نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگ تو متعہ میں ایک خدمت گار اور نفقہ دیتے تھے اور کچھ لوگ نفقہ اور لباس دیتے تھے۔ کچھ لوگ اس سے کم یعنی تین کپڑے دیتے تھے۔ ایک قمیص، ایک دوپٹہ اور ایک چادر اور چھ اس سے بھی کم یعنی ایک کپڑا دیتے تھے۔ عمرو بن شعیب نے سعید بن المسیت سے روایت کی ہے کہ بڑھیا متعہ ایک دوپٹہ ہے اور گھٹیا متعہ صرف ایک کپڑا ہے حجاج نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) سے اس کے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا تھا کہ عورت کو متعہ مرد کے مال کے لحاظ سے دیا جائے گا۔ ان حضرات نے یہ مقداریں اپنی اجتہادی آراء کے مطابق بیان کی ہیں اور کسی نے بھی کسی کی مخالفت اس بنا پر نہیں کی کہ اس کی رائے اس سے مختلف ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے اجتہاد اور ائے کے نتیجے میں متعہ کی درج بالا مقداریں مقرر کیں اور اس کی حیثیت بعینہ وہی ہے جو تلف شدہ اشیاء کی قیمتوں اور جسمانی طور پر نقصان پہنچانے والے جرائم کے جرمانوں کی ہے۔ ان کے لئے نصوص میں متعین مقداریں موجود نہیں ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣٦۔ ٢٣٧) تم پر کوئی حرج کی بات نہیں اگر تم عورتوں کو ایسی حالت میں جدا کردو یعنی طلاق دے دو کہ نہ تم نے ان کے ساتھ صحبت کی وہ اور نہ ان کے لیے حق مہر کی کوئی مقدار مقرر کی ہو اور اس طلاق کا ایک جوڑا دے دو ، جو صاحب وسعت پر اس کے مال کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق واجب ہے، یہ جوڑا دینا مہر کے اوپر ہے (کہ اس صورت میں مہر نہیں) جس میں تین کپڑے دیے جائیں گے ایک قمیض ایک شلوار اور ایک بڑی چادر، یہ چیز مسلمانوں پر لازم ہے اس لیے کہ یہ جوڑا حق مہر کے قائم مقام ہے، اب اللہ تعالیٰ اس شخص کے بارے میں بیان کرتا ہے جو عقد نکاح کے وقت مہر متعین کرے اور اگر صحبت یا خلوت صحیحہ سے پہلے ان کو طلاق دے دو اور ان کے لیے تم نے مہر بھی مقرر کیا ہے تو جو تم نے مہر متعین کیا ہے اس کا آدھا دنیا تم پر واجب ہے۔ (مگر کچھ صورتیں اس سے مستثنی ہیں) ایک یہ کہ عورت ہی خود اپنے حق مہر کو جو خاوند پر واجب ہے معاف کرڈالے یا خاوند کا جو عورت پر حق ہے خاوند اس کو چھوڑ دے اور پورا حق مہر عورت کو دے دے کہ ان دونوں صورتوں میں دونون کو لینے دینے کا کچھ حق نہیں اور تمہارا خود اپنے حق کو چھوڑ دینا یہ متقین حضرات کے لیے تقوی کے زیادہ قریب ہے یعنی میاں بیوی سے کہا جائے کہ وہ اپنے اس حق کو معاف کردے جو ایک دوسرے پر واجب ہے تو یہ چیز تقوی سے زیادہ قریب ہے میاں بیوی کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور بھلائی کرنے سے غفلت نہیں برتنی چاہیے، اللہ تعالیٰ اس احسان اور بھلائی کو اچھی طرح دیکھ رہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣٦ (لاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْہُنُّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً ج) ۔ اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ کو اس حال میں طلاق دینا چاہے کہ نہ تو اس کے ساتھ خلوت صحیحہ کی نوبت آئی ہو اور نہ ہی اس کے لیے مہر مقرر کیا گیا ہو تو وہ دے سکتا ہے۔ (وَّمَتِّعُوْہُنَّ ج) ۔ اس صورت میں اگرچہ مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہے ‘ لیکن مرد کو چاہیے کہ وہ اسے کچھ نہ کچھ مال و متاع دنیوی کپڑے وغیرہ دے دلا کر فارغ کرے۔ (عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ج) ۔ جو وسعت والا ہے ‘ غنی ہے ‘ جس کو کشائش حاصل ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے اور جو تنگ دست ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق ۔ (مَتَاعًام بالْمَعْرُوْفِ ج) ۔ یہ ساز و سامان دنیا جو ہے یہ بھی بھلے انداز میں دیا جائے ‘ ایسا نہ ہو کہ جیسے خیرات دی جارہی ہو۔ (حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ ) ۔ نیکی کرنے والے ‘ بھلے لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمہ داریّ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

260. This sundering of the matrimonial contract after it has been concluded does cause some harm to the woman; God has ordered, therefore, that the person concerned should compensate for the loss according to his capacity.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :260 اس طرح رشتہ جوڑنے کے بعد توڑ دینے سے بہرحال عورت کو کچھ نہ کچھ نقصان تو پہنچتا ہی ہے ، اس لیے اللہ نے حکم دیا ہے کہ حسب مقدرت اس کی تلافی کرو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

158: یہ وہ صورت ہے جس میں دونوں مرد و عورت نے نکاح کے وقت کوئی مہر مقرر نہیں کیا تھا اور پھر دونوں کے درمیان خلوت کی نوبت آنے سے پہلے ہی طلاق ہوگئی، اس صورت میں شوہر پر مہر واجب نہیں ہوتا، لیکن کم از کم ایک جوڑا کپڑا دینا واجب ہے، اور کچھ مزید تحفہ دیدے تو زیادہ بہتر ہے (اس تحفہ کو اصطلاح میں متعہ کہا جاتا ہے) اور اگر نکاح کے وقت مہر کی مقدار طے کرلی گئی تھی، پھر خلوت سے پہلے ہی طلاق ہوگئی تو اس صورت میں آدھا مہر واجب ہوگا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(236 ۔ 237) ۔ نکاح ہو کر مباشرت کی نوبت نہ پرے اور طلاق دے دی جائے تو بموجب اس آیت کے یہ طلاق جائز ہے۔ اور اس طلاق کی صورت میں نکاح کے وقت مہر نہ قرار پایا ہو تو اپنے مقدور کے موافق کچھ دے کر عورت کو خوش کردینا چاہیے جو بہر حال کپڑوں کے ایک جوڑے سے کم نہ ہو اور زیادہ کی کوئی حد نہیں اور اگر مہر قرار پایا ہو تو نصف مہر دینا چاہیے یہ اور بات ہے کہ عورت اپنا حق چھوڑ دے۔ یا مرد حسن سلوک کے طور پر پورا مہر دے دے۔ صحیح قول آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ الذی بیدہ عقدۃ النکاح سے مراد شوہر ہے کہ وہی مختار نکاح کے قائم رکھنے اور نہ رکھنے کا ہے یہی قول بہت صحابہ اور تابعین کا ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) کا مذہب بھی یہی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ الذی بیدہ عقدۃ النکاح سے مراد عورت کا متولی ہے دلیل ہر ایک قول کی بڑی تفسیروں میں ہے ١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:236) مالم تمسوھن۔ ما۔ کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔ (1) ما۔ شرطیہ ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا۔ اگر تم نے ان سے مجامعت نہیں کی۔ (2) ما۔ مصدریہ ہے ۔ ترجمہ ہوگا ۔ کہ ابھی تک تم نے ان سے مجامعت نہیں کی۔ (3) ما۔ موصولہ ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا ۔ جن سے تم نے (ابھی تک) مجامعت نہیں کی۔ لم تمسوا۔ مضارع نفی جحدبلم۔ جمع مذکر حاضر۔ مس۔ مساس ومماسۃ (باب نصر و سمع) چھونا۔ لگ جانا۔ رگڑ لگ جانا۔ لاحق ہونا۔ قرب صنفی یعنی جماع کرنا۔ ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب مالم تمسوھن۔ جن کو تم نے (ابھی تک) چھوا نہیں۔ جن سے تم نے (ابھی تک) مجامعت نہیں کی۔ اوتفرضوا لہم فریضۃ۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ ای اولم تفرضوا لہم ۔۔ یا نہیں مقرر کیا تم نے۔ نہیں متعین کیا تم نے۔ نہیں فرض کیا تم نے ۔ فرض (باب ضرب) مصدر۔ فرض اگر علی کے ساتھ آئے تو اس کے معنی کسی چیز کے واجب اور ضروری قرار دینے کے ہیں۔ جیسے ان الذی فرض علیک القران (28:85) بیشک جس نے (یعنی خدا نے) تم پر قرآن (کے احکام کو) فرض کیا ہے اور جب فرض لام کے ساتھ آئے تو متعین کرنے اور مقرر کرنے کے معنی دیتا ہے۔ جیسے قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم (66:2) خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفاریہ مقرر کردیا ہے۔ آیت ہذا میں بمعنی مقرر کرنا۔ متعین کرنا مستعمل ہے۔ فریضۃ۔ صفت مشبہ کا صیغہ ہے واحد مؤنث۔ اس کی جمع فرائض ہے۔ مقرر کیا ہوا مہر۔ لازم کیا ہوا حکم ۔ یہاں مقرر کیا ہوا مہر مراد ہے۔ فریضۃ (فعلیۃ) کے وزن پر بمعنی مفعول ہے۔ اس میں ت اس لئے لائی گئی ہے کہ لفظ و صفت سے اسمیت کی طرف منتقل ہوجائے۔ اس کا منصوب ہونا مفعول ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدر ہونے کی وجہ سے منصوب ہو۔ ومتعوھن۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر تمتیع (تفعیل) مصدر۔ متاع وہ سامان ہے جو کام میں آتا ہے۔ جس سے کسی قسم کا فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ وہ مال جو کسی عورت کو قربت سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں جب کہ مہر کی کوئی مقدار مقرر نہ کی گئی ہو دیا جاتا ہے ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب۔ متعوھن تم ان (عورتوں) کو کچھ متاع دیدو ومتعوھن کا عطف مقدر پر ہے ای فطلقوھن ومتعوھن۔ یعنی طلاق دیدو اور ان کو اس قدر متاع دو کہ وہ اس سے کچھ فائدہ حاصل کریں۔ علی الموسع قدرہ وعلی المقترقدرہ یہ متعوھن کی صراحت ہے۔ متعوھن میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کس قدر متاع مطلقہ کو دیا جائے۔ یہاں اس کی وضاحت کی ہے کہ مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ صاحب ثروت اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق دیوے۔ الموسع۔ اسم فاعل واحد مذکر ایساع (افعال) مصدر۔ مالدار۔ وسعت والا۔ المقتر۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ المقر۔ اسم فاعل جس کے معنی اس دھواں کے ہے جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے۔ گویا مقتر اور مقتر بھی ہر چیز سے دھوئیں کی طرح لیتا ہے۔ یعنی لکڑی جو جل رہی ہوتی یا ترکاری جو پک رہی ہوتی ہے وہ تو ملتی نہیں صرف بھاپ سونگھنے کو مل جاتی ہے۔ قترو قترۃ وقترۃ۔ بمعنی گردوغبار۔ قتر (باب ضرب و نصر) قتر۔ مصدر بمعنی تنگی سے گذارہ کرنا۔ قدرہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اس کی وسعت۔ اس کی گنجائش۔ علی الموسع قدرہ۔ مالدار کے لئے اس کی وسعت کے مطابق (متاع دیتا ہے) اور تنگ حال کے لئے اس کی طاقت کے مطابق۔ متاعا۔ اسم مصدر ہے لیکن بطور مصدر بمعنی تمتیعاً استعمال ہوا ہے ای متعوھن تمتیعا۔ بدیں وجہ منصوب ہے۔ (متاعا فائدہ پہنچانا معروف طریقہ سے) ۔ حقا علی المحسنین۔ اسکی دو صورتیں ہیں : (1) یہ متاعا کی صفت ہے ای متاعا واجبا علیہم۔ یعنی متاع جو کہ (محسنین) پر واجب ہے۔ (2) بطور مفعول مطلق استعمال ہوا ہے ای حق ذلک حقا۔ یہ متعہ کا دینا محسنین پر واجب ہے۔ محسنین۔ احسان کرنے والے ۔ بھلائی کرنے والے۔ نیک کار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی جس عورت کا عقد کے وقت کوئی مہر مقرر نہ ہو اہو اگر شوہر اسے قبل از مسیلس (نجامعت یا خلوت صحیحہ) طلاق دے دے تو شوہر پر مہر وغیرہ کی صورت میں کسی قسم کا مالی تاوان نہیں ہے۔ آیت میں لا جناح فرما کر اسی طرف اشارہ فرمایا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ شوہر اپنی مالی حالت کے مطابق اسے کچھ دے کر رخصت کرے اس احانت کو متعہ طلاق کہا جاتا ہے۔ سورت احزاب آیت 49 ۔ میں مزید بتایا کہ قبل از مسیس طلاق کی صورت میں عورت پر عدت بھی نہیں ہے بلکہ وہ شو ہر سے خصت ہو کر فورا نکاح کرسکتی ہے۔ ( شو کانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 236 242 اسرارو معارف لاجناح علیکم…………………لعلکم تعقلون۔ یہاں طلاق کی ایک اور صورت ارشاد ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق دے دے اور پھر اس میں بھی دو صورتیں مہر کی ہیں یا تو مہر مقرر ہوگا اور یا نہیں۔ اگر مہر مقرر نہیں ہے تو اسے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو کہ انہیں کچھ خرچ دے دو ۔ صاحب حیثیت اپنی حیثیت کے مطابق دیں۔ روایت ہے کہ حضرت حسن (رض) نے ایک ایسی طلاق کی صورت میں مطلقہ عورت کو بیس ہزار درہم دیئے تھے اور حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ایک جوڑا کپڑوں کا دے دے۔ لفظ متعہ کا معنی : یہاں لفظ ” متعہ “ واضح طور پر اس عورت کو گزارے کے لئے کچھ نہ کچھ دے جس کے ساتھ نکاح کے بعد خلوت نہیں ہوئی اور نوبت طلاق تک جاپہنچی ہے۔ مگر صد افسوس ! کہ اہل تشیع نے اسے غلط معنی پہنا کر ، عورت کو کچھ دے دلا کر اس سے بدکاری کے معنوں میں استعمال کیا ہے جو مشرکین عرب کی ایک رسم تھی اور جس کا تدارک اسلام نے کیا ۔ انہیں وہی سیاہی اسلام کے نام پر تھونپنے میں اللہ کا خوف بھی نہ آیا۔ حالانکہ لغات القرآن جلد پنجم ص 296 پر یہی لفظ بطور ایں معنی استعمال ہوا ہے کہ جن عورتوں کو قبل دخول طلاق دو اور ان کا مہر مقرر نہ ہو تو انہیں متعہ (یعنی تمتعہ اور معیشت کے لئے کچھ دینا) دینا واجب ہے ۔ یعنی متعہ گزارے کی اس رقم یا تحفے کا نام ہے جو صورت مذکور میں دیا جائے نہ کہ کچھ دے دلا کر بدکاری کی جائے اور اس کا نام ” متعہ “ رکھ دیا جائے۔ اللہ کی کتاب پر کس قدر جرات اور دلیری ہے۔ اعاذنا اللہ ھنھا۔ یہ دینا دلانا قاعدے کے مطابق ہو بالمعروف اس میں کسی طرح کی محض شہرت یا مخفی طور پر کوئی طمع نہ ہو بلکہ معروف طریقے پر اور اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو کہ اچھے اور صاحب خلوص لوگوں یعنی مسلمانوں پر واجب ہے۔ یہاں ہر مسلمان سے محسن یا صاحب احسان ہونے کی توقع کی گئی ہے یا دوسرے لفظوں میں احسان ہی حقیقی ایمان ہے اور احسان یہ ہے کہ انسان کا دل اس کا باطن اللہ کی عظمت کو اپنی حیثیت کے مطابق تسلیم کرے۔ حدیث جبریل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ احسان یہ ہے کہ۔ ان تعبدو اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۔ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اور اگر یہ جرات نہیں ہے تو کمتر درجہ یہ ہے کہ اس یقین کو ہاتھ سے نہ جانے دو کہ اللہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے نمٹانے کے لئے اسی باطنی کیفیت کی ضرورت ہے جو اسلام ہر مومن کے دل میں دیکھنا چاہتا ہے اور یہ کیفیات اللہ کے ذکر اور کاملین کی صحبت سے حاصل ہوتی ہیں کہ دلوں کو منور کرنا صحبت ہی کا فیض ہے ورنہ محض الفاظ سے معاملہ عقل وخرد تک رہتا ہے۔ دل صرف کیفیات سے آشنا ہے ، اسے لفظوں کی نہ ضرورت ہے نہ احتیاج۔ کیا جو لوگ گونگے بہرے ہوتے ہیں۔ ان کے دل لذات والم کو محسوس نہیں کرتے ضرور کرتے ہیں ، اگرچہ الفاظ اور ان کے معانی سے ان کے ذہن ناآشنا ہوتے ہیں۔ ہاں ! جب دل ان کیفیات کو پالے تو پھر الفاظ کے معانی اور ان پر عمل سب آسان ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرائض نبوت میں پہلے تزکیہ اور پھر تعلیم کتاب و حکمت ہے۔ فیض صحبت نے شرف صحابیت بخشا اور جب یہ سلسلہ منقطع ہوا تو کتاب و حکمت تو باقی تھی مگر درجہ صحابیت کوئی نہ پاسکا۔ ہاں ! صحابہ کی صحبت میں تابعی اور ان کے فیض صحبت سے تبع تابعین کے مدارج ضرور تقسیم ہوئے۔ یہی فیض صحبت سینہ پسینہ منتقل ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اسی کے امین اہل اللہ کہلاتے ہیں اور حسن اسلام کے لئے ان کی صحبت شرط ہے۔ اب دوسری صورت کہ اگر مہر مقرر تھا اور قبل دخول طلاق ہوگئی تو نصف مہر ادا کرنا واجب ہوگا ، اور نصف معاف ، ہاں ! اگر عورت ہی اپنی مرضی سے سارا معاف کردے تو پھر کچھ بھی واجب نہ رہا۔ وہ جس کے ہاتھ نکاح کا تعلق لینی نکاح کو باقی رکھنے کا اختیار ہے ، یعنی خاوند معاف کردے کہ جو نصف شرعاً اسے معاف تھا حسن سلوک کرتے ہوئے وہ بھی دے دے اور اپنا حق چھوڑ دے تو پھر پورا دینا درست ہوگا۔ اور بہتر صورت یہی ہے کہ حسن سلوک کرتے ہوئے معاف کردو۔ جو بھی اپنا حصہ معاف کرے گا مرد یا عورت وہی نیکی حاصل کرے گا۔ کہ نیکی اقرب للتقویٰ ہے۔ اللہ کریم کے لئے دوسروں سے بھلائی کرنا ہی اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ آپس میں احسان کرنا فراموش نہ کردو ۔ نکاح قائم رہے یا نہ رہے تو یہ ضرور یادرکھو کہ تم دونوں مسلمان ہوا اور مسلمان کا مسلمان پر حق ہے ، اس رشتے کو مت بھولو۔ ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور رعایت کرو کہ تم جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور تمہارا ہر فعل یا نافرمانی ہے یا فرمانبرداری۔ نافرمانی مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔ ہر آن اطاعت کرو کہ اطاعت ہی کا نام عبادت ہے اور اس کیفیت وحالت کو قائم رکھنے کے لئے فرائض کا خاص خیال رکھو۔ حقوق العباد کی حفاظت کے لئے خوف خدا ضروری ہے اور خوف خدا اس میں کہاں جو حقوق اللہ ہی ادا نہیں کرتا اللہ کریم سے اپنا تعلق استوار کرنے کے لئے تمام نمازوں کی حفاظت کرو یعنی پوری کوشش سے ادا کرو۔ حفاظت سے مراد ہے کہ اس کا کوئی ادنیٰ سا رکن بھی ضائع نہ ہونے پائے وقت کا لحاظ ، لباس کا خیال ، وضوکا اہتمام جماعت کی کوشش ، یہ سب چیزیں محافظت صلوٰۃ میں داخل ہیں یعنی نماز ادا نہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ نماز کی حفاظت کرو کہ مستحبات بھی فوت نہ ہونے پائیں۔ خصوصاً درمیان کی نماز کی۔ جسے بقول اکثر عصر کی نماز کہا گیا ہے کہ اس کے دونوں جانب دن کی ابتداء اور اس کا اختتام ہے اور دو دو نمازیں۔ یہ تاکید غالباً اس لئے ہے کہ عصر کا وقت سب کے لئے مصروفیت کا ہے دفاتر سے لے کر چرواہوں تک گھر جانے کی تیاری میں لگے ہوتے ہیں۔ مزدور اور دکاندار دن بھر کا کام سمیٹنے میں ، خواتین رات کے کھانے کی تیاری میں یعنی اکثریت کے لئے مصروفیت کا وقت ہے اگر اس وقت کی نماز بروقت اپنی شرائط کے ساتھ ادا کی گئی ہو تو باقی انشاء اللہ اس سے آسان ہوں گی۔ نہایت سکون اور اطمینان سے نماز ادا کریں کہ اس سے غرض صرف ادائے فرض نہیں بلکہ ان کیفیات کا حصول ہے جو اللہ سے تعلق استوار کرتی ہیں۔ نماز صرف عبادت ہی نہیں بلکہ روح کی غذا بھی ہے ، دوا بھی۔ یہ دونوں چیزیں خالص ہونا ضروری ہیں اور ان کی سخت حفاظت کی جاتی ہے۔ اور اگر خطرہ ہو یا تم میدان جنگ میں ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر سوار ہی نماز ادا کرلو ، چھوڑو نہیں ، حفاظت کرو۔ علماء کا ارشاد ہے کہ ایک جگہ کھڑے ہو کر پڑھ سکے تو درست ورنہ قضا کرلے اور کھڑے کھڑے ادا کرے تو سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ پست کرے۔ مقصد یہ کہ امکانی حد تک نماز کو اس کے وقت مقرر پر اس کی پوری شرائط سے ادا کرے کہ اسی سے اس کو اللہ کی اطاعت کی توفیق بھی ارزاں ہوگی۔ وصیت کا حکم : یہ حکم تعین میراث سے قبل کے لئے تھا۔ جب آیہ میراث نازل ہوئی اور عورت کا حصہ مقرر ہوگیا تو پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ آیہ میراث کے نزول سے قبل چونکہ حق کا مدار صرف مرنے والے کی نیت پر تھا۔ سو حکم ہوا کہ وصیت میں بیوی کو بھلایا نہ جائے بلکہ اگر وہ اپنی مرضی سے رہنا چاہے تو خاوند کا حق ہے کہ وہ وصیت کر جائے تو سال بھر وہ اس کے گھر میں اس کے ترکہ سے نان نفقہ لے کر رہ سکے۔ ہاں ! اگر اپنی مرضی سے بعد عدت نکاح کرلے ، شرعی قاعدے کے مطابق یا مرنے والے کا گھر چھوڑ دے تو پھر ورثاء پر کوئی گناہ نہیں کہ یہ عورت کا حق تھا۔ اگر وہ اپنی مرضی سے چھوڑ دے تو ٹھیک ہے لیکن معروف ہو شریعت کے مطابق ۔ اگر کوئی خلاف شریعت کرنا چاہے مثلاً عدت کے دوران نکاح کرنا چاہے یا اور کوئی ایسی حرکت جو شرعاً جائز نہ ہو تو روکنا اور منع کرنا واجب ہے اور جو طاقت رکھتے ہوئے نہ روکے گا تو گنہگار ہوگا بلکہ اس کا جواب دینا ہوگا۔ للمطلقت متاع بالمعروف۔ یعنی ان جملہ احکام سے مراد مطلقہ عورتوں کو مناسب گزارہ دینا اور بڑی حد تک دلجوئی اور عزت نفس کی حفاظت ہے۔ یہ متعہ سے مستفاد ہے کہ بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان ان کے حقوق ہیں انہیں پامال نہ ہونے دیا جائے اور مطلقہ کو محض دھتکاری ہوئی عورت شمار نہ کیا جائے جیسا کہ ہمارے ہاں ہندوئوں سے متاثر ہو کر رواج پا گیا ہے اور لفظ متعہ ان عورتوں کو کچھ دینے کے لئے استعمال ہوا جن کے ساتھ نکاح تو ہمیشہ ساتھ رکھنے کی غرض سے ہوا تھا مگر بعض حالات نے جدائی کی صورت پیدا کردی نہ یہ کہ ایک مقررہ وقت کے لئے کچھ دے کر نکاح کرلیا۔ اور میعاد پوری ہونے پر وہ خود بخود ختم ہوگیا پھر نہ گواہ کی ضرورت نہ شاہد کی۔ یہ سب صورتیں شرعاً باطل ہیں اور متعہ سے یہ مراد لینا تحریف قرآن ہے اور یہ سب کچھ کرنا و اجب ہے اللہ کے نیک بندوں پر ، اللہ کے ماننے والوں پر ، خدا کا خوف رکھنے والوں پر کہ اللہ اپنے احکام اسی لئے بیان فرماتا ہے کہ تمہیں زندہ رہنے کا سلیقہ آجائے۔ تم دنیا میں بھی باعزت زندگی گزار سکو ، تم عقل پاسکو اور سمجھ سکو ، تمہارا معاشرہ مثالی معاشرہ بن سکے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 236 تا 237 لم تمسوھن (تم نے ان عورتوں کو نہ چھوا ہو (صحبت نہ کی ہو) ۔ لم تفرضوا (تم نے مقرر نہیں کی ) ۔ فریضۃ (مہر) ۔ متعوھن (ان کو سامان دو ) ۔ لموسع ( وسعت والا، صاحب حیثیت) ۔ قدرہ (اس کے موافق ہے ) ۔ المقتر (تنگ دست ) ۔ نصف (آدھا) ان یعفون (عورتیں معاف کردیں) ۔ یعفوا (مرد معاف کر دے (پورا مہر دے دے) ۔ لا تنسوا (تم نہ بھولو) ۔ تشریح : آیت نمبر 236 تا 237 ان آیتوں میں دو مسئلے بیان کئے گئے ہیں : (1) ایک صو رت تو یہ ہے کہ ایک شخص نے محض نکاح کیا، کوئی مہر مقرر نہیں کیا اور نہ اس عورت سے قربت حاصل کی اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی ایسی صورت میں چونکہ مہر مقرر ہی نہیں ہے اس لئے مہر نہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن کم از کم ایک جوڑا کپڑے کا دے دیا جائے اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو اختیار دیا ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ لیکن مرد کو اس سلسلہ میں تنگ دلی کا ثبوت نہیں دینا چاہئے بلکہ فراخ حوصلگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ زیادہ بھی دے دینا چاہئے۔ حضرت حسن بصری (رح) نے ایک ایسے ہی واقعہ میں مطلقہ کو بیس ہزار درہم عطیہ دیا، قاضی شریح نے بھی ایک واقعہ میں پانچ سو درہم دئیے ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ کم از کم ایک جوڑا کپڑا ہی دے دے۔ (قرطبی) ۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ نکاح ہوا، مہر مقرر ہوا مگر قربت و صحبت سے پہلے ہی طلاق ہوگئی تو اس صورت میں جتنا مہر مقرر کیا گیا تھا اس میں سے آدھا دینا ہوگا۔ اس میں عورت اور مرد دونوں کو اس کا اختیار دیا گیا ہے کہ جو چاہے اپنے حق سے دست بردار ہوجائے۔ عورت کی دست برداری یہ ہے کہ وہ سارا ہی مہر معاف کر دے۔ مرد کی دست برداری یہ ہے کہ وہ آدھے مہر کے بجائے پورا مہر ہی اس لڑکی کو دے دے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مرد کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ عام زندگی میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ احسان اور بھلائی کا معاملہ کرتے رہنا چاہئے لیکن اس معاملہ میں تو مرد کو بلند حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہئے یعنی اس مطلقہ کو پورا مہر دے دینا چاہئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن اب ایسے ہنگامی حالات اور واقعات کے بارے میں ہدایات دی جارہی ہیں جو اس دنیا میں پیش آہی جاتے ہیں۔ ان حالات کے کئی اسباب ہوا کرتے ہیں۔ نکاح کے وقت حق مہر پر جھگڑا، نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دی گئی معلومات کا غلط ثابت ہونا اور بعض دفعہ موقع پر اچانک کسی شریر کی شرارت اس قدر شر انگیز اور زوداثر ہوتی ہے کہ خوشی کے موقع پر جمع ہونے والے خاندان کے ذمہ دار افراد آپس میں لڑ کر جدا ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر یہ واقعات اچانک رونما ہوتے ہیں جو فریقین کے لیے نہایت ہی خفت کا باعث اور خاص طور پر بیٹی والوں کے لیے ایسا معاملہ نہایت ہی دل خراش اور سبکی کا باعث ہوتا ہے۔ اس سارے ہنگامے میں سب سے زیادہ متاثر دلہن ہوتی ہے جس کا چند لمحوں بعد نکاح ہونے والا ہوتا ہے۔ لہٰذا نہایت ہی ضروری تھا کہ جس لڑکی کو اس کے خاوند نے چھوئے اور حق مہر مقرر کیے بغیر چھوڑ دیا ہے اس کی دل جوئی کا سامان اور اس کے مستقبل کو کئی قسم کے خدشات اور الزامات سے بچایا جائے۔ کیونکہ اس صورت حال سے اس کا مستقبل خدشات اور شبہات کے حوالے ہوچکا ہے۔ لہٰذا دلخراش اور ہنگامی صورت حال میں حکم دیا کہ صاحب حیثیت اپنے وسائل کے مطابق اور مالی لحاظ سے کمزور اپنی طاقت کے مطابق عورت کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ نیک لوگوں پر اس لیے لازم ہے کہ اس سے طرفین کی پریشانی میں کمی اور عورت کا مستقبل کافی حد تک غلط افواہوں اور الزامات سے محفوظ ہوگا اور دونوں خاندان مزید اختلافات سے بھی بچ جائیں گے۔ نکاح کے بعد یہ صورت بھی پیش آسکتی ہے کہ حق مہر مقرر ہوچکا ہو لیکن میاں بیوی کے باہم ازدواجی تعلقات قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوجائے۔ جس کی کئی ہنگامی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جن میں ایک بڑی وجہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کو ناپسند کرنا ہے۔ نعوذ باللہ یہ کوئی فرضی مسئلہ بیان نہیں کیا جارہا بلکہ غیرمسلم معاشروں کی طرح مسلمان معاشرے میں بھی اس قسم کے واقعات ایک حد تک رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام کی ہمہ جہت رہنمائی، شفقت اور جامعیت کا تصور ذہن میں لائیں کہ وہ زندگی کے تمام اہم شعبوں کی رہنمائی کے لیے کس قدر جامع اور تفصیلی ہدایات جاری کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ میں ہونے والے اس قسم کے ہنگامی واقعات کو مستقل دشمنی کا روپ دھارنے سے پہلے اس کا حل پیش کردیا گیا ہے تاکہ رشتہ داری اور اخوت کے مضبوط قلعہ میں واقعہ ہونے والی دراڑوں کو حتی المقدور پر کرنے کی سعی ہوسکے۔ حق مہر مقرر ہوجانے اور خاوند کا اپنی بیوی سے مجامعت کرنے سے پہلے طلاق دینا خاندانی نظام اور میاں بیوی کے لیے شدید دھچکا ہوا کرتا ہے۔ ایک حد تک اس کی تلافی کے لیے یہ اصول نافذ فرمایا کہ ایسی صورت میں بہتر ہوگا کہ عورت اپنا حق معاف کردے یا اس کا خاوند پورے کا پورا حق مہر دے دے۔ مردو ! اگر تم معاف کرو تو یہ تقو ٰی کے زیادہ قریب ہے۔ یہاں تقو ٰی سے مراد باہمی بدگمانیوں اور آئندہ مزید اختلافات اور قلبی نفرتوں سے بچنا ہے۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ علیحدگی کے عمل کے دوران سابقہ تعلقات اور رشتہ داریوں کو پیش نظر رکھا جائے اس بات کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سب کے پوشیدہ اور ظاہر کردار کو دیکھنے والا ہے۔ اس سے تمہاری کوئی زیادتی اور حرکت پوشیدہ نہیں ہے۔ مسائل ١۔ غیر معمولی حالات میں بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جاسکتی ہے۔ ٢۔ مرد کی طرف سے سارا حق مہر چھوڑ دینا تقو ٰی کی علامت ہے۔ ٣۔ طلاق کا معاملہ کرتے ہوئے سابقہ محبت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل کو دیکھ رہا ہے۔ تفسیر بالقرآن مطلقہ کے حقوق : ١۔ طلاق والی عورتوں کو مالی وسعت کے مطابق خرچ دینا ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٣٦) ٢۔ طلاق یافتہ عورتوں کو خرچ دینامتقین پر لازم ہے۔ (البقرۃ : ٢٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس میں دوحالتیں ہیں ۔ پہلی حالت یہ ہے مطلقہ کو اپنی وسعت کے مطابق کچھ سازوسامان دے ۔ اس سے تو ایک تو عورت کی دلجوئی ہوگی اور نفسیاتی طور پر دونوں خاندانوں کے درمیان خوشگواری پیدا ہوگی اور دوسرے یہ کہ اسے کچھ نہ کچھ مالی فائدہ ہوگا۔ اس طرح کی جدائی سے عورت اپنے لئے کرب اور درد محسوس کرتی ہے ۔ یہ اس کے لئے عمر بھر کا طعنہ اور دشمنی بن جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں اگر اسے بطور تحفہ کچھ دے دے تو اس سے نفسیاتی طور پر اس عورت کے برے احساسات میں کمی آسکتی ہے اور دونوں خاندانوں کے درمیان کشمکش ، کشیدہ تعلقات کے بادل چھٹ سکتے ہیں اور یہ تحفہ اس قسم کا اظہار محبت ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی اعتراف جرم اور معذرت بھی ۔ اس سے خود مرد کی جانب سے بھی اس بات کا اظہار ہوگا کہ وہ خود بھی اس طلاق اور جدائی پر متاسف ہے ، معذرت خواہ ہے ۔ یہ کہ یہ باہمی تعلقات کی یہ ایک ناکام کوشش تھی لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے باہمی حسن سلوک کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا جائے ۔ اس لئے یہاں وصیت کی گئی کہ اس صورت میں عورت کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے معروف طریقے کے مطابق تاکہ فریقین کے درمیان انسانی بنیادوں پر انس و محبت قائم رہ سکے اور ٹوٹے ہوئے تعلقات کی اچھی یادیں باقی رہیں ۔ لیکن قرآن مجید ساتھ ساتھ یہ ہدایات بھی کردیتا ہے کہ خاوند پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے ۔ غنی اپنی مقدرت کے مطابق اور نادار آدمی اپنی وسعت کے مطابق دے عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ ” خوشحال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق۔ “ اشارہ کیا جاتا ہے کہ یہ تحفہ معروف طریقے کے مطابق احسان سے ہوتا ہے کہ خشک دلوں میں تازگی پیدا ہوجائے اور باہمی تعلقات کی فضا پر جو گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں وہ چھٹ جائیں ۔ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ ” یہ تحفہ ہے معروف طریقے کے مطابق اور یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مہر اور متعہ کے احکام ان دونوں آیتوں میں چند مسائل بیان فرمائے ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو صرف نکاح کر کے طلاق دیدے نہ اسے ہاتھ لگایا ہو نہ اس کے لیے مہر مقرر کیا ہو تو اس صورت میں مہر واجب نہیں ہے۔ البتہ بطور سلوک و احسان اور دلداری کے متعہ دینا واجب ہے، یہ متعہ ایک جوڑا کپڑوں کی صورت میں ہوگا، یعنی طلاق دینے والا مرد مطلقہ عورت کو تین کپڑے دے دے، ایک کرتہ، ایک دوپٹہ اور ایک خوب چوڑی چکلی چادر جو سر سے پاؤں تک ڈھانک سکے۔ اور اس میں مرد کی حالت کا اعتبار ہوگا، مرد پیسہ والا ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق دے اور تنگ دست ہے تو اپنے حالات کے مطابق دے دے، اس و جوب کو مؤکد فرمانے کے لیے ارشاد فرمایا : (مَتَاعًا بالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ ) کہ یہ نفع پہنچانا شرعی قاعدہ کے مطابق ہو جو محسنین پر واجب ہے، ہر مسلمان اپنے ایمان کی وجہ سے صفت احسان اختیار کرنے پر مامور ہے اور ہر مؤمن محسن ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ جو لوگ فاسق اور گناہ گار ہیں ان پر واجب نہیں۔ آیت بالا سے معلوم ہوا کہ اگر مہر مقرر کیے بغیر نکاح کرلیا جائے تو نکاح ہوجاتا ہے۔ اب اس کے بعد اگر مذکورہ بالا صورت پیش آجائے (کہ مرد نے عورت کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور طلاق دے دی) تو اس صورت میں متعہ دینا ہوگا جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اور اگر مہر مقرر کیے بغیر نکاح کرلیا، اور پھر میاں بیوی والی تنہائی بھی ہوگئی یا خلوت سے پہلے شوہر کی وفات ہوگئی تو مہر مثل دینا ہوگا۔ جیسا کہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

470 اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ کا عطف تَمَسُّوْھُنَّ پر ہے اور وہ بھی نفی کے تحت داخل ہے۔ یعنی جن عورتوں کو مس نہ کیا گیا ہو اور نہ ہی ان کے لیے مہر مقرر کیا گیا ہو۔ اگر ان کو طلاق دیدی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ وَمَتِّعُوْھُنَّ یعنی جن عورتوں کیلئے نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں کیا گیا۔ ان کو اگر مس سے پہلے طلاق دیدی جائے تو ان کو متعہ کے کپڑے دینے واجب ہیں۔ متعہ کے کپڑے تین ہیں۔ قمیص، دوپٹہ اور چادر قال الامام ابو حنیفة ھی درع وخمار ومکحفة (روح ص 153 ج 2) مس (ہاتھ لگانے) سے یہاں وطی مراد ہے خواہ حقیقةً ہو خواہ حکماً ۔ حقیقی وطی تو ظاہر ہے۔ حکمی وطی سے خلوت صحیحہ مراد ہے۔ اور خلوت صحیحہ یہ ہے کہ خاوند بیوی کسی ایسی تنہائی کی جگہ موجود ہوں۔ جہاں کوئی چیز مانع وطی موجود نہ ہو۔ مس اور تقدیر مہر کے لحاظ سے مطلقہ کی چار قسمیں ہیں (1) یہ کہ مطلقہ کا مہر نکاح کے وقت مقرر کیا تھا۔ اور مس حقیقی یا حکمی کے بعد اسے طلاق دی گئی تو اس کا حکم یہ ہے کہ اسے مقررہ مہر دیا جائے گا۔ اور اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں۔ اس کا حکم پہلے رکوع 29 میں بیان ہوچکا ہے۔ (2) وہ عورت جسے دخول سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو اور اس کا مہر بھی مقرر نہ ہو۔ اس کے لیے مہر نہیں ہے۔ البتہ اسے ثیاب متعہ دئیے جائیں گے۔ اس آیت میں اسی عورت کا حکم بیان کیا گیا ہے (3) وہ عورت جسے وطی سے پہلے طلاق دیدی جائے لیکن اس کا مہر مقرر ہو۔ تو اس کا حکم اگلی آیت میں آرہا ہے کہ اسے مقررہ مہر کا نصف دیا جائے (4) وہ عورت جسے وطی کے بعد طلاق دی جائے مگر اس کا مہر مقرر نہ ہو تو اسے مہر مثل دیا جائے گا۔ جس کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے۔ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ ۔ یعنی ثیاب متعہ کی مالیت کا انحصار خاوند کی مالی حالت پر ہے۔ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ مَتَاعاً بمعنی تمتیعاً متعوھنکا مفعول مطلق ہے بالمعروف ظرف مستقر ہے جو متلبسا محذوف سے متعلق ہے۔ اور متاعا کی صفت اولیٰ ہے۔ یعنی ثیاب متعہ ایسے طریقہ سے دو جو شرعاً اور عرفاً مستحسن ہو۔ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ ۔ یہ متاعاً کی صفت ثانیہ ہے اور حقاً کے معنی واجباً کے ہیں صفة لمتاعاً ای متاعاً واجبا علیھم (مدارک (ص 94 ج 1) یعنی خوش معاملہ اور حسن سلوک کرنے والے لوگوں پر متعہ واجب اور لازم ہے۔ محسنین کی تخصیص ترغیب وتحضیض کے لیے فرمائی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ اگر تم عورتوں کو ایسی حالت میں طلاق دے دو کہ نہ تو تم نے ان سے ہم بستری کی ہو اور نہ ان سے خلو ت صحیحہ ہوئی ہو اور نہ نکاح کے وقت کوئی ان کا مہر مقرر کیا ہو تو تم پر ان کو مہر نہ دینے میں کچھ گناہ نہیں اور نہ تم پر ان کے مہر کا کوئی مطالبہ اور مواخذہ ہے ۔ البتہ ایسی عورتوں کو کوئی فائدہ ضرور پہنچائو اور ان کے ساتھ کوئی سلوک ضرور کرو یہ سلوک کرنا دستور اور قاعدے کے مطابق ہو اور صاحب حیثیت اور صاحب مقدرت پر یہ سلوک اس کی حیثیت کے لحاظ سے ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے لحاظ سے لازم ہے ، نیز یہ سلوک کرنا اور فائدہ پہنچا نا نیکو کار اور خوش معاملہ لوگوں پر ضروری اور واجب ہے۔ ( تیسیر) جناح جنوح سے ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں میانہ روی اور خیر سے شرک کی طرف مائل ہوجانا مراد ہے یہی اثم اور گناہ کا مفہوم ہے۔ متاع کا مفہوم ہم اوپر عر ض کرچکے ہیں ۔ تمتیع کے معنی متعہ دینے کے ہیں یعنی ان کو نفع پہنچائو ، فائدہ دو ۔ عورتوں کی طلاق کے سلسلہ میں جہاں جہاں یہ لفظ آیا ہے وہاں اس کے معنی یہی ہیں ۔ متعہ دنیا آیت زیر بحث میں متعہ سے مراد ہے ایک جوڑا ان کو دے دو ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح طلاق کی مختلف صورتیں ہیں اسی طرح عورت کی بھی با اعتبار مہر اور ہم بستری وغیرہ مختلف صورتیں ہیں ۔ مثلاً چار صورتیں تو ظاہر ہی ہیں۔ 1۔ عورت سے نکاح کرتے وقت کچھ مہر مقرر ہی نہیں کیا اور مہر کا نام ہی نہیں لیا اور طلاق بھی ہاتھ لگانے سے پہلے دیدی نہ ہم بستری ہوئی نہ خلوت صحیحہ۔ 2۔ نکاح کرتے وقت مہر کی کوئی خاص رقم یا کوئی چیز مقرر ہوئی اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدی۔ 3۔ نکاح کے وقت کوئی مہر مقرر نہیں ہوا مگر طلاق ہم بستری کے بعد یا خلوت صحیحہ کے بعد دی۔ 4۔ نکاح کے وقت مہر مقرر ہو اور طلاق خلوت صحیحہ یا ہم بستری کے بعد دی زیر بحث آیت اور اس کے آگے آیت میں صرف پہلی اور دوسری صورت کا ذکر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس عورت کا کوئی مہر مقرر نہ تھا اور طلاق بھی ہاتھ لگانے اور خلوت صحیحہ سے قبل دے دی تو ایسی عورت کا مہر نہ دینے کا تم پر کوئی مطالبہ نہیں ۔ ہاں ! اس کو کپڑوں کا ایک جوڑا شرعی دستور کے مطابق ضرور دے دو یعنی ایک کرتہ ایک کسادا یا سر بند ۔ اور ایک لمبی چادر جس میں عورت کا تمام جسم ڈھک جائے یہ جوڑا جس کو قرآن نے متعہ فرمایا ہے یہ نیک لوگوں پر یعنی مسلمانوں پر واجب ہے اور اس جوڑے میں مراد کی حیثیت کا اعتبار ہے مال دار ہو تو تینوں کپڑے بڑھیا ہوں اور غریب ہو تو معمولی دیدے مگر کسی طرح پانچ درہم سے کم قیمت کے نہ ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس عورت کا کوئی مہر مقرر نہ تھا اور طلاق بھی ہاتھ لگانے اور خلوت صحیحہ سے قبل ہی دے دی تو ایسی عورت کا مہر نہ دینے کا تم پر کوئی مطالبہ نہیں ۔ ہاں ! اس کو کپڑوں کا ایک جوڑا شرعی دستور کے مطابق ضرور دے دو یعنی ایک کرتہ ایک کساد یا سر بند ، اور ایک لمبی چادر جس میں عورت کا تمام جسم ڈھک جائے یہ جوڑا جس کو قرآن نے متعہ فرمایا ہے یہ نیک لوگوں پر یعنی مسلمانوں پر واجب ہے اور اس جوڑے میں مرد کی حیثیت کا اعتبار ہے مال دار ہو تو تینوں کپڑے بڑھیا ہوں اور غریب ہو تو معمولی دیدے مگر کسی طرح پانچ درہم سے کم قیمت کے نہ ہوں ۔ جس عورت سے خاوند نے میری ہم بستری نہ کی ہو اس کو غیر مدخول بہا اور جس سے ہم بستری کی ہو اس کو مد خول بہا کہتے ہیں ۔ یہ دونوں اصلاحیں یاد رکھنے سے آئندہ مسائل سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اگر نکاح کے وقت مہر کہنے میں نہ آیا بھی نکاح کے وقت مہر کہنے میں نہ آیا تو بھی نکاح درست ہے مہر پیچھے ٹھہر رہیگا اگر بن ہاتھ لگائے عورت کو طلاق دے تو مہر کچھ لازم نہ آیا لیکن کچھ خرچ دینا ضرور ہے خرچ کیا ایک جوڑا پوشاک کا موافق اپنے حال کے۔ ( مواضح القرآن) شاہ صاحب (رح) نے اس کی تصریح فرما دی کہ نکاح بہر حال ہوجائے گا خواہ مہر کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے جس عورت کا مہر نکاح کے وقت مقرر نہ کیا جائے تو اس کو مہر مثل دینا ہوتا ہے مہر مثل کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت کی قوم میں دستور ہو یعنی اس عمر کی اور اس شکل و صورت وغیرہ کی عورت کا مہر اس کی قوم میں بندھا کرتا ہو یا جو اس عورت کی بہنوں یا پھوپھیوں کا ہو ۔ غرض درھیال کی لڑکیوں میں سے اس جیسی لڑکی کا جو مہر مقرر ہوتا ہو وہ مہر شل کہلاتا ہے اب آگے اس دوسری صورت کا ذکر فرماتے ہیں یعنی نکاح کے وقت مہر مقرر ہوا تھا مگر طلاق ہاتھ لگانے اور خلوت صحیحہ سے پہلے دی ۔ خلوت صحیحہ چونکہ ہم بستری کے قائم مقام ہے اس لئے ہم اس کو ہر بار ذکر کردیتے ہیں۔ ( تسہیل)