Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 254

سورة البقرة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ؕ وَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۲۵۴﴾

O you who have believed, spend from that which We have provided for you before there comes a Day in which there is no exchange and no friendship and no intercession. And the disbelievers - they are the wrongdoers.

اے ایمان والو !جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اورشفاعت اور کافر ہی ظالم ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Says; يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم ... O you who believe! Spend of that with which We have provided for you, Allah commands His servants to spend for His sake, in the path of righteousness, from what He has granted them, so that they acquire and keep the reward of this righteous deed with their Lord and King. Let them rush to perform this deed in this life, ... مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ ... before a Day comes, meaning, the Day of Resurrection, ... لااَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلااَ خُلَّةٌ وَلااَ شَفَاعَةٌ ... when there will be no bargaining, nor friendship, nor intercession. This Ayah indicates that on that Day, no one will be able to bargain on behalf of himself or ransom himself with any amount, even if it was the earth's fill of gold; nor will his friendship or relation to anyone benefit him. Similarly, Allah said, فَإِذَا نُفِخَ فِى الصُّورِ فَلَ أَنسَـبَ بَيْنَهُمْ يَوْمَيِذٍ وَلاَ يَتَسَأءَلُونَ Then, when the Trumpet is blown, there will be no kinship among them that Day, nor will they ask of one another. (23:101) ... وَلاَ شَفَاعَةٌ ... Nor intercession, meaning, they will not benefit by the intercession of anyone. Allah's statement, ... وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ and it is the disbelievers who are the wrongdoers. indicates that no injustice is worse than meeting Allah on that Day while a disbeliever. Ibn Abi Hatim recorded that Ata bin Dinar said, "All thanks are due to Allah Who said, وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ (and it is the disbelievers who are the wrongdoers), but did not say, `And it is the wrongdoers who are the disbelievers."'

آج کے صدقات قیامت کے دن شریکِ غم ہوں گے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ بھلائی کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا ثواب جمع رہے ، اور پھر فرماتا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی خیرات و صدقات کر لو ، قیامت کے دن نہ تو خرید و فروخت ہوگی نہ زمین بھر کر سونا دینے سے جان چھوٹ سکتی ہے ، نہ کسی کا نسب اور دوستی و محبت کچھ کام آ سکتی ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ ) 23 ۔ المؤمنون:101 ) یعنی جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ تو نسب رہے گا نہ کوئی کسی کا پرسان حال ہوگا ، اور اس دن سفارشیوں کی سفارش بھی کچھ نفع نہ دیگی ۔ پھر فرمایا کافر ہی ظالم ہیں یعنی پورے اور پکے ظالم ہیں وہ جو کفر کی حالت ہی میں اللہ سے ملیں ، عطا بن دینار کہتے ہیں شکر ہے اللہ نے کافروں کو ظالم فرمایا لیکن ظالموں کو کافر نہیں فرمایا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

254۔ 1 یہود و نصاریٰ اور کفار مشرکین اپنے اپنے پیشواؤں، نبیوں، ولیوں، بزرگوں اور مرشدوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں اسی کو وہ شفاعت کہتے ہیں یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آجکل کے جاہلوں کا ہے کہ ہمارے بزرگ اللہ کے پاس آ کر بیٹھ جائیں گے اور بخشوا کر اٹھیں گے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات و احادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بیشک ہوگی مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے جنہیں اللہ اجازت دے گا اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے انبیاء و رسل بھی اور شہدا و صالحین بھی مگر اللہ پر ان میں سے کسی بھی شخصیت کا کوئی دباو نہ ہوگا بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ( وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ ) 021:028

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥٩] یہاں انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ مال سے محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے اور اگر اس میں سے خرچ نہ کیا جائے تو یہ بات انسان کے لیے فتنہ اور اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اے مسلمانو ! جس دین پر تم ایمان لائے ہو اس کی راہیں ہموار کرنے اور اس کے قیام کے لیے مال کی ضرورت ہوتی ہے اور معاشرہ میں ناتواں اور محتاج افراد کی مدد کرنے کے لیے بھی اور ایسے ہی صدقات آخرت میں انسان کی نجات کا سبب بنیں گے لہذا اس طرف خصوصی توجہ دلائی گئی۔ ایک دفعہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کونسا صدقہ اجر کے لحاظ سے بڑا ہے ؟ && آپ نے فرمایا : && جو تندرستی کی حالت میں کرے، حرص رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور دولت کی امید رکھتا ہو، لہذا صدقہ کرنے میں جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ جاں لبوں پہ آجائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دے دو اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اس وقت یہ مال اس کا نہیں اس کے وارثوں کا ہوتا ہے۔ && (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب ان افضل الصدقہ صدقہ الصحیح الشحیح) یعنی قیامت کے دن تمہارے یہی صدقات ہی کام آئیں گے۔ تمہاری یہ سوداگریاں اور دوستیاں کام نہیں آئیں گی۔ نہ ہی وہاں کسی کی سفارش کام دے گی۔ [٣٦٠] اس جملہ کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صدقات (بالخصوص زکوٰۃ) نہ دینے والے کافر ہیں اور وہی ظالم ہیں جو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے بھی اللہ کی راہ میں نہیں دیتے اور ایک وہ جو ترجمہ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جو لوگ قیامت کے دن اللہ کے قانون جزا و سزا اور اس کے ضابطہ پر ایمان نہیں رکھتے وہ کافر بھی ہیں اور ظالم بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

انسان پر سب سے زیادہ مشکل جان و مال کی قربانی ہے اور عموماً شریعت کے احکام کا تعلق ان دونوں سے ہے۔ اس سورت میں پہلے (وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) [ البقرۃ : ٢٤٦ ] فرما کر جہاد کا حکم دیا اور آیت : ( مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ ۔۔ ) [ البقرۃ : ٢٤٥ ] سے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی، اس کے بعد طالوت کے قصے کے ساتھ پہلے حکم کی تاکید کی اور اس آیت کے ساتھ دوسرے حکم کی تاکید کے لیے دوبارہ مال خرچ کرنے کا حکم دیا۔ (رازی) مقصد یہ کہ انسان دنیاوی اسباب و وسائل کو چھوڑ کر اکیلا ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا۔ لہٰذا آخرت میں نجات کے لیے صدقہ و خیرات اور اس جیسے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ قیامت کے دن دنیاوی دوستی، رشتہ داری کا تعلق اور سفارش وغیرہ کوئی چیز کام نہیں آئے گی۔ (ابن کثیر) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کا منکر کافر ہے، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق (رض) نے منکرین زکوٰۃ سے جہاد کیا، جیسا کہ کفار سے کیا جاتا ہے۔ (قرطبی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Many injunctions relating to acts of worship and dealings with human beings have been taken up in this Surah, especially all those a person dislikes to obey finding them burdensome. Then, the most difficult act is to &spend& one&s life and possessions; and when you look at Divine injunctions relating to most situations they either relate to a man&s life or his possessions. And when a man falls into the trap of sin, it is either caused by his love of life or expediency of possessions in most cases. As such, the love for these two is the root of sins, and the defence against and the deliverance from it is the object of all acts of obedience. It is for this reason that, following the injunctions relating to worship and social transactions, the subject of &fighting& and &spending& in the way of Allah were taken up. The first appeared in وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ (And fight in the way of Allah) (244) and the second in مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِ‌ضُ اللَّـهَ (Who is the one who would give Allah a good loan?) (245) After that, the former was emphasized by the story of Talut طالوت ، and now, emphasis is being laid on the later by أَنفِقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاكُم (Spend from what We have given to you) (254). Since a large number of affairs relating to the worship of Allah and dealings with human beings depend on spending out of what Allah has given, this subject has been dealt with in a greater detail. Therefore, the sections that follow have, in most of them, a discussion of the second aspect, which is, the &spending& out of one&s possessions. To sum up, it means: The time to act is still there. In the Hereafter, deeds are not on sale. They cannot be borrowed from a friend either. Once caught by the punishment, one cannot be released on someone&s intercession, unless Allah Himself forgives.

خلاصہ تفسیر : انفاق فی سبیل اللہ میں تعجیل کرنا : اے ایمان والو خرچ کرلو ان چیزوں سے جو ہم نے تم کو دی ہیں قبل اس کے کہ وہ دن آجاوے (یعنی قیامت کا دن) جس میں (کوئی چیز اعمال خیر کا بدل نہ ہوسکے گی کیونکہ اس میں) نہ تو خریدو فروخت ہوگی (کہ کوئی چیز دے کر اعمال خیر کی خرید کرلو) اور نہ (ایسی) دوستی ہوگی (کہ کوئی تم کو اپنے اعمال خیر دیدے) اور نہ (بلا اذن الہیٰ کسی کی) کوئی سفارش ہوگی (جس سے اعمال خیر کی تم کو حاجت نہ رہے) اور کافر ہی لوگ ظلم کرتے ہیں (کہ اعمال اور مال کو بےموقع استعمال کرتے ہیں اس طرح کہ طاعات بدنیہ ومالیہ کو ترک اور معصیت مالیہ وبدنیہ کو اختیار کرتے ہیں تم تو ایسے نہ بنو) معارف و مسائل : اس سورة میں عبادات و معاملات کے متعلق احکام کثیرہ بیان فرمائے جن میں سب کی تعمیل نفس کو ناگوار اور بھاری ہے اور تمام اعمال میں زیادہ دشوار انسان کو جان اور مال کا خرچ کرنا ہوتا ہے اور احکام الہیٰ اکثر جو دیکھے جاتے ہیں یا جان کے متعلق ہیں یا مال کے اور گناہ میں بندہ کو جان یا مال کی محبت اور رعایت ہی اکثر مبتلا کرتی ہے گویا ان دونوں کی محبت گناہوں کی جڑ اور اس سے نجات جملہ طاعات کی سہولت کا منشاء ہے اس لئے ان احکامات کو بیان فرما کر قتال اور انفاق کا بیان فرمانا مناسب ہوا وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الخ میں اول کا بیان فرماکر مَنْ ذَا الَّذِيْ يُقْرِضُ اللّٰهَ میں دوسرے کا ذکر ہے اس کے بعد قصہ طالوت سے اول کی تاکید ہوئی تو اب اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ الخ سے دوسرے کی تاکید منظور ہے اور چونکہ انفاق مال پر بہت سے امور عبادات و معاملات کے موقوف ہیں تو اس کے بیان میں زیادہ تفصیل اور تاکید سے کام لیا، چناچہ اب جو رکوع آتے ہیں ان میں اکثروں میں امرثانی یعنی انفاق مال کا ذکر ہے، خلاصہ معنی یہ ہوا کہ عمل کا وقت ابھی ہے آخرت میں تو نہ عمل بکتے ہیں نہ کوئی دوستی سے دیتا ہے نہ کوئی سفارش سے چھڑا سکتا ہے جب تک پکڑنے والا نہ چھوڑے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ۝ ٠ ۭ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٢٥٤ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ بيع البَيْع : إعطاء المثمن وأخذ الثّمن، والشراء : إعطاء الثمن وأخذ المثمن، ويقال للبیع : الشراء، وللشراء البیع، وذلک بحسب ما يتصور من الثمن والمثمن، وعلی ذلک قوله عزّ وجل : وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] ، وقال عليه السلام : «لا يبيعنّ أحدکم علی بيع أخيه» أي : لا يشتري علی شراه . وأَبَعْتُ الشیء : عرضته، نحو قول الشاعر : فرسا فلیس جو ادنا بمباع والمبَايَعَة والمشارة تقالان فيهما، قال اللہ تعالی: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة/ 275] ، وقال : وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة/ 9] ، وقال عزّ وجل : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] ، لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] ، وبَايَعَ السلطان : إذا تضمّن بذل الطاعة له بما رضخ له، ويقال لذلک : بَيْعَة ومُبَايَعَة . وقوله عزّ وجل : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة/ 111] ، إشارة إلى بيعة الرضوان المذکورة في قوله تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وإلى ما ذکر في قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة/ 111] ، وأمّا الباع فمن الواو بدلالة قولهم : باع في السیر يبوع : إذا مدّ باعه . ( ب ی ع ) البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خدید نے کے ہیں لیکن یہ دونوں &؛ہ ں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور مبیع کے لحاظ سے ہوتا ہے اسی معنی میں فرمایا : ۔ وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ [يوسف/ 20] اور اس کو تھوڑی سی قیمت ( یعنی ) معددے ہموں پر بیچ ڈالا ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی اپنے بھائی کی خرید پر خرید نہ کرے ۔ ابعت الشئی کسی چیز کو بیع کے لئے پیش کرنا ۔ شاعر نے کہا ہے یعنی ہم عمدہ گھوڑی فروخت کے لئے پیش نہیں کریں گے ۔ المبایعۃ والمشارۃ خریدو فروخت کرنا ۔ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبا [ البقرة/ 275] حالانکہ سودے کو خدا نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام وَذَرُوا الْبَيْعَ [ الجمعة/ 9] اور خرید فروخت ترک کردو ) لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا نہ دوستی ( کام آئے گی ) بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرار یبعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [ التوبة/ 111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو ۔ میں بیعت رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ الآية [ التوبة/ 111] میں پایا جاتا ہے ۔ الباع ( دونوں بازوں کے پھیلانے کی مقدار جو تقریبا 2 فٹ ہوتی ہے ) یہ مادہ وادی سے ہے کیونکہ باع فی السیر یبوع کہا جاتا ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے کے لمبے لمبے قدم رکھنا کے ہیں ۔ خلیل : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، الخلت دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء/ 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص/ 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا مین داخل ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کا معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة/ 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم/ 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم/ 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔ شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی کا فرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥٤) اب اللہ تعالیٰ صدقہ و خیرات کی ترغیب دیتے ہیں کہ جو مال ہم نے تمہیں دیے ہیں قیامت کے آنے سے پہلے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، جس دن نہ فدیہ ہوگا اور نہ دوستی اور نہ کافروں کے لیے کسی قسم کی شفاعت ہوگی اور کافر تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

تقریباً دو رکوعوں پر مشتمل طالوت اور جالوت کی جنگ کے واقعات ہم پڑھ چکے ہیں اور اب گویا غزوۂ بدر کے لیے ذہنی اور نفسیاتی تیاری ہو رہی ہے۔ غزوات کے لیے جہاں سرفروشی کی ضرورت ہے وہاں انفاق مال بھی ناگزیر ہے۔ چناچہ اب یہاں بڑے زور دار انداز میں انفاق مال کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ سورة البقرۃ کے نصف آخر میں چار مضامین تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ یعنی انفاق مال ‘ قتال ‘ عبادات اور معاملات۔ یہ گویا چار ڈوریاں ہیں جو ان بائیس رکوعوں کے اندر تانے بانے کی طرح گتھی ہوئی ہیں۔ آیت ٢٥٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خُلَّۃٌ وَّلاَ شَفَاعَۃٌ ط) (وَالْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) یہاں کافر سے مراد اصطلاحی کافر نہیں ‘ بلکہ معنوی کافر ہیں ‘ یعنی اللہ کے حکم کا انکار کرنے والے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے اس حکم انفاق کی تعمیل نہیں کرتا ‘ دیکھتا ہے کہ دین مغلوب ہے اور اس کو غالب کرنے کیّ جدوجہدُ ہو رہی ہے ‘ اس کے کچھ تقاضے ہیں ‘ اس کی مالی ضرورتیں ہیں اور اللہ نے اسے مقدرت دی ہے کہ اس میں خرچ کرسکتا ہے لیکن نہیں کرتا ‘ وہ ہے اصل کافر۔ اس کے بعد اب وہ آیت آرہی ہے جو ازروئے فرمان نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن حکیم کی عظیم ترین آیت ہے ‘ یعنی آیۃ الکرسی۔ اس کا نام بھی معروف ہے۔ میں نے آپ کو سورة البقرۃ میں آنے والے حکمت کے بڑے بڑے موتی اور بڑے بڑے پھول گنوائے ہیں ‘ مثلاً آیۃ الآیات ‘ آیۃ البر ‘ آیۃ الاختلاف ‘ اور اب یہ آیۃ الکرسی ہے جو توحید کے عظیم ترین خزانوں میں سے ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے تمام آیات قرآنی کی سردار قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (لِکُلِّ شَیْءٍ سَنَامٌ وَاِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ ‘ وَفِیْھَا آیَۃٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ آیِ الْقُرْآنِ ‘ ھِیَ آیَۃُ الْکُرْسِیِّ ) (٣٢) ہر شے کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور یقیناً قرآن حکیم کی چوٹی سورة البقرۃ ہے ‘ اس میں ایک آیت ہے جو آیات قرآنی کی سردار ہے ‘ یہ آیۃ الکرسی ہے۔ جس طرح آیۃ البر اور سورة العصر میں ایک نسبت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور نجات کی ساری کی ساری شرائط ایک چھوٹی سی سورة میں جمع کردیں : (وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّ ٥ وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ ) لیکن اس کی تفصیل ایک آیت میں بیان ہوئی ہے اور وہ آیۃ البر ہے۔ چناچہ ہم نے مطالعۂ قرآن حکیم کا جو منتخب نصاب مرتبّ کیا ہے اس میں پہلا درس سورة العصر کا ہے اور دوسرا آیۃ البر کا ہے۔ یہی نسبت آیۃ الکرسی اور سورة الاخلاص میں ہے۔ سورة العصر ایک مختصر سی سورت ہے جبکہ آیۃ البر ایک طویل آیت ہے۔ اسی طرح سورة الاخلاص چار آیات پر مشتمل ایک چھوٹی سی سورت ہے اور یہ آیۃ الکرسی ایک طویل آیت ہے۔ سورة الاخلاص توحید کا عظیم ترین خزانہ ہے اور توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے ‘ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ُ ثلث قرآن قرار دیا ہے ‘ جبکہ توحید اور خاص طور پر توحید فی الصفات کے موضوع پر قرآن کریم کی عظیم ترین آیت یہ آیۃ الکرسی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

276. This means spending in the way of God. The instruction given here is that those who have adopted the cause of the true faith should undertake financial sacrifices for its sake. 277. Here the expression 'they who disbelieve' signifies either those who refused to obey God and held their property to be clearer than God's good pleasure, or those who did not believe in the Day of which they had been warned, or those who cherished the false i11usion that in the Hereafter they would somehow be able to secure their salvation and that their association with men devoted to God would stand them in good stead for they would intercede with God on their behalf.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :276 مراد راہ خدا میں خرچ کرنا ہے ۔ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی ہے ، انہیں اس مقصد کے لیے ، جس پر وہ ایمان لائے ہیں ، مالی قربانیاں برداشت کرنی چاہییں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :277 یہاں کفر کی روش اختیار کرنے والوں سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو خدا کے حکم کی اطاعت سے انکار کریں اور اپنے مال کو اس کی خوشنودی سے عزیز تر رکھیں ۔ یا وہ لوگ جو اس دن پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں جس کے آنے کا خوف دلایا گیا ہے ۔ یا پھر وہ لوگ جو اس خیال خام میں مبتلا ہوں کہ آخرت میں انہیں کسی نہ کسی طرح نجات خرید لینے کا اور دوستی و سفارش سے کام نکال لے جانے کا موقع حاصل ہو ہی جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

173: اس سے مراد قیامت کا دن ہے

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

بعض مفسروں کا یہ قول ہے کہ یہ آیت زکوٰۃ اور نفلی صدقہ دونوں کے باب میں نازل ہوئی ہے آخر آیت میں آیت کے حکم کے موافق جو لگ مال نہ خرچ کریں ان کو کافر ظالم جو فرمایا ہے اس سے اس قول کی تائید بھی ہوتی ہے کیونکہ اس طرح کا سخت وعید زکوٰۃ کے منکر کے حق میں ہی صادق آسکتا ہے نفلی صدقہ سے ہاتھ کھینچنے والے شخص کے حق میں کافر و ظالم کا وعید نہیں صادق آسکتا۔ لیکن یہ تفسیر انہی مفسرین کے نزدیک صحیح ہوسکتی ہے جو رمضان کے روزہ کو رکن دوم اور زکوٰۃ کو رکن سوم کہتے ہیں اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد زکوٰۃ کی فرضیت کے قائل ہیں اور جو مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ زکوٰۃ تو مکہ میں فرض ہوئی ہے لیکن اس کے وصول کے لئے عاملوں کا تقرر اور اہتمام مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد ہوا ہے ان کے نزدیک اس مدنی آیت کا زکوٰۃ کے حکم میں نازل ہونا صحیح نہیں قراردیا جاسکتا۔ لیکن مسند امام احمد صحیح ابن حزیمہ نسائی ابن ماجہ مستدرک حاکم میں معتبر سند سے قیس بن سعد بن عبادہ (رض) کی جو روایت ہے اس سے زکوٰۃ کا مدینہ منورہ میں ہی فرض ہونا صحیح معلوم ہوتا ہے کیوں کہ اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمانے کے موافق صدقہ فطر زکوٰ ۃ پہلے فرض تھا ١۔ زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد صدقہ فطر ایک اختیاری امر رہ گیا اب اس بات میں تو سب متفق ہیں کہ رمضان کے روزوں اور صدقہ فطر کی فرضیت ہجرت کے بعد ہے پھر ہجرت سے پہلے مکہ میں زکوٰۃ کیوں کر فرض ہوسکتی ہے جس کی فرضیت صحیح روایت کے موافق صدقہ فطر کے بعد ہے۔ اس آیت میں شفاعت کی اور آپس کی دوستی کی عام طور پر نفی فرمائی ہے لیکن اور آیتوں اور حدیثوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بعد گنہگار اہل کلمہ لوگ اللہ کے رسول اور عام مومنوں کی شفاعت کے سبب سے دوزخ سے نکل کر جنت میں جائیں گے اس لئے اس آیت کا حکم غیر اہل کلمہ کے ساتھ خاص ہے اور اسی طرح کے حکم میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو پورے اہل کلمہ نہیں ہیں بلکہ ان کے عقیدہ میں قبر پرستی پیر پرستی کا شرک یا ان کے اعمال میں کسی طرح کی ریا کاری ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:254) انفقوا۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ انفاق (افعال) مصدر ۔ تم (راہ خدا میں ) خرچ کرو۔ اس کا مفعول شیئا محذوف ہے۔ ای انفقوا شیئا مما رزقناکم۔ مما مرکب ہے من اور ما سے ما یعنی الذی اور کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ یعنی ہم نے جو تمہیں دیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرو۔ خلۃ۔ دوستی۔ آشنائی۔ خلل مادہ ۔ خلیل۔ درست۔ بیع۔ خریدوفروخت۔ لین دین۔ بیچنا۔ خریدنا۔ مصدر ہے۔ سودا لے کر قیمت لینے کا نام ” بیع “ ہے اور قیمت دے کر سودا لینے کا نام ” شرائ “ ہے کبھی شراء کے معنی میں بیع اور بیع کے معنی میں شراء کا استعمال ہوتا ہے۔ والکفرون ھم الظلمون۔ یہ جملہ محذوف کا معطوف ہے۔ ای فالمؤمنون ھم المتقون والکفرون ھم الظلمون۔ پس متقی مومن تو پورا پورا کما حقہ ادا کرتے ہیں اور کافر ہی ظالم ہیں (کہ مال کو بےمحل صرف کرتے ہیں اور احکام کی تعمیل نہیں کرتے) الظلمۃ کے معنی روشنی کا معدوم ہونا ہے اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا ۔ خواہ کمی یا زیادتی کرکے یا اسے اس کے صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹا کر۔ اور الظلم کا لفظ حق سے تجاوز پر بھی بولا جاتا ہے۔ جس کی مثال دائرہ میں نکتہ کی ہوتی ہے۔ اور ظلم کا اطلاق چونکہ ہر قسم کے تجاویز پر ہوتا ہے خواہ وہ تجاوز قلیل ہو یا کثیر۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو ابلیس کو ظالم کہا ہے اور دوسری طرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو ان کی غلطی کی بناء پر ظالم کہہ دیا گیا ہے۔ گو دونوں کے ظالم ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ فائدہ : بیضاوی نے لکھا ہے کہ الکفرون سے مراد زکوۃ نہ دینے والے ہیں ۔ ترک زکوۃ کی برائی کی شدت کو ظاہر کرنے کے لئے زکوۃ نہ دینے کو کفر سے تعبیر کیا ہے جیسے حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا ہے۔ اور من لم یحج کی جگہ من کفر فرمایا ۔ آیت : وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ط ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین ۔ (3:97) اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ بیت اللہ کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہیں کرے گا (یعنی حج نہ کرے گا مقدور رکھتے ہوئے) تو خدا بھی اہل عالم سے بےنیاز ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 انسان پر سب سے زیادہ مشکل جان ومال کی قربانی ہے اور عموما شریعت کے احکام کا تعلق ان دونوں سے ہے۔ اس سورت میں پہلے قاتلو افی سبیل اللہ فرماکر جہاد کا حکم دیا اور آیت من ذالذی یقرض اللہ " سے جہاد کے لیے مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اس کے بعد قصہ طالوت سے پہلے حکم کی تاکید کی اور اس آیت میں دوسرے ام کو مؤکد کرنے کے لیے دوبارہ صرف مال کا حکم دیا۔ (کبیر) مقصد یہ کہ انسان دنیاوی اسباب و وسائل کو چھوڑ کر اکیلا ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوگا لہذا آخرت میں نجات کے لیے صدقہ و خیرات ایسے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ قیامت کے دن دنیاوی مودت نسبی تعلق، شفاعت وغیرہ یہ چیزیں کام نہیں آئیں گی۔ (ابن کثیر) اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوہ کا منکر کافر ہے چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعدد حضڑت ابوبکر الصدیق (رض) نے منکرین زکوہ سے جہاد کیا جیسا کہ کفار سے کیا جاتا ہے۔ (قرطبی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 254 257 اسرارو معارف یایھا الذین امنوا انفقوا………………والکفرون ھم الظلمون۔ اصلاح احوال کی بنیاد : اصلاح احوال کی بنیاد معاشیات پر ہے اگر دیکھا جائے تو تمام مذاہب باطلہ کا ماحصل دنیاوی خواہشات کی تکمیل کی آرزو ہے انسان مختلف امور میں ساری محنت حصول زر پہ کرتا ہے کہ تکمیل خواہشات کا بہت بڑا ذریعہ دولت ہی ہے اور یہیں سے اختلافات اور فسادات کی ابتداء ہوتی ہے لیکن اگر دولت کے خرچ کو محدود کردیا جائے تو ناجائز ذرائع سے حصول دولت کی ضرورت رہتی ہے نہ فائدہ۔ دنیا کی معاشی نظام صرف حصول زر کے قواعد سے بحث کرتے ہیں ، مگر اسلام رزق کو اللہ کی طرف سے تسلیم کرتا ہے کہ انسان صرف محنت کرنے کا مکلف ہے رزق دینا اللہ کا اپنا کام ہے زیادہ عطا کرے یا کم۔ پھر رزق حاصل ہوجانے کے بعد اس کے مصارف متعین ہیں صدقات واجبہ ، جن کا ادا کرنا واجب ہے اور نافلہ۔ نفس انسانی ، دنیا کی لذات پر خرچ کرنا زیادہ پسند کرتا ہے مگر اللہ اسے انفاق کی دعوت دیتا ہے۔ انفاق سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرنا ہے خواہ وہ خرچ زکوٰۃ و صدقہ ہو یا بیوی بچوں کا خرچ ہو ، جہاں بھی اللہ کی اطاعت میں خرچ ہوگا وہ اتفاق فی سبیل اللہ میں شمار ہوگا تو ظاہر ہے کہ اس سے انسان کی دنیاوی ضروریات بھی پوری ہوں گی اور آخرت کا اجر بھی مرتب ہوگا جو ابدی راحت ہے اور جس کے حصول کے لئے دنیا میں انسان کو بھیجا گیا ہے تو جب نگاہ تعمیر آخرت پر ہوگی تو قبول حق میں کوئی شے مانع نہ ہوگی اور جو شخص آخرت کو چھوڑ کر اس عارضی اور فانی زندگی کی لذات پر قناعت کرلے تو ایسے کم ظرف سے بھلائی کی امید عبث۔ اس کے ساتھ تھوڑا سا نقشہ آخرت کا کھینچا گیا ہے کہ اعمال حسنہ ہی اس روز کا سرمایہ ہیں۔ ان کی جگہ نہ کسی کی دوستی پر کرسکے گی نہ قیمتاً ایسی شے جو اس ضرورت کو پورا کرے مل سکے گی۔ اور نہ کسی کی سفارش کام آئے گی کہ شفاعت کے لئے بھی ایمان شرط ہے اور مومن کبھی دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دیا۔ خطاء کوئی فعل سرزد ہو تو فوراً توبہ کرتا ہے اس کے ازالے کی کوشش کرتا ہے لیکن کافر بہت بڑے زیادتی کرنے والے ہیں کہ کائنات میں اپنی خواہشات اور آرزوئوں کا نفاذ چاہتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کائنات کا مالک اللہ ہے۔ اللہ لا الہ الا ھو……………وھوالعلی العظیم۔ اللہ ، جس کے سوا کوئی بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ اس کی عبادت کی جائے ہر طرح کی اطاعت اسی کے لئے ہے جو ہمیشہ زندہ ہے اور ساری کائنات کی زندگی اس کی قدرت اور عطا سے ہے جو بذات خود قائم ہے اور ساری کائنات اور اس کے جملہ نظام کو قائم رکھنے والا ہے۔ جسے نہ کبھی سستی متاثر کرسکتی ہے اور نہ جس پر کبھی نیند طاری ہوسکتی ہے ، نہ کسی کا محتاج ہے اور نہ ہی کمزور ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے جس کی نہ ابتداء ہے نہ انتہاء اور جو حقیقتاً ارض وسماء اور مافیہا کا مالک ہے جس کی عظمت وہیبت کے سامنے کسی کو مجال دم زدن نہیں۔ کوئی نیں جو اس کی اجازت کے سوا کسی کی سفارش بھی کرسکے۔ وہ ساری مخلوق کے اول وآخر اور ظاہر و باطن سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ہر وقت ہر شے سے باخبر اور مخلوق اس کے علم کو احاطہ نہیں کرسکتی صرف اسی قدر جان سکتی ہے جس قدر وہ خود آگاہ فرمادے۔ جس کو جو بخش دے وہی اس کا کمالعلم ہے اس سے آگے کچھ نہیں جان سکتا۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمینوں سے وسیع تر ہے اور تمام جہانوں کو تھامنا قائم رکھنا ، ان کا نظام چلانا اسے کچھ بھی تو گراں نہیں وہ بہت برتر اور عظمت والا ہے۔ لفظ کرسی سے اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے اللہ نشست وبرخاست اور حیز مکان سے بالاتر ہے۔ ان آیات کی حقیقت وکیفیت کا ادارک انسانی عقل سے بالاتر ہے البتہ یہ ثابت ہے کہ عرش وکرسی دو عظیم الشان وجود ہیں جو ارض وسما سے بہت بڑے ہیں۔ ابن کثیر میں بروایت حضرت ابوذر غفاری (رض) نقل ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کرسی کیا ہے اور کیسی ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمان اور زمینیں کرسی۔ کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے کسی بڑے میدان میں کوئی حلقہ انگشتری۔ جیسا دوسری روایات میں ہے کہ کرسی کی مثال عرش کے سامنے ایسی ہے جیسے کسی بڑے میدان کے مقابل ایک انگشتری۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ کی ذات وصفات کے کمالات کا عجیب انداز میں بیان ہے کہ جسے جاننے کے بعد کوئی ذرہ بھر عقل رکھنے والا آدمی بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ تمام عزت و عظمت اور اقتدار واختیار اسی ذات بےہمتا کو سزاوار ہے۔ یہ آیہ کریمہ ” آیۃ الکرسی “ کہلاتی ہے احادیث مبارکہ میں اس کے بیشمار فضائل اور برکات کا ذکر ہے۔ شیطان اور اس کے وساوس سے بچنے کے لئے اور اللہ کی رحمت و شفقت کو پانے کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر فرض نماز کے بعد اس کو پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔ لا اکراہ فی الدین……………واللہ سمیع علیم۔ یہ سب پر واضح ہوجانے کے بعد اب کسی کو قبول اسلام کے لئے مجبور نہ کیا جائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات اور نزول کتاب سے ہدایت اور حق واضح ہوگیا اور راہ روشن ہوگئی۔ اب ہر انسان کو اختیار ہے کہ حق کو قبول کرے یا نہ کرے۔ لیکن اگر کفر یہ بھی قائم رہے تو دنیا میں فساد بپا کرنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بلکہ جس طرح سانپ بچھو کو مارا جاتا ہے کہ مخلوق کو ایذا نہ دیں۔ اسی طرح مسلمان کافروں سے جہاد کریں۔ حتیٰ یعطوالجزیہ وھم صغرون۔ کہ وہ اگر کفر پہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں مگر جزیہ دے کر ، اور قانون اسلام کے تابع ہوکر۔ ہاں ! ایک اختیار ہر حال میں دیا جائے گا کہ ایمان دل کا فعل ہے اگر چاہیں تو ایمان لے آئیں نہ چاہیں تو نہ لائیں۔ اس کا ایک سرکاری ترجمہ بھی ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی کو نہ پوچھا جائے خواہ وہ نماز ادا کرے یا نہ اور روزہ رکھے یا نہ۔ یہ تاثر سراسر غلط ہے۔ یہ رعایت صرف قبول اسلام کے لئے ہے جب قبول کرلیا تو تمام احکام پر عمل کرنا ہوگا ورنہ حاکم مکلف ہے کہ عمل نہ کرنے والوں کو وہ سزائیں دے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمائی ہیں ورنہ حاکم بھی ساتھ ماخوذ ہوگا اور ایک ایک بدکار کے ساتھ روز حشر جوابدہ ہوگا۔ جس کسی نے طاغوت یعنی شیطان خواہ جنوں سے ہو یا انسانوں سے ، کا انکار کیا۔ اس سے اپنی امیدیں توڑ لیں اور اللہ پر ایمان لایا۔ اپنی تمام امیدوں کا مرکز اللہ کو یقین کیا تو اس نے ایک ایسا حلقہ تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے یعنی ہمیشہ کامیاب رہا اور اللہ ہر ایک کی سنتا بھی ہے اور سب کے بھیدوں اور ارادوں کو جانتا بھی ہے۔ اللہ ولی الذین امنوا ……………ھم فیھا خلدون۔ اللہ مومنین کا دوست ہے ، اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے جب اس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ کفر کی تاریکی اور گمراہی کی دلدل سے نکال کر دین اسلام کے نور سے منور کرتا ہے ان کے دل روشن اور آنکھیں بنیا ہوتی ہیں انہیں عقل سلیم عطا ہوتی ہے اور اللہ ان پر ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جو لوگ اللہ کی عظمت کا انکار کرتے ہیں یا اللہ کے سوا کسی سے امیدیں باندھتے ہیں ان کے ساتھ شیطان لگ جاتے ہیں۔ جنوں سے بھی اور انسانوں سے بھی۔ یہ شیطان انہیں نور اسلام ، نور ہدایت سے دور لے جاکر کفر کی تاریکیوں اور برائی کی دل دلوں میں پھنساتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یاد رہے دین کسی پر زبردستی نہ ٹھونسا جائے گا مگر قبول اسلام کے بعد عمل ضرور کرایا جائے گا اور اگر بعد قبول ترک کردے تو باغی قرار پاکر قتل کیا جائے گا۔ جو لوگ قبول نہ کریں انہیں بھی اللہ کی زمین پر بےلگام نہیں چھوڑا جانا چاہیے بلکہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ ہر اس کفر سے جہاد کریں جو اللہ کی زمین پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے یا کئے ہوئے ہے اور عین جہاد میں ان لوگوں کو جو بےضرر ہیں خواہ کافر ہو کچھ نہ کہا جائے گا جیسے بوڑھے ، بچے ، عورتیں یا اپاہج وغیرہ۔ غرض مسلمانوں کے فرائض میں ، اللہ کی زمین سے ظلم وستم کو مٹا کر امن وامان اور عدل و انصاف کا قیام بھی ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2 مطلب یہ ہے کہ جو عمل خیر دنیا میں فوت ہوجائے گا پھر وہاں اس کا کچھ تدارک قدرت سے خارج ہوجائے گا چناچہ تدارک کے طریقوں تو خود نہ ہوں گے جیسے دوستی، بعض اختیاری نہ ہوں گے جیسے شفاعت۔ اور مقصود اس سے قیامت کے دن ثمرات اعمال کٰر کے اکتساب پر قادر نہ ہونے کا یاد دلانا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کے مراتب ‘ ان کے ادوار اور جدوجہد کے انداز کا فرق بیان کرنے کے بعد انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا جو دنیا میں کامیابی کا اہم عنصر اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی عدالت عظمیٰ کے اصول بتلاتے ہیں کہ جس دن تمہیں اس کے حضور پیش ہونا ہے اس دن کوئی لین دین نہیں ہوگا۔ آج وہ تمہیں بار بارحکم دیتا ہے کہ آؤ میرے راستے میں خرچ کرو۔ یہ میرے ساتھ تمہارا لین دین ہے۔ تمہارا خرچ کرنا رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ تمہیں اس کے بدلے کئی گنا زیادہ عطا ہوگا۔ مگر یہ لین دین صرف دنیا کی زندگی میں ہے۔ اس کے بعدآخرت میں اپنی نجات کے بدلے تم سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوگے لیکن کوئی لینے اور قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ تمہاری ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور محبت کام نہ آئے گی اور کوئی سفارش بھی فائدہ مند نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کرنے اور قیامت کا انکار کرنے والے ہی ظالم ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ لوگوآگ سے بچو ! اگرچہ تمہیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب إتقوا النار ولوبشق تمرۃ ] مسائل ١۔ مرنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والے ظالم ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن لین دین، دوستی اور کوئی سفارش قبول نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی عدالت کے ضابطے : ١۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٢۔ قیامت کو لین دین نہیں ہوسکے گا۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٤۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ (الزخرف : ٦٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اہل ایمان کے دلوں سے یہ ایک محبت بھری اپیل ہے ۔ یہ اپیل اہل ایمان اور اپیل کنندہ کے درمیان ایک روحانی رابطہ ہے کیونکہ وہ ذات باری پر ایمان لائے ہوئے ہیں ۔” اے ایمان لانے والو ! “ اپیل یہ ہے کہ جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس کا ایک حصہ ہمیں دے دد۔ آخر ہم ہی دینے والے ہیں اور داتا ہیں اور ہم ہی اپنے دئیے سے کچھ مانگ رہے ہیں۔ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ........ ” اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرو۔ “ دیکھو ایسے مواقع بار بار نہیں آتے ۔ اگر تم نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر یہ مواقع نصیب نہ ہوں گے ۔ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ وَلا شَفَاعَةٌ........ ” قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید وفروخت ہوگی ، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی ۔ “ یہ آخری موقعہ ہے ۔ اگر تم سے چلا گیا تو پھر ہاتھ نہ آئے گا ۔ اس موقعہ پر مال نفع بخش کاروبار میں لگ رہا ہے ۔ اس کے بعد کوئی دوستی ، کوئی سفارش اس نقصان اور خسارے کی تلافی کرنے کے لئے نہیں ہے۔ یہاں اس مقصد کی طرف بھی اشارہ کردیا جاتا ہے جس کے لئے خالق کائنات خود چندہ کی اپیل کررہے ہیں یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے یہ مطالبہ ہورہا ہے ۔ اور جہاد اس لئے ہے کہ کفر کا دفعیہ کیا جائے گا ۔ دنیا سے ظالمانہ نظام کو ختم کیا جائے جو کفر کی شکل میں قائم ہے ۔ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ................ ” ظالم وہی ہیں جو کفر کی روش پر جم جاتے ہیں ۔ “ انہوں نے سچائی کا انکارکرکے ظلم کا ارتکاب کیا ۔ انہوں نے خود اپنے نفوس پر ظلم کیا ہے جنہیں وہ ابدی ہلاکت کے گڑھے میں گرا رہے ہیں ۔ وہ عوام الناس پر بھی ظلم کررہے ہیں ۔ یوں کہ وہ انہیں راہ ہدایت پر آنے سے روکتے ہیں اور انہیں گمراہ کرتے ہیں اور انہیں اس بھلائی تک پہنچنے نہیں دیتے جس جیسی اور کوئی بھلائی نہیں ہے ۔ یعنی امن وسلامتی کی بھلائی ، اطمینان و محبت کی بھلائی اور اصلاح و یقین کی بھلائی۔ جو لوگ اس بات کے دشمن ہیں کہ لوگوں کے دل و دماغ میں ایمان کی حقیقت جاگزیں ہوجائے ۔ جو اس بات کے دشمن ہیں کہ ایمانی نظام زندگی ہماری زندگیوں میں جاری وساری ہوجائے اور جو لوگ اس بات کی جدوجہد کررہے ہیں کہ ایمانی شریعت ہمارے اجتماعی نظام میں نافذ نہ ہونے پائے ، وہ اس انسانیت کے بدترین دشمن ہیں ۔ وہ پرلے درجے کے ظالم ہیں ۔ اگر انسانیت نے راہ راست کو پالیا ہے تو اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کا اس وقت تک تعاقب کرے جب تک وہ اس ظلم سے باز نہیں آتے ۔ جو وہ مسلسل انسانیت پر ظلم ڈھا رہے ہیں ۔ انسانیت کا یہ فرض اولیں ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے مقابلے کے لئے جان ومال کی یہ قربانی دے ۔ اور یہ ہر اس اسلامی جماعت کا بھی فرض ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے برپا کیا ہے ۔ اور جسے یہ فریضہ سر انجام دینے کی دعوت دی جارہی ہے اور جسے اس کا رب ایسے گہرے الہامی الفاظ میں پکار رہا ہے۔ رسولوں کے بعد ان کی امتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات اور تاریخی جنگ وجدال کے بیان کے بعد اور یہ واضح کرنے کے بعد کہ واضح ایمانی دلائل کے باجود انہوں نے ناحق کفریہ تصورات اپنا لئے ۔ اب یہاں یہ مناسب سمجھا گیا کہ یہاں ایک ایسی جامع آیت اتاری دی جائے جو ایمانی تصورات کے اصول وقواعد پر مشتمل ہے ۔ یہ آیت الکرسی ہے جو نظریہ توحید کو اپنی پوری گہرائیوں اور واضح نشانات کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ یہ ایک عظیم المرتبہ آیت ہے ۔ جس میں گہرے معانی پوشیدہ ہیں اور جس کا دائرہ اطلاق بہت ہی وسیع ہے۔ (جس میں وہ کم ازکم عقائد بیان کئے گئے ہیں جو کفر و ایمان کے درمیان فاصلہ متعین کرتے ہیں)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

روز قیامت آنے سے پہلے پہلے اللہ کے لیے خرچ کرلو اس آیت شریفہ میں مال خرچ کرنے کا حکم فرمایا ہے اور لفظ رَزَقْنَاکُمْ میں یہ بتادیا کہ یہ مال ہمارا ہی دیا ہوا ہے جس نے مال دیا اس کو پورا پورا حق ہے کہ مال خرچ کرنے کا حکم فرمائے نیک کاموں میں فرائض واجبات کے مصارف بھی ہیں اور مستحب و نفلی صدقات بھی اور جس طرح بدنی عبادات (نماز روزہ) آخرت کے عذاب سے بچانے کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح مالی عبادات بھی اس کا سبب ہیں۔ صحیح بخاری ص ١٩١ ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا (اِتَّقُوا النَّار وَلَوْ بَشَقِّ تَمْرَۃٍ ) (دوزخ سے بچو اگرچہ آدھی ہی کھجور کا صدقہ کر دو ) قیامت کا دن بہت سخت ہوگا نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ ایمان اور اعمال صالحہ ہی کام دیں گے۔ اس دن نہ بیع ہوگی، نہ دوستی نہ سفارش، لہٰذا اس دن نجات پانے اور عذاب سے بچنے کے لیے اعمال صالحہ کرتے رہنا چاہئے۔ اعمال صالحہ میں اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنا بھی شامل ہے۔ یہ جو فرمایا کہ ” اس دن بیع نہیں ہوگی۔ “ اس کے بارے میں حضرات مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے فدیہ یعنی جان کا بدلہ مراد ہے، مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن کوئی جان کسی جان کے بدلہ عذاب بھگتنے کے لیے تیار نہیں ہوگی جیسا کہ سورة البقرہ کے چھٹے رکوع میں فرمایا (لَا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَیْءًا) اور فدیہ کی صورت میں کیونکہ مبادلہ ہوتا ہے اس لیے اسے بیع سے تعبیر فرمایا۔ اور یہ جو فرمایا وَ لَا خُلَّۃٌاس میں دوستی کی نفی فرمائی مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن دنیا کی کوئی دوستی کسی کو کام نہ دے گی یہاں جو محبتیں ہیں اور دوستی کے مظاہرے ہیں یہ وہاں بالکل نہ رہیں گے بلکہ دوست دشمن ہوجائیں گے۔ کوئی دوست کسی کی مدد نہ کرسکے گا۔ یہ اہل کفر اور اہل فسق کے بارے میں ہے۔ متقی حضرات کی محبتیں باقی رہیں گی جیسا کہ سورة الزخرف میں ارشاد فرمایا : (اَلْاَخِلَّاءُ یَوْمَءِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ) (کہ اس دن دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ سوائے ان لوگوں کے جو صفت تقویٰ سے متصف تھے) ۔ (وَلَا شَفَاعَۃٌ) فرما کر شفاعت یعنی سفارش کی نفی فرما دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کے لیے اس دن کوئی شفاعت نہ ہوگی۔ جیسا کہ سورة المؤمن میں فرمایا : (مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلاَ شَفِیْعٍ یُّطَاعُ ) (کہ ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا نہ سفارش کرنے والا ہوگا جس کی بات مانی جائے۔ اہل ایمان کے لیے جو شفاعت ہوگی اس میں اس کی نفی نہیں ہے جس کو سفارش کرنے کی اجازت ہوگی وہی سفارش کرسکے گا اور جس کے لیے سفارش کرنے کی اجازت ہوگی اس کے لیے سفارش ہو سکے گی۔ آیت کے ختم پر فرمایا (وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) (کفر کرنے والے ظالم ہی ہیں) انہوں نے معبود حق سے منہ موڑا اور خالق ومالک سے منحرف ہوگئے۔ ایسے لوگوں کی نجات کا کوئی راستہ نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

499 یعنی نیکی کمانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا موقع اس دنیا ہی میں ہے۔ دنیا میں کی ہوئی نیکی اور دنیا میں دی ہوئی خیرات ہی آخرت میں کام آئے گی۔ آخرت میں نہ تو تجارتی کاروبار ہوگا کہ عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ کی رقم کما لے نہ وہاں دوست کام آئیں گے اور نہ ہی کسی کی سفارش کام آسکے گی یہاں اس شفاعت کے نافع ہونے کی نفی ہے۔ جس کے مشرکین قائل تھے یعنی شفاعت قہری۔ وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ یہاں واؤ تعلیلیہ ہے۔ مطلب یہ کہ جہاد میں خرچ کرو۔ کیونکہ یہ کافر مشرک ہیں۔ اور شرک کو دنیا سے مٹانا ہے۔ اللہ کے مقرر کیے ہوئے اصول عقائد اور آئین حیات کو نہ ماننے والے ہی اصل ظالم ہیں۔ جو خدا کی نافرمانی سے اپنی جانوں پر ظلم کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 اے ایمان والو ! جو کچھ ہم نے تم کو عطا کیا ہے اور جو چیزیں ہم نے تم کو دے رکھی ہیں اس میں سے اس دن کے آنے سے پہلے پہلے کچھ خرچ کرتے رہا کرو جس دن نہ تو کوئی خریدو فروخت ہو سکے گی اور نہ آپس کی دوستی اور یاری چلے گی اور نہ سفارش ہوگی اور جو لوگ دین حق کا انکار کرنے والے ہیں وہی اپنی جان پر ظلم کررہے ہیں۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے آنے سے پہلے خدا کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ قیامت سے پہلے جو نیک کام کرلو گے وہی قیامت میں مفید ہوں گے باقی قیامت کے دن اگر چاہو کہ نیک عمل کہیں سے خرید کرلے آئو یا کسی دوست سے نیکیاں حاصل کرلو یا کسی شخص کی سفارش سے نیک اعمال کا مطالعہ ترک کرا دو اور نیک اعمال پیش کرنے سے سبکدوش ہو جائو جیسا کہ دنیا میں ہوتا ہے تو ان تینوں باتوں میں سے وہاں کوئی بات بھی ہونے والی نہیں۔ ظاہر کے خرید فروخت تو وہاں سرے سے ہے ہی نہیں کیونکہ وہ دن بیع و شرا کا نہیں ہے رہی دوستی تو وہ بھی صرف متقیوں میں قائم رہے گی ورنہ تمام دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے ہوں گے۔ ثم یوم المقیۃ یکفر بعضکم ببعض ویلعن بعضکم بعضا ً البتہ پرہیز گار لوگوں کی دوستیاں اپنے حال پر رہیں گی۔ الا خلاء یومئذ بعضھم لبعض عدوالاالمتقین رہی سفارش تو اول تو کوئی کسی کی سفارش بلا اجازت اور بلا حکم خداوندی کر ہی نہ سکے گا ، جیسا کہ چند سطروں کے بعد ابھی آتا ہے ۔ دوم یہ کہ سفارش کے لئے بھی تو کم از کم کسی چیز کی ضرورت ہے اور کچھ نہ ہو تو خدا کی توحید اور انبیاء (علیہ السلام) پر ایمان تو ہو کفر خالص کے لئے تو سفارش کی اجازت ہی نہ ہوگی۔ ما للظلمین من حمیو ولا شفیع یظاع آیت میں جو انفاق کا حکم دیا گیا ہے اس سے یا تو زکوٰۃ مراد ہے جیسا کہ اکثر نے کہا ہے اور تارک زکوٰۃ کو حضرت حق نے زجرا ً مشرک فرمایا ہے۔ وویل للمشرکین الذین لا یوتون الزکوٰۃ اگر انفاق سے زکوٰۃ مراد ہو تو تارکین زکوٰۃ کو قیامت کی وعید سنانا مقصود ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ زکوٰۃ کے علاوہ صدقات نافلہ مراد ہوں ۔ تب بھی قیامت کا ذکر کرنے سے صدقات کی کثرت پر ترغیب دلانا مقصود ہوگا اور جو دن ایسی پریشانی اور بےبسی کا ہو اس دن کے آنے سے پہلے جو بھلائی کرسکتے ہو اس سے غافل نہ رہو اور جو ہوسکتا ہے کرتے رہو ۔ ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں دونوں باتوں کی رعایت رکھی ہے۔ آخر میں ہر کافر کو ظالم فرمایا ہے حضرت عطا فرمایا کرتے تھے۔ الحمد للہ الذی قال والکفرون ھم الظلمون ولم یقل والظلمون ھم الکفرون یعنی خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہر کافر کو ظالم فرمایا اور ہر ظالم کو کافر نہیں فرمایا۔ بہر حال کافر اپنے اوپر ظلم کرنے سے ایسے ہوگئے کہ قیامت میں نہ کسی کی دوستی ان کو مفید ہوگی نہ کسی کی سفارش ان کے کام آئے گی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی عمل کا وقت ابھی ہے آخرت میں نہ عمل بکتے ہیں نہ کوئی آشنائی سے دیتا ہے نہ کوئی سفارش سے چھڑا سکتا ہے جب تک پکڑنے والا نہ چھوڑے۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے جس خوبی سے آیت کی تفسیر فرمائی ہے ۔ اس کی تعریف نہیں کی جاسکتی ۔ ( تسہیل)