Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 259

سورة البقرة

اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا ۚ قَالَ اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا ۚ فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ؕ قَالَ کَمۡ لَبِثۡتَ ؕ قَالَ لَبِثۡتُ یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمۡ یَتَسَنَّہۡ ۚ وَ انۡظُرۡ اِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجۡعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ انۡظُرۡ اِلَی الۡعِظَامِ کَیۡفَ نُنۡشِزُہَا ثُمَّ نَکۡسُوۡہَا لَحۡمًا ؕ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۲۵۹﴾

Or [consider such an example] as the one who passed by a township which had fallen into ruin. He said, "How will Allah bring this to life after its death?" So Allah caused him to die for a hundred years; then He revived him. He said, "How long have you remained?" The man said, "I have remained a day or part of a day." He said, "Rather, you have remained one hundred years. Look at your food and your drink; it has not changed with time. And look at your donkey; and We will make you a sign for the people. And look at the bones [of this donkey] - how We raise them and then We cover them with flesh." And when it became clear to him, he said, "I know that Allah is over all things competent."

یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گُزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی ، وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالٰی اسے کس طرح زندہ کرے گا ؟تو اللہ تعالٰی نے اسے مار دیا سو سال کے لیئے ، پھر اسے اُٹھایا ، پوچھا کتنی مدت تم پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں ، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں ، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Story of Uzayr Allah's statement, أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَأجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رِبِّهِ (Have you not looked at him who disputed with Ibrahim about his Lord) means, "Have you seen anyone like the person who disputed with Ibrahim about his Lord!" Then, Allah connected the Ayah, أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا ... Or like the one who passed by a town in ruin up to its roofs, to the Ayah above by using `or'. Ibn Abi Hatim recorded that Ali bin Abi Talib said that; the Ayah meant Uzayr. Ibn Jarir also reported it, and this explanation was also reported by Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim from Ibn Abbas, Al-Hasan, Qatadah, As-Suddi and Sulayman bin Buraydah. Mujahid bin Jabr said that; the Ayah refers to a man from the Children of Israel, and the village was Jerusalem, after Nebuchadnezzar destroyed it and killed its people. وَهِيَ خَاوِيَةٌ (in ruin) means, it became empty of people. Allah's statement, عَلَى عُرُوشِهَا (up to its roofs) indicates that the roofs and walls (of the village) fell to the ground. Uzayr stood contemplating about what had happened to that city, after a great civilization used to inhabit it. ... قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ... He said: "Oh! How will Allah ever bring it to life after its death! because of the utter destruction he saw and the implausibility of its returning to what it used to be. ... فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِيَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ... So Allah caused him to die for a hundred years, then raised him up (again). The city was rebuilt seventy years after the man (Uzayr) died, and its inhabitants increased and the Children of Israel moved back to it. When Allah resurrected Uzayr after he died, the first organ that He resurrected were his eyes, so that he could witness what Allah does with him, how He brings life back to his body. When his resurrection was complete, Allah said to him, meaning through the angel, ... قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ... He said: "How long did you remain (dead)!" He (the man) said: "(Perhaps) I remained (dead) a day or part of a day." The scholars said that since the man died in the early part of the day and Allah resurrected him in the latter part of the day, when he saw that the sun was still apparent, he thought that it was the sun of that very day. He said, أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ("Or part of a day"). ... قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِيَةَ عَامٍ فَانظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ... He said: "Nay, you have remained (dead) for a hundred years, look at your food and your drink, they show no change." He had grapes, figs and juice, and he found them as he left them; neither did the juice spoil nor the figs become bitter nor the grapes rot. ... وَانظُرْ إِلَى حِمَارِكَ ... And look at your donkey! "How Allah brings it back to life while you are watching." ... وَلِنَجْعَلَكَ ايَةً لِّلنَّاسِ ... And thus We have made of you a sign for the people, that Resurrection occurs. ... وَانظُرْ إِلَى العِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ... Look at the bones, how We Nunshizuha, meaning, collect them and put them back together. In his Mustadrak, Al-Hakim, recorded that; Kharijah bin Zayd bin Thabit said that his father said that the Messenger of Allah read this Ayah, كَيْفَ نُنشِزُهَا (how We Nunshizuha). Al-Hakim said; "Its chain is Sahih and they (Al-Bukhari and Muslim) did not record it." The Ayah was also read, نُنشِرُهَا "Nunshiruha" meaning, bring them back to life, as Mujahid stated. ... ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ... And clothe them with flesh. As-Suddi said, "Uzayr observed the bones of his donkey, which were scattered all around him to his right and left, and Allah sent a wind that collected the bones from all over the area. Allah then brought every bone to its place, until they formed a full donkey made of fleshless bones. Allah then covered these bones with flesh, nerves, veins and skin. Allah sent an angel who blew life in the donkeys' nostrils, and the donkey started to bray by Allah's leave." ... فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ ... When this was clearly shown to him, All this occurred while Uzayr was watching, and this is when he proclaimed, ... قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ He said, "I know (now) that Allah is able to do all things." meaning, "I know that, and I did witness it with my own eyes. Therefore, I am the most knowledgeable in this matter among the people of my time."

سو سال بعد اوپر جو واقعہ حضرت ابراہیم کے مباحثہ کا گزرا ، اس پر اس کا عطف یہ ، یہ گزرنے والے یا تو حضرت عزیز تھے جیسا کہ مشہور ہے یا ارمیا بن خلقیا تھے اور یہ نام حضرت خضر کا ہے ، یا خرقیل بن بوار تھے ، یا بنی اسرائیل میں کا ایک شخص تھا ، یہ بستی بیت المقدس تھی اور یہی قول مشہور ہے ، بخت نصر نے جب اسے اجاڑا یہاں کے باشندوں کو تہ تیغ کیا ، مکانات گرا دئیے اور اس آباد بستی کو بالکل ویران کر دیا ، اس کے بعد یہ بزرگ یہاں سے گزرے ، انہوں نے دیکھا کہ ساری بستی تہ و بالا ہو گئی ہے ، نہ مکان ہے نہ مکین ، تو وہاں ٹھہر کر سوچنے لگے کہ بھلا ایسا بڑا پررونق شہر جو اس طرح اُجڑا ہے یہ پھر کیسے آباد ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر موت نازل فرمائی ، تو اسی حالت میں رہے اور وہاں ستر سال کے بعد بیت المقدس پھر آباد ہو گیا ، بھاگے ہوئے بنی اسرائیل بھی پھر آپہنچے اور شہر کھچا کھچ بھر گیا ، وہی اگلی سی رونق اور چہل پہل ہو گئی ، اب سو سال کامل کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کیا اور سب سے پہلے روح آنکھوں میں آئی تاکہ اپنا جی اُٹھنا خود دیکھ سکیں ، جب سارے بدن میں روح پھونک دی گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے پچھوایا کہ کتنی مدت تک تم مردہ رہے؟ جس کے جواب میں کہا کہ ابھی تک ایک دن بھی پورا نہ ہوا ، وجہ یہ ہوئی کہ صبح کے وقت ان کی روح نکلی تھی اور سو سال کے بعد جب جئے ہیں تو شام کا وقت تھا ، خیال کیا کہ یہ وہی دن ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایک سو سال کامل تک مردہ رہے ، اب ہماری قدرت دیکھو کہ تمہارا توشہ بھتا جو تمہارے ساتھ تھا ، باوجود سو سال گزر جانے کے بھی ویسا ہی ہے ، نہ سڑا نہ خراب ہوا ہے ۔ یہ توشہ انگور اور انجیر اور عصیر تھا نہ تو یہ شیرہ بگڑا تھا نہ انجیر کھٹے ہوئے تھے نہ انگور خراب ہوئے تھے بلکہ ٹھیک اپنی اصلی حالت پر تھے ، اب فرمایا یہ تیرا گدھا جس کی بوسیدہ ہڈیاں تیرے سامنے پڑی ہیں ، انہیں دیکھ تیرے دیکھتے ہوئے ہم اسے زندہ کرتے ہیں ، ہم خد تیری ذات کو لوگوں کیلئے دلیل بنانے والے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن اپنے دوبارہ جی اٹھنے پر یقین کامل ہو جائے ، چنانچہ ان کے دیکھتے ہوئے ہڈیاں اٹھیں اور ایک ایک کے ساتھ جڑیں ، مستدرک حاکم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت ننشزھا زے کے ساتھ ہے اور ننشزھا رے کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے یعنی زندہ کریں گے ، مجاہد کی قرأت یہی ہے ، سدی وغیرہ کہتے ہیں یہ ہڈیاں ان کے دائیں بائیں پھیل پڑی تھیں اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی سفیدی چمک رہی تھی ، ہوا سے یہ سب یکجاں ہو گئیں ، پھر ایک ایک ہڈی اپنی اپنی جگہ جڑ گئی اور ہڈیوں کا پورا ڈھانچہ قائم ہو گیا جس پر گوشت مطلق نہ تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے گوشت ، رگیں ، پٹھے ، اور کھال پہنا دی ، پھر فرشتے کو بھیجا جس نے اس کے نتھنے میں پھونک ماری ، بس اللہ کے حکم سے اسی وقت ندہ ہو گیا اور آواز نکالنے لگا ، ان تمام باتوں کو دیکھ کر حضرت عزیز دیکھتے رہے اور مدت کی یہ ساری کاریگری ان کی آنکھوں کے سامنے ہی ہوئی ، جب یہ سب کچھ دیکھ چکے تو کہنے لگے اس بات کا علم تو مجھے تھاہی کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اب میں نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیا ، تو میں اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے زیادہ علم و یقین والا ہوں ، بعض لوگوں نے اعلم کو اعلم بھی پڑھا ہے ، یعنی اللہ مقتدر نے فرمایا کہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

259۔ 1 او کالذی کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے پہلے واقعہ کی طرح اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا یہ شخص کون تھا اس کی بابت بہت سے اقوال نقل کیے جا چکے ہیں زیادہ مشہور حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام ہے جس کے بعض صحابہ وتابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے واقعہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و نمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کردیا حتی کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا جب وہ سو سال کے بعد زندہ کرسکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ 259۔ 2 کہا جاتا ہے کہ جب وہ مذکورہ شخص مرا اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کی اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ 259۔ 3 یعنی یقین تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور علم میں مزید پختگی اور اضافہ ہوگیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٧١] اشیائے کائنات میں اللہ تعالیٰ کس کس طرح کے محیر العقول تصرف کرسکتا ہے ؟ یہ بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا واقعہ بیان فرمایا۔ یہ واقعہ حضرت عزیر (علیہ السلام) سے تعلق رکھتا ہے جن کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں ساری تورات زبانی یاد تھی۔ بخت نصر نے شام پر حملہ کر کے بیت المقدس کو ویران کیا اور بہت سے اسرائیلیوں کو قید کر کے اپنے ہاں بابل لے گیا تو ان میں حضرت عزیر (علیہ السلام) بھی تھے۔ کچھ مدت بعد رہائی ہوئی اور واپس اپنے وطن آ رہے تھے کہ راہ میں ایک اجڑا ہوا شہر دیکھا جو بخت نصر کے حملہ کے نتیجہ میں ہی ویران ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر دل ہی میں یہ خیال آیا کہ اللہ اب اس بستی کو کب اور کیسے آباد کرے گا ؟ اس وقت آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور خوردو نوش کا سامان ساتھ تھا۔ اس خیال کے آتے ہی اللہ نے آپ کی روح قبض کرلی۔ [٣٧٢] اور پورے سو سال موت کی نیند سلا کر پھر انہیں زندہ کر کے پوچھا : && بتلاؤ کتنی مدت اس حال میں پڑے رہے ؟ && اب عزیر (علیہ السلام) کے پاس ماسوائے سورج کے، وقت معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا جب جا رہے تھے تو پہلا پہر تھا اور اب دوسرا پہر کہنے لگے : && یہی بس دن کا کچھ حصہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دوسرا دن ہو &&۔ کیونکہ اس سے زیادہ انسان کبھی نہیں سوتا۔[٣٧٣] اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دیکھو تم سو سال یہاں پڑے رہے ہو جب عزیر (علیہ السلام) نے اپنے بدن اور جسمانی حالت کی طرف اور اپنے سامان خوردو نوش کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہی دن ہے جب ان پر نیند طاری ہوئی تھی۔ پھر جب اپنے گدھے کی طرف دیکھا کہ اس کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہوگئی ہیں تو سمجھے کہ واقعی سو سال گزر چکے ہوں گے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی، پھر وہ جڑنے لگیں۔ پھر ہڈیوں کے اس پنجر پر گوشت پوست چڑھا اور ان کے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ پھر اس بستی کی طرف نظر دوڑائی جسے دیکھ کر ایسا خیال آیا تھا تو وہ بھی آباد ہوچکی تھی۔ اب دیکھئے اس واقعہ میں درج ذیل معجزات وقوع پذیر ہوئے۔ ١۔ حضرت عزیر خود بھی ان کا گدھا بھی اور وہ بستی بھی مرنے کے بعد زندہ ہوئے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے خیال تین طریقوں سے جواب دیا۔ جس سے آپ کو عین الیقین حاصل ہوگیا۔ ٢۔ اس سو سال کی مدت کا نہ آپ کی ذات پر کچھ اثر ہوا، نہ آپ کے سامان خوردو نوش پر۔ چناچہ جب آپ واپس اپنے گھر پہنچے تو آپ کے بیٹے اور پوتے تو بوڑھے ہوچکے تھے اور آپ خود ان کی نسبت جوان تھے۔ اس طرح آپ کی ذات بھی تمام لوگوں کے لیے ایک معجزہ بن گئی۔ غالباً اسی وجہ سے یہودیوں کا ایک فرقہ انہیں ابن اللہ کہنے لگا تھا۔ ٣۔ لیکن گدھے پر سو سال کا عرصہ گزرنے کے جملہ اثرات موجود تھے۔ یہ تضاد زمانی بھی ایک بہت بڑا حیران کن معاملہ اور معجزہ تھا۔ ٤۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کا جڑنا، اس کا پنجر مکمل ہونا، اس پر گوشت پوست چڑھنا پھر اس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ : اس ” اَوْ “ کا عطف اس سے پہلی آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْ ) میں مذکور ” الَّذِيْ “ پر ہے، یعنی کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ۔۔ ، یا کیا تو نے اس جیسے شخص کو نہیں دیکھا۔۔ ” اَلَمْ تَر “ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمْ “ ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورة فیل کے حواشی) اور ” اَلَمْ تَرَ “ سے مقصود کوئی عجیب واقعہ بیان کرنے سے پہلے اس کے سننے کا شوق دلانا ہوتا ہے۔ خَاوِيَةٌ : یہ باب ” ضَرَبَ “ سے اسم فاعل ہے، مادہ ” خ و ی “ ہے، جس کا معنی کھوکھلا ہونا ہے۔ چونکہ کھوکھلا ہونے کا نتیجہ گرپڑنا ہے، اس لیے اس کا معنی گرپڑنا بھی آتا ہے، عموماً پہلے چھت گرتی ہے پھر دیواریں اس پر گر پڑتی ہیں، اس لیے فرمایا : ” چھتوں پر گری ہوئی تھی۔ “ لَمْ يَتَسَـنَّهْ ۚ: اس لفظ کا مادہ یا تو ” س ن ن “ ہے، جس کا معنی بدبو دار ہونا ہے، جیسے فرمایا : (مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ ) [ الحجر : ٢٦ ] ” جو بدبودار، سیاہ کیچڑ سے تھی۔ “ باب تفعل میں ” لَمْ یَتَسَنَّنْ “ ہوگیا، پھر آخری نون کو ” ہاء “ سے بدل دیا، جیسے : ” لَمْ یَتَقَضَّضِ الْبَازِیْ “ (باز تیزی سے نہیں جھپٹا) کو ” لَمْ یَتَقَضَّہْ “ کردیتے ہیں۔ یا پھر اس کا مادہ ” سن ن ہ “ ہے، اس سے باب تفعل ” تَسَنَّہَ “ کا معنی روٹی کا بدبودار ہونا ہے، اس صورت میں ” ہاء “ اصل ہے، تو ” لَمْ يَتَسَـنَّهْ ۚ“ کا معنی ہے، بدبودار نہیں ہوا۔ پہلے قصے سے کائنات کو بنانے والے کا ایک ہونا (یعنی توحید) بیان کرنا مقصود تھا، جبکہ اس قصے اور اس کے بعد والے قصے سے حشر و نشر ثابت کرنا مقصود ہے۔ اس آیت میں مذکور شخص سے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا صحابہ کرام (رض) سے صحیح سند کے ساتھ کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ کون تھا۔ بعض تابعین نے اس کا نام عزیر (علیہ السلام) بتایا ہے اور بعض نے ارمیا اور ظاہر ہے کہ اس کا ماخذ وہ اسرائیلی روایات ہیں جنھیں نہ سچا کہا جاسکتا ہے نہ ہی جھوٹا۔ واللہ اعلم ! البتہ یہ بات یقینی ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا ان سے پوچھنا اور پھر اصل مدت بتانا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اللہ کے نبی تھے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا اس بستی کو دوبارہ زندہ کرنا بعید کیوں سمجھا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ انھوں نے بعید سمجھ کر یہ سوال نہیں کیا تھا اور نہ انھیں قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے میں کوئی شک تھا، بلکہ اس سے اطمینان حاصل کرنا مقصود تھا اور وہ دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کو بعض حقیقتوں کا آنکھوں سے مشاہدہ کروا دیتا ہے۔ ان دونوں واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس شخص کا دوست اور کار ساز اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اسے کس طرح اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ (رازی) معلوم ہوتا ہے کہ جب اس نبی نے وفات پائی تھی تو اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب دوبارہ زندہ ہوئے تو سورج غروب ہونے کو تھا، اس لیے انھوں نے سو سال گزرنے کے باوجود یہ سمجھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ گزرا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر : اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَةٍ وَّهِيَ خَاوِيَةٌ (الی ٰ قولہ) اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ کیا تم کو اس طرح کا قصہ بھی معلوم ہے جیسے ایک شخص تھا کہ (چلتے چلتے) ایک بستی پر ایسی حالت میں اس کا گذر ہوا کہ اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرگئے تھے (یعنی پہلے چھتیں گریں پھر ان پر دیواریں گر گئیں مراد یہ ہے کہ کسی حادثہ سے وہ بستی ویران ہوگئی تھی، اور سب آدمی مر مرا گئے وہ شخص یہ حالت دیکھ کر حیرت سے) کہنے لگا کہ (معلوم نہیں) اللہ تعالیٰ اس بستی کو (یعنی اس کے مردوں کو) اس کے مرے پیچھے کس کیفیت سے (قیامت میں) زندہ کریں گے (یہ تو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میں مردوں کو جلادیں گے، مگر اس وقت کے جلانے کا جو خیال غالب ہوا تو بوجہ اس امر کے عجیب ہونے کے ایک حیرت سی دل میں غالب ہوگئی اور چونکہ خدا تعالیٰ ایک کام کو کئی طرح کرسکتے ہیں اس لئے طبیعت اس کی متلاشی ہوئی کہ خدا جانے جلا دینا کس صورت سے ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ اس کا تماشا اس کو دنیا ہی میں دکھلا دیں تاکہ ایک نظیر کے واقع ہوجانے سے لوگوں کو زیادہ ہدایت ہو) سو (اس لئے) اللہ تعالیٰ نے اس شخص (کی جان قبض کرکے اس کو) سو برس تک مردہ رکھا پھر (سو برس کے بعد) اس کو زندہ اٹھایا (اور پھر) پوچھا کہ تو کتنی مدت اس حالت میں رہا ؟ اس شخص نے جواب دیا کہ ایک دن رہا ہوں گا یا ایک دن سے بھی کم (کنایہ ہے مدت قلیل سے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تو (اس حالت میں) سو برس رہا ہے (اور اگر آپ نے بدن کے اندر تغیر نہ ہونے سے تعجب ہو) تو اپنے کھانے پینے (کی) چیز کو دیکھ لے کہ (ذرا) نہیں سڑی گلی (ایک قدرت تو ہماری یہ ہے) اور (دوسری قدرت دیکھنے کے واسطے) اپنے (سواری کے) گدھے کی طرف نظر کر (کہ گل سڑ کر کیا حال ہوگیا ہے اور ہم عنقریب اس کو تیرے سامنے زندہ کئے دیتے ہیں) اور (ہم نے تجھ کو اس لئے مار کر زندہ کیا ہے) تاکہ ہم تجھ کو (اپنی قدرت کی) ایک نظیر لوگوں کے لئے بنادیں (کہ اس نظیر سے بھی قیامت کے روز زندہ ہونے پر استدلال کرسکیں) اور (اب اس گدھے کی) ہڈیوں کی طرف نظر کر کہ ہم ان کو کس طرح ترکیب دیئے دیتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھا دیتے ہیں (پھر اس میں جان ڈال دیتے ہیں غرض یہ سب امور یوں ہی کردیئے گئے) پھر جب یہ سب کیفیت اس شخص کو (مشاہدہ سے) واضح ہوگئی تو (بےاختیار جوش میں آکر) کہہ اٹھا کہ میں (دل سے) یقین رکھتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰي قَرْيَۃٍ وَّہِيَ خَاوِيَۃٌ عَلٰي عُرُوْشِہَا۝ ٠ ۚ قَالَ اَنّٰى يُـحْيٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَا۝ ٠ ۚ فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَـۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ۝ ٠ ۭ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ۝ ٠ ۭ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۝ ٠ ۭ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَـنَّہْ۝ ٠ ۚ وَانْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَۃً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَكْسُوْھَا لَحْــمًا۝ ٠ ۭ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَہٗ۝ ٠ ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ٢٥٩ مرر المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] ، وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] تنبيها أنّهم إذا دفعوا إلى التّفوّه باللغو کنّوا عنه، وإذا سمعوه تصامموا عنه، وإذا شاهدوه أعرضوا عنه، وقوله : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا [يونس/ 12] فقوله : مَرَّ هاهنا کقوله : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] وأمْرَرْتُ الحبلَ : إذا فتلته، والمَرِيرُ والمُمَرُّ : المفتولُ ، ومنه : فلان ذو مِرَّةٍ ، كأنه محکم الفتل . قال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] . ويقال : مَرَّ الشیءُ ، وأَمَرَّ : إذا صار مُرّاً ، ومنه ( م ر ر ) المرور ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین/ 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے ۔ وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان/ 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گزرجاتے ہیں ۔ نیز آیت کریمہ میں اس بات پر بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں بیہودہ بات کہنے پر مجبوری بھی کیا جائے تو کنایہ سے بات کرتے ہیں اور لغوبات سن کر اس سے بہرے بن جاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں تو اعراض کرلیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا[يونس/ 12] پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں ( تو بےلحاظ ہوجاتا اور ) اس طرح گزرجاتا ہے کہ گویا تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا ۔ میں مربمعنی اعرض ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء/ 83] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگردان ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یاممر کہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرکہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] طاقتور نے ۔ مرالشئی وامر کسی چیز کا تلخ ہونا ۔ اسی سے محاورہ ہے۔ فلان مایمر سو مایحلی کہ فلاں نہ تو کڑوا ہے اور نہ میٹھا ۔ یعنی نہ تو اس سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ اور آیت کریمہ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً فَمَرَّتْ بِهِ [ الأعراف/ 189]( تو ) اسے ہلکا ساحمل رہ جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔ میں مرت بمعنی استمرت ہے ۔ یعنی وہ اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے ۔ مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں خوی أصل الخَوَاء : الخلا، يقال خَوَى بطنه من الطعام يَخْوِي خَوًى وخَوَى الجوز خَوًى تشبيها به، وخَوَتِ الدار تَخْوِي خَوَاءً ، وخَوَى النجم وأَخْوَى: إذا لم يكن منه عند سقوطه مطر، تشبيها بذلک، وأخوی أبلغ من خوی، كما أن أسقی أبلغ من سقی. والتّخوية : ترک ما بين الشيئين خالیا . ( خ و ی ) الخوا ء کے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اس کا پیٹ طعام سے خالی ہوگیا ۔ اور تشبیہ کے طور پر خوی الجواز کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ جسکے معنی خالی ہونے کے ہیں ۔ خوت خواء الدار گھر ویران ہوکر گر پڑا اور جب ستارے کے گرنے پر بارش نہ ہو تو تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے یہاں خوی کی نسبت آخویٰ کے لفظ میں زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے جیسا کہ سقی اور اسقیٰ میں ۔ التخویۃ دو چیزوں کے درمیان جگہ خالی چھوڑ نا ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ مئة المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال : أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ. م ی ء ) المائۃ ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال/ 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ عام العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا پس بعث دو قمخ پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے كم كَمْ : عبارة عن العدد، ويستعمل في باب الاستفهام، وينصب بعده الاسم الذي يميّز به نحو : كَمْ رجلا ضربت ؟ ويستعمل في باب الخبر، ويجرّ بعده الاسم الذي يميّز به . نحو : كَمْ رجلٍ. ويقتضي معنی الکثرة، وقد يدخل «من» في الاسم الذي يميّز بعده . نحو : وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] ، وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] ، والکُمُّ : ما يغطّي الید من القمیص، والْكِمُّ ما يغطّي الثّمرةَ ، وجمعه : أَكْمَامٌ. قال : وَالنَّخْلُ ذاتُ الْأَكْمامِ [ الرحمن/ 11] . والْكُمَّةُ : ما يغطّي الرأس کالقلنسوة . کم یہ عدد سے کنایہ کے لئے آتا ہے اور یہ دو قسم پر ہے ۔ استفہامیہ اور خبریہ ۔ استفہامیہ ہوتا اس کا مابعد اسم تمیزبن کر منصوب ہوتا ( اور اس کے معنی کتنی تعداد یا مقدار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے کم رجلا ضربت اور جب خبریہ ہو تو اپنی تمیز کی طرف مضاف ہوکر اسے مجرور کردیتا ہے اور کثرت کے معنی دیتا ہے یعنی کتنے ہی جیسے کم رجل ضربت میں نے کتنے ہی مردوں کو پیٹا اور اس صورت میں کبھی اس کی تمیز پر من جارہ داخل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَكَمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها[ الأعراف/ 4] اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ ہم نے تباہ کروالیں ۔ وَكَمْ قَصَمْنا مِنْ قَرْيَةٍ كانَتْ ظالِمَةً [ الأنبیاء/ 11] اور ہم نے بہت سے بستیوں کو جو ستم گار تھیں ہلاک کر ڈالا ۔ لبث لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] ، ( ل ب ث ) لبث بالمکان کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ يوم اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] ، ( ی و م ) الیوم ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران/ 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں (يتسنّه) ، الهاء في الفعل أصلية، فهي ثابتة وصلا ووقفا، وقیل هي للسکت وأنّ لام الکلمة واو، والفعل مجزوم بحذف حرف العلّة ويجوز أن يكون الفعل مشتقّ من التسنّن الذي هو التغيّر وأصله لم يتسنّن، مأخوذ من الحمأ المسنون، فأبدلت النون الأخيرة حرف علّة، وفي هذه الحال تکون الهاء للسکت ليس غير . وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة/ 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة لم یتسنہ۔ نفی حجد ہلم۔ واحد مذکر غائب۔ ( باوجود سالہا گزر جانے کے) تمہارا مشروب یا طعام خراب نہیں ہوا۔ تسنن ( باب تفعل) مصدر سے۔ عمر رسیدہ ہونا۔ پرانا ہونا۔ خوراک کا بس ہوجانا ۔ خوارک کو پھپھوندی لگ جانا۔ س ن ن حروف مادہ ہیں۔ یتسن اصل میں یتسنن تھا۔ چونکہ تین نون جمع ہوگئے تھے اخیر کو ی سے بدلا۔ پھر ی کو الف سے بدلا الف جزم کی وجہ سے حذف ہوگیا۔ ہ استراحت یعنی سکتہ کی ہے۔ مادہ س ن ہ سے سنہ یسنہ سنہ ( باب سمع) سے بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی بہت سالوں والا ہونا۔ طعام یا شراب کا متغیر ہوجانا۔ بگڑ جانا۔ حمر الحِمَار : الحیوان المعروف، وجمعه حَمِير وأَحْمِرَة وحُمُر، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل/ 8] ، ويعبّر عن الجاهل بذلک، کقوله تعالی: كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة/ 5] ، وقال تعالی: كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر/ 50] ، وحمار قبّان : دويّبة، والحِمَارَان : حجران يجفّف عليهما الأقط شبّه بالحمار في الهيئة، والمُحَمَّر : الفرس الهجين المشبّه بلادته ببلادة الحمار . والحُمْرَة في الألوان، وقیل : ( الأحمر والأسود) للعجم والعرب اعتبارا بغالب ألوانهم، وربما قيل : حمراء العجان والأحمران : اللحم والخمر اعتبارا بلونيهما، والموت الأحمر أصله فيما يراق فيه الدم، وسنة حَمْرَاء : جدبة، للحمرة العارضة في الجوّ منها، وکذلک حَمَّارَة القیظ : لشدّة حرّها، وقیل : وِطَاءَة حَمْرَاء : إذا کانت جدیدة، ووطاءة دهماء : دارسة . ( ح م ر ) الحمام ( گدھا ) اس کی حمر وحمیر واحمرتہ آتی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ [ النحل/ 8] اور گھوڑے خچر اور گدھے ۔ کبھی حمار کے لفظ سے جاہل اور بےعلم آدمی بھی مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ كَمَثَلِ الْحِمارِ يَحْمِلُ أَسْفاراً [ الجمعة/ 5] ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں ۔ كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ [ المدثر/ 50] گویا گدھے ہیں جو بدک جاتے ہیں ۔ حمار قبان ایک قسم کا کیڑا ( جسے فارسی میں خرک کہا جاتا ہے ) الجمار ( ان دو پتھر جن پر پنیر خشک کیا جاتا ہے ہیئت میں حمار سے تشبیہ کے طور پر کہا جاتا ہے اور گدھے کے ساتھ جلاوت میں تشبیہ دیکر و غلی نسلی کے گھوڑے کو بھی المحمر کہا جاتا ہے الحمرۃ سرخی ۔ الاحمر الاسود ( عرب ) وعجم ( اس میں عمومی رنگت کا لحاظ کیا گیا ہے ) اور کبھی حمراء العجان ( کنایہ ازعجم ) بھی کہا جاتا ہے ۔ الاحمران ۔ گوشت اور شراب الموت الاحمر سخت موت ، وہ موت جو قبل راقع ہو سنۃ حمراء قحط سالی کیونکر اس میں فضا کا رنگ سرخ نظر آتا ہے اسی بنا پر سخت گرمی کو حمرۃ القیط کہا جاتا ہے ۔ وطاءۃ حمراء قدم کا تازہ نشان س کے بالمقابل مٹے ہوئے نسان کو وطاءۃ دھماء بولتے ہیں ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ عظم العَظْمُ جمعه : عِظَام . قال تعالی: عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ، وقرئ : عظاما «1» فيهما، ومنه قيل : عَظْمَة الذّراع لمستغلظها، ( ع ظ م ) العظم کے معنی ہڈی کے ہیں اس کی جمع عظا م آتی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے : ۔ عِظاماً فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ہڈیاں ( بنائیں ) پھر ہڈیوں پر گوشت ( پوست ) چڑھا یا ۔ ایک قرات میں دونوں جگہ عظم ہے اور اسی سے عظمۃ الذراع ہے جس کے معنی بازو کا موٹا حصہ کے ہیں عظم الرجل بغیر تنگ کے پالان کی لکڑی عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے ہو یا عقل سے ۔ نشز النَّشْزُ : المُرْتَفِعُ من الأرضِ ، ونَشَزَ فلانٌ: إذا قصد نَشْزاً ، ومنه : نَشَزَ فلان عن مقرِّه : نَبا، وكلُّ نابٍ نَاشِزٌ. قال تعالی: وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة/ 11] ويعبّر عن الإحياء بِالنَّشْزِ والإِنْشَازِ ، لکونه ارتفاعا بعد اتِّضاع . قال تعالی: وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة/ 259] ، وقُرِئَ بضَمِّ النون وفَتْحِهَا وقوله تعالی: وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء/ 34] ونُشُوزُ المرأة : بُغْضُها لزَوْجها ورفْعُ نفسِها عن طاعتِه، وعَيْنِها عنه إلى غيره، وبهذا النَّظر قال الشاعر :إِذَا جَلَسَتْ عِنْدَ الإمامِ كأَنَّهَا ... تَرَى رُفْقَةً من ساعةٍ تَسْتَحِيلُهَا وعِرْقٌ نَاشِزٌ. أيْ : نَاتِئٌ. ( ن ش ز ) النشز۔ بلند زمین کو کہتے ہیں ۔ اور نشز فلان کے معنی بلند زمین کا قصد کرنے کے ہیں ۔ اسی سے نشز فلان عن مقرہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کے اپنی قرارگاہ سے اوپر ابھر آنے کے ہیں ۔ اور ہر اوپر اٹھنے والی چیز کو ناشز کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذا قِيلَ انْشُزُوافَانْشُزُوا [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ اور نشز ونشاز کے معنی زندہ کرنا ۔۔۔ بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ زندگی میں بھی ایک طرح کا ابھار پایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَانْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها[ البقرة/ 259] اور ( وہاں ) گدھے کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکہ جوڑ دیتے ہیں اور ان پر ( کس طرح ) گوشت ( پوست) چڑھادیتے ہیں ۔ اور نشرھا کے نون پر ضمہ اور فتحۃ دونوں جائز ہیں ۔ اور نشوزا المرءۃ کے معنی عورت کے اپنے شوہر کو برا سمجھنے اور سرکشی کرنے اور کسی دوسرے مرد پر نظر رکھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَاللَّاتِي تَخافُونَ نُشُوزَهُنَ [ النساء/ 34] اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی ( اور بدخوئی ) کرنے لگی ہیں ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (426) اذا جلست عندا الامام کانھا تریٰ رفقۃ من ساعۃ تستحیلھا اور عرق ناشز کے معنی پھولی ہوئی رگ کے ہیں كسا الكِسَاءُ والْكِسْوَةُ : اللّباس . قال تعالی: أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] ، وقد كَسَوْتُهُ واكْتَسَى. قال : وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ، فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] ( ک س و ) الکساء والکسوۃ کے معنی لباس کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ المائدة/ 89] یا ان کو کپڑا دینا کسوتہ ۔ میں نے اسے لباس پہنایا ۔ اکتسیٰ ( افتعال ) اس نے پہن لیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَارْزُقُوهُمْ فِيها وَاكْسُوهُمْ [ النساء/ 5] ہاں اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو ۔ فَكَسَوْنَا الْعِظامَ لَحْماً [ المؤمنون/ 14] پھر ہڈیوں پر گوشت پوست چڑھا تا ۔ لحم اللَّحْمُ جمعه : لِحَامٌ ، ولُحُومٌ ، ولُحْمَانٌ. قال : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] . ولَحُمَ الرّجل : كثر عليه اللّحم فضخم، فهو لَحِيمٌ ، ولَاحِمٌ وشاحم : صار ذا لَحْمٍ وشحم . نحو : لابن وتامر، ولَحِمَ : ضري باللّحم، ومنه : باز لَحِمٌ ، وذئب لحم . أي : كثيرُ أَكْلِ اللّحم . وبیت لَحْمٍ : أي : فيه لحم، وفي الحدیث : «إنّ اللہ يبغض قوما لَحِمِينَ» «1» . وأَلْحَمَهُ : أطعمه اللّحم، وبه شبّه المرزوق من الصّيد، فقیل : مُلْحِمٌ ، وقد يوصف المرزوق من غيره به، وبه شبّه ثوب مُلْحَمٌ: إذا تداخل سداه «2» ، ويسمّى ذلک الغزل لُحْمَةٌ تشبيها بلحمة البازي، ومنه قيل : «الولاء لُحْمَةٌ کلحمة النّسب» «3» . وشجّة مُتَلَاحِمَةٌ: اکتست اللّحم، ولَحَمْتُ اللّحم عن العظم : قشرته، ولَحَمْتُ الشیءَ ، وأَلْحَمْتُهُ ، ولَاحَمْتُ بين الشّيئين : لأمتهما تشبيها بالجسم إذا صار بين عظامه لحمٌ يلحم به، واللِّحَامُ : ما يلحم به الإناء، وأَلْحَمْتُ فلانا : قتلته وجعلته لحما للسّباع، وأَلْحَمْتُ الطائر : أطعمته اللّحم، وأَلْحَمْتُكَ فلانا : أمکنتک من شتمه وثلبه، وذلک کتسمية الاغتیاب والوقیعة بأكل اللَّحْمِ. نحو قوله تعالی: أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] ، وفلان لَحِيمٌ فعیل كأنّه جعل لحما للسّباع، والمَلْحَمَةُ : المعرکة، والجمع المَلَاحِمُ. ( ل ح م ) اللحم ( گوشت ) کی جمع لحام ، لحوم ، اور لحمان آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ [ البقرة/ 173] اور سور کا گوشت لحم الرجل فھولحیم کے معنی ہیں وہ پر گوشت اور موٹا ہوگیا ۔ اور ہوئے چربی چڑھے ہوئے آدمی کو لاحم شاحم کہاجاتا ہے جیسے : لابن وتامر ۔ لحم ( س) کے معنی گوشت کھانے کا حریص ہونا کے ہیں اسی سے بہت زیادہ گوشت خور باز یا بھیڑیئے کو لحم کہاجاتا ہے ۔ بیت لحم ۔ وہ گھر جہاں لوگوں کی اکثر غیبتیں کی جائیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (107) ان اللہ یبغض قوما لحمین کہ اللہ تعالیٰ بہت گوشت خور لوگوں کو ناپسند کرتا ہے ۔ یعنی جو ہر وقت لوگوں کی غیبت کرتے رہتے ہیں ۔ الحمہ کے معنی کسی کو گوشت کھلانے کے ہیں ۔ اور اسی سے تشبیہ کے طور پر اس آدمی کو جس کی گزراں شکار پر ہو رجل ملحم کہاجاتا ہے ۔ پھر مطلقا تشبیہا ہر کھاتے پییتے آدمی کو ملحم کہہ دیتے ہیں اور اسی سے ثوب ملحم لگا محاورہ ہے جس کے معنی بنے ہوئے کپڑا کے ہیں کپڑے کے بانا کو لحمہ کہاجاتا ہے جو کہ لحمہ البازی سے مشتق ہے ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ؛ (108) الولآء لحمۃ کلحمۃ النسب کہ والا کا رشتہ بھی نسب کے رشتہ کیطرح ہے شجۃ متلاحمۃ رخم جس پر گوشت چڑھ گیا ہو ۔ لحمت اللحم عن العظم میں نے ہڈی سے گوشت کو الگ کردیا ۔ لحمت الشیئین میں نے ایک چیز کو دوسری کے ساتھ اس طرح گھتی کردیا ۔ جیسے ہڈی گے ساتھ گوشت پیوست ہوتا ہے ۔ اللحام ۔ وہ چیز جس سے برتن کو ٹا نکا لگا جائے ۔ الحمت فلانا کسی کو قتل کرکے اس کا گوشت درندوں کو کھلا دیا ۔ الحمت الطائر ۔ میں نے پرند کا گوشت کھلایا ۔ الحمتک فلانا ۔ میں نے فلاں کی غیبت کا موقع دیا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے غیبت وبدگوئی کو اکل اللحم یعنی گوشت کھانے سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً [ الحجرات/ 12] کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ۔ فلان لحیم فلاں کو قتل کردیا گیا ۔ گویا اسے درندوں کی خوراک بنادیا گیا ۔ الملحمۃ معرکن ملاحم ۔ قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (قال لبثت یوماً او بعض یوم قال بل لبثت مائۃ عام، (a) اس نے کہا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ گزارا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمای تو نے یہاں ایک سو برس گزارے ہیں) اس قائل کا قول کذب بیانی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے تو اسے ایک سو برسوں تک موت کی حالت میں رکھا تھا، اس نے اپنے خیال کے مطابق یہ کہا تھا گویا اس نے یوں کہا تھا کہ ” میرے خیال میں میں ایک دن یا دن کا بعض حصہ گزارا ہوں۔ “ اس کی نظیر اصحاب کہف کی زبان سے ادا ہونے والا فقرہ ہے جس کی حکایت اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے (قال قائل منھم کم لبثتم قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم) (a) حالانکہ انہوں نے تین سو نو سال گزارے تھے، انہوں نے اپنے خیال کے مطابق جو بات کہی تھی اس میں انہیں کاذب قرار نہیں دیا جاسکتا گویا انہوں نے یوں کہا تھا۔ ” ہمارے خیال میں ہم نے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ گزارا ہے۔ اس کی نظیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول ہے جو آپ نے اس وقت فرمایا تھا جب چار رکعتوں والی ایک فرض نماز کی آپ نے دو رکعتیں ادا کیں اور اس پر ایک صحابی ذوالیدین (رض) نے عرض کیا تھا کہ آیا نماز مختصر کردی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا (لم تقصرولم انس، (a) نہ نماز مختصر ہوئی اور نہ ہی میں بھولا ہوں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اس قول میں سچے تھے کیونکہ آپ نے اس بات کی اطلاع دی تھی جو آپ کے اپنے ظن اور گمان کے مطابق تھا۔ آپ کے گمان میں یہ تھا کہ آپ نے نماز پوری ادا کی ہے۔ کلام کے اندر اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ظن و تخمین کے مطابق کسی بات کی اطلاع دے تو وہ قابل گرفت نہیں ہوتی۔ البتہ حقیقت نفس الامری کے متعلق اطلاع نہ دے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لغو قسم کھانے والے کو درگذر کردیا ہے اور روایت کے مطابق اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے پوچھے کہ آیا فلاں بات یا فلاں واقعہ پیش آیا ہے ؟ جس کے جواب میں وہ شخص اپنے خیال کے مطابق کہے کہ ” نہیں بخدا نہیں “ یا یوں کہے کہ ” بخدا کیوں نہیں “ اگرچہ حقیقت نفس الامری اس کے خلاف ہو۔ اس شخص کی گرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے قسم کھاکر جو جواب دیا تھا وہ اس کے عقیدے اور ضمیر کے مطابق تھا۔ واللہ الموفق۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٥٩) اور اسی طرح عزیر بن شرحیاء کا واقعہ ہے جن کا ” دیر ہرقل “ بستی پر سے گزرنا ہوا وہ بستی چھتوں کے بل گری پڑی تھی، کہنے لگے اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کو ان کے مرنے کے بعد کی سے زندہ کرے گا اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی جگہ پر سو سال تک سلا دیا، اس کے بعد دن کے اخیر حصہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بیدار کیا۔ پھر ارشاد ہوا عزیر کتنا قیام ہوا کہنے لگے ایک دن لیکن جب سورج پر نظر پڑی تو بولے دن کا کچھ حصہ ارشاد ہوا کہ سو سال تک انجیر، انگور اور اس کے شیرے کو دیکھو، اس میں اتنی مدت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اپنے گدھے کی ہڈیاں بھی دیکھو کیسی سفید چمک رہی ہیں (اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے کیا) تاکہ ہم مردوں کے زندہ کرنے میں تمہاری ایک علامت اور نشانی کردیں۔ جس صورت پر انسان مرتا ہے اسی حالت میں اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کردیتا ہے، چناچہ حضرت عزیر (علیہ السلام) پر جوانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے موت طاری کردی تھی اور پھر جوانی کی حالت میں ہی زندہ کردیا۔ اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ لوگوں کے لیے ایک عبرت کی نشانی بنادیا کیوں کہ جب وہ زندہ ہوئے تو وہ چالیس سال کی عمر کے تھے اور ان کا لڑکا ایک سو بیس سال کا تھا، اور اب اس گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھ کر کہ ہم کس طرح اسے ترکیب دیے دیتے ہیں اور اگر لفظ ” ننشزھا “۔ کو راء کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کس طرح ہم اس کو پیدا کرتے ہیں کہ اس میں پٹھے، رگیں، گوشت، کھال، اور بال یہ تمام چیزیں پیدا کرتے ہیں پھر اس کے بعد اس میں جان ڈالتے ہیں، جب یہ باتیں مشاہدہ کے طور پر واضح ہوگئیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کی ہڈیوں کو جمع کرکے کس طرح ان میں روح ڈالتے ہیں تو حضرت عزیز (علیہ السلام) بےاختیار جوش میں آکر کہہ اٹھے کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ موت وحیات اور ہر ایک چیز پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥٩ (اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا ج) تفاسیر میں اگرچہ اس واقعے کی مختلف تعبیرات ملتی ہیں ‘ لیکن یہ دراصل حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ ہے جن کا گزر یروشلم شہر پر ہوا تھا جو تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ بابل (عراق) کے بادشاہ بخت نصر (Nebuchadnezzar) نے ٥٨٦ ق م میں فلسطین پر حملہ کیا تھا اور یروشلم کو تاخت و تاراج کردیا تھا۔ اس وقت بھی عراق اور اسرائیل کی آپس میں بدترین دشمنی ہے۔ یہ دشمنی درحقیقت ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ بخت نصر کے حملے کے وقت یروشلم بارہ لاکھ کی آبادی کا شہر تھا۔ بخت نصر نے چھ لاکھ نفوس کو قتل کردیا اور باقی چھ لاکھ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا ہوا قیدی بنا کرلے گیا۔ یہ لوگ ڈیڑھ سو برس تک اسیری (captivity) میں رہے ہیں اور یروشلم اجڑا رہا ہے۔ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں بچا تھا۔ بخت نصر نے یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا تھا کہ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں چھوڑیں۔ اس نے ہیکل سلیمانی کو بھی مکمل طور پر شہید کردیا تھا۔ یہودیوں کے مطابق ہیکل کے ایک تہہ خانے میں تابوت سکینہ بھی تھا اور وہاں ان کے ربائی بھی موجود تھے۔ ہیکل مسمار ہونے پر وہیں ان کی موت واقع ہوئی اور تابوت سکینہ بھی وہیں دفن ہوگیا۔ تو جس زمانے میں یہ بستی اجڑی ہوئی تھی ‘ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں اور کوئی عمارت سلامت نہیں۔ ( قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَاج ) ان کا یہ سوال اظہار حیرت کی نوعیت کا تھا کہ اس طرح اجڑی ہوئی بستی میں دوبارہ کیسے احیا ہوسکتا ہے ؟ دوبارہ کیسے اس میں لوگ آکر آباد ہوسکتے ہیں ؟ اتنی بڑی تباہی و بربادی کہ کوئی متنفس باقی نہیں ‘ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں ! (فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ ماءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط) (قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط) (قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط) ۔ ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے تھوڑی دیر کے لیے سویا تھا ‘ شاید ایک دن یا دن کا کچھ حصہ میں یہاں رہا ہوں۔ (قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ ماءَۃَ عَامٍ ) (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا بلکہ تم پورے سو سال اس حال میں رہے ہو (فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج) ۔ ان میں سے کوئی شے گلی سڑی نہیں ‘ ان کے اندر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔ (وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ ) حضرت عزیر (علیہ السلام) کی سواری کا گدھا اس عرصے میں بالکل ختم ہوچکا تھا ‘ اس کی بوسیدہ ہڈیاں ہی باقی رہ گئی تھیں ‘ گوشت گل سڑ چکا تھا۔ (وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ ) یعنی اے عزیر ( علیہ السلام) ! ہم نے تو خود تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا ہے ‘ اس لیے ہم تمہیں اپنی یہ نشانی دکھا رہے ہیں تاکہ تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین کامل حاصل ہو۔ (وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا) (ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا ط) چنانچہ حضرت عزیر ( علیہ السلام) کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گدھے کی ہڈیاں جمع ہو کر اس کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا اور پھر اس پر گوشت بھی چڑھ گیا۔ (فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ لا) حضرت عزیر (علیہ السلام) نے بچشم سر ایک مردہ جسم کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرلیا۔ (قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو بھی دوبارہ آباد کرسکتا ہے ‘ اس کی آبادی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی نشاۃأثانیہ (Renaissance) کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔ بابل کی اسارت کے دوران یہود اخلاقی زوال کا شکار تھے۔ جب حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے متذکرہ بالا مشاہدات کرا دیے تو آپ ( علیہ السلام) نے وہاں جا کر یہود کو دین کی تعلیم دی اور ان کے اندر روح دین کو بیدار کیا۔ اس کے بعد ایران کے بادشاہ کیخورس *(Cyrus) نے جب بابل (عراق) پر حملہ کیا تو یہودیوں کو اسارت (captivity) سے نجات دی اور انہیں دوبارہ فلسطین میں جا کر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ اس طرح یروشلم کی تعمیر نو ہوئی اور یہ بستی ١٣٦ سال بعد دوبارہ آباد ہوئی۔ پھر یہودیوں نے وہاں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا جس کو وہ معبد ثانی (Second Temple) کہتے ہیں۔ پھر یہ ہیکل ٧٠ عیسوی میں رومن جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں تباہ ہوگیا اور اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکا۔ دو ہزار برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کا کعبہ زمین بوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے یہودیوں کے دلوں میں آگ سی لگی ہوئی ہے اور وہ مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے وہاں ہیکل سلیمانی (معبد ثالث) تعمیر کرنے کے لیے بےتاب ہیں۔ اس کے نقشے بھی تیار ہوچکے ہیں۔ بس کسی دن کوئی ایک دھماکہ ہوگا اور خبر آجائے گی کہ کسی جنونی (fanatic) نے وہاں جا کر بم رکھ دیا تھا ‘ جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ شہید ہوگئی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ایک جنونی یہودی ڈاکٹر نے مسجد الخلیل میں ٧٠ مسلمانوں کو شہید کر کے خود بھی خود کشی کرلی تھی۔ اسی طرح کوئی جنونی یہودی مسجد اقصیٰ میں بم نصب کر کے اس کو گرا دے گا اور پھر یہودی کہیں گے کہ جب مسجد مسمار ہو ہی گئی ہے تو اب ہمیں یہاں ہیکل تعمیر کرنے دیں۔ جیسے ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوؤں کا موقف تھا کہ جب مسجد گر ہی گئی ہے تو اب یہاں پر ہمیں رام مندر بنانے دو ! بہرحال یہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا واقعہ تھا۔ اب اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشاہدہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

293. It is irrelevant to ask who the person was and the place where this incident occurred. The real purpose in mentioning this event is to show how God showed light to the one who had chosen God as his protector and supporter. As for determining the name of the person and the locality, we neither possess the means to do so, nor is such an endeavour in any way beneficial. What seems to be evident from the statement that follows is that the person concerned must necessarily have been a Prophet. 294. This question does not signify that the person concerned denied or entertained any doubts regarding life afterdeath. His enquiry merely indicates his wish to have direct knowledge of reality, like the Prophets of the past. 295. The restoration of life to a man considered to have died a hundred years ago was in itself sufficient to make him, for his contemporaries, a living testimony.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :293 یہ ایک غیر ضروری بحث ہے کہ وہ شخص کون تھا اور وہ بستی کون سی تھی ۔ اصل مدعا جس کے لیے یہاں یہ ذکر لایا گیا ہے ، صرف یہ بتانا ہے کہ جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا تھا ، اسے اللہ نے کس طرح روشنی عطا کی ۔ شخص اور مقام ، دونوں کی تعیین کا نہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ، نہ اس کا کوئی فائدہ ۔ البتہ بعد کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن صاحب کا یہ ذکر ہے ، وہ ضرور کوئی نبی ہوں گے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :294 اس سوال کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بزرگ حیات بعد الموت کے منکر تھے یا انہیں اس میں شک تھا ، بلکہ دراصل وہ حقیقت کا عینی مشاہدہ چاہتے تھے ، جیسا کہ انبیا کو کرایا جاتا رہا ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :295 ایک ایسے شخص کا زندہ پلٹ کر آنا جسے دنیا سو ( ۱۰۰ ) برس پہلے مردہ سمجھ چکی تھی ، خود اس کو اپنے ہم عصروں میں ایک جیتی جاگتی نشانی بنا دینے کے لیے کافی تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

175: آیت نمبر : ٢٥٩ اور ٢٦٠ میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسے واقعے ذکر فرمائے ہیں جن میں اس نے اپنے دو خاص بندوں کو اس دنیا ہی میں مردوں کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کرایا، پہلے واقعے میں ایک ایسی بستی کا ذکر ہے جو مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی اس کے تمام باشندے مرکھپ چکے تھے اور مکانات چھتوں سمیت گر کر مٹی میں مل گئے تھے ایک صاحب کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس ساری بستی کو کس طرح زندہ کرے گا، بظاہر اس سوچ کا منشاء خدانخواستہ کوئی شک کرنا نہیں تھا بلکہ حیرت کا اظہار تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس طرح کرایا جس کا اس آیت میں ذکر ہے، یہ صاحب کون تھے اور یہ بستی کونسی تھی یہ بات قرآن کریم نے نہیں بتائی، اور کوئی مستند روایت بھی ایسی نہیں ہے جس کے ذریعے یقینی طور پر ان باتوں کا تعین کیا جاسکے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بستی بیت المقدس تھی۔ اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بخت نصر نے اس پر حملہ کر کے اسے تباہ کر ڈالا تھا، اور یہ صاحب حضرت عزیر یا حضرت ارمیا علیہم السلام تھے۔ لیکن نہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے، نہ اس کھوج میں پڑنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا مقصد اس کے بغیر بھی واضح ہے۔ البتہ یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ یہ صاحب کوئی نبی تھے، کیونکہ اول تو اس آیت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے، نیز اس طرح کے واقعات انبیائے کرام ہی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

جب بنی اسرائیل نے بہت نافرمانی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے بخت نصر بابلی کو ان پر مسلط کیا جو چھ لاکھ کے قریب فوج ساتھ لے کر بابل سے ملک شام کو آیا اور ہزارہا آدمی بنی اسرائیل کے قتل کر ڈالنے اور ہزار ہا آدمیوں کو قید کر کے بابل لے گیا ان قیدیوں میں حضرت عزیر بھی تھے پھر جب نمرود کی طرح بخت نصر کی ناک میں بھی ایک مچھرگھس گیا جس سے وہ آخر کو ہلاک ہوگیا اور حضرت عزیر قید سے چھوٹ کر بابل سے ملک شام کو آئے اور بیت المقدس کو نہایت درجہ ویران دیکھ کر ان کے منہ سے بےساختہ یہ کلمہ گیا کہ دیکھئے اللہ تعالیٰ اس اجڑے دیار کو کب اور کیونکر آباد کرے گا اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھانے کے لئے سو برت تک ان کو اور ان کی سواری کے گدھے کو مار ڈالا اور جب اس سو برس کے عرصہ میں وہ شہر پھر بس گیا تو ان اور ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور وہ بسا ہوا شہر ان کو دکھایا جس پر انہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے بخت نصر کی گرد میں توریت بھی ضائع ہوگئی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے جب حضرت عزیر کو زندہ کیا تو تورات بھی ان کو یاد کرا دی بنی اسرائیل نے جو دیکھا کہ اتنی عمر کے بعد عزیز ابھی جوان ہیں اور تورات بھی ان کو یاد ہے تو بنی اسرائیل ان کو خدا کا بیٹاکہنے لگے۔ اس قصہ کے نازل فرمانے سے اہل کتاب کو تو یہ جتلایا گیا ہے کہ باوجود امی ہونے کے تورات کے قصے صحیح طور پر جو نبی آخر الزمان بیان کرتے ہیں تو ان کے نبی ہونے میں اور وحی کی مدد سے ان کے یہ قصے کتب آسمانی کے بیان کرنے میں کوئی شبہ اب باقی نہیں رہا اور اہل مکہ کو حشر کا جو انکار تھا اس انکار کو اسی طرح اس قصہ سے ضعیف کیا گیا ہے جس طرح مقتول شخص کے زندہ کرنے کے قصہ سے اور وبا سے ڈر کر جو لوگ بھاگے تھے ان کے قصہ سے اہل مکہ کے حشر کے انکار کو بےاصل ٹھہرایا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:259) او کالذی۔ او حرف عطف اس کا عطف الم تر پر ہے ک بمعنی مثل کے آیا ہے اس صورت میں أرایت مذوف ہے۔ گویا آیت کی تقدیر یوں ہے۔ او أرایت الذی۔ یعنی الذی حاج ابراہیم۔ کے علاوہ یہ دوسرے شخص کی مثال ہے جس کا نام نہیں لیا گیا۔ اس کے مدمقابل بھی بیان نہیں ہوا۔ کہ آیا اس شخص نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے گفتگو کی تھی۔ یا یہ کسی اور زمانہ کا قصہ ہے اللہ اور اس کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تعیین نہیں فرمائی۔ ترجمہ یوں ہوگا : اور کیا تم نے مثال نہیں دیکھی اس شخص کی جو ایک بستی کے پاس سے گزرا ۔۔ اخفش نے کاف کو زائد قرار دیا ہے۔ قریۃ۔ بشتی۔ اور بستی کے رہنے والے اس کی جمع قری۔ قری جمع قیاسی نہیں صرف سماعی ہے۔ کیونکہ فعلۃ کی جمع قیاسی فعال کے وزن پر آتی ہے۔ جیسے ظبیۃ کی جمع ظبائ۔ بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ اہل یمن قریۃ بولتے ہیں اور اس کی جمع قری قیاسی ہے جیسے ذروۃ کی جمع ذری۔ بہرکیف قرآن مجیس میں قریۃ (واحد) اور قری (جمع) آیا ہے اور یہی فصیح ہے اس کے مقابلے میں یمنی استعمال فصیح نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے ولتنذر ام القری ومن حولہا (6:93) کہ تم بستیوں کی ماں۔ (یعنی مکہ) کے اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو ڈراؤ۔ وہی خاویۃ علی عروشھا۔ ہی ای قریۃ۔ خاویۃ اسم فاعل واحد مؤنث افتادہ۔ گری ہوئی۔ خوی یخوی خوی (باب ضرب) (گھر کا) بڑجانا۔ گرجانا۔ اور خوی یخوی خوایۃ خواء (باب سمع) (جگہ یا مکان کا) خالی ہونا۔ گرپڑنا۔ ڈھ جانا۔ اندر سے کھوکھلا ہوجانا۔ جملہ وہی خاویۃ۔ موضع جر میں ہے اور اس صورت میں قریۃ کی صفت ہے۔ علی عروشھا متعلق ہے۔ خاویۃ سے عروشھا۔ مضاف مضاف الیہ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب قریۃ کے لئے ہے۔ عروش جمع ہے عرش کی بمعنی چھت۔ عرش البیت گھر کی چھت۔ بیل کو چڑھانے کے لئے جو چھت یا ٹٹی کرتے ہیں اس کو بھی عرش کہتے ہیں۔ قریۃ خاویۃ علی عروشھا۔ شہر جو چھتوں سمیت ڈھا پڑا تھا۔ انی۔ ای کیف۔ کیونکر۔ کیسے ۔ نیز ملاحظہ ہو 2:223 ۔ ھذہ۔ یہ بستی۔ یا اس بستی کے لوگ۔ بعد موتھا۔ اس کی موت کے بعد۔ اس کی ویرانی کے بعد (بستی یا بستی کے رہنے والوں کی بربادی کے بعد) ھا ضمیر واحد مؤنث غائب اس کا مرجع قریۃ ہے۔ اماتہ اللہ۔ اللہ فاعل۔ امات فعل ماضی واحد مذکر غائب۔ اماتہ (افعال) مصدر ہ ضمیر واحد مذکر غائب۔ اس نے (یعنی خدا تعالیٰ نے) اس کو (یعنی اس شخص کو جو اس قریہ کے پاس سے گزرا۔ اور اس کو برباد دیکھ کر کہا کہ اس بربادی کے بعد اللہ اسے کیسے زندہ کر دے گا۔ موت دی ۔ مار ڈالا۔ ثم بعثہ۔ ثم۔ حرف عطف ہے یہاں تراخی فی الوقت کے لئے آیا ہے بمعنی پھر۔ بعثہ۔ بعث۔ بعث ماضی واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اس نے اسے زندہ اٹھا کھڑا کیا۔ ہ ضمیر مفعول مذکورہ بالا شخص کی طرف راجع ہے۔ اگر رسولوں کے متعلق اس کا استعمال ہو تو بعث کے معنی اللہ کی طرف سے مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوں گے۔ مثلاً ابعث اللہ بشراً رسولاً (17:94) کیا خدا نے آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ قال کم لبثت۔ ای قال اللہ۔ کم لبثت۔ ای کم زمانا لبثت۔ تو کتنی مدت ٹھہرا۔ نیز ملاحظہ ہو 2:211 اور 2:249 ۔ لبث (باب سمع) لبث۔ مصدر۔ بمعنی ٹھہرنا۔ رہنا۔ بعض یوم۔ مضاف مضاف الیہ۔ بعض۔ کچھ ۔ ٹکڑا۔ کل کے اعتبار سے شے کے کسی جزء کو بعض کہتے ہیں۔ اس لئے کل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے بعض یوم دن کا کچھ حصہ۔ قال۔ ای قال اللہ۔ بل۔ حرف اضراب ہے۔ بلکہ ۔ نیز ملاحظہ ہو 2:135 ۔ لم یتسنہ۔ نفی حجد ہلم۔ واحد مذکر غائب۔ (باوجود سالہا گزر جانے کے) تمہارا مشروب یا طعام خراب نہیں ہوا۔ تسنن (باب تفعل) مصدر سے۔ عمر رسیدہ ہونا۔ پرانا ہونا۔ خوراک کا بس ہوجانا ۔ خوارک کو پھپھوندی لگ جانا۔ س ن ن حروف مادہ ہیں۔ یتسن اصل میں یتسنن تھا۔ چونکہ تین نون جمع ہوگئے تھے اخیر کو ی سے بدلا۔ پھر ی کو الف سے بدلا الف جزم کی وجہ سے حذف ہوگیا۔ ہ استراحت یعنی سکتہ کی ہے۔ مادہ س ن ہ سے سنہ یسنہ سنہ (باب سمع) سے بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بمعنی بہت سالوں والا ہونا۔ طعام یا شراب کا متغیر ہوجانا۔ بگڑ جانا۔ ولنجعلک۔ محذوف پر عطف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے اریناک ذلک لتعلم قدر قدرتنا۔ ہم نے تجھے یہ کچھ اس لئے دکھلایا تاکہ تو جان لے ہماری قدرت کو (بعض کے نزدیک واؤ زائد ہے) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کی نشانی (یا دلیل) بنائیں۔ وانظر الی العظام۔ اور ہڈیوں کو دیکھ۔ مراد گدھے کی ہڈیاں (جو اس شخص کے پاس تھا) یا اہل قریہ کی ہڈیاں (جو اس وقت مر کھپ چکے تھے) یا اس کی اپنی ہڈیاں یا اس کے گدھے کی ہڈیاں (روح المعانی) عظام ہڈیاں۔ عظم کی جمع جیسے سھام سھم کی جمع ہے ننشزھا۔ مضارع جمع متکلم۔ انساز (افعال) مصدر۔ ہم جوڑ دیتے ہیں۔ حرکت دیتے ہیں اٹھا دیتے ہیں۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب العظام کے لئے ہے۔ النشز۔ بلند زمین کو کہتے ہیں اور نشزفلان کے معنی بلند زمین کے قصد کرنے کے ہیں۔ اسی سے نشز فلان من مقرہ کا محاورہ ہے۔ جس کے معنی کسی کا اپنی قرار گاہ سے اوپر ابھر آنے کے ہیں۔ اور ہر اوپر اٹھنے والی چیز کو ناشز کہا جاتا ہے۔ اسی معنی میں قرآن مجید میں آتا ہے واذا قیل انشزو افا نشزوا (58:11) اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو۔ اور نشزوانشاز کے معنی زندہ کرنا بھی آتے ہیں کیونکہ زندگی میں ایک طرح کا ابھار پایا جاتا ہے۔ اور اسی معنی میں آیۃ ہذا میں اس کا استعمال ہوا ہے۔ نکسوھا۔ مضارع جمع متکلم۔ کسوۃ (باب نصر) مصدر بمعنی پہنانا (کسی کے اوپر لباس کی طرح) چڑھانا۔ یا جس طرح لباس سے جسم کو چھپایا جاتا ہے اسی طرح چھپا دینا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب جس کا مرجع العظام ہے۔ لحما مفعول ثانی ۔ ہم ان (ہڈیوں) پر گوشت چڑھا دیتے ہیں یا ان کو گوشت سے چھپا دیتے ہیں۔ جس طرح جسم کو لباس سے چھپا دیتے ہیں۔ کسوۃ لباس کا جوڑا۔ تبین۔ ماضی واحد مذکر غائب۔ تبین (تفعل) مصدر بمعنی ظاہر ہونا۔ واضح ہونا۔ لہ میں ہ ضمیر واحد مذکر غائب اس شخص کے لئے ہے۔ جب یہ امر اس پر واضح ہوگیا۔ یعنی اللہ کی قدرت کی ہمہ گیری اس پر واضح ہوگئی۔ اعلم۔ میں جانتا ہوں بمعنی یقین کرتا ہوں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یہاں اؤعطف کے لے ہے اور باعتبار معنی پہلے قصہ پر عطف ہے ای ھل رایت کالذی حاج اوکا لذی مرعلی قربیتہ " اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں کاف زائدہ ہو ای الم ترالذی مر علی قریتہ " (رازی۔ شوکانی) پہلے قصہ سے اثبات صانع مقصو تھا اب دسرے قصہ سے اثبات حشر ونشر مقصو ہے کما مر۔ (رازی) اس آیت میں جس شخص کا ذکر ہے حضرت علی (رض) سے ایک روایت کے مطا بق اس سے حضرت عزیر (علیہ السلام) مراد ہیں۔ یہ قول حضرت ابن عباس (رض) کا اور بعض تابعین سے بھی مروی ہے اور جس بستی میں ان کا گزر ہوا۔ مشہور یہ ہے کہ اس مراد " بیت المقدس " ہے جب کہ بخت نصر نے اسے تباہ کر ڈلا تھا اور بنی اسرائیل کے بہت سے لوگوں قیدی بناکر لے گیا تھا۔ (ابن کثیر) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے نبی تھے تو انہوں نے انی یحییی ھذ اللہ بعد موتھا (کہ اللہ تعالیٰ اسے کیسے زندہ کرے گا) بطور استبعاد یہ سوال کیسے کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے یہ سوال بطور استعباد نہیں کیا تھا کہ انہیں قیامت کے آنے اور دبارہ زندہ ہونے کے بارے میں کوئی شک تھا بلکہ اس سے طمانیت حاصل کرنا مقصو تھا اور وہ دوبارہ زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے جیسا کہ انبیاء کو ہر حقیقت کا عینی مشاہدہ کر دایا جاتا ہے۔ ان ہر دو واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس شخص کا دوست اور کارساز اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اسے کس طرح اندھیروں سے نکال روشنی کی طرف لے آتا ہے، (کبیر) مروی ہے کہ جب حضرعزیر (علیہ السلام) نے وفات پائی تھی اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا اور جب دوبارہ زندہ ہوئے تو سورج غروب ہورہا تھا اس لیے انہوں نے باوجود سو سال تک فوت رہنے کے یہ سمجھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ گزرا ہے۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 259 او (یا) ۔ کالذی (جیسے وہ شخص) ۔ مر (گذرا) ۔ علی قریۃ (ایک بستی پر) ۔ خاویۃ (اوندھی) ۔ عروش (عرش، چھتیں) ۔ انی یحییٰ (کیوں کر زندہ کرے گا) ۔ اماتہ اللہ (اللہ نے اس کو موت دے دی) ۔ ماۃ غام (ایک سو سال) ۔ بعثہ (اس کو اٹھا کھڑا کیا) ۔ کم لبثت (کتنی دیر ٹھہرا رہا) ۔ بعض یوم (دن کا ایک حصہ) ۔ فانظر (پھر تو دیکھ) ۔ شراب (پینے کی چیز (پانی) ۔ لم یتسنۃ (سڑا گلا نہیں) ۔ حمار (گدھا، خچر) ۔ لنجعل (تا کہ ہم بنا دیں) ۔ العظام (ہڈیاں) ۔ کیف ننشزھا (کیسے ہم ان کو چڑھاتے ہیں) ۔ نکسوھا (ہم اس کو پہناتے ہیں) ۔ لحم (گوشت) ۔ تشریح : آیت نمبر 259 یہ کون شخص تھے اور کس بستی سے گزرے تھے۔ اس کے لئے علماء مفسرین نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔ غالب گمان یہ ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے جو اس بستی سے گز ر رہے تھے جس کو بخت نصر نے تباہ و برباد کردیا تھا اور وہاں کے رہنے والوں کا قتل عام کیا تھا۔ جیسا کہ آپ نے ترجمہ میں سنا کہ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے کس طرح حضرت عزیر (علیہ السلام) پر ایک سو سال تک موت کی کیفیت کو طاری رکھا۔ وہ کھانا جو گل سڑ جانے والا تھا اس کو محفوظ رکھا اور گدھا جو عموماً دوچار دن میں ہڈیوں کا پنجر نہیں بن جاتا اس کے اجزاء کو بکھیر دیا۔ لیکن اپنی قدرت کاملہ سے اس کو دوبارہ زندہ کر کے دکھلا دیا کہ موت کے بعد اس طرح تمام انسان زندہ کر دئیے جائیں گے یہ بھی بتا دیا کہ موت فنا کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک کیفیت کا نام ہے جو انسانوں پر طاری کردی جاتی ہے۔ صور پھونکے جانے کے بعد تمام انسان اسی طرح اپنی قبروں سے نکل کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ جس طرح کھانا جو عموماً ایک دن دھوپ میں رکھے جانے کے بعد سڑ جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت ہے کہ وہ اس کو چاہے تو ایک سو سال تک اسی طرح محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ تمام باتیں اس اللہ کی قدرت کی طرف اشارہ ہیں جو تمام چیزوں پر قادر مطلق ہے اور مو ت وحیات سب اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ روح المعانی میں بروایت حاکم حضرت علی سے اور براویت اسحاق بن بشیر حضرت ابن عباس وعبداللہ سے نقل کیا ہے کہ یہ بزرگ عزیر (علیہ السلام) ہیں۔ 2۔ یعنی پہلے چھتیں گریں پھر ان پر دیواریں گریں مراد یہ کہ کسی حادثے سے وہ بستی بالکل ویران ہوگئی تھی اور سب آدمی مر گئے تھے۔ 3۔ یہ تو یقین تھا کہ اللہ قیامت کے دن مردوں کو جلادیں گے مگر اس وقت کے جانے جو خیال غالب ہوا تو بوجہ امر عجیب ہونے کے ایک حیرت سی دل پر غالب ہوگئی اور چونکہ اللہ ایک کام کو کئی طرح کرسکتے ہیں اس لیے طبیعت اس کی جویاں ہوئی کہ خدا جانے جلانا کسی صورت سے ہوگا اللہ کو منظور ہوا کہ اس کا تماشا ان کو دنیا ہی میں دکھلادیں تاکہ ایک نظیر کے واقع ہوجانے لوگوں کو زیادہ ہدایت ہو۔ 4۔ ان کی حیرت کا جواب اس مجموعی کیفیت سے دینا اس کی وجہ احقر کے ذوق میں یہ ہے کہ محل حیرت یعنی احیاء ویوم البعث مشتمل ہے چندا اجزاء پر اول خود زندہ کرنا دوسرے مدت طویل کے بعد زندہ کرنا تیسرے خاص کیفیت سے زندہ کرنا چوتھے اس مدت تک روح کا باقی رکھنا پانچویں بعد بعث کے برزخ میں رہنے کی مدت معلوم نہ ہونا جز اول پر خود ان کے زندہ کرنے اور ان کے گدھے میں جان ڈالنے کی دلالت کی گئی اور دوسرے جزو کے اثبات کے لیے ان کو سو برس تک مردہ رکھا تیسراجزو خود گدھا ان کے سامنے زندہ کرکے دکھلا دیا جو بالاولی امکان بقاء روح پر دال ہے کیونکہ بدن طعام و شراب بوجہ اشتمال عناصر کے بہ نسبت روح کے تغیر و فساد کے زیادہ قابل ہیں اور پانچویں امر کی نظیر ان کے جواب میں یوما اور بعض یوما کہنا ہے جیسا بعینہ یہی جواب بعض اہل محشر دینگے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم ال قرآن ربط کلام : سلسلہ مضمون جاری ہے لہٰذا یہاں مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہونے کی ایک مثال پیش کی گئی ہے۔ اس شخص سے مراد اکثر مفسّرین نے حضرت عزیر (علیہ السلام) لیے ہیں اور جس بستی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ بیت المقدس تھی جسے بخت نصر نے تہس نہس کردیا تھا۔ اس تاریخی اور مقدس شہر کو ویران اور سنسان دیکھ کر حضرت عزیر (علیہ السلام) کو شدید دھچکا لگا اور خیالات کی دنیا میں سوچنے لگے کہ کبھی اس کے بازار پُر رونق، اس کے مکان اپنے مکینوں سے آباد، یہاں چہل پہل اور شہر کی ایک شان ہوا کرتی تھی۔ اب یہاں ہُو کا عالم ہے اب تو اس میں سے گزرتے ہوئے بھی دل کانپتا ہے۔ جوں ہی یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو دوبارہ کس طرح رونقیں عطا کرے گا ؟ اس سوچ میں غلطاں ہو کر کہنے لگے اَنّٰی یُحِیْ ہٰذہ اللّٰہ بَعْدَ مَوتہا ” اللہ تعالیٰ اس کی موت کے بعد اسے کس طرح زندہ کرے گا “ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو سو سال تک موت کی آغوش میں سلادیا۔ جب دوبارہ اٹھایا تو فرمایا کہ اے عزیر ! تم کتنی مدت تک یہاں رہے ہو ؟ انہوں نے عرض کی الٰہی ! میں ایک دن یا اس کا کچھ حصہ یہاں ٹھہرا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ ہرگز نہیں ! تو یہاں ایک صدی ٹھہرا رہا ہے۔ اب اپنے کھانے پینے کی طرف دیکھ اس میں نہ بساند پیدا ہوئی اور نہ ہی اس کا ذائقہ تبدیل ہوا ہے۔ پھر اپنے گدھے کی طرف دیکھ تاکہ تجھے اور اس پورے واقعہ کو لوگوں کے لیے مر کر اٹھنے پر ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جائے۔ اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم کس طرح انہیں اکٹھا کر کے اس پر گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔ چناچہ دیکھتے ہی دیکھتے گدھے کی بوسیدہ ہڈیاں صحت مند ہڈیوں کی شکل اختیار کر گئیں اور باہم جڑ کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور پھر اس پر گوشت اور بالوں سمیت کھال نمودار ہوئی یہ دیکھتے ہی حضرت عزیر (علیہ السلام) پکار اٹھے میں اچھی طرح جان چکا کہ اللہ ہی زندہ کرنے پر قادر اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجب نظائر ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو سو سال تک موت کی آغوش میں دے کر پہلی حالت میں صحیح سالم اٹھانا، بہت جلد خراب ہونے والے کھانے اور پانی کو اسی طرح اپنی حالت پر برقرار رکھنا کہ اس میں معمولی تغیرّبھی پیدا نہ ہوپایا۔ گدھا جو زندہ رہ سکتا اور اپنے طور پر وادی میں کھا پی سکتا تھا اسے مار کر از سر نوزندہ فرما کر حضرت عزیر (علیہ السلام) کے سامنے تجربے اور مشاہدے کے ذریعے ثابت کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس طرح ہی اجڑی ہوئی بستیوں کو آباد کرتا اور صحراؤں اور ریگستانوں کو گل و گلزار بناتا ہے۔ اگر کوئی پانی میں ڈوب جائے یا جل کر راکھ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بکھرے ہوئے اجزاء کو اکٹھا کر کے اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب بھی ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت بھی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اجڑی بستیوں کو آباد اور مردوں کو زندہ کرتا ہے اور کرے گا۔ ٢۔ مرنے والے کو اپنے مرنے کی مدّت بھی یاد نہیں ہوتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بقا اور فنا کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن موت کے بعد زندہ ہونے کی مثالیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٧٣) ٢۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٥٩) ٣۔ چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٤۔ اصحاب کہف کو تین سو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف : ٢٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ : ٢٤٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ شخص کون تھا جس کا گزر ایک بستی پر ہوا ۔ وہ کون سی بستی تھی جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری ہوئی تھی ۔ اس کے بارے میں قرآن کریم خاموش ہے ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیئت ہوتی تو قرآن کریم اس بستی کے بارے میں تفصیلات بتا دیتا ۔ اگر ان تفصیلات کے حذف کردینے سے حکمت قرآنی کے اظہار وبیان میں کچھ فرق پڑتا تو قرآن کریم میں اس کی تفصیلات ضرور بتائی جاتیں ۔ یہاں صرف اس بستی کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے اور جس طرح فی ظلال القرآن میں ہمارا منہج ہے ہم بھی بس اس جھلک سے آگے تفصیلات میں جانا مناسب نہیں سمجھتے ۔ اس بستی کی جو جھلک دکھائی گئی ہے وہ نہایت ہی واضح ، مؤثر اور پردہ دماغ میں مرتسم اور منقش ہوجاتی ہے ۔ موت ، پھر بوسیدگی اور ٹوٹ پھوٹ کا ایک واضح نقشہ اپنی پوری صفات کے ساتھ ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا ................ ” جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی ہے۔ “ یہ بستی گر کر اپنی بنیادوں پر پڑی ہے اور ریزہ ریزہ ہوچکی ہے ۔ جو شخص اس پر سے گزرتا ہے اس کے احساسات میں یہ تصور نمودار ہوتا ہے۔ وہ سوچنے لگتا ہے قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ................ ” یہ آبادی جو مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا۔ “ قائل یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ موجود ہے لیکن اس بستی کی موجودہ شکست وریخت کی صورتحال دیکھ کر سوچتا ہے ۔ اس کے احساسات میں یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ اس ہمہ گیر تباہی کے بعد اللہ اسے کس طرح دوبارہ زندہ وتابندہ بنادے گا ۔ احساسات کی یہ تعبیر ! کسی منظر کو دیکھ کر جو احساسات پیدا ہوسکتے ہیں۔ قرآن کریم ان کی نہایت رقت کے ساتھ ، پر تاثیر تعبیر کرتا ہے ۔ یوں قرآن کریم اپنا پر تو اور اپنی تعبیرات کو مخاطب کے ذہن میں منقش کردیتا ہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ قاری کے سامنے وہ منظر عیاناً موجود ہے ۔ وہ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کے دل میں وہی احساسات پیدا ہورہے ہیں جو کبھی اس شخص کے دل میں پیدا ہوئے تھے ۔ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ................ ” اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا۔ “ اس تباہی میں سے تعمیر کس طرح نمودار ہوگی ؟ “ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ................ ” تو اللہ تعالیٰ نے اس کی روح قبض کرلی ۔ وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی۔ “ اللہ تعالیٰ نے اسے زبانی طور پر یہ نہ کہا کہ اسے اس طرح زندہ کیا جائے گا ۔ بلکہ اسے واقعات کی دنیا میں بطور تجربہ دکھایا گیا ۔ اس لئے کہ تأثر اور شعور بعض اوقات اس قدر گہرے اور مشکل ہوتے ہیں کہ عقلی دلائل سے انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ نہ منطق اور وجدان سے وہ تأثر پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ عام اور پیش پا افتادہ واقعات سے بھی ایسا تأثر اخذ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ شعور اور تأثر صرف براہ راست ذاتی تجربے ہی سے پیدا کا جاسکتا ہے ۔ ایسے تجربے کے بعد یہ شعور انسان کے احساسات پر چھا جاتا ہے۔ دل اس پر مطمئن ہوجاتا ہے اور پھر کسی مزید یقین دہانی کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ................ ” اللہ نے اس سے پوچھا ” بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو ؟ اس نے کہا ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں۔ “ اسے کیا پتہ تھا کہ وہ کتنی مدت پڑا رہا ہے ۔ زمانے کا احساس اور شعور تب ہوتا ہے جب انسان زندہ ہو اور اس کی سمجھ کام کررہی ہو ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انسانی حس دراصل ادراک حقیقت کے لئے صحیح معیار بھی نہیں ہے ۔ اس لئے کہ حس اور ادراک حقیقت میں کبھی دھوکہ دیتی ہے اور کبھی دھوکہ کھاجاتی ہے ۔ مثلاً حس نے یہاں ایک طویل زمانے کے ادراک میں دھوکہ کھایا اور اسے ایک دن یا اس سے بھی مختصر زمانہ سمجھا ۔ اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ انسانی حس ایک مختصر زمانے کو ایک طویل عرصہ تصور کرتی ہے۔ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ................ ” اللہ نے کہا بلکہ تونے اس حالت میں سو سال گزارے ہیں ۔ “ اس تجربے کی نوعیت کا تقاضا یہ تھا ، خصوصاً جبکہ ایک حسی تجربہ تھا ، کہ وہاں لازماً ایسے آثار ہونے چاہئیں جو یہ بتائیں کہ ایک سو سال کا طویل عرصہ گزر گیا ہے لیکن اس شخص کے کھانے اور پینے کے سامان سے تو ایسے آثار ظاہر نہیں ہورہے تھے ۔ اس لئے کہ اس کے کھانے پینے کے سامان میں کوئی تغیر واقعہ نہیں ہوا تھا ۔ نہ وہ خراب اور متعفن ہوئے تھے ۔ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ................ ” اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں کوئی تغیر واقعہ نہیں ہوا۔ “ اور ظاہر ہے کہ پھر ایسے آثار صرف اس شخص کی ذات یا اس کے گدھے کے ساتھ متعلق ہوسکتے ہیں ۔ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ” اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادینا چاہتے ہیں ۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھاکر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں ۔ “ کون سی ہڈیاں ؟ کیا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کی ہڈیاں ؟ اگر یوں ہوتا جس طرح بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس شخص کی ہڈیاں گوشت و پوست سے ننگی ہوگئی تھیں تو جب اس کی نظروں میں بینائی ڈالی گئی اور وہ سمجھنے لگا تو وہ سب سے پہلے خود اپنی حالت کو دیکھتا اور سوچنے لگتا ۔ اور اس وقت اس کا جواب یہ نہ ہوتالَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ................ ” کہ میں ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں۔ “ اس لئے صحیح تفسیر یہ ہے کہ ان ہڈیوں سے مراد صرف گدھے کی ہڈیوں کا پنجر ہے جو گوشت پوست سے ننگی ہوکر علیحدہ ہوگئی تھیں ۔ اور اس کے بعد یہ معجزہ رونما ہوا کہ یہ ہڈیاں آپس میں جڑنے لگیں ۔ ان پر گوشت و پوست چڑھنے لگا ۔ اور پھر اسی صحیح وسالم گدھے کو دوبارہ حیات بخشی گئی ۔ اور یہ شخص جو اس طویل عرصہ میں بذات خود اپنے کھانے اور پینے کے سامان سمیت صحیح وسالم اپنی اصلی حالت میں رہا تھا اس کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ معجزہ رونما ہوا۔ تاکہ ایک ہی جگہ ان دونوں مادی اشیاء کے انجام کا یہ متضاد فرق ، باوجود اس کے کہ فضا اور موسمی موثرات ایک ہی تھے ۔ ایک دوسرے معجزے کا اظہار کردے ۔ یہ معجزہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی اس مخلوقات پر قدرت کاملہ حاصل ہے ۔ اس کی قدرت واختیار بےقید ہے ۔ اس معجزے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پوری کائنات کو دوبارہ زندہ کرے گا اور اس کی کیفیت کچھ ایسی ہی ہوگی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معجزہ کس طرح وقوع پذیر ہوا ۔ یہ اسی طرح ہوا جس طرح تمام معجزات وقوع پذیر ہوا کرتے ہیں ۔ اس طرح کرہ ارض پر پہلی زندگی کو وجود میں لانے کا معجزہ رونما ہوا ۔ جسے ہم اکثر اوقات بھول جاتے ہیں ۔ اور ہم نہیں جانتے کہ آغاز حیات کیونکر ہوا ؟ زندگی کس طرح آئی ؟ یہ آئی اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاہا ، اسے لے آیا اور جو ہمارے سامنے موجود ہے ۔ ڈارون ، علمائے حیاتیات میں ایک اونچے درجے کا سائنسدان تھا ۔ وہ اپنے نظریات کو لے کر درجہ بدرجہ نیچے آتا رہا ۔ زندگی کی گہرائیوں میں دور تک سرگرداں رہا اور آخر کار وہ اسے یہاں تک پہنچاسکا کہ اس کا آغاز ایک زندہ خلیے سے ہوتا ہے۔ یہاں آکر وہ رک جاتا ہے اور اس کا راستہ آگے سے بند ہے ۔ اس زندہ خلیے میں زندگی کہاں سے داخل ہوئی ؟ اس راز کو وہ نہیں پاسکتا ۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا جسے انسانی ادراک کو تسلیم کرلینا چاہئے ۔ جو حقیقت انسانی کی فطری سوچ اور منطق کو ہر لمحہ مجبور کررہی ہے کہ اسے تسلیم کیا جائے ۔ یہ کہ ایک ایسی ذات کو تسلیم کیا جائے جس نے اس خلیے کو زندگی عطا کی اور ڈارون کسی علمی یا منطقی دلیل کی بناپر اس حقیقت کے تسلیم کرنے سے انکاری نہیں ہے بلکہ یہ انکار اہل کلیسا کے اس رویہ کی وجہ سے ہے جو انہوں نے اہل علم و دانش کے خلاف اپنی پوری تاریخ میں اختیار کیا ۔ ڈارون اس تعصب کی وجہ سے کہتا ہے ” زندگی کے معاملات کی ایسی تفسیر جس میں ایک خالق کے وجود کو تسلیم کیا جائے ، رب ہے جس طرح ایک خالص طبعی میکانزم میں ایک خارق العادت عنصر کو شامل کیا جائے۔ “ سوال یہ ہے کہ وہ طبعی میکانزم کیا ہے ؟ میکانزم کا اس حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے جو ہمارے فکر ونظر کے سامنے کھڑی ہے اور ہم سے باصرار مطالبہ کررہی ہے کہ ہم اس کا راز بتائیں یعنی حیات اولیٰ کا راز۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ اس فطری نظام اور منطقی استدلال کے سامنے خود ڈارون بھی بےبس ہوجاتا ہے ۔ جو استدلال باصرار مطالبہ کرتا ہے کہ خلیہ اولیٰ کے پیچھے خالق کائنات کو تسلیم کیا جائے تو وہ خلیہ اول کو سب اول کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ اور اگر اس سے کوئی پوچھے کہ یہ سبب اول ہے کیا ؟ اس کا ماہر حیاتیات کے پاس کوئی جواب نہیں ہے حالانکہ یہ ایک اہم سوال ہے کہ خلیہ اول کے اندر حیات اور زندگی کا موجد کون ہے ؟ اس سوال کا جواب دئیے بغیر ہی وہ اس خلیے سے اپنے نظرئیے کا آغاز کرتا ہے جبکہ آج اس کا یہ مشہور نظریہ بھی محل نظر بن گیا ہے۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ زندگی اپنی موجودہ شکل میں اس خلیے کی ترقی یافتہ شکل ہے حالانکہ آغاز حیات کا دوسرا طریق کار بھی ہوسکتا ہے اور ہے ۔ آغاز حیات کے بارے میں اہم سوال کا جواب ڈارون نہ دے سکا ۔ اس نے فرار کی راہ اختیار کی اور اپنا بناؤٹی بوگس نظریہ پیش کیا۔ (تفصیلات کے لئے دیکھئے کتاب ” الانسان بین المادیہ والاسلام “ کا باب ” فرائڈ “ ) اس متضاد صورت حال کی وضاحت دراصل اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ مشیئت ایزدی بےقید ہے ۔ اللہ کی مشیئت اس ہمہ گیر قانون فطرت سے بھی آزاد ہے جسے ہم لازمی اور اٹل سمجھتے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ہے نہ اس قانون فطرت کی مخالفت ہوسکتی ہے اور نہ اس سے کوئی جزئیہ مستثنیٰ ہوسکتا ہے ۔ ہمارے لئے یہ بات کافی ہے کہ اللہ کی مشیئت کی نسبت یہ عقیدہ غلط ہے کہ قانون طبیعت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور ہمارے لئے یہ الجھن اس لئے پیدا ہوجاتی ہے کہ ہم اپنے اندازوں یا عقلی فیصلوں کو نام نہاد سائنسی اصولوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی لازماً منطبق کرتے ہیں اور یہ ہمارے فکر ونظر کی وہ غلطی ہے جو کئی دوسری غلطیوں کو جنم دیتی ہے۔ ١۔ مثلاً ہمیں یہ حق کب پہنچتا ہے کہ ہم قادر مطلق کو اس قانون کا تابع قرار دیں جس کے ہم قائل ہیں ، جو ہمارے محدود وسائل کے محدود تجربات سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے۔ پھر ہم اپنی محدود قوت مدرکہ کی وجہ سے ان تجربات کی تفسیر کرتے ہیں جس میں غلطی کا امکان ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ ٢۔ چلو ہم نے قوانین قدرت میں سے کوئی قانون صحیح طور پر سمجھ لیا اور وہ فی الحقیقت ہے بھی قانون قدرت ۔ لیکن ہمیں یہ کس نے بتایا کہ بس یہ قانون انتہائی اٹل قانون ہے ، بےقید وشرط ہے ۔ اور اس سے زیادہ کلی اور جامع اور کوئی قانون اور ضابطہ نہیں ہے ۔ ٣۔ چلو مان لیا کہ وہ قانون اٹل ہے ، مطلق ہے اور عام حالات میں اس سے تخلف ممکن نہیں لیکن یہ قانون اللہ کا وضع کردہ ہے ۔ ذات باری کس طرح اپنے بنائے ہوئے قانون میں مقید ہوگئی ۔ ذات باری تو بہرحال مختار کل ہے۔ غرض یہ تجربہ یوں ہی آگے بڑھتا ہے ۔ جدید اہل دعوت کے فکری سرمایہ میں ایک صحیح ایمانی تصور حیات کا اضافہ کرتا ہے اور موت وحیات کی حقیقت کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس دوسری حقیقت کا اضافہ بھی کرتا ہے جس کی جانب ہم نے ابھی اشارہ کیا ۔ یہ حقیقت کہ اللہ مشیئت بےقید ہے ۔ اور قرآن کریم نے اس حقیقت کو بار بار بیان کرکے اہل ایمان کے ضمیر میں اسے پختہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تاکہ اہل ایمان براہ راست اپنے اللہ سے تعلق قائم کریں ۔ اس سلسلے میں ظاہری اسباب کو کوئی اہمیت نہ دیں ۔ ان تمہیدات کو خاطر میں نہ لائیں جو عام طور پر منظور ہوتی ہیں ۔ اللہ جو چاہتا ہے ، کر گزرتا ہے۔ اور یہی بات اس شخص نے کی ، جس کے سامنے اس تجربے کو دہرایا گیا تھا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ................ ” میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ “

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مردہ کو زندہ فرمانے کا ایک واقعہ یہ آیت پہلی آیت پر معطوف ہے اور تقدیر عبارت اس طرح سے ہے۔ (الم تر الی الذی حاج ابراھیم فی ربہٖ و ھل رایت کالذی مر علی قریۃ) حضرات مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن سلام، حضرت قتادہ اور حضرت عکرمہ وغیر ہم بہت سے حضرات نے فرمایا ہے کہ جس شخصیت کا اس آیت میں ذکر ہے وہ حضرت عزیر بن شرخیا تھا اور بعض حضرات نے ارمیابن خلقیا بھی بتایا ہے اور اس بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں لیکن پہلا قول زیادہ مشہور ہے، بہر صورت قرآن کریم نے موت کے بعد زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنے والے شخص کا واقعہ ذکر فرمایا ہے۔ یہ حضرت عزیر (علیہ السلام) ہوں یا کوئی بھی شخصیت ہو، ایک بستی پر ان کا گزر ہوا جس کی سب آبادی ختم ہوچکی تھی۔ اور بستی کے در و دیوار بھی منہدم تھے چھتیں گرگئی تھیں پھر چھتوں پر دیواریں گرگئی تھیں اس بستی کا یہ حال دیکھ کر ان کے منہ سے بطور تعجب یہ نکلا کہ اللہ اس بستی کو اس کی موت کے بعد کیسے زندہ فرمائے گا۔ ؟ خدا تعالیٰ شانہ کی قدرت کا انکار کرنا مقصود نہ تھا بلکہ انسان کے مزاج میں جو ایسی چیزوں میں ایک استبعاد کی شان ہے اس کے اظہار کے طور پر منہ سے ایسے الفاظ بےساختہ نکل گئے جیسے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے یہ یقین کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ بوڑھے کو بھی اولاد دے سکتا ہے خدا تعالیٰ سے اپنے بیٹے کی دعا کی پھر جب فرشتے بیٹے کی خوشنجری لے کر آئے تو بطور تعجب یوں کہنے لگے (رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ) (کہ اے میرے رب کیسے ہوگا میرے لڑکا حالانکہ میں بڑھاپے کو پہنچ گیا اور میری بیوی بانجھ ہے) جس نے سوال کیا ہو وہی کیسے قدرت الہٰیہ کا منکر ہوسکتا ہے لیکن بطور تعجب سوال کر بیٹھے، جس واقعہ کا یہاں ذکر ہے اس میں بھی اسی طرح کی بات ہے، جب انہوں نے یہ کہا کہ اللہ کیسے زندہ فرمائے گا اس بستی کو (جس میں تعجب بھی تھا اور کیفیت کا سوال بھی) تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کے کہنے والے ہی کو موت دے دی اور سو (١٠٠) سال تک اسی حال میں رکھا پھر سو (١٠٠) سال کے بعد زندہ فرما کر اٹھا دیا اور سوال فرمایا کہ تم کتنے وقت اسی حالت میں ٹھہرے رہے (جو زندگی کی حالت نہ تھی) تو انہوں نے جواب میں عرض کردیا کہ میں اس حالت میں ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ رہا ہوں، مفسرین نے بیان کیا ہے کہ چاشت کے وقت ان کو موت آئی تھی اور سو (١٠٠) سال گزرنے کے بعد جب ان کو اللہ تعالیٰ نے اٹھایا تو غروب سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔ سورج پر نظر ڈالی تو نظر آیا کہ وہ غروب ہونے والا ہے لہٰذا انہوں نے جواب میں کہا کہ ایک دن ایسی حالت میں رہا ہوں اور جب یوں غور کیا کہ ابھی تو سورج چھپا بھی نہیں تو کہنے لگے کہ ایک دن بھی نہیں بلکہ دن کا کچھ حصہ رہا ہوں، اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ تمہارا یہ بیان کرنا صحیح نہیں بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ تم سو (١٠٠) سال تک اسی حالت میں رہے ہو سو سال تک وہ مردہ رہے لیکن چونکہ جسم اسی طرح صحیح سالم ترو تازہ باقی رہا۔ جیسا کہ زندگی میں تھا تو ان کو اس سے مزید تعجب ہوا، اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کا ایک اور نمونہ ان کو دکھایا اور فرمایا کہ تو اپنے کھانے پینے کی چیز کو دیکھ لے وہ ابھی گلی سڑی نہیں ہے۔ جس طرح یہ کھانا اپنی حالت پر سو (١٠٠) سال باقی رہ گیا اس طرح بغیر روح کے تیرا جسم بھی صحیح سالم ترو تازہ رہا، قال فی الروح (ص ٢٢ ج ٣) و استشکل تفرع فانظر علی لبث الماءۃ بالفاء وھو یقتضی التغیر، و أجیب بأن المفرع علیہ لیس لبث الماءۃ بل لبث الماءۃ من تغیر فی جسمہ حتی ظنہ زمانا قلیلا ففرع علیہ ما ھو أظھر منہ و ھو عدم تغیر الطعام والشراب وبقاء الحیوان حیا من غیر غذاء پھر اللہ جل شانہ نے ان کے سامنے ان کے مردہ گدھے کو زندہ کر کے دکھایا۔ باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ تم اپنے گدھے کو دیکھو اور ہڈیوں پر نظر ڈالو۔ گدھے کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا دیکھو ہم ان کو کس طرح ترکیب دیتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، ان کے سامنے وہ ہڈیاں ترتیب کے ساتھ جمع ہوئیں پھر ان پر گوشت چڑھا اور گدھا زندہ ہو کر کھڑا ہوگیا۔ جب یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو بےاختیار بول اٹھے کہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یقین تو پہلے ہی سے تھا کیونکہ مؤمن آدمی تھے۔ لیکن عینی مشاہدہ بھی کرلیا، درمیان میں یہ جو فرمایا کہ (وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ ) اس کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ محذوف پر معطوف ہے صاحب روح المعانی ص ٢٣ ج ٣ میں لکھتے ہیں کہ یہاں عبارت مقدر ہے۔ (ای و فعلنا ذلک لنجعلک) یعنی ہم نے تمہیں مردہ کرکے زندہ کردیا تاکہ ہم تمہاری ذات کو لوگوں کے لیے نشانی بنا دیں، تمہیں دیکھ کر اور تمہارا واقعہ معلوم کرکے لوگوں کو ہدایت ہوگی اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر یقین کرنے میں ہچکچاہٹ کرنے کا موقعہ نہ رہے گا۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (اُنْظُرْ الیٰ حِمَارِکَ ) جو حکم تھا وہ مدت دراز تک موت کی حالت میں رہنے کو ظاہر کرنے کے لیے تھا اور (وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ ) میں جو حکم ہوا وہ مردہ کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

511 ۔ یہ دوسرا واقعہ ہے جو پہلے قاعدہ پر متفرع ہے اور او تنویعیہ ہے یعنی دوسری نوع کے بیان کے لیے۔ یہ قصہ پہلے قاعدہ پر متفرع ہے اور اس کی تمثیل ہے کہ جو لوگ اللہ کی طرف انابت کرتے ہیں۔ حق وصداقت اور اطمینان باطن کے متلاشی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کیدستگیری کرتا اور ان کے اطمینان کا سامان مہیا کرتا ہے۔ استشھاد علی ما ذکر من ولایتہ تعالیٰ للمومنین وتقریر لہ (ابو السعود ص 483 ج 2) کالذی میں کاف تمثیل کے لیے ہے یعنی اس کے منجملہ شواہد میں سے ایک یہ ہے۔ اس قسم کے اور بھی کوئی واقعات ہوچکے ہیں۔ مثلا ایک واقعہ پارہ دوم میں الم تر الی الذین خرجوا میں مذکور ہوا ہے کہ بعض مومنوں کو قتال نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مار کر پھر زندہ فرمایا۔ یا کاف زائدہ ہے۔ الَّذِيْ مَرَّکے بارے میں اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے۔ والمار ھو عزیر بن شرخیاکما اخرجہ الحاکم عن علی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ واسحق بن بشر عن ابن عباس وعبداللہ بن سلام والیہ ذھب قتادة وعکرمۃ والربیع والضحاک والسدی وخلق کثیر (روح ص 20 ج 3) اور قریہ سے مراد بیت المقدس ہے جسے بخت نصر نے تباہ وبرباد کردیا تھا۔ وقال عکرمۃ والربیع ووھ بھی بیت المقدس وکان قد خربھا بخت نصر وھذا ھو الاشھر (روح ص 21 ج 3، بحر ص 291 ج 2)512 انہوں نے جب اس کی تباہی کا منظر دیکھا تو اظہار تاسف کے طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ اس بستی والوں کو دوبارہ کس طرح ذندہ کرے گا۔ مطلب یہ نہیں کہ انہیں ان کے دوبارہ جی اٹھنے کا یقین نہیں تھا بلکہ وہ کیفیت احیاء کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ ۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کیفیت احیاء کا مشاہدہ کرانے کے لیے ان پر موت وارد کردی اور وہ پورے سو سال اسی حالت میں زمین کے اوپر ہی پڑے رہے اور سو سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد اللہ نے ان کو زندہ کیا۔ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۭ۔ یہ سوال و جواب احاطہ صفات سے ان کے عجز کے اظہار کے لیے کیا گیا ہے۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے حالت موت کی مدت صرف ایک دن یا اس سے بھی کم بتائی یہ محض ان کا اندازہ اور تخمینہ تھا۔ سو سال کا عرصہ انہیں یک روزہ خواب کی طرح معلوم ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حالت موت میں یہ جلیل القدر پیغمبر (علیہ السلام) اختلاف لیل ونہار اور انقلابات زمانہ سے بالکل بیخبر تھا۔ اگر انہیں ان چیزوں کا احساس ہوتا تو ملت کا وہ یہ تخمینہ بیان نہ کرتے بلکہ ان کو پوری مدت کا ٹھیک ٹھیک علم ہوتا۔ اس واقعہ سے سماع موتی کی نفی ہوتی ہے۔ کیونکہ حضرت عزیر (علیہ السلام) دنیا میں ہونے والے تمام انقلابات سے بیخبر تھے۔ سو سال کے عرصہ میں نہ تورات دن کے اختلاف کا ان کو پتہ چلا اور نہ ہی انہیں بیرونی آوازیں سنائی دیں۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وفات کے بعد انبیاء (علیہم السلام) کی ارواح طیبہ ان کے ابدان مبارکہ میں موجود نہیں رہتیں اور ان کی حیات دنیوی ناسوتی نہیں ہوتی بلکہ برزخی ہوتی ہے۔513 یعنی تم تو پورے سو سال حالت موت میں رہے ہو۔ مگر دیکھ لو اس کے باوجود تمہارا کھانا پینا خراب نہیں ہوا۔ اس میں کسی قسم کا تغیر اور بو پیدا نہیں ہوئی بلکہ وہ آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے۔ جس طرح آج سے سو سال پہلے تھا۔ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ الخ۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) جب یہاں سے گذرے تھے اس وقت گدھے پر سوار تھے۔ آرام کرنے کے لیے گدھے کو وہاں چھوڑ کر لیٹ گئے۔ اور حالت نوم ہی میں ان کی روح قبض کرلی گئی۔ ادھر گدھا بھی مرگیا اور اس اثناء میں اس کا گوشت پوست تو مٹی نے کھالیا۔ مگر ہڈیوں کا ڈھانچہ صحیح سلامت پڑا رہا۔ تو اللہ نے فرمایا اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھ ہم اسے کس طرح زندہ کرتے ہیں تاکہ ہم تمہیں بعث بعد الموت یعنی دوبارہ جی اٹھنے پر لوگوں کے لیے دلیل اور برہان بنا دیں۔ وَلِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ ودلالة علی البعث بعد الموت (قرطبی ص 294 ج 3) ۔514 انشاز کے معنی ہلانے اور جنبش دینے کے ہیں۔ ہماری قدرت کاملہ کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کرلو اور مشاہدہ کرلو کہ ہم کس طرح گدھے کی ہڈیوں کو گوشت پوست پہنا کر اور اس میں روح پھونک کر اسے دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دیکھے دیکھتے ہی گدھے کو زندہ کردیا۔ 515 علم سے یہاں علم مشاہدہ اور معاینہ مراد ہے۔ کیونکہ خدا کی قدرت کا علم ویقین تو انہیں پہلے بھی حاصل تھا۔ مگر وہ علم شہود نہیں تھا۔ قال حکنی انہ اخبر عن نفسہ عندما عاین من قدرة اللہ تعالیٰ فی احیائہ الموتی فتیقن ذالک بالمشاھدة (قرطبی ص 296 ج 3) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 ۔ یا آپ نے اسی طرح اس واقعہ کو ملاحظہ نہیں کیا جو اس شخص کو پیش آیا جس کا ایک بستی پر ایسی حالت میں گزر ہوا کہ وہ بستی اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی یعنی برباد اور ویران ہوچکی تھی پہلے مکانات کی چھتیں گریں پھر چھتوں پر دیواریں گرپڑیں اس بستی کے رہنے والے سب مرگئے اور وہ بالکل برباد ہوگئی اس شخص نے بستی کو اس حالت میں دیکھ کر کہا اللہ تعالیٰ اس بستی کی موت اور اس کی ویرانی کے بعد اس کو کس کیفیت سے زندہ کرے گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو پورے سو برس مردہ رکھا اور سو سال کے بعد پھر اس کو زندہ کر کے اٹھا کھڑا کیا اور اس سے دریافت کیا بھلا تو اس حالت میں کتنے دن رہا ہوگا اور تجھ پر کتنی مدت گزری ہوگی اس نے جواب دیا کہ میں اس حالت میں ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم رہا ہوں گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں بلکہ تو اس حال میں سو سال رہا ہے سو اب تو اپنے کھانے پینے کے سامان کو دیکھ لے کہ اس میں کوئی تغیر نہیں ہوا اور وہ جوں کا توں رکھا ہے اور ذرا نہیں سڑا گلا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ کر اس کی کیا حالت ہوگئی اور ہم نے یہ کام اس لئے کیا ہے تا کہ تجھ کو لوگوں کے لئے اپنی قدرت کی ایک نشانی اور نظیر بنائیں اور تو اب اپنے گدھے کی ہڈیوں کی طرف بھی دیکھ کہ ہم ان ہڈیوں کو کس طرح جوڑتے ہیں اور ابھار کر ترکیب دیتے ہیں ۔ پھر ان ہڈیوں پر کس طرح گوشت پہناتے اور چڑھاتے ہیں پھر جب اس پر یہ تمام امور ظاہر ہوگئے یعنی اپنا زندہ ہونا اور سو برس تک کھانے اور پینے کی اشیاء کا باقی رہنا اور گدھے کا گل سڑ کردو بارہ زندہ ہونا تو اس شخص نے کہا کہ میں یقین رکھتا ہوں اور خوب جانتا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ حضرات مفسرین نے او کالذی کی مختلف ترکیبیں کی ہیں اور پہلی آیت کی طرح اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اے نبی کیا آپ کو اس جیسے آدمی کا حال معلوم نہیں ہوا جو ایک بستی پر گزرا تھا۔ یہاں تخصیص کی غرض سے حرف تشبیہ بڑھا دیا ہے کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کی کیفیت سے بیشمار لوگ بیخبر بلکہ دوبارہ زندہ ہونے کے منکر ہیں اور ہوسکتا ہے کہ کاف تشبیہ زائد ہو اور مطلب یہ ہو۔ اے نبی کیا آپ نے اس شخص کو یا اس شخص کے واقعہ کو نہیں دیکھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بجائے الفاظ کے معنی پر عطف ہو اور عطف یہ ہو کہ اے نبی ! آپ نے اس جیسے آدمی کا حال معلوم نہیں کیا جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا یا اس جیسے آدمی کا حال کا آپ کو علم نہیں ہوا جو ایک بستی پر گزرا۔ حضرت علی (رض) ، ابن عباس (رض) ، حسن (رض) قتادہ وغیرہم کا قول ہے کہ یہ صاحب حضرت عزیر (رض) بن شرخیا تھے اس قول کو ابن کثیر نے مشہور کہا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں۔ بستی سے مراد یا تو بیت المقدس ہے یا وہ بستی ہے جس کا ذکر ابھی ہوچکا ہے یعنی جس سے ہزاروں آدمی موت کے خوف سے نکل گئے تھے یا کوئی اور گائوں ہو ۔ بہر حال حضرت عزیر (علیہ السلام) اثناء سفر میں جب اس ویران شدہ بستی پر گزرے تو اس کو اس حالت میں دیکھا کہ لوگ بھاگ گئے سب مرکھپ گئے سارے مکانوں کی چھتیں گرگئیں اور چھتوں پر دیواریں آپڑیں اس ویران اور تباہ شدہ بستی کو دیکھ کر یہ خیال آیا کہ اس ویران آبادی کو اللہ تعالیٰ دوبارہ کس طرح زندہ کرے گا یہ زندگی یا تو قیامت کی زندگی مراد ہوگی یا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بستی پھر کس طرح آباد ہوگی اور یہ بات نہیں کہ ان کو قیامت کی زندگی پر یقین نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ زندہ ہونے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں نہ معلوم حضرت حق تعالیٰ کون سی صورت اختیار کریں گے کیونکہ وہ ایک کام کو کئی طرح کرسکتے ہیں اور اگر بیت المقدس کی آبادی مراد ہو تب بھی یہ ایک عجیب امر تھا کہ ایک بستی بالکل ویران اور تباہ ہوچکی لوگ سب مرچکے عمارتیں سب منہدم ہو چکیں اب اللہ تعالیٰ دوبارہ اس کو آباد کرنے کا کیا طریقہ اختیار فرمائیں گے اور یہ بستی اجڑے پیچھے دوبارہ کیوں کر آباد ہوگی اس تقدیر پر بستی کے لوگوں کی زندگی کا سوال نہیں ہوگا بلکہ خود بستی کے دوبارہ تعمیر ہونے کا سوال ہوگا۔ چونکہ علماء نے دو قول نقل کئے ہیں اور دونوں ہی باتوں کی گنجائش ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ بستی کے مرنے والے باشندوں کی زندگی کا سوال ہو اور قیامت میں ان کے زندہ ہونے کی کیفیت معلوم کرنا چاہتے ہوں اور ہوسکتا ہے کہ خود بستی کی ویرانی پر تعجب ہوا ہو اور اس کے دوبارہ آمادہ ہونے کی کیفیت معلوم کرنا چاہتے ہوں۔ بہر حال جب حضرت عزیر (علیہ السلام) اس ویران شدہ بستی پر سفر کرتے ہوئے گزرے تو یہ ایک گدھے پر سوار تھے کچھ کھانے اور پینے کا سامان ان کے ساتھ تھا ، بستی کو دیکھ کر یہ خیال ہوا کہ دشمنوں نے اس بستی کو بالکل تخت و تاراج کردیا ۔ اب یہ کس طرح آباد ہوگی۔ اس فرمانے کے بعد وہاں انہوں نے قیام کیا ، نیند آگئی سونے کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی جان قبض کرلی جس وقت وہ سوئے اس وقت چاشت کا وقت تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو زندہ کیا اس وقت کچھ دن باقی تھا۔ وہ یہ سمجھے کہ اگر کل سویا تھا تو آج ایک دن بعد آنکھ کھلی اور اگر آج ہی سویا تھا تو ایک دن سے کم ہی وقت گزراحالان کہ سو برس کے بعد زندہ کئے گئے تھے زندہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بواسطہ جبرئیل یا براہ راست ان سے سوال کیا کہ تم کتنی دیر یہاں رہے انہوں نے اپنے خیال کے موافق عرض کردیا کہ ایک دن یا ایک دن سے کم رہا۔ اس پر ارشاد ہوا تم اس حالت میں سو برس تک رہے اب قدرت کا کرشمہ دیکھو کہ تمہارا جسم صحیح سلامت رہا ۔ کھانے پینے کی چیزیں انجیر ، انگور ، انگور کا شربت وغیرہ بھی ویسا کا ویسا ہی رکھا رہا ، چونکہ کھانے پینے کی چیزوں کو جسم کے عناصر سے ایک خاص مناسبت ہے بلکہ یہی کھانا پانی ہے جو معدے میں تحلیل ہو کر جسم بن جاتا ہے یہ سب سلامت رہانہ سڑا نہ گلا نہ کسی قسم کی بدبو اور کھٹاس پیدا ہوئی اور اسی کے ساتھ اپنی سواری کے گدھے کو بھی دیکھو کہ وہ گل سڑ کر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ یہ کاروائی اس لئے کی گئی تا کہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے ایک نظیر اور ایک قدرت کا نمونہ اور نشان بنائیں اور لوگ اس امر کا یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے انقلاب کا مالک ہے۔ مارنا ، جلانا ، ویران کرنا اور آباد کرنا اور تمام عالم کو ویران کردینے کے بعد مخلوق کو از سر نو پیدا کردینا یہ سب اس کی قدرت اور اختیار میں ہے چناچہ ان کے گدھے کو ان کے سامنے زندہ کردیا گیا ۔ آہستہ آہستہ ہر چیز سمٹ سمٹ کر اپنی جگہ آگئی ہڈیاں ابھر کر جمع ہوگئیں ۔ ڈھانچہ بن گیا ۔ گوشت پوست پیداہو گیا قدرت کے یہ عجائبات دیکھ کر انہوں نے بےساختہ کہا کہ میں یہ خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یعنی پہلے جو میں نے انی یحییٰ کہا تھا وہ محض احیاء کی کیفیت اور صورت معلوم کرنے کی غرض سے کہا تھا یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ہم کو کوئی شبہ تھا۔ اب آنکھ کھول کر دیکھا تو وہ بستی بھی خوب آباد تھی ، نئے نئے مکان بن چکے تھے اور جو لوگ بھاگ گئے تھے وہ پھر آ کر آباد ہوگئے تھے۔ حملہ آور بادشاہ مرچکا تھا اور اس کی فوج اور سلطنت ختم ہوچکی تھی اب حکومت دوسری تھی ۔ حضرت عزیر نے زندہ ہو کر بچوں کو بڈھا دیکھا ، لوگوں سے کہا میں عزیر ہوں لوگوں نے کہام عزیر تو کہیں مرکھپ گیا ۔ تم جھوٹ بولتے ہو مدتوں سے عزیر کا تو کہیں پتہ ہی نہیں چونکہ حضرت عزیر کو تو ریت حفظ تھی ۔ لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اگر آپ عزیر ہیں تو ہم کو توریت لکھوا دو کیونکہ ہماری توریت کو حملہ آور بادشاہ تباہ کر گیا ہے اور توریت کے قاریوں کو اس نے قتل کر ڈالا ہے اور اب ہمارے پاس توریت کا کوئی مکمل نسخہ نہیں۔ چنانچہ حضرت عزیر نے توریت کا مکمل نسخہ اپنے حافظہ سے قلم بند کرا دیا۔ تب لوگوں کو یقین آیا کہ یہ واقعی حضرت عزیر (علیہ السلام) ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سو برس کے بعد زندہ کیا اور ان کے جسم کو اور ان کے کھانے پینے کو محفوظ رکھا اور ان کی سواری کے گدھے کو ان کے سامنے زندہ کیا اور جس بستی کو ویران و برباددیکھا تھا اس کو زندہ ہو کر پھر آباد اور پہلے سے زیادہ پر رونق دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کی ویرانی اور بخت نصر کے حملہ سے متعلق ہو۔ بہر حال ! اس واقعہ میں تقریباً وہ تمام امور نمایاں ہوگئے جو قیامت کے دن کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً مرنے کے بعد زندہ کرنا اور ایک طویل مدت کے بعد زندہ کرنا دوبارہ زندہ کرنے تک روح کا باقی رہنا بعض اجسام کا جوں کا توں رہنا اور بعض کا گل سڑ کر خاک ہوجانا ۔ خاک شدہ اجسام کو خاص کیفیت سے جمع کرنا اور اجزائے جسمیہ کو جمع کرنے اور ترتیب دینے کے بعد زندہ کردینا ۔ مرنے اور دوبارہ زندہ ہونے کی درمیانی مدت کا صحیح علم نہ ہونا ہم اوپرعرض کرچکے ہیں کہ یہ واقعہ قیامت کی زندگی کے لئے بھی نشان ہوسکتا ہے اور انقلابی واقعات کے لئے بھی دلیل بن سکتا ہے اور یہی دو تفسیریں ہیں جن کی طرف مفسرین گئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ شخص حضرت عزیر پیغمبر تھے۔ بخت نصر ایک بادشاہ تھا کا فربنی اسرائیل پر غالب ہوا۔ شہربیت المقدس کو ویران کیا ۔ تمام لوگ بندی میں پکڑے گئے ۔ تب حضرت عزیر اس شہر پر گزرے۔ تعجب کیا کہ یہ شہر پھر کیونکر آباد ہو اسی جگہ ان کی روح قبض ہوئی سو برس کے بعد زندہ ہوئے ان کا کھانا اور پینا پاس دھرا تھا اسی طرح اور سواری کا گدھا مرکر ہڈیاں اسی شکل سے دھری تھیں وہ ان کے روبرو زندہ ہوام ۔ اس سو برس میں بنی اسرائیل قید سے خلاص اور شہر پھر آباد ہوا انہوں نے زندہ ہو کر آباد ہی دیکھا۔ ( موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) کا منشاء بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ بستی کی آبادی کا دیکھنا مطلوب تھا قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کی کیفیت مطلوب نہ تھی ۔ لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا کہ دونوں باتوں کی گنجائش ہے ۔ اس لئے ہم نے تسہیل میں دونوں امر ظاہر کردیئے ۔ عرش مستف چیز کو کہتے ہیں ۔ بیل چڑھانے کی ٹیٹوں کو عرشیہ کہتے ہیں ۔ عروج جمع ہے یہاں چھتیں مراد ہیں ۔ نشتنر زمین کے ابھرے ہوئے حصے کو کہتے ہیں ۔ نشوز اٹھنا کھڑنے ہوجانا ، نافرمان عورت جو اپنے خاوند سے بغض رکھے اس کی مخالفت کرے اس کو ناشزہ کہتے ہیں ۔ یہاں گدھے کی ہڈیوں کو ابھارنا اور جمع کرنا مراد ہے یعنی ان میں روح حیات پیدا کردیتے ہیں جس سے وہ ابھرتی اور سمٹتی معلوم ہوں گی۔ لم یتسنہ کا مطلب یہ ہے کہ برسہا برس گزرنے کے باوجود کھانے پینے کی چیزیں متغیر نہیں ہوئیں اور اپنی حالت پر قائم رہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر اتنی مدت اور اتنے برس نہیں گزرے۔ لم یتسنہ سنۃ یا سنھۃ سے مشتق ہے ۔ اب آگے اسی قسم کا ایک واقعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مذکور ہے تا کہ احیاء موتی کا مسئلہ اور صاف ہوجائے۔ ( تسہیل)