Surat Tahaa

Surah: 20

Verse: 10

سورة طه

اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَہۡلِہِ امۡکُثُوۡۤا اِنِّیۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا لَّعَلِّیۡۤ اٰتِیۡکُمۡ مِّنۡہَا بِقَبَسٍ اَوۡ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی ﴿۱۰﴾

When he saw a fire and said to his family, "Stay here; indeed, I have perceived a fire; perhaps I can bring you a torch or find at the fire some guidance."

جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لاَِهْلِهِ امْكُثُوا ... And has there come to you the story of Musa! When he saw a fire, he said to his family: "Wait! From this point, Allah begins to mention the story of Musa, how revelation began to come to Him, and Allah's speaking directly to him. This occurred after Musa had completed the time agreed upon between he and his father-in-law that he would herd sheep. He was traveling with his family, and it has been said that he was headed for the land of Egypt, after having been away from it for more than ten years. He had his wife with him and he became lost on the way during a cold, wintry night. Therefore, he settled down, making a camp between some mountain passes and mountains that were covered with snow, sleet, dense clouds, darkness and fog. He began to try to make a fire with a kindling device he had with him, in order to produce some light, as was customary. However, it would not kindle anything and it even stopped giving off sparks. While he was in this condition, he saw a fire from the side of the mountain. It appeared to him to be a fire glowing from the right side of the mountain from where he was. He then announced the good news to his family saying, ... إِنِّي انَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي اتِيكُم مِّنْهَا بِقَبَسٍ ... Verily, I have seen a fire; perhaps I can bring you some burning brand, This means a flame from a fire. In another Ayah he said, أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ or a burning firebrand. (28:29) This is a coal that has a burning flame. لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ that you may warm yourselves. (28:29) This proves that it was in fact cold weather at that time. Concerning his statement, بِقَبَسٍ (some burning brand). This proves that it was dark. In reference to his statement, ... أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى or find some guidance at the fire. This means someone who can guide me to the road. This proves that he lost the road. This is as Ath-Thawri reported from Abu Sa`id Al-A`war, from Ikrimah, from Ibn Abbas that he said concerning Allah's statement, أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى (or find some guidance at the fire), "This means someone who will guide me to the road. They were cold and had lost their way. Then, when he (Musa) saw the fire he said, `Either I will find someone who can guide us to the road, or at least I can bring you all some fire that you can kindle with."'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر تھیں) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انھیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انھیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو ! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہوجائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] سیدنا موسیٰ کا آگ لینے کے لئے جانا :۔ اس قصہ کا آغاز اس وقت سے کیا جارہا ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کی گئی تھی۔ آٹھ دس سال آپ مدین میں شعیب (علیہ السلام) کے پاس رہے وہاں آپ کا نکاح شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی سے ہوا تھا۔ طے شدہ مدت گزارنے کے بعد آپ کو خیال آیا کہ آپ اپنے آبائی وطن مصر کی طرف چلنا چاہئے۔ دوران سفر آپ کو رات آگئی۔ شدید سردی کا موسم تھا۔ بیوی ساتھ تھی اور وہ حاملہ تھی۔ سخت اندھیرا تھا لہذا آپ راستہ بھی بھول گئے اور کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کریں۔ سخت پریشانی کا عالم تھا۔ اتنے میں آپ کو دور کہیں سے آگ دکھائی دی۔ جو اس بات کی علامت تھی کہ ضرور وہاں کوئی آدمی بھی موجود ہوگا۔ چناچہ آپ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم تو یہیں ٹھہرو، میں وہاں آگ والوں کے پاس جاتا ہوں۔ تاکہ ان لوگوں سے راہ کا اتا پتا پوچھ سکوں دوسرے کچھ آگ کے انگارے بھی لیتا آؤں گا۔ تاکہ تم آگ سینک سکو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَہْلِہِ امْكُـثُوْٓا اِنِّىْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْہَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَي النَّارِ ہُدًى۝ ١٠ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ أهل أهل الرجل : من يجمعه وإياهم نسب أو دين، أو ما يجري مجراهما من صناعة وبیت وبلد، وأهل الرجل في الأصل : من يجمعه وإياهم مسکن واحد، ثم تجوّز به فقیل : أهل الرجل لمن يجمعه وإياهم نسب، وتعورف في أسرة النبيّ عليه الصلاة والسلام مطلقا إذا قيل : أهل البیت لقوله عزّ وجلّ : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ [ الأحزاب/ 33] ( ا ھ ل ) اھل الرجل ۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس کے ہم نسب یا ہم دین ہوں اور یا کسی صنعت یامکان میں شریک ہوں یا ایک شہر میں رہتے ہوں اصل میں اھل الرجل تو وہ ہیں جو کسی کے ساتھ ایک مسکن میں رہتے ہوں پھر مجازا آدمی کے قریبی رشتہ داروں پر اہل بیت الرجل کا لفظ بولا جانے لگا ہے اور عرف میں اہل البیت کا لفظ خاص کر آنحضرت کے خاندان پر بولا جانے لگا ہے کیونکہ قرآن میں ہے :۔ { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ } ( سورة الأحزاب 33) اسے پیغمبر گے اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی ( کا میل کچیل ) دور کردے ۔ مكث المکث : ثبات مع انتظار، يقال : مَكَثَ مکثا . قال تعالی: فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ، وقرئ : مکث «5» ، قال : إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف/ 77] ، قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص/ 29] ( م ک ث ) المکث کسی چیز کے انتظار میں ٹھہرے رہنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ النمل ] [ 22] ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ۔ ایک قرات میں مکث ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّكُمْ ماكِثُونَ [ الزخرف/ 77] تم ہمیشہ ( اسی حالت میں ) رہو گے ۔ قالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا[ القصص/ 29] تو اپنے گھر والوں سے کہنے لگے کہ تم یہاں ٹھہرو ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ قبس القَبَسُ : المتناول من الشّعلة، قال : أَوْ آتِيكُمْ بِشِهابٍ قَبَسٍ [ النمل/ 7] ، والْقَبَسُ والِاقْتِبَاسُ : طلب ذلك، ثم يستعار لطلب العلم والهداية . قال : انْظُرُونا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ [ الحدید/ 13] . وأَقْبَسْتُهُ نارا أو علما : أعطیته، والْقَبِيسُ : فحل سریع الإلقاح تشبيها بالنار في السّرعة . ( ق ب س ) القبس آگ ( کا شعلہ یا اس کی چنگاری جو شعلہ سے لی جائے قرآن میں ہے ۔ أَوْ آتِيكُمْ بِشِهابٍ قَبَسٍ [ النمل/ 7] یا سلگتا ہوا انگارہ تمہارے پاس لاتا ہوں ۔ اور القبس ( مصدر ) والا تتباس کے معنی بڑی آگ سے کچھ آگ لینے کے ہیں ۔ مجازا علم ہدایت کی طلب پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ انْظُرُونا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ [ الحدید/ 13] ہماری طرف نظر شفقت کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں ۔ اقبستہ نارا اوعلما میں نے اسے آگ دی یا علم سکھایا ۔ القبیس وہ سانڈھ جو تیزی کے ساتھ مادہ کو ماملہ کردے گویا سرعت میں وہ شعلہ کی طرح ہے ۔ وجد الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه . ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] . ( و ج د ) الو جود ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف/ 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (اِذْ رَاٰ نَارًا ) ” یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ کے ساتھ مدین سے مصر کی طرف واپس آ رہے تھے۔ اندھیری رات تھی ‘ سردی کا موسم تھا اور راستے کے بارے میں بھی ان کے پاس یقینی معلومات نہیں تھیں۔ اس صورت حال میں جب آپ ( علیہ السلام) کو آگ نظر آئی ہوگی تو یقیناً آپ ( علیہ السلام) بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ (لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ہُدًی ) ” ممکن ہے مجھے وہاں سے کوئی چنگاری مل جائے جس کی مدد سے ہم آگ جلا کر تاپ سکیں ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہاں سے مجھے راستے کے بارے میں کوئی راہنمائی مل جائے۔ ایسا نہ ہو کہ رات کے اندھیرے میں ہم کسی غلط راستے پر چلتے رہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5. This happened when Prophet Moses (peace be upon him) was returning to Egypt after passing several years in exile in Midian, along with his wife whom he had married there. According to the early part of his history, which has been related in Surah Al-Qasas, an Egyptian had been killed by Prophet Moses (peace be upon him), so he had to leave Egypt in order to escape arrest and had taken refuge in Midian. 6. It appears that this happened during a night of winter, when Prophet Moses (peace be upon him) was passing through the southern part of the Sinai Peninsula. When he saw a fire at a distance, he went towards it in the hope that he might get some of it to keep his wife and children warm during the night, or at least get some guidance concerning the direction of his journey. But instead of this it was his good fortune that he found the guidance to the right way.

سورة طٰهٰ حاشیہ نمبر :5 یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسیٰ چند سال مَدیَن میں جلا وطنی کی زندگی گزار نے کے بعد اپنی بیوی کو ( جن سے مَدیَن ہی میں شادی ہوئی تھی ) لے کر مصر کی طرف واپس جا رہے تھے ۔ اس سے پہلے کی سرگزشت سورۂ قَصص میں بیان ہوئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہوگیا تھا اور اس پر انہیں اپنی گرفتاری کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا تو وہ مصر سے بھاگ کر مدین میں پناہ گزیں ہوئے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: سورۂ قصص میں آگے اس واقعے کی تفصیل آنے والی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین میں ایک عرصہ دراز گذارنے کے بعد اپنی اہلیہ کو لے کر مصر کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ جب صحرائے سینا میں پہنچے تو راستہ بھول گئے۔ اور سخت سردی کا بھی احساس ہوا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آگ کی سی شکل نظر آئی جو در حقیقت ایک نور تھا۔ اس وقت انہوں نے اپنی اہلیہ کو وہاں رکنے کی ہدایت دی۔ اور خود آگ کی طرف چلے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(20:10) امکثوا۔ مکث یمکث مکث (باب نصر) سے فعل امر جمع مذکر حاضر تم ٹھہرو۔ تم ٹھہرے رہو۔ انست۔ ماضی واحد متکلم۔ انس مادہ۔ انس یؤنس ایناس (افعال) انوس کرنا۔ انس الشیٔ کسی چیز کو دیکھنا۔ انست میں نے دیکھی ہے۔ انس (سمع) انس (کرم) انس (ضرب) انسا۔ مانوس ہونا۔ اسی سے انس محبت۔ مونس۔ انس دینے والا۔ لعلی۔ لعل حرف مشبہ بالفعل ی ضمیر واحد متکلم۔ شاید میں۔ قبس۔ القبس۔ آگ کا شعلہ۔ یا اس کی چنگاری جو شعلہ سے لی جائے۔ القبس (ضرب) مصدر۔ قبس منہ النار آگ کو بصورت شعلہ لینا۔ قبس العلم علم سے فائدہ اٹھانا۔ اقتبس (باب افتعال) علم و ہدایت سے فائدہ اٹھانا۔ علم حاصل کرنا۔ نیز اس کے معنی بڑی آگ سے کچھ آگ لینے کے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہے انظرونا نقتبس من نورکم۔ (57:13) ہماری طرف نظر شفقت کیجئے کہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کرلیں لعلی اتیکم منھا بقبس۔ شاید میں اس آگ میں کوئی چنگاری تمہارے لئے لے آئوں۔ علی النار۔ ای عند النار۔ آگ کے پاس۔ ھدی۔ یہ اسم بھی ہے اور مصدر بھی ھدی یھدی کا۔ بطور اسم بمعنی الھادی ہے۔ ہدایت دینے والا۔ راہنمائی کرنے والا۔ راستہ بتانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مدین میں دس سال تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد حضرت موسیٰ اپنے اہل و عیال سمت مصر واپس آرہے تھے۔ اس سے قبل کی سرگزشت کا ذکر سورة قصص میں ہے۔10 معلوم ہوتا ہے کہ جنگل میں سخت سردی تھی اور حضرت موسیٰ راستہ بھول گئے تھے۔ سورة قصص میں ہے ” لعلکم تصطلون “ تاکہ تم آگ تاپ سکو۔ (کذافی ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ یہاں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے کی ابتدا ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی زوجہ مطہرہ کے ساتھ حضرت شعیب (علیہ السلام) سے رخصت ہو کر مصر کو روانہ ہوئے تو راستہ میں یہ واقعہ پیش آیا۔ کہ ایک اندھیری رات میں بیوی صاحبہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ سردی شدت کی تھی۔ اور اندھیرا بھی تھا ایسے وقت میں آگ اور روشنی کی اشد ضرورت تھی۔ ایک طرف آگ دیکھی تو اہلیہ محترمہ سے فرمایا۔ تم ٹھہرو میں وہاں سے آگ لاتا ہوں۔ جب وہ آگ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ آگ ایک درخت کے سبز پتوں سے نکل رہی ہے۔ مگر اس کے باوجود پتے سر سبز ہیں۔ جب کسی طریقے سے آگ حاصل کرنے کی کوشش کی تو اس درخت سے ایک غائبانہ آواز آئی ” اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ “ اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں۔ جوتیاں اتار دے کیونکہ تو ایک پاکیزہ جگہ میں ہے۔ ” طُوي “ یہ اس وادی کا نام ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 وہ واقعہ اس وقت کا ہے جبکہ موسیٰ نے مدین کی واپسی پر رات کو طور پر ایک آگ دیکھی اور آگ کو دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا تم ذرا یہیں ٹھہر جائو میں نے ایک آگ دیکھی ہے میں شاید اس آگ میں سے تمہارے پاس کوئی انگارا لے آئوں یا وہاں آگ کے پاس کوئی راستہ بتانے والا پالوں گا یعنی یہ سمجھے کہ پہاڑ کے لوگوں نے آگ جلا رکھی ہے وہاں جا کر آگ بھی لے آئوں گا تاکہ اس سے سردی میں تاپنے کا کام لیا جاسکے اور آگ کے پاس جو شخص ہوگا اس سے راستہ کا پتہ بھی معلوم کرلوں گا تردید بطور مانعتہ الخلو تھی دونوں باتیں ہوجائیں یا دونوں میں سے کوئی ایک ہوجائے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ قصہ سورة قصص اور طہ اور اعراف میں سے پورا معلوم ہو جب حضرت موسیٰ مدین سے مصر کو آنے لگے عورت اور بکریاں ساتھ لیکر جنگل میں رات کی سردی میں راہ بھولے اور عورت کو جننے کا درد ہوا دور سے آگ نظر آئی وہ آگ نہ تھی اللہ کا نور تھا ان سے کالم کیا اور نبی بنا کر فرعون کی طرف بھیجا پیچھے عورت اپنے باپ کے گھر پہنچ رہی۔ 12 کوہ طور پر دونوں ہی باتیں مل گئیں آگ بھی ایسی ملی جو بجھائے نہ بجھے اور ہادی مطلق سے ملاقات ہوگئی جس کی راہ بتانے کے بعد کوئی بےراہ نہ کرسکے۔