نُودِيَ يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ (He was called, |"0 Musa, it is Me, your Lord, remove your shoes - 20:11, 12). It is related in Al-Bahr ul-Muhit, Ruh ul-Ma` ani and other books that the voice which Sayyidna Musa (علیہ السلام) heard appeared to come from all directions and not from any particular direction. At the same time the manner in which the voice reached his perception was most extraordinary, because it was heard not only through his ears but by the entire body. This, indeed, was a miracle! What the voice said was that the light that he saw was not fire but a particular kind of divine manifestation. And the voice said, |"Surely I am your Lord|". The question arises: how did Sayyidna Musa (علیہ السلام) know that it was the voice of Allah Ta` ala? The answer is that Allah Ta` ala had created in his heart the conviction that the voice which he heard was really the voice of Allah Ta` ala. Then there was the circumstance that the fire, instead of burning the tree added to its beauty and luster. Also the manner in which the voice was perceived by all the parts of his body and not only by his ears, were all factors which left no doubt in his mind that the voice he heard was really the voice of Allah Ta` ala. Sayyidna Musa (علیہ السلام) learned the words of Allah directly It is mentioned in a report of Wahb mentioned in Ruh ul-Ma` ani on the authority of Musnad by Alhmad that when the mysterious voice called him |"0 Musa!|", he replied, |"I hear the voice 0 Allah! But I do not know from where it comes. Where are you, 0 Allah?|" And Allah Ta’ ala said, |"I am above you in front of you, to your right and your left. Indeed I am all around you.|" Then Sayyidna Musa (علیہ السلام) said, |"0 Allah, do I hear these words from you directly or through an angel sent by You?|" And Allah Ta` ala said, |"I myself am speaking to you.|" According to Ruh, ul-Ma` ani this proves that Sayyidna Musa (علیہ السلام) heard this کلام لفظی (spoken words) directly from Allah Ta` ala. There is a sect among the Sunnis who believe that کلام لفظی (spoken words) can also be heard. To take off shoes at a sacred place is an act of respect فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ :(Remove your shoes - 20:12). The command to take off shoes was given because it was a sacred place and it was necessary to take off shoes to show it proper respect. Another reason for this command may be that since shoes are made from the hides of dead animals, they should be removed when entering upon sacred places. Sayyidna ` Ali (رض) ، Hasan al-Basri and Ibn Juraij رحمۃ اللہ علیہما have supported the first explanation and reasoned that the real purpose in commanding Sayyidna Musa علیہ السلامٍ to remove his shoes was that the soles of his feet should come into contact with the soil of this hallowed place and be blessed thereby. Others have said that by this command Sayyidna Musa (علیہ السلام) was required to show humility and in earlier times devout and pious believers used to take off their shoes when circumambulating around the Holy Ka&bah. There is a Hadith that when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once saw Bashir Ibn Khasasia walking through the graves with his shoes on, said: اذا کنت فی مثل ھٰذا المکان فاخلع نعلیک |"When you pass by a place which needs to be respected, take off your shoes.|" All the jurists are unanimous that if the shoes are clean they may be worn when offering prayers and it is established by authentic reports that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his companions often wore clean shoes when saying prayers. But their common practice appears to be of removing the shoes when saying prayers, because it is closer to humility. إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (You are in the sacred valley of Tuwa - 20:12): Allah, in his Divine Wisdom, has granted special status to some selected places such as Baitullah (the Holy Ka&bah), the Aqsa Mosque, Masjid Nabawi etc. Wadi Tuwa (the valley of Tuwa) is also one such sacred place and is situated at the foot of the mount of Tur.
نُوْدِيَ يٰمُوْسٰى، اِنِّىْٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ، بحر محیط، روح المعانی وغیرہ میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ آواز اس طرح سنی کہ ہر جانب سے یکساں آرہی تھی اس کی کوئی جہت متعین نہیں تھی اور سننا بھی ایک عجیب انداز سے ہوا کہ صرف کانوں سے نہیں بلکہ تمام اعضاء بدن سے سنا گیا جو ایک معجزہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آواز کا حاصل یہ تھا کہ جس چیز کو آپ آگ سمجھ رہے ہیں وہ آگ نہیں اللہ تعالیٰ کی ایک تجلی ہے اور اس میں فرمایا کہ میں ہی آپ کا رب ہوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس آواز کے متعلق یہ یقین کس طرح ہوا کہ حق تعالیٰ ہی کی آواز ہے ؟ اس کا اصل جواب تو یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے ان کے قلب کو اس پر مطمئن کردیا کہ وہ یقین کرلیں کہ یہ آواز حق تعالیٰ ہی کی ہے دوسرے اس آگ کے حیرت انگیز حالات کہ درخت کو جلانے کے بجائے اس کی تازگی اور حسن بڑھا رہی ہے اور آواز بھی عام لوگوں گی آواز کی طرح نہیں کہ ایک سمت سے آئے بلکہ ہر طرف سے یہ آواز یکساں سنی گئ، دوسرے صرف کانوں نے نہیں بلکہ ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء جو سننے کیلئے وضع نہیں ہوئے سب اس کی سماعت میں شریک تھے اس سے بھی سمجھا گیا کہ حق تعالیٰ کی طرف سے یہ آواز ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حق تعالیٰ کا کلام لفظی بلا واسطہ سنا : روح المعانی میں بحوالہ مسند احمد وہب کی روایت ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جب نداء یا موسیٰ کے لفظ سے دی گئی تو انہوں نے لبیک کہہ کر جواب دیا اور عرض کیا کہ میں آواز سن رہا ہوں مگر آواز دینے والے کی جگہ معلوم نہیں، آپ کہاں ہیں تو جواب آیا کہ میں تیرے اوپر، سامنے، پیچھے اور تیرے ساتھ ہوں۔ پھر عرض کیا کہ میں یہ کلام خود آپ کا سن رہا ہوں یا آپ کے بھیجے ہوئے کسی فرشتہ کا ؟ تو جواب آیا کہ میں خود ہی آپ سے کلام کر رہا ہوں۔ اس پر صاحب روح فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کلام لفظی بلا واسطہ فرشتہ کے خود سنا ہے جیسا کہ اہل سنت والجماعت میں سے ایک جماعت کا مسلک یہی ہے کہ کلام لفظی بھی قدیم ہونے کے باوجود سنا جاسکتا ہے اس پر جو شبہ حدوث کا کیا جاتا ہے اس کا جواب ان کی طرف سے یہ ہے کہ کلام لفظی اس وقت حادث ہوتا ہے جبکہ وہ مادی زبان سے ادا کیا جائے جس کے لئے جسم، سمت، جہت شرط ہے، نیز سننے کیلئے صرف کان مخصوص ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس طرح سنا کہ نہ آواز کی کوئی جہت و سمت تھی اور نہ سننے کے لئے صرف کان مخصوص تھے سارے اعضاء سن رہے تھے، ظاہر ہے یہ صورت احتمال حدوث سے پاک ہے۔ واللہ اعلم مقام ادب میں جوتے اتار دینا ادب کا مقتضا ہے : فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ، جوتے اتارنے کا حکم یا تو اس لئے دیا گیا کہ مقام ادب ہے اور جوتا اتار کر ننگے پاؤں ہوجانا مقتضائے ادب ہے اور یا اس لئے کہ جوتے مردار کی کھال کے بنے ہوئے تھے جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ حضرت علی اور حسن بصری اور ابن جریج سے وجہ اول ہی منقول ہے اور جوتا اتارنے کی مصلحت یہ بتلائی تاکہ آپ کے قدم اس مبارک وادی کی مٹی سے لگ کر اس کی برکت حاصل کریں اور بعض نے فرمایا کہ یہ حکم خشوع اور تواضع کی صورت بنانے کے لئے ہوا جیسا کہ سلف صالحین طواف بیت اللہ کے وقت ایسا ہی کرتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بشیر بن خصاصیہ کو قبروں کے درمیان جوتے پہن کر چلتے دیکھا تو فرمایا اذا کنت فی مثل ھذا المکان فاخلع نعلیک یعنی جب تم اس جیسے مکان سے گزرو (جس کا احترام مقصود ہے) تو اپنے جوتے اتار لو۔ جوتے اگر پاک ہوں تو ان میں نماز درست ہوجانے پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے پاک جوتے پہن کر نماز پڑھنا صحیح روایات سے ثابت بھی ہے مگر عام عادت و سنت یہی معلوم ہوتی ہے کہ جوتے اتار کر نماز پڑھی جاتی تھی کہ وہ اقرب الی التواضع ہے۔ (قرطبی) اِنَّكَ بالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى، حق تعالیٰ نے زمین کے خاص خاص حصوں کو اپنی حکمت سے خاص امتیاز اور شرف بخشا ہے جیسے بیت اللہ مسجد اقصیٰ ، مسجد نبوی اسی طرح وادی طویٰ بھی انہی مقامات مقدسہ میں ہے جو کوہ طور کے دامن میں ہے (قرطبی)