أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ
...
(Allah) said: "You are granted your request, O Musa! And indeed We conferred a favor on you another time (before).When We inspired your mother with that which We inspired. Saying: `Put him (the child) into the Tabut and put it into the river; then the river shall cast it up on the bank,
This is a response from Allah to His Messenger, Musa, for what he requested from His Lord. It also contains a reminder of Allah's previous favors upon him.
The first was inspiring his mother when she was breastfeeding him and she feared that Fir`awn and his chiefs would kill him.
Musa was born during a year in which they (Fir`awn's people) were killing all of the male children. So she placed him in a case and cast him into the river. The river carried him away and she became grieved and distressed, as Allah mentioned about her when He said,
وَأَصْبَحَ فُوَادُ أُمِّ مُوسَى فَارِغاً إِن كَادَتْ لَتُبْدِى بِهِ لَوْلا أَن رَّبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا
And the heart of the mother of Musa became empty. She was very near to disclose his (case) had We not strengthened her heart. (28:10)
So the river carried him to the home of Fir`awn.
فَالْتَقَطَهُ ءَالُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوّاً وَحَزَناً
Then the people of Fir`awn picked him up, that he might become for them an enemy and a (cause of) grief. (28:8)
Means that this was a destined matter, decreed by Allah.
They were killing the male children of the Israelites for fear of Musa's arrival. Therefore, with Allah having the great authority and the most perfect power, He determined that Musa would not be raised except upon Fir`awn's own bed. He would be sustained by Fir`awn's food and drink, while receiving the love of Fir`awn and his wife.
This is why Allah said,
...
يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّي وَعَدُوٌّ لَّهُ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي
...
and there, an enemy of Mine and an enemy of his shall take him. And I endued you with love from Me,
This means that I made your enemy love you.
Salamah bin Kuhayl said,
وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِّنِّي
(And I endued you with love from Me),
"This means, `I made My creatures love you."'
...
وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي
in order that you may be brought up under My Eye.
Abu `Imran Al-Jawni said,
"This means, `You will be raised under Allah's Eye."'
اس بات نے بنی اسرائیل کے کئی فرقے کر دیئے ۔ ایک فرقے نے تو کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آنے تک ہم اس کی بابت کوئی بات طے نہیں کر سکتے ممکن ہے یہی اللہ ہو تو ہم اس کی بے ادبی کیوں کریں؟ اور اگر یہ رب نہیں ہے تو موسیٰ علیہ السلام کے آتے ہی حقیقت کھل جائے گی ۔ دوسری جماعت نے کہا محض واہیات ہے یہ شیطانی حرکت ہے ہم اس لغویت پر مطلقاً ایمان نہیں رکھتے نہ یہ ہمارا رب نہ ہمارا اس پر ایمان ۔ ایک پاجی فرقے نے دل سے اسے مان لیا اور سامری کی بات پر ایمان لائے مگر بہ ظاہر اس کی بات کو جھٹلایا ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے اسی وقت سب کو جمع کر کے فرمایا کہ لوگو یہ اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے تم اس جھگڑے میں کہاں پھنس گئے تمہارا رب تو رحمان ہے تم میری اتباع کرو اور میرا کہنا مانو ۔ انہوں نے کہا آخر اس کی کیا وجہ کہ تیس دن کا وعدہ کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام گئے ہیں اور آج چالیس دن ہونے کو آئے لیکن اب تک لوٹے نہیں ۔ بعض بیوقوفوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ان سے ان کا رب خطا کر گیا اب یہ اس کی تلاش میں ہوں گے ۔ ادھر دس روزے اور پورے ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا آپ کو بتایا گیا کہ آپ کے بعد آپ کی قوم کا اس وقت کیا حال ہے آپ اسی وقت رنج و افسوس اور غم و غصے کے ساتھ واپس لوٹے اور یہاں آ کر قوم سے بہت کچھ کہا سنا اپنے بھائی کے سر کے بال پکڑ کر گھسیٹنے لگے غصے کی زیادتی کی وجہ سے تختیاں بھی ہاتھ سے پھینک دیں پھر اصل حقیقت معلوم ہو جانے پر آپ نے اپنے بھائی سے معذرت کی ان کے لئے استغفار کیا اور سامری کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے کے پاؤں تلے سے میں نے ایک مٹھی اٹھالی یہ لوگ اسے نہ پہچان سکے اور میں نے جان لیا تھا ۔ میں نے وہی مٹھی اس آگ میں ڈال دی تھی میرے رائے میں یہی بات آئی ۔ آپ نے فرمایا جا اس کی سزا دنیا میں تو یہ ہے کہ تو یہی کہتا رہے کہ ہاتھ لگانا نہیں پھر ایک وعدے کا وقت ہے جس کا ٹلنا ناممکن ہے اور تیرے دیکھتے دیکھتے ہم تیرے اس معبود کو جلا کر اس کی خاک بھی دریا میں بہا دیں گے ۔ چنانچہ آپ نے یہی کیا اس وقت بنی اسرائیل کو یقین آ گیا کہ واقعی وہ اللہ نہ تھا ۔ اب وہ بڑے نادم ہوئے اور سوائے ان مسلمانوں کے جو حضرت ہارون علیہ السلام کے ہم عقیدہ رہے تھے باقی کے لوگوں نے عذر معذرت کی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لئے توبہ کا دروازہ کھول دے جو وہ فرمائے گا ہم بجا لائیں گے تاکہ ہماری یہ زبردست خطا معاف ہو جائے آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ میں سے ستر لوگوں کو چھانٹ کر علیحدہ کیا اور توبہ کے لئے چلے وہاں زمین پھٹ گئی اور آپ کے سب ساتھی اس میں اتار دیئے گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فکر لاحق ہوا کہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟ گریہ وزاری شروع کی اور دعا کی کہ اے اللہ اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی مجھے اور ان سب کو ہلاک کر دیتا ہمارے بیوقوفوں کے گناہ کے بدلے تو ہمیں ہلاک نہ کر ۔ آپ تو ان کے ظاہر کو دیکھ رہے تھے اور اللہ کی نظریں ان کے باطن پر تھیں ان میں ایسے بھی تھے جو بہ ظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے لیکن دراصل ولی عقیدہ ان کا اس بچھڑے کے رب ہونے پر تھا ان ہی منافقین کی وجہ سے سب کو تہ زمین کر دیا گیا تھا ۔ نبی اللہ کی اس آہ و زاری پر رحمت الٰہی جوش میں آئی اور جواب ملا کہ یوں تو میری رحمت سب پر چھائے ہوئے ہے لیکن میں اسے ان کے نام ہبہ کروں گا جو متقی پرہیزگار ہوں ، زکوٰۃ کے ادا کرنے والے ہوں ، میری باتوں پر ایمان لائیں اور میرے اس رسول و نبی کی اتباع کریں جس کے اوصاف وہ اپنی کتابوں میں لکھے پاتے ہیں یعنی توراۃ انجیل میں ۔ حضرت کلیم اللہ علیہ صلوات اللہ نے عرض کی کہ بار الہی میں نے اپنی قوم کے لئے توبہ طلب کی ، تو نے جواب دیا کہ تو اپنی رحمت کو ان کے ساتھ کر دے گا جو آگے آنے والے ہیں پھر اللہ مجھے بھی تو اپنی اسی رحمت والے نبی کی امت میں پیدا کرتا ۔ رب العالمین نے فرمایا سنو ان کی توبہ اس وقت قبول ہو گی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں نہ باپ بیٹے کو دیکھے نہ بیٹا باپ کو چھوڑے آپس میں گتھ جائیں اور ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں ۔ چنانچہ بنو اسرائیل نے یہی کیا اور جو منافق لوگ تھے انہوں نے بھی سچے دل سے توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی جو بچ گئے تھے وہ بھی بخشے گئے جو قتل ہوئے وہ بھی بخش دیئے گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اب یہاں سے بیت المقدس کی طرف چلے ۔ توراۃ کی تختیاں اپنے ساتھ لیں اور انہیں احکام الٰہی سنائے جو ان پر بہت بھاری پڑے اور انہوں نے صاف انکار کر دیا ۔ چنانچہ ایک پہاڑ ان کے سروں پر معلق کھڑا کر دیا گیا وہ مثل سائبان کے سروں پر تھا اور ہر دم ڈر تھا کہ اب گرا انہوں نے اب اقرار کیا اور تورات قبول کرلی پہاڑ ہٹ گیا ۔ اس پاک زمین پر پہنچے جہاں کلیم اللہ انہیں لے جانا چاہتے تھے دیکھا کہ وہاں ایک بڑی طاقتور زبردست قوم کا قبضہ ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے نہایت نامردی سے کہا کہ یہاں تو بڑی زور آور قوم ہے ہم میں ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں یہ نکل جائیں تو ہم شہر میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یہ تو یونہی نامردی اور بزدلی ظاہر کرتے رہے ادھر اللہ تعالیٰ نے ان سرکشوں میں سے دو شخصوں کو ہدایات دے دی وہ شہر سے نکل کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں آ ملے اور انہیں سمجھانے لگے کہ تم ان کے جسموں اور تعداد سے مرعوب نہ ہو جاؤ یہ لوگ بہادر نہیں ان کے دل گردے کمزور ہیں تم آگے تو بڑھو ان کے شہر کے دروازے میں گئے اور ان کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہوئے یقیناً تم ان پر غالب آ جاؤ گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ دونوں شخص جنہوں نے بنی اسرائیل کو سمجھایا اور انہیں دلیر بنایا خود بنی اسرایئل میں سے ہی تھے واللہ اعلم ۔ لیکن ان کے سمجھانے بجھانے اللہ کے حکم ہو جانے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعدے نے بھی ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ انہوں نے صاف کورا جواب دے دیا کہ جب تک یہ لوگ شہر میں ہیں ہم تو یہاں سے اٹھنے کے بھی نہیں موسیٰ علیہ السلام تو آپ اپنے رب کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا اور ان سے لڑ بھڑ لے ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہو سکا آپ کے منہ سے ان بزدلوں اور ناقدروں کے حق میں بد دعا نکل گئی اور آپ نے ان کا نام فاسق رکھ دیا ۔ اللہ کی طرف سے بھی ان کا یہی نام مقرر ہو گیا اور انہیں اسی میدان میں قدرتی طور پر قید کر دیا گیا چالیس سال انہیں یہیں گزر گئے کہیں قرار نہ تھا اسی بیاباں میں پریشانی کے ساتھ بھٹکتے پھرتے تھے اسی میدان قید میں ان پر ابر کا سایہ کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا کپڑے نہ پھٹتے تھے نہ میلے ہوتے تھے ایک چوکونہ پتھر رکھا ہوا تھا جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے لکڑی ماری تو اس میں سے بارہ نہریں جاری ہوگئیں ہر طرف سے تین تین لوگ چلتے چلتے آگے بڑھ جاتے تھک کر قیام کر دیتے ، صبح اٹھتے تو دیکھتے کہ وہ پتھر وہیں ہے جہاں کل تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ روایت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی تو فرمایا کہ اس فرعونی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اگلے دن کے قتل کی خبر رسانی کی تھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ کیونکہ قبطی کے قتل کے وقت سوائے اس بنی اسرایئل ایک شخص کے جو قبطی سے لڑ رہا رہا تھا وہاں کوئی اور نہ تھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بگڑے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ تھام کر حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے گئے اور ان سے کہا آپ کو یاد ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے اس شخص کا حال بیان فرمایا تھا جس نے حضرت موسیٰ کے قتل کے راز کو کھولا تھا بتاؤ وہ بنی اسرائیل شخص تھا یا فرعونی؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بنی اسرائیل سے اس فرعونی نے سنا پھر اس نے جا کر حکومت سے کہا اور خود اس کا شاہد بنا ( سنن کبری نسائی ) یہی روایت اور کتابوں میں بھی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اپنے کلام سے بہت تھوڑا سا حصہ مرفوع بیان کیا گیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ آپ نے بنو اسرائیل میں سے کسی سے یہ روایت لی ہو کیونکہ ان سے روایتیں لینا مباح ہیں ۔ یا تو آپ نے حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی یہ روایت سنی ہو گی اور ممکن ہے کسی اور سے سنی ہو ۔ واللہ اعلم ۔ میں نے اپنے استاد شیخ حافظ ابو الحجاج مزی رحمتہ اللہ علیہ سے بھی یہی سنا ہے ۔