Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 91

سورة الأنبياء

وَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰہَا وَ ابۡنَہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۱﴾

And [mention] the one who guarded her chastity, so We blew into her [garment] through Our angel [Gabriel], and We made her and her son a sign for the worlds.

اور وہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور خود انہیں اور ان کے لڑکے کو تمام جہان کے لئے نشانی بنا دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

`Isa and Maryam the True Believer Allah tells: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا ايَةً لِّلْعَالَمِينَ And she who guarded her chastity, We breathed into her through Our Ruh, and We made her and her son a sign for nations. Here Allah mentions the story of Maryam and her son `Isa, just after mentioning Zakariyya and his son Yahya, may peace be upon them all. He mentions the story of Zakariyya first, followed by the story of Maryam because the one is connected to the other. The former is the story of a child being born to an old man of advanced years, from an old woman who had been barren and had never given birth when she was younger. Then Allah mentions the story of Maryam which is even more wondrous, for in this case a child was born from a female without (the involvement of) a male. These stories also appear in Surah Al `Imran and in Surah Maryam. Here Allah mentions the story of Zakariyya and follows it with the story of Maryam, where He says: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا ... And she who guarded her chastity, means, Maryam (peace be upon her). This is like the Ayah in Surah At-Tahrim: وَمَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ الَّتِى أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا And Maryam, the daughter of `Imran who guarded her chastity. And We breathed into it (her garment) through Our Ruh. (66:12) ... وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا ايَةً لِّلْعَالَمِينَ and We made her and her son a sign for the nations. means, evidence that Allah is able to do all things and that He creates whatever He wills; verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, "Be" -- and it is! This is like the Ayah: وَلِنَجْعَلَهُ ءَايَةً لِّلْنَّاسِ And (We wish) to appoint him as a sign to mankind. (19:21)

بلا شوہر اولاد حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے ۔ قرآن میں کریم میں عموما حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کے قصے کے ساتھ ہی ان کا قصہ بیان ہوتا رہا ہے ۔ اس لئے کہ ان لوگوں میں پورا رابط ہے ۔ حضرت زکریا علیہ السلام پورے بڑھاپے کے عالم میں آپ کی بیوی صاحبہ جوانی سے گزری ہوئی اور پوری عمر کی بے اولاد ان کے ہاں اولاد عطا فرمائی ۔ اس قدرت کو دکھا کر پھر محض عورت بغیر شوہر کے اولاد کا عطافرمانا یہ اور قدرت کا کمال ظاہر کرتا ہے ۔ سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم میں بھی یہی ترتیب ہے مراد عصمت والی عورت سے حضرت مریم ہیں جیسے فرمان ہے ۔ آیت ( وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهٖ وَكَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ 12۝ۧ ) 66- التحريم:12 ) یعنی عمران کی لڑکی مریم جو پاک دامن تھیں انہیں اور ان کے لڑکے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی بےنظیر قدرت کانشان بنایا کہ مخلوق کو اللہ کی ہر طرح کی قدرت اور اس کے پیدائش وسیع اختیارات اور صرف اپنا ارادے سے چیزوں کا بنانا معلوم ہوجائے ۔ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی قدرت کی ایک علامت تھے جنات کے لئے بھی اور انسانوں کے لئے بھی

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91۔ 1 یہ حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨١] جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم کا پتلا بنا کر اسے سنوار لیا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا جس سے انسان میں قوت ارادہ اختیار اور قوت تمیز و استنباط ودعیت کی گئی۔ پھر توالد و تناسل کے ذریعہ یہی اوصاف تمام اولاد آدم میں منتقل ہوئے اور یہ اوصاف ایسے ہیں جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائے جاتے۔ بعد ازاں اللہ نے اپنی روح کو حضرت مریم کے ہاں بھیجا۔ یہی روح حضرت مریم کے سامنے متمثل ہو کر ایک تندرست انسان کی شکل بن گئی۔ اسی روح نے اپنے آپ کو حضرت مریم کے سامنے && تیرے پروردگار کا رسول && کہا اور اسی روح نے (جو مفسرین کے قول کے مطابق جبریل) حضرت مریم سے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ && تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں && چناچہ اس روح نے حضرت مریم کے گریبان میں پھونک ماری جس سے حضرت مریم کو حمل قرار پا گیا۔ ( سورة مریم) اسی واقعہ کو اللہ تعالیٰ اس مقام پر بھی اور سورة تحریم کی آیت نمبر ١٢ میں ان الفاظ سے عبیر فرمایا کہ && ہم نے مریم میں اپنی روح سے پھونکا && اسی لئے آپ کو روح اللہ و کلمہ~ن~ اللہ کہا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی ہر مقام پر یہ وضاحت فرما دی کہ حضرت مریم نے فی الواقعہ اپنی عصمت کی پوری پوری حفاظت کی تھی۔ ایسی وضاحتوں کے باوجود یہود نے حضرت مریم پر تہمت زنا لگا دی اور اس کو حضرت زکریا سے منسوب کردیا۔ صرف اس لیے کہ آپ حضرت مریم کے کفیل تھے۔ یہ تو یہود کی کارستانی تھی اور نصاریٰ دوسری انتہا کر جا پہنچے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اللہ یا اللہ کا بیٹا یا تین خداؤں میں کا تیسرا قرار دے دیا۔ گویا آپ کی اس معجزانہ پیدائش یہود و نصاریٰ غلو کا شکار ہو کر گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ [٨٢] بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی کچھ لوگ ایسے پیدا ہوچکے ہیں جو حضرت عیسیٰ کی بن باپ پیدائش کے قائل نہیں۔ اور یہ وہی طبقہ جو جدید زمانے کی عقل پرستی سے ذہنی طور پر ہر وقت مرعوب رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورة مریم میں فرمایا && تاکہ ہم اس (عیسیٰ کی پیدائش) کو لوگوں کے لئے ایک نشانی بنادیں && (١٩: ٢١) اور اس مقام پر فرمایا کہ && ہم نے حضرت مریم اور اس کے بیٹے دونوں کو جہاں والوں کے لئے نشانی بنادیا && نیز سورة مومنون کی آیت نمبر ٥٠ میں فرمایا : && اور ہم نے ابن مریم (حضرت عیسیٰ ) کو اور ان کی ماں کو نشانی بنادیا && اب ان حضرات سے سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش معمول کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے ملاپ سے ہوئی تھی تو حضرت مریم اور عیسیٰ ابن مریم دونوں کی لوگوں کے لئے یا جہان والوں کے لئے ایک نشانی کیسے بن سکتے تھے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا : یعنی اس خاتون کا بھی ذکر کر جس پر ناپاک لوگ (یہودی) تہمتیں لگاتے ہیں، حالانکہ اس نے اپنی شرم گاہ کو حرام سے محفوظ رکھا، بلکہ عبادت میں ایسی مشغول رہی کہ حلال سے بھی محفوظ رکھا، جیسا کہ فرمایا : (وَّلَمْ يَمْسَسْنِىْ بَشَرٌ) [ آل عمران : ٤٧ ] ” حالانکہ کسی بشر نے مجھے ہاتھ نہیں لگایا۔ “ اللہ تعالیٰ نے اس کی نیک شہرت کے اظہار کے لیے اس کا نام نہیں لیا، کیونکہ سب جانتے ہیں اس سے مراد مریم بنت عمران [ ہیں۔ فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا : مراد عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور اس کے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے پھونکی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو عزت و شرف بخشنے کے لیے اسے اپنی روح قرار دیا اور جبریل (علیہ السلام) کے پھونکنے کو اپنا پھونکنا قرار دیا، جیسے ” بیت اللہ “ اور ” ناقۃ اللہ “ میں کعبہ کو اپنا گھر اور صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو اپنی اونٹنی قرار دیا۔ شیخ ثناء اللہ امر تسری (رض) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : ” عیسائی لوگ اس آیت اور اس قسم کی اور آیات سے عموماً دلیل لایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (معاذ اللہ) خدا تھا، کیونکہ اس کو ” روح اللہ “ کہا گیا ہے، مگر وہ قرآن شریف کے محاورے کو غور سے نہیں دیکھتے کہ اس قسم کی اضافات سے مطلب کیا ہوتا ہے ؟ سورة سجدہ میں عام انسانوں کے لیے بھی یہی اضافت روح کی اللہ کی طرف آئی ہے، چناچہ ارشاد ہے : ( وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ ۝ۚثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّهِيْنٍ ۝ۚثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ) [ السجدۃ : ٧ تا ٩ ] ”(یعنی اللہ نے) انسان کی پیدائش تھوڑی سی مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصے سے بنائی، پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی۔ “ اس جگہ عام انسانی پیدائش کی ابتدا اور سلسلے کا ذکر ہے۔ پس اگر آیت زیر تفسیر سے مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت (خدا ہونا) ثابت ہوتی ہو تو اس قسم کی آیات سے تمام انسانوں کی الوہیت ثابت ہوگی، پھر اگر مسیح بھی ایسے ہی خدا اور الٰہ تھے جیسے کہ سب انسان ہیں تو خیر اس کے ماننے میں کسی کو کلام نہیں۔ پس آیت موصوفہ کے معنی وہی ہیں جو ہم نے لکھے ہیں (کہ وہ روح مخلوق تھی) (فَافْھَمْ ) ۔ “ وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰيَةً لِّـلْعٰلَمِيْنَ : مریم اور مسیح (علیہ السلام) کا جہانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی ہونا سورة آل عمران (٣٦ تا ٦٣) ، نساء (١٥٦ تا ١٥٩، ١٧١) اور مائدہ (٤٦، ١١٠ تا ١٢٠) میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary This verse directs the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to tell his people the story of the pious lady who controlled her passions and then through Jibra&il (علیہ السلام) Allah had breathed His Spirit into her and she gave birth to a son (Sayyidna ` Isa علیہ السلام) who was a symbol of Allah&s Divine Power that He can cause babies to be born without a father, and also without both the parents as in the case of Sayyidna &Adam (علیہ السلام)

خلاصہ تفسیر اور ان بی بی (مریم کے قصہ) کا بھی تذکرہ کیجئے جنہوں نے اپنے ناموس کو (مردوں سے) بچایا (نکاح سے بھی اور ناجائز سے بھی) پھر ہم نے ان میں (بواسطہ جبرئیل علیہ السلام) اپنی روح پھونک دی (جس سے ان کو بےشوہر کے حمل رہ گیا) اور ہم نے ان کو اور ان کے فرزند (عیسیٰ علیہ السلام) کو دنیا جہان والوں کے لئے (اپنی قدرت کاملہ کی) نشانی بنادیا (کہ ان کو دیکھ سن کر سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ بغیر باپ کے بھی اولاد پیدا کرسکتا ہے اور بغیر ماں اور باپ کے بھی جیسا کہ آدم (علیہ السلام)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِيْہَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰہَا وَابْنَہَآ اٰيَۃً لِّـلْعٰلَمِيْنَ۝ ٩١ حصن وتَحَصَّنَ : إذا اتخذ الحصن مسکنا، ثم يتجوّز به في كلّ تحرّز، وقوله تعالی: إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] ، أي : تحرزون في المواضع الحصینة الجارية مجری الحصن ( ح ص ن ) الحصن تحصن کے اصل معنی نہ تو قلعہ کو مسکن بنا لینا کے ہیں مگر مجا زا ہر قسم کا بجاؤ حاصل کرنے پر لفظ بولا جاتا ہے ۔ اسی سے درع حصینۃ ( زرہ محکم ) اور فرس حصان ( اسپ نرو نجیب کا محاورہ ہے ۔ کیونکہ زرہ بدن کے لئے اور گھوڑا اپنے سوار کے لئے ایک طرح سے بمنزلہ قلعہ کسے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ [يوسف/ 48] صرف وہی تھوڑا سا رہ جائیگا جو تم احتیاط سے رکھ چھوڑو گے ۔ میں تحصنون سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ قلعے جیسی محفوظ جگہوں میں حفا ظت سے رکھ چھوڑو ۔ فرج الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان «1» ، وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه «2» ، وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ : القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله . ( ف ر ج ) & الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔ نفخ النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ( ن ف خ ) النفخ کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه/ 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف/ 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر/ 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر/ 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر/ 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔ روح الرَّوْحُ والرُّوحُ في الأصل واحد، وجعل الرّوح اسما للنّفس، وذلک لکون النّفس بعض الرّوح کتسمية النوع باسم الجنس، نحو تسمية الإنسان بالحیوان، وجعل اسما للجزء الذي به تحصل الحیاة والتّحرّك، واستجلاب المنافع واستدفاع المضارّ ، وهو المذکور في قوله : وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] ، وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وإضافته إلى نفسه إضافة ملك، وتخصیصه بالإضافة تشریفا له وتعظیما، کقوله : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] ، ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] ( رو ح ) الروح والروح دراصل ایک ہی ہیں ( روح کا اطلاق سانس پر ہوتا ہے اور سانس بھی چونکہ روح کا ایک جزء ہے اس لئے مجازا اسے روح کہہ دیا ہے جیسا کہ نوع کو اسم جنس سے تعبیر کرلیتے ہیں مثلا تسمیۃ الانسان بالحیوان اور کبھی روح کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس کے ذریعہ زندگی حرکت منافع کا حصوال ومضرات سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي[ الإسراء/ 85] اور تجھ سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ یہ میرے پروردگار کا ایک حکم ہے وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] اور میں نے اس میں اپنی ( طرف سے ) روح پھونک دی ۔ میں روح کے یہی معنی مراد ہیں اور اللہ تعالٰیے کا اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کرنا اضافت ملک کے طور پر ہے جس سے اس کی شرافت کا اظہار مقصود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ : وَطَهِّرْ بَيْتِيَ [ الحج/ 26] میں بیت کیا اضافت اپنی ذات کی طرف کی ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ويا عِبادِيَ [ الزمر/ 53] اے میرے بند و جنہوں نے اپنے اوپر زیادتی کی ۔ میں عباد کی نسبت بھی یا متکلم ( ذات باری تعالیٰ ) کی طرف اضافت تشریفی ہے ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩١) اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا بھی ذکر کیجیے، جنہوں نے اپنی عزت کو بچایا پھر ان کے گریبان میں ہمارے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے ہماری روح پھونک دی اور ہم نے ان کو اور ان کے فرزند کو دنیا جہاں والوں کے لیے خاص کر بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنا دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩١ (وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا ) ” یعنی پوری طرح سے پاک دامن رہیں۔ (فَنَفَخْنَا فِیْہَا مِنْ رُّوْحِنَا ) ” یعنی حرف ” کُن “ بیٹے کی پیدائش کا ذریعہ بن گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

88. That is, Mary (peace be upon her). 89. It should be noted that the incident of the birth of Prophet Jesus (peace be upon him) was not different from that of Prophet Adam, because the wording of the Arabic text in the two cases is almost identical: See (Surah Suad, Ayats 71-72). Besides this in (verse 91), almost similar words have beets used in regard to the birth of Jesus (peace be upon him). See also (Surah An-Nisa, Ayat l71) and( Surah At-Tahrim, Ayat 12). Allah Himself has stated that the birth of Prophet Jesus (peace be upon him) was just like the birth of Prophet Adam: In the sight of Allah, the case of the birth of Jesus is like that of Adam, whom He created out of dust and said, Be, and he was. (Surah Aal-Imran, Ayat 59). In the light of these verses, we may conclude that Allah uses words like: We breathed into him or her of Our spirit for miraculous births. (For details please see (Surah An-Nisa E.Ns 212-213). 90. That is, The mother and the son were not partners of God nor had any share whatsoever in Godhead, but were a sign from among the signs of God. (See (Surah Maryam, E.N. 21).

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :88 مراد ہیں حضرت مریم علیہا السلام ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :89 حضرت آدمی علیہ السلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا ہے کہ : اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِیْنٍ ہ فَاِذَا سَوَّیْتْہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ سَاجِدِیْنَ ( ص ۔ آیات 71 ۔ 72 ) میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں ، پس ( اے فرشتو ) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا ۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے ۔ سورہ نساء میں فرمایا : رَسُوْلُ اللہِ وَ کَلِمَتُہ اَلْقٰھَا اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحً مِّنْہُ ، ( آیت 171 ) اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا اور اس کی طرف سے ایک روح ۔ اور سورہ تحریم میں ارشاد ہوا : وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا ( آیت 12 ) اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اس میں اپنی روح سے ۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے ، چنانچہ سور آل عمران میں فرمایا : اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ، خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کَنْ فَیَکُوْنُ ( آیت 59 ) ۔ عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے ۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقہ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ کسی کو براہ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو اپنی روح سے پھونکنے کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے ۔ اس روح کی نسبت اللہ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی شان رکھتا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، حواشی 212 ۔ 213 ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :90 یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدا یا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے ۔ نشانی وہ کس معنی میں تھے ، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ مریم ، حاشیہ 21 ۔ اور سورہ المومنون ، حاشیہ 43 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

43: مراد حضرت مریم (علیہ السلام) ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کرکے انہیں اپنی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی بنادیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩١۔ مریم (علیہا السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ سورة آل عمران اور سورة مریم میں گزر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حمل سے پہلے مریم (علیہا السلام) کو جو دو حیض آئے تھے ان میں آخری حیض سے فارغ ہو کر جب وہ سب سے الگ نہانے کو گئیں اور پردہ ڈال کر نہانے کا ارادہ کیا تو ایک خوبصورت مرد کی شکل میں جبرئیل (علیہ السلام) ان کو نظر آئے۔ مریم (علیہا السلام) نے مرد کی شکل دیکھ کر یہ کہا کہ اے شخص اگر تو پرہیز گار آدمی ہے تو میں تیرے بد ارادہ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے مریم (علیہا السلام) کی اس بات کا یہ جواب دیا کہ اے مریم میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو ایک بڑی شان کے لڑکے کے پیدا ہونے کی خوشخبری دینے آیا ہوں ‘ مریم (علیہا السلام) نے اس خوشخبری کا حال سن کر بڑی حیرت سے کہا میرے لڑکا کیونکر پیدا ہوگا مجھ کو تو آج تک کسی مرد نے ہاتھ تک بھی نہیں لگایا ‘ جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا یہ تو سچ ہے کہ آج تک کسی مرد نے تم کو ہاتھ تک نہیں لگایا لیکن اللہ کا حکم یہی ہے کہ بغیر باپ کا ایک لڑکا تمہارے یہاں پیدا ہو کر اللہ کی قدرت کی ایک نشانی دنیا میں لوگوں کو نظر آوے ‘ یہ کہہ کر اللہ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح مریم (علیہا السلام) کے جسم میں پھونک دی ‘ جس سے مریم (علیہا السلام) کو حمل رہ گیا اور وقت مقررہ پر عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ سورة مریم میں اس قصہ کی تفصیل زیادہ ہے اس لیے سورة مریم کی آیتیں گویا اس آیت کی تفسیر ہیں جس کا حاصل وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ‘ صحیح بخاری ومسلم میں ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مریم (علیہا السلام) کو اس زمانہ کی عورتوں میں کامل فرمایا ہے ‘ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مریم (علیہا السلام) کے زمانہ میں کوئی عورت مریم (علیہا السلام) کے مرتبہ کی نہیں تھی۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:91) والتی۔ ای واذکر التی۔ اور یا دکر اس (خاتون) کو جس نے ۔۔ احصنت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ احصان (افعال) مصدر، اس عورت نے حفاظت کی (یعنی اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کی) نیز ملاحظہ ہو (21:80) ۔ فرجھا۔ مضاف (بحالت نصب) ھا ضمیر واحد مؤنث غائب مضاف الیہ۔ اپنی شرمگاہ الفرجۃ والفرج کے معنی دو چیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی۔ کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولاجاتا ہے خواہ مرد کی ہو یا عورت کی۔ قرآن مجید میں آیا ہے لفروجہم حفظون۔ (23:5) وہ (مرد) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور ویحفظن فروجھن (24:31) اور وہ (عورتیں) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ فرج یفرج (باب ضرب) فرج۔ دروازہ یا منہ کھولنا۔ کشادہ کرنا۔ (ٹانگیں) چوڑی کرنا۔ دو چیزوں کے درمیان فاصلہ کرنا۔ فرج کی جمع فروج جیسا کہ ارشاد ہے وما لھا من فروج (50:6) اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں۔ اور پھٹنے کے معنی میں بھی قرآن مجید میں آیا ہے واذا السماء فرجت (77:9) اور جب آسمان پھٹ جائے گا۔ والتی احصنت فرجھا۔ اور (یاد کر) اس (خاتون) کو جس نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا۔ مراد یہاں حضرت مریم (علیہا السلام) بنت عمران ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ محترمہ تھیں۔ فنفخنا۔ ف زائدہ ہے۔ نفخ ینفخ (باب نصر) سے ماضی کا صیغہ جمع متکلم ہے ہم نے پھونک دی۔ ہم نے پھونکا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 ۔ یعنی نکاح سے بھی اور ناجائز صورتوں سے بھی۔ یہاں احصان (عصمت قائم رکھنے) کا لفظ عام معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ قرآن نے متعدد مقامات پر تصریح کی ہے کہ حضرت مریم ( علیہ السلام) نے نہ نکاح کیا اور نہ وہ حرام کاری کی مرتکب ہوئیں۔ (مریم : 02) 6 ۔ مراد ہے حضرت عسیٰ ( علیہ السلام) کی۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل ( علیہ السلام) نے پھونکی تھی لیکن تعظیم و تشریف کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے پھونکنے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مزید دیکھئے (نساء : 171) 7 ۔ قدرت الہٰی کی پیدائش بن باپ کے ہوئی تھی۔ اگر حضرت مریم شادی شدہ ہوتیں اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش باپ ہوئی ہوتی تو ان کی کیا خصوصیت ہوتی جس کا ذکر سار جہان کیلئے بطور نشانی کیا جاتا۔ پھر دونوں کو ” ایۃ “ (ایک نشانی) کہنا باعتبار قصہ کے ہے یعنی ہم نے ان دونون کے قصے کو ایۃ بنادیا۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم [ کے خالو ہیں۔ اس لیے ان کا ذکر حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بعد کیا گیا ہے۔ یہودی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے ناصرف حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی بلکہ اس کے ساتھ ہی حضرت مریم (علیہ السلام) کی پاک دامنی، شرم و حیا اور ان کے عبادت گزار ہونے کی شہادت دی۔ قرآن مجید نے اس قدر ٹھوس دلائل اور مؤثر انداز میں حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کو بیان کیا ہے کہ اس کے بعد یہودیوں کا پراپیگنڈہ بےاثر ہو کر رہ گیا۔ یہ قرآن مجید کا عیسائیوں پر عظیم احسان ہے جس کا انھیں اعتراف کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ عیسائی نا صرف اس احسان کو فراموش کرچکے ہیں۔ بلکہ وہ یہودیوں کی دیکھا دیکھی اور مسلمانوں سے تعصب کی بناء پر وہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایسی زبان بولتے اور اس قسم کی تحریریں لکھتے ہیں جو سراسر جھوٹ کا پلندہ اور انتہا درجے کی زیادتی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مریم [ کی پاکدامنی کی گواہی دی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ اور ان کی حیات مبارکہ کی ایک جھلک : حضرت مریم [ کا قرآن مجید میں ١٣ مرتبہ تذکرہ ہوا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ٢٥ مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ ١۔ ” اللہ “ نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات سے نوازا اور روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرمائی۔ (البقرۃ : ٨٧) ٢۔ اے مریم ہم تجھے بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام مسیح ابن مریم ہوگا۔ (آل عمران : ٤٥) ٣۔ حضرت عیسیٰ کی تخلیق حضرت آدم (علیہ السلام) جیسی ہے۔ (آل عمران : ٥٩) ٤۔ مسیح ابن مریم اللہ کے رسول تھے۔ (النساء : ١٧١) ٥۔ زکریا، یحییٰ ، عیسیٰ اور الیاس تمام کے تمام نیکو کار نبی تھے۔ (الانعام : ٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والتی …للعلمین (٩١) یہاں مریم کے نام کو بھی حذف کردیا گیا ہے کیونکہ انبیاء کے تذکرے کے سلسلے میں ان کے بیٹے کا ذکر اصل مقصود تھا۔ آپ کا تذکرہ ان کے حالات کے ذیل میں آگیا اور آپ کی صرف اس صفت کو یہاں دہرایا گیا جس کا تعلق آپ کے بیٹے کے ساتھ ہے۔ والتی احصنت فرجھا (٢١ : ٩١) ” جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی۔ “ یعنی اس نے اسے کسی قسم کی مباشرت سے بچایا۔ احصان اپنے قانونی استعمال میں نکاح کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ شادی شدہ ہونا دراصل فحاشی سے بچنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کی بہترین صورت ہے۔ یہاں یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو ہر قسم کی مباشرت سے بچانا خواہ قانونی یا غیر قانونی ہو۔ یہ اس لئے کہ یہودیوں نے حضرت مریم پر بدکاری کا الزام لگایا اور انہیں یوسف نجار کے ساتھ مہتمم کیا تھا جو ہیکل کا ایک خدمتگار تھا۔ متد اولہ انجیلس اس بارے میں یہ کہتی ہیں کہ یوسف نجار نے مریم کے ساتھ نکاح کرلیا تھا لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی تھی اور وہ ان کے قریب نہ گیا تھا۔ جب اس نے پاکدامنی اور عفت اختیار کی فنفخنا فیھما من روحنا (٢١ : ٩١) ” ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ “ نفخ روح یہاں بھی عام ہے ، اس کا تعلق نہیں ہے۔ جس طرح سورة تحریم میں آ رہا ہے۔ سورة مریم میں ہم اس کی تفصیلات دے چکے ہیں۔ فی ضلال القرآن میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم آیات الٰہی تک اپنی بات کو محدود رکھتے ہیں۔ اس لئے یہاں بھی ہم تفصیلات میں نہیں جاتے ۔ آیات کے ساتھ ساتھ ہی ہم آخر تک جاتے ہیں۔ وجعلنھا وابنھا ایۃ للعلمین (٢١ : ٩١) ” اور اسے اور اس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لئے نشانی بنا دیا۔ “ یہ ایک ایسا معجزہ اور ایسی نشانی تھی کہ نہ اس سے پہلے ایسا واقعہ ہوانہ بعد میں ہوگا۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ واحد مثال ہے۔ یہ واقعہ اپنی مثال آپ ، اس لئے بنا دیا گیا کہ پوری انسانیت کے غور و فکر کے لئے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے۔ دست قدرت اپنے بنائے ہوئے قوانین قدرت کے مطابق کام کرتا ہے مگر اللہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کا خود پابند نہیں ہے۔ رسولوں کے اس سلسلے کے بیان کے آخر میں ، جس میں رسولوں کی مثالیں ، ان کی آزمائشوں کی مثالیں ، ان پر اللہ کی رحمتوں کی مثالیں دی گئیں ، اب قرآن مجید ایک جامع بات بطور خلاصہ کلام بیان کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

63:۔ ” وَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ الخ “ یہ دسویں تفصیلی نقلی دلیل ہے حضرت مریم صدیقہ اور حضرت مسیح (علیہما السلام) سے۔ ” اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا “ یعنی اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور دامن عصمت کی حفاظت کی ” وَ اَحْصَنَتْ “ یعنی عفت فامتنعت من الفاحشة (قرطبی ج 11 ص 338) ۔ یا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو نکاح سے باز رکھا اور کسی شادی نہ کی حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہما السلام) دونوں ماں بیٹا تمام بنی آدم کے لیے ہماری قدرت کاملہ اور مشیت نافذۃ کی واضح نشانی اور دلیل تھے مریم کا بغیر مس بشر بیٹا جننا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا مخلوق کے لیے ایک اعجوبہ اور ہماری قدرت کی علامت ہے۔ وافروا ایۃ لان حالھما لمجموعھما ایۃ واحدۃ وھی ولاد تھا ایاہ من غیر محل (بحر ج 6 ص 336) ۔ ای علامۃ واعجوبۃ للخلق وعلی نبوۃ عیسیٰ ودلالۃ علی نفوذ قدرتنا فیما نشا (قرطبی) ۔ تو معلوم ہوا کہ مریم و عیسیٰ کا قصہ تو ہماری قدرت کی دلیل ہے اس لیے وہ الوہیت اور صفات کارسازی کے لائق نہیں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(91) اور اس پاک دامن عورت کا بھی ذکر کیجئے جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے کو اقوام عالم کے لئے بہت بڑا نشان بنایا۔ یعنی حضرت مریم (علیہ السلام) جو ایک پاک دامن عورت تھیں ان کا بھی ذکر کیجئے انہوں نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی وساطت سے ان میں اپنی روح پھونک دی اور وہ بغیر کسی بشر کے حاملہ ہوگئیں اور ان کے ہاں حضرت عیسیٰ روح اللہ پیدا ہوئے اور ہم نے حضرت مریم اور ان کے صاحبزادے روح اللہ کو اقوام عالم کے لئے ایک زبردست اور بہت بڑانشان مقرر کیا تاکہ دنیا جہان والے یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔