Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 40

سورة الشعراء

لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنۡ کَانُوۡا ہُمُ الۡغٰلِبِیۡنَ ﴿۴۰﴾

That we might follow the magicians if they are the predominant?"

تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم ان ہی کی پیروی کریں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That we may follow the sorcerers if they are the winners. They did not say: `we will follow the truth, whether it rests with the sorcerers or with Musa;' the people were followers of the religion of their king.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] فرعون نے لوگوں کو اس اجتماع میں شمولیت کی عام دعوت اس امید پر دی تھی کہ چوٹی کے جادوگروں کی اتنی بڑی تعداد جمع ہوگی پھر اعیان سلطنت بھی وہاں موجود ہوں گے تو ان کے دبدبہ اور رعب سے بھی موسیٰ مرعوب ہو کر رہ جائے گا۔ اپنی اس توقع کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کہنے لگا کہ امید قومی یہی ہے کہ ہمارے جادوگر غالب آئیں گے۔ اس صورت میں ہمیں اپنے جادوگروں ہی کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ موسیٰ کی شکست اور مغلوبیت پوری طرح سب لوگوں پر کھل کر واضح ہوجائے۔ گویا وہ لوگوں کو تاثر یہ دینا چاہتا تھا کہ جب مقابلہ میں ہمارا پلہ بھاری رہے گا تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آجائے گا کہ ہمارا ہی دین درست ہے اور اس سے منحرف ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ اور اس فیصلہ میں ہماری خود غرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ بلکہ انصاف کا تقاضا ہی یہ ہے کہ جو غالب ہو اس کا ساتھ دیا جائے۔ اور بعضوں نے کہا السجد~ہ ١~ سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون لئے ہیں۔ یعنی فرعون نے بھرے دربار میں اعلان یہ کیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس مقابلہ میں حضرت موسیٰ اور ان کا بھائی کامیاب ہوجائیں۔ اس صورت میں ہم ان کی راہ پر چلیں گے۔ اس صورت میں بھی فرعون کی مراد یہی تھی کہ مقابلہ کے بعد ہم انصاف کی راہ اختیار کریں گے جس سے ہماری خود غرضی کو کچھ دخل نہ ہوگا۔ جو فریق بھی غالب آیا ہمیں اس کا ساتھ دینا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَعَلَّنَا نَتَّبِـــعُ السَّحَرَۃَ اِنْ كَانُوْا ہُمُ الْغٰلِبِيْنَ۝ ٤٠ لعل لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] ( لعل ) لعل ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء/ 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ (لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنْ کَانُوْا ہُمُ الْغٰلِبِیْنَ ) ” کہ موسیٰ (علیہ السلام) اگر اپنے جادو کے زور سے ہمیں مرعوب و مغلوب کرنا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں کیوں نہ ہم اپنی قوم کے جادوگروں کی سرداری قبول کر کے ان کی پیروی کریں اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بجائے ان کی پناہ میں آجائیں !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 This sentence confirms the idea that those who had witnessed the miracle of Moses in the royal court and those who had heard of it reliably outside were losing faith in their ancestral religion, and now the strength of their faith depended on this that their own magicians also should give a performance similar to that of Moses. That is why Pharaoh and his chiefs themselves regarded this contest as a decisive one, and their heralds were busy moving about in the land, impressing on the people that if the magicians won the day, they would yet be secured against the risk of being won over to Moses' religion, otherwise there was every possibility of their creed's being exposed and abandoned for ever.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :33 یہ فقرہ اس خیال کی تصدیق کرتا ہے کہ جن حاضرین دربار نے حضرت موسیٰ کا معجزہ دیکھا تھا اور باہر جن لوگوں تک اس کی معتبر خبریں پہنچی تھیں ان کے عقیدے اپنے دین آبائی پر سے متزلزل ہوئے جا رہے تھے ، اور اب ان کے دین کا دارو مدار بس اس پر رہ گیا تھا کہ کسی طرح جادوگر بھی وہ کام کر دکھائیں جو موسیٰ علیہ السلام نے کیا ہے ۔ فرعون اور اس کے احیان سلطنت اسے خود ایک فیصلہ کن مقابلہ سمجھ رہے تھے ۔ ان کے اپنے بھیجے ہوئے آدمی عوام الناس کے ذہن میں یہ بات بٹھاتے پھرتے تھے کہ اگر جادوگر کامیاب ہو گئے تو ہم موسیٰ کے دین میں جانے سے بچ جائیں گے ورنہ ہمارے دین و ایمان کی خیر نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:40) لعلنا نتبع السحرۃ۔ (اگر ہمارے جادوگر غالب رہے یعنی یہ مقابلہ جیت گئے تو) شاید ہم جادو گروں کی راہ پر ہی رہ جائیں (اور موسیٰ کے دین سے بچ جائیں)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ یعنی ان کے دین پر برقرار رہیں گے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ کہ جمع ہو کر دیکھو، امید ہے کہ جادوگر غالب رہیں گے، تو ہم لوگوں کے طریق کا حق ہونا حجت سے ثابت ہوجاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) تاکہ اگر جادوگر غالب آئیں تو ہم سب انہی کے پرور رہیں یعنی اگر جادوگروں کا غلبہ حاصل ہوجائے جیسا کہی ہی امید ہے تو پھر کہم سب اسی دین کے پرور ہیں جو جادوگروں کا دین ہے یعنی وہی دین جو فرعون نے اپنی خدائی کے لئے بنا رکھا ہے اور جس میں اہل فرعون کو اقتدار اور غلبہ حاصل ہے اور جس کے ماننے والے یہ جادوگر بھی ہیں بہرحال۔