Once again, Muslims are being consoled through these verses about what happened to them at the Battle of Uhud. They are being told that, under the customary practice of Allah, the disbelievers are the ultimate losers; it does not matter if Muslims have not scored a victory at this time because of their strategic mistake, but should they stick to the demands of their Faith, that is, perseverance and fear of Allah, it will be the disbelievers who shall be the ultimate losers. Commentary: The Battle of Uhud has been fully described earlier in this Surah through which we already know that the initial success of the Muslim army turned into a defeat in this Jihad because of some of their own shortcomings, although they had already scored an earlier victory (at Badr). Seventy noble Companions (رض) sacrificed their lives on this occa¬sion. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was hurt. But, inspite of all this, Allah Almighty let the balance of the Battle tilt in favour of Muslims and the enemy retreated. This temporary defeat and setback came because: 1. The Muslim archers could not abide by the standing orders given to them by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) due to a difference of opinion. Some favoured holding on to the position they already held; others saw no need to stay there and opted for the collection of spoils with everybody else. 2. The news that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been martyred on the battlefield weakened their resolve to fight. 3. The difference came up in something very serious, that is, the explicit command of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the obedience to which was mandatory. So, these three mistakes by Muslims resulted in a temporary setback. No doubt, this temporary setback was later on turned into final victory for them, yet Muslim mujahidin were virtually torn apart with wounds. Dead bodies of their most valiant fighters were strewn before their eyes. Even the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was wounded by the merciless enemy. Disappointed, dismayed, they were also terribly shocked over their own mistakes. In short, Muslims were on the horns of a dilemma. They were pining over the past and there was acute danger that they may become weak in the future and the duty of leading the people of the world entrusted to them may be hampered. In order to cover these two gaps, the Holy Qur&an came up with the declaration: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾ And do not lose heart and do not grieve, and you are the upper-most if you are believers. (139) So, the message given to Muslims in the opening verse under comment is: Do not let weakness or inertia come near you in the future and do not pine over what has gone by. Finally, it is you who shall prevail, if you hold on to the path of faith and belief, having total confi¬dence in the promises made by Allah Almighty, never ever turning your backs on obedience to the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Jihad in the way of Allah. In other words, the object was to impress upon Muslims that they should not waste their time and energy by feeling sorry for whatever mistakes they have made in the past. Instead, they should devote to ways and means which make things right for them in the future. For success after failure, strong faith and an unflinching obedience to the Messenger of Allah are certain guarantees of a bright future. If Muslims persist with these qualities, they are bound to be victorious ultimately. This call of the Qur&an made broken hearts throb again. Sulking bodies were aglow with a fresh spirit. Just- imagine how Allah Almighty groomed the men carrying His message and gave Muslims for all times to come a principle and a rule of procedure whereby it was made necessary that Muslims should never shed tears over dead issues. Instead, they should do all they can to get together the means to strength and power. Then, right along with it, it was made very clear that supremacy and glory can be achieved through one, and only one, basic source, which is, having faith and fulfilling its demands. The demands of Faith include among other things, preparations which must be made in view of an impending war. It means that it is neces¬sary to consolidate military power, assemble and make ready all rele¬vant hardware, and harness all other means to that end, of course, in proportion to ability and capacity. The events of the Battle of Uhud, from the beginning to the end, are a testimony to all these considera¬tions.
ربط آیات : ان آیات میں پھر قصہ احد کے متعلق مسلمانوں کو تسلی دینے کا مضمون ہے کہ ہمیشہ سے یہی طریق الہی چلا آیا کہ انجام کار کفار ہی خائب و خاسر ہوتے ہیں اگرچہ تم اس وقت اپنی بےعنوانی سے مغلوب ہوگئے، لیکن اگر اپنے مقتضیات ایمان یعنی ثبات وتقوی پر قائم رہے تو اخیر میں کفار ہی مغلوب ہوں گے۔ خلاصہ تفسیر : اور تم (اگر اس وقت مغلوب ہوگئے تو کیا ہوا) ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو اور آخر تم ہی غالب رہو گے اگر تم پورے مومن رہے (یعنی اس کے مقتضیات پر ثابت) اگر تم کو زخم (صدمہ) پہنچ جاوے (جیسا احد میں ہوا) تو (کوئی گھبرانے کی بات نہیں کیونکہ اس میں چند حکمتیں ہیں، ایک تو یہ کہ) اس قوم کو بھی (جو کہ تمہارے مقابل تھی یعنی کفار) ایسے ہی زخم (صدمہ) پہنچ چکا ہے، (چنانچہ گزشتہ بدر میں وہ صدمہ اٹھا چکے ہیں) اور (ہمارا معمول ہے کہ) ان ایام کو (یعنی غالب و مغلوب ہونے کے زمانہ کو) لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں، (یعنی کبھی ایک قوم کو غالب اور دوسری کو مغلوب کردیا، کبھی اس کا عکس کردیا، سو اسی معمول کے مطابق پار سال وہ مغلوب ہوئے تھے، اب کے تم ہوگئے، ایک حکمت تو یہ ہوئی) اور (دوسری حکمت یہ ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو (ظاہری طور پر) جان لیویں (کیونکہ مصیبت کے وقت مخلص اور نیک کا امتحان ہوجاتا ہے) اور (تیسری حکمت یہ ہے کہ) کہ تم میں بعض کو شہید بنانا تھا بقیہ حکمتیں آگے آتی ہیں درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر فرماتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ ظلم (کفر وشرک) کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتے (پس اس کا احتمال نہ کیا جاوے کہ شاید ان کو محبوب ہونے کی وجہ سے غالب فرما دیا ہو ہرگز نہیں) اور (چوتھی حکمت یہ ہے) تاکہ (گناہوں کے) میل کچیل سے صاف کردے ایمان والوں کو (کیونکہ مصیبت سے اخلاق و اعمال کا تصفیہ ہوجاتا ہے) اور (پانچویں حکمت یہ ہے کہ) مٹا دیوے کافروں کو (یہ اس لئے کہ غالب آجانے سے ان کی ہمت بڑھے گی، پھر مقابلہ میں آئیں گے اور ہلاک ہوں گے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے سے قہر خداوندی میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوں گے) ہاں اور سنو ! کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں (خصوصیت کے ساتھ) جا داخل ہو گے، حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے (ظاہری طور پر) ان لوگوں کو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے (خوب) جہاد کیا ہو اور جو جہاد میں ثابت قدم رہنے والوں اور تم تو (شہید ہوکر) مرنے کی (بڑی) تمنا کیا کرتے تھے، موت کے سامنے آنے سے پہلے سو (تمنا کے مطابق) اس (کے سامان) کو کھلی آنکھوں دیکھ لیا (پھر اس کو دیکھ کر کیوں بھاگنے لگے اور وہ تمنا کہاں بھول گئے) معارف و مسائل : غزوہ احد کا واقعہ اپنی پوری تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان کیا جا چکا ہے، جس میں یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ اس جہاد میں مسلمانوں کی بعض کوتاہیوں کے سبب ابتدائی فتح کے بعد پھر مسلمانوں کو شکست ہوئی، ستر صحابہ کرام شہید ہوئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخم آئے، مگر ان سب امور کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کا پانسہ پلٹا، اور دشمن پسپا ہوگئے۔ اس عارضی شکست کے تین سبب تھے، پہلا یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حکم تیر اندازوں کو دیا تھا وہ بعض اسباب سے ان پر قائم نہ رہے، کیونکہ اس بارے میں اختلاف رائے ہوگیا، کوئی کہتا تھا کہ ہم کو یہیں جمے رہنا چاہئے، اکثر نے کہا کہ اب یہاں ٹھہرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی، چل کر سب کے ساتھ غنیمت حاصل کرنے میں لگنا چاہئے، تو پہلا سبب آپس کا جھگڑا تھا، دوسرا سبب یہ ہوا کہ جب حضور کے قتل کی خبر مشہور ہوگئی تو مسلمانوں کے قلوب میں کمزوری پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ بزدلی اور کم ہمتی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تیسرا سبب جو ان دونوں سببوں سے زیادہ اہم تھا یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل میں اختلاف پیش آیا، یہ تین لغزشیں مسلمانوں سے ہوگئی تھیں، جن کی بناء پر ان کو عارضی شکست ہوئی، یہ عارضی شکست اگرچہ انجام کار فتح میں تبدیل ہوچکی تھی، لیکن مسلمان مجاہدین زخموں سے چور چور تھے، ان کے بڑے بڑے بہادروں کی لاشیں آنکھوں کے سامنے پڑی تھیں، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اشقیاء نے مجروح کردیا تھا، شدائد و یاس کا ہجوم تھا، اور اپنی ان لغزشوں کا بھی شدید صدمہ تھا، اب یہاں دو چیزیں پیدا ہوچکی تھیں، ایک تو گزشتہ باتوں کا رنج و غم، دوسری چیز جس کا خطرہ تھا وہ یہ کہ مسلمان آئندہ کے لئے کہیں کمزور نہ ہوجائیں، اور اقوام عالم کی امامت کا جو فریضہ ان پر عائد ہے اس میں ضعف نہ پیدا ہوجائے، اس لئے ان دونوں رخنوں کو بند کرنے کے لئے قرآن کریم کا یہ ارشاد آیا : (لا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین) یعنی تم آئندہ کے لئے کمزوری اور سستی اپنے پاس نہ آنے دو ، اور گزشتہ پر رنج و ملال نہ کرو، اور انجام کار تم ہی غالب ہو کر رہو گے، بشرطیکہ ایمان و ایقان کے راستہ پر مستقیم رہو، اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر کامل وثوق رکھتے ہوئے اطاعت رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے قدم پیچھے نہ ہٹاؤ۔ مطلب یہ تھا کہ گزشتہ باتیں اور لغزشیں جو ہوچکی ہیں ان پر رنج و غم میں اپنا وقت اور توانائی صرف کرنے کے بجائے مستقبل میں اپنے کام کی درستی کی فکر کرو، اور اسے کامیاب بناؤ، ایمان و ایقان، اطاعت رسول درخشاں مستقبل کا ضامن ہے ان کو ہاتھ سے نہ جانے دو ، انجام کار تم ہی غالب رہو گے۔ اس قرآنی آواز نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا، اور پژمردہ جسموں میں تازہ روح پھونک دی، غور فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی کس طرح تربیت و اصلاح فرمائی اور ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کو ایک ضابطہ اور اصول دیدیا، کہ گزشتہ فوت شدہ امور پر رنج و ملال میں وقت صرف کرنے کے بجائے آئندہ کے لئے قوت و شوکت کے اسباب بہم پہنچانے چاہئے، پھر اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتلا دیا گیا کہ غلبہ اور بلندی حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی چیز اصل ہے یعنی ایمان اور اس کے تقاضے پورے کرنا، ایمان کے تقاضہ میں وہ تیاریاں بھی داخل ہیں جو جنگ کے سلسلہ میں کی جاتی ہیں، یعنی اپنی فوجی قوت کا استحکام، سامان جنگ کی بہم رسانی اور ظاہری اسباب سے بقدر وسعت آراستہ و مسلح ہونا، غزوہ احد کے واقعات اول سے آخر تک ان تمام امور کے شاہد ہیں۔ اس آیت کے بعد ایک دوسرے انداز میں مسلمانوں کی تسلی کے لئے ارشاد ہے کہ اگر اس لڑائی میں تم کو زخم پہنچایا تکلیف اٹھانی پڑی تو اسی طرح کے حوادث فریق مقابل کو بھی تو پیش آچکے ہیں، اگر احد میں تمہارے ستر آدمی شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تو ایک سال پہلے ان کے ستر آدمی جہنم رسید اور بہت سے زخمی ہوچکے ہیں، اور خود اس لڑائی میں بھی ابتداء ان کے بہت سے آدمی مقتول و مجروح ہوئے۔