Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 139

سورة آل عمران

وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾

So do not weaken and do not grieve, and you will be superior if you are [true] believers.

تم نہ سُستی کرو اور نہ غمگین ہو ، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ تَهِنُوا ... So do not become weak, because of what you suffered. ... وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الاَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ nor be sad, and you will be triumphant if you are indeed believers. for surely, the ultimate victory and triumph will be yours, O believers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

139۔ 1 گذشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ اگر تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب اور کامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی ایک بنیاد واضح کردی ہے۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٥] ان ہدایات و ارشادات کے بعد اب پھر غزوہ احد کا بیان ہو رہا ہے اور یہ آیت غالباً اس وقت نازل ہوئی جب غزوہ احد میں مسلمان ایک دفعہ شکست کھا کر مایوسی و بددلی کا شکار ہو رہے تھے۔ اگرچہ اس کا روئے سخن بظاہر مجاہدین احد کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے ایک کلیہ بیان فرما دیا کہ اگر تم فی الواقعہ مومن ہو اور سست اور غمزدہ ہونے کے بجائے اللہ پر توکل اور صبر کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقینا تمہیں غلبہ عطا کرے گا اور اگر تم مغلوب و مقہور ہو تو وہ وجوہ تلاش کرو جن کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔۔ : اوپر کی آیت ” ۭقَدْ خَلَتْ “ اس بشارت کی تمہید تھی اور ” وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ “ کے لیے ایک طرح کی دلیل کہ پہلی امتوں کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اہل باطل کو اگرچہ غلبہ حاصل ہوا مگر عارضی، آخر کار وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ یہی حال تمہارا ہے، اس لیے کسی قسم کے ” وَھْنٌ“ (کمزوری) سے کام نہ لو، غم نہ کرو، اگر تم مومن ہو تو تمھی غالب رہو گے۔ چناچہ اس کے بعد ہر لڑائی میں مسلمان غالب ہوتے رہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Once again, Muslims are being consoled through these verses about what happened to them at the Battle of Uhud. They are being told that, under the customary practice of Allah, the disbelievers are the ultimate losers; it does not matter if Muslims have not scored a victory at this time because of their strategic mistake, but should they stick to the demands of their Faith, that is, perseverance and fear of Allah, it will be the disbelievers who shall be the ultimate losers. Commentary: The Battle of Uhud has been fully described earlier in this Surah through which we already know that the initial success of the Muslim army turned into a defeat in this Jihad because of some of their own shortcomings, although they had already scored an earlier victory (at Badr). Seventy noble Companions (رض) sacrificed their lives on this occa¬sion. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was hurt. But, inspite of all this, Allah Almighty let the balance of the Battle tilt in favour of Muslims and the enemy retreated. This temporary defeat and setback came because: 1. The Muslim archers could not abide by the standing orders given to them by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) due to a difference of opinion. Some favoured holding on to the position they already held; others saw no need to stay there and opted for the collection of spoils with everybody else. 2. The news that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been martyred on the battlefield weakened their resolve to fight. 3. The difference came up in something very serious, that is, the explicit command of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، the obedience to which was mandatory. So, these three mistakes by Muslims resulted in a temporary setback. No doubt, this temporary setback was later on turned into final victory for them, yet Muslim mujahidin were virtually torn apart with wounds. Dead bodies of their most valiant fighters were strewn before their eyes. Even the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was wounded by the merciless enemy. Disappointed, dismayed, they were also terribly shocked over their own mistakes. In short, Muslims were on the horns of a dilemma. They were pining over the past and there was acute danger that they may become weak in the future and the duty of leading the people of the world entrusted to them may be hampered. In order to cover these two gaps, the Holy Qur&an came up with the declaration: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾ And do not lose heart and do not grieve, and you are the upper-most if you are believers. (139) So, the message given to Muslims in the opening verse under comment is: Do not let weakness or inertia come near you in the future and do not pine over what has gone by. Finally, it is you who shall prevail, if you hold on to the path of faith and belief, having total confi¬dence in the promises made by Allah Almighty, never ever turning your backs on obedience to the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Jihad in the way of Allah. In other words, the object was to impress upon Muslims that they should not waste their time and energy by feeling sorry for whatever mistakes they have made in the past. Instead, they should devote to ways and means which make things right for them in the future. For success after failure, strong faith and an unflinching obedience to the Messenger of Allah are certain guarantees of a bright future. If Muslims persist with these qualities, they are bound to be victorious ultimately. This call of the Qur&an made broken hearts throb again. Sulking bodies were aglow with a fresh spirit. Just- imagine how Allah Almighty groomed the men carrying His message and gave Muslims for all times to come a principle and a rule of procedure whereby it was made necessary that Muslims should never shed tears over dead issues. Instead, they should do all they can to get together the means to strength and power. Then, right along with it, it was made very clear that supremacy and glory can be achieved through one, and only one, basic source, which is, having faith and fulfilling its demands. The demands of Faith include among other things, preparations which must be made in view of an impending war. It means that it is neces¬sary to consolidate military power, assemble and make ready all rele¬vant hardware, and harness all other means to that end, of course, in proportion to ability and capacity. The events of the Battle of Uhud, from the beginning to the end, are a testimony to all these considera¬tions.

ربط آیات : ان آیات میں پھر قصہ احد کے متعلق مسلمانوں کو تسلی دینے کا مضمون ہے کہ ہمیشہ سے یہی طریق الہی چلا آیا کہ انجام کار کفار ہی خائب و خاسر ہوتے ہیں اگرچہ تم اس وقت اپنی بےعنوانی سے مغلوب ہوگئے، لیکن اگر اپنے مقتضیات ایمان یعنی ثبات وتقوی پر قائم رہے تو اخیر میں کفار ہی مغلوب ہوں گے۔ خلاصہ تفسیر : اور تم (اگر اس وقت مغلوب ہوگئے تو کیا ہوا) ہمت مت ہارو اور رنج مت کرو اور آخر تم ہی غالب رہو گے اگر تم پورے مومن رہے (یعنی اس کے مقتضیات پر ثابت) اگر تم کو زخم (صدمہ) پہنچ جاوے (جیسا احد میں ہوا) تو (کوئی گھبرانے کی بات نہیں کیونکہ اس میں چند حکمتیں ہیں، ایک تو یہ کہ) اس قوم کو بھی (جو کہ تمہارے مقابل تھی یعنی کفار) ایسے ہی زخم (صدمہ) پہنچ چکا ہے، (چنانچہ گزشتہ بدر میں وہ صدمہ اٹھا چکے ہیں) اور (ہمارا معمول ہے کہ) ان ایام کو (یعنی غالب و مغلوب ہونے کے زمانہ کو) لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں، (یعنی کبھی ایک قوم کو غالب اور دوسری کو مغلوب کردیا، کبھی اس کا عکس کردیا، سو اسی معمول کے مطابق پار سال وہ مغلوب ہوئے تھے، اب کے تم ہوگئے، ایک حکمت تو یہ ہوئی) اور (دوسری حکمت یہ ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو (ظاہری طور پر) جان لیویں (کیونکہ مصیبت کے وقت مخلص اور نیک کا امتحان ہوجاتا ہے) اور (تیسری حکمت یہ ہے کہ) کہ تم میں بعض کو شہید بنانا تھا بقیہ حکمتیں آگے آتی ہیں درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر فرماتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ ظلم (کفر وشرک) کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتے (پس اس کا احتمال نہ کیا جاوے کہ شاید ان کو محبوب ہونے کی وجہ سے غالب فرما دیا ہو ہرگز نہیں) اور (چوتھی حکمت یہ ہے) تاکہ (گناہوں کے) میل کچیل سے صاف کردے ایمان والوں کو (کیونکہ مصیبت سے اخلاق و اعمال کا تصفیہ ہوجاتا ہے) اور (پانچویں حکمت یہ ہے کہ) مٹا دیوے کافروں کو (یہ اس لئے کہ غالب آجانے سے ان کی ہمت بڑھے گی، پھر مقابلہ میں آئیں گے اور ہلاک ہوں گے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے سے قہر خداوندی میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوں گے) ہاں اور سنو ! کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں (خصوصیت کے ساتھ) جا داخل ہو گے، حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے (ظاہری طور پر) ان لوگوں کو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے (خوب) جہاد کیا ہو اور جو جہاد میں ثابت قدم رہنے والوں اور تم تو (شہید ہوکر) مرنے کی (بڑی) تمنا کیا کرتے تھے، موت کے سامنے آنے سے پہلے سو (تمنا کے مطابق) اس (کے سامان) کو کھلی آنکھوں دیکھ لیا (پھر اس کو دیکھ کر کیوں بھاگنے لگے اور وہ تمنا کہاں بھول گئے) معارف و مسائل : غزوہ احد کا واقعہ اپنی پوری تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان کیا جا چکا ہے، جس میں یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ اس جہاد میں مسلمانوں کی بعض کوتاہیوں کے سبب ابتدائی فتح کے بعد پھر مسلمانوں کو شکست ہوئی، ستر صحابہ کرام شہید ہوئے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخم آئے، مگر ان سب امور کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے جنگ کا پانسہ پلٹا، اور دشمن پسپا ہوگئے۔ اس عارضی شکست کے تین سبب تھے، پہلا یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو حکم تیر اندازوں کو دیا تھا وہ بعض اسباب سے ان پر قائم نہ رہے، کیونکہ اس بارے میں اختلاف رائے ہوگیا، کوئی کہتا تھا کہ ہم کو یہیں جمے رہنا چاہئے، اکثر نے کہا کہ اب یہاں ٹھہرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی، چل کر سب کے ساتھ غنیمت حاصل کرنے میں لگنا چاہئے، تو پہلا سبب آپس کا جھگڑا تھا، دوسرا سبب یہ ہوا کہ جب حضور کے قتل کی خبر مشہور ہوگئی تو مسلمانوں کے قلوب میں کمزوری پیدا ہوگئی جس کا نتیجہ بزدلی اور کم ہمتی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تیسرا سبب جو ان دونوں سببوں سے زیادہ اہم تھا یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی تعمیل میں اختلاف پیش آیا، یہ تین لغزشیں مسلمانوں سے ہوگئی تھیں، جن کی بناء پر ان کو عارضی شکست ہوئی، یہ عارضی شکست اگرچہ انجام کار فتح میں تبدیل ہوچکی تھی، لیکن مسلمان مجاہدین زخموں سے چور چور تھے، ان کے بڑے بڑے بہادروں کی لاشیں آنکھوں کے سامنے پڑی تھیں، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اشقیاء نے مجروح کردیا تھا، شدائد و یاس کا ہجوم تھا، اور اپنی ان لغزشوں کا بھی شدید صدمہ تھا، اب یہاں دو چیزیں پیدا ہوچکی تھیں، ایک تو گزشتہ باتوں کا رنج و غم، دوسری چیز جس کا خطرہ تھا وہ یہ کہ مسلمان آئندہ کے لئے کہیں کمزور نہ ہوجائیں، اور اقوام عالم کی امامت کا جو فریضہ ان پر عائد ہے اس میں ضعف نہ پیدا ہوجائے، اس لئے ان دونوں رخنوں کو بند کرنے کے لئے قرآن کریم کا یہ ارشاد آیا : (لا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مومنین) یعنی تم آئندہ کے لئے کمزوری اور سستی اپنے پاس نہ آنے دو ، اور گزشتہ پر رنج و ملال نہ کرو، اور انجام کار تم ہی غالب ہو کر رہو گے، بشرطیکہ ایمان و ایقان کے راستہ پر مستقیم رہو، اور حق تعالیٰ کے وعدوں پر کامل وثوق رکھتے ہوئے اطاعت رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے قدم پیچھے نہ ہٹاؤ۔ مطلب یہ تھا کہ گزشتہ باتیں اور لغزشیں جو ہوچکی ہیں ان پر رنج و غم میں اپنا وقت اور توانائی صرف کرنے کے بجائے مستقبل میں اپنے کام کی درستی کی فکر کرو، اور اسے کامیاب بناؤ، ایمان و ایقان، اطاعت رسول درخشاں مستقبل کا ضامن ہے ان کو ہاتھ سے نہ جانے دو ، انجام کار تم ہی غالب رہو گے۔ اس قرآنی آواز نے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ دیا، اور پژمردہ جسموں میں تازہ روح پھونک دی، غور فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کی کس طرح تربیت و اصلاح فرمائی اور ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کو ایک ضابطہ اور اصول دیدیا، کہ گزشتہ فوت شدہ امور پر رنج و ملال میں وقت صرف کرنے کے بجائے آئندہ کے لئے قوت و شوکت کے اسباب بہم پہنچانے چاہئے، پھر اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتلا دیا گیا کہ غلبہ اور بلندی حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی چیز اصل ہے یعنی ایمان اور اس کے تقاضے پورے کرنا، ایمان کے تقاضہ میں وہ تیاریاں بھی داخل ہیں جو جنگ کے سلسلہ میں کی جاتی ہیں، یعنی اپنی فوجی قوت کا استحکام، سامان جنگ کی بہم رسانی اور ظاہری اسباب سے بقدر وسعت آراستہ و مسلح ہونا، غزوہ احد کے واقعات اول سے آخر تک ان تمام امور کے شاہد ہیں۔ اس آیت کے بعد ایک دوسرے انداز میں مسلمانوں کی تسلی کے لئے ارشاد ہے کہ اگر اس لڑائی میں تم کو زخم پہنچایا تکلیف اٹھانی پڑی تو اسی طرح کے حوادث فریق مقابل کو بھی تو پیش آچکے ہیں، اگر احد میں تمہارے ستر آدمی شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تو ایک سال پہلے ان کے ستر آدمی جہنم رسید اور بہت سے زخمی ہوچکے ہیں، اور خود اس لڑائی میں بھی ابتداء ان کے بہت سے آدمی مقتول و مجروح ہوئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ ١٣٩ هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔ حزن الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] ( ح ز ن ) الحزن والحزن کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران/ 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو عَليّ ( بلند) هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ، [ و تخصیص لفظ التّفاعل لمبالغة ذلک منه لا علی سبیل التّكلّف كما يكون من البشر ] وقال عزّ وجلّ : تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء/ 43] العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( بکسراللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] یہلوگ جو شرک کرتے ہیں خدا کی شان اس سے بلند ہے ۔ اور یہاں تعالیٰ باب تقاعل سے ہے جس کے معنی ہیں نہایت ہی بلند ورنہ یہاں تکلف کے معنی مقصود نہیں مقصود نہیں ہیں جیسا کہ جب یہ لفظ انسان کے متعلق استعمال ہو تو یہ معنی مراد لئے جاتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ تَعالی عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيراً [ الإسراء/ 43] اور جو کچھ یہ بکواس کرتے ہیں اس سے ( اس کا رتبہ ) بہت عالی ہے ۔ میں لفظ علوا فعل تعالیٰ کا مصدر نہیں ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٩) غزوہ احد میں مسلمانوں کو جو پریشانی لاحق ہوئی اللہ تعالیٰ اس کی تسلی فرماتے ہیں کہ دشمنوں کے مقابلہ میں کمزوری مت دکھاؤ، احد کے دن جو مال غنیمت وغیرہ تم سے چھوٹ گیا اور جو تمہیں پریشانی لاحق ہوئی اس پر دل چھو ٹا مت کرو اللہ تعالیٰ آخرت میں اس پر تمہیں ثواب دے گا اور دنیا میں غلبہ حاصل ہوگا بشرطیکہ اس بات پر یقین ہو کہ غلبہ اور غنیمت سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٩ (وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا) (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پختہ وعدہ ہے کہ تم ہی غالب و سربلند ہو گے ‘ آخری فتح تمہاری ہوگی ‘ بشرطیکہ تم مؤمن ہوئے۔ یہ آیت ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ آج دنیا میں جو ہم ذلیل ہیں ‘ غالب و سربلند نہیں ہیں ‘ تو نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ یہ کہ ہمارے اندر ایمان نہیں ہے ‘ ہم حقیقی ایمان سے محروم ہیں۔ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں وہ محض ایک موروثی عقیدہ ہے ‘ یقین قلبی اور conviction والا ایمان نہیں ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ امت کے اندر حقیقی ایمان موجود ہو اور پھر بھی وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

45: جنگ احد کا واقعہ مختصرا یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا۔ آنحضرتﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدانِ جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دُشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے۔ جب دُشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا توصحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز وسامان مالِ غنیمت کے طور پر اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دُشمن بھاگ چکا ہے توانہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں بھی مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہئے۔ ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی اور اپنے ساتھیوں کو یاد دِلایا کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں ہر حال میں یہاں جمے رہنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بے مقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا۔ دُشمن نے جب دُور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں توانہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا۔ حضرت عبداللہ بن جبیرؓاور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے۔ اور دُشمن اس ٹیلے سے اُتر کر ان بے خبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مالِ غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے۔ یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرتﷺ شہید ہوگئے ہیں۔ اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے۔ ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے۔ البتہ آنحضرتﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے اِرد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرتﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا۔ اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا۔ بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے توان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا، لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام شہید ہوچکے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا۔ قرآنِ کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب وفراز ہیں جن سے مایوس اور دِل شکستہ نہ ہونا چاہئے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:139) لا تھنوا۔ وھن سے۔ فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر۔ تم سست مت ہو۔ تم بزدل مت ہو۔ تم کمزور مت ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 اوپر کی آیت : قد خلت الخ اس بشارت کی تمہید تھی اور انتم الا علون کے لیے بمنزلہ دلیل کی امم سابقہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اہل باطل کو گو عارضی غلبہ حاصل ہو امگر آخر کار وہ تباہ برباد ہوگئے یہی حال تمہار ہے اس لیے کسی قسم کے دھن اور ضعف سے کام نہ لو۔ آخرکار غلب رہوگے چناچہ اس کے بعد ہر لڑائی میں مسلمان غالب ہوتے رہے کبیر، وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 139 تا 143 لاتھنوا (تم سست نہ ہو) لاتحزنوا (تم رنجیدہ نہ ہو) الاعلون (بلند (رہوگے) ان یمسسکم ( اگر تمہیں پہنچا ہے) قرح (زخم) مس القوم (پہنچا ایک قوم کو) نداول (ہم گھماتے رہتے ہیں) لیمحص (تاکہ وہ نکھاردے) یمحق (وہ مٹاتا ہے) ام حسبتم (کیا تم سمجھ بیٹھے) ان تلقوہ (یہ کہ تم اس سے ملو) رایتموہ (تم نے اس کو دیکھ لیا) تشریح : آیت نمبر 139 تا 143 ان آیتوں میں مسلمانوں سے فرمایا جارہا ہے کہ انبیاء کی سنت اور ان کے ماننے والوں کا طریقہ ہی یہ ہے کہ جب ان پر مشکل حالات آتے ہیں تو وہ ہمت نہیں ہارتے بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے سینہ سپرہوجاتے ہیں۔ فرمایا گیا کہ اے مسلمانو ! تم ہمت نہ ہارو اور نہ تم سستی کرو۔ آج اگر غزوۂ احد میں تمہیں ظاہری شکست ہوئی ہے تو غزوۂ بدر میں تم بھی تو کفار کو بڑے صدمے پہنچاچکے ہو۔ یہ تو زمانہ کا الٹ پھیر ہے۔ ایسا تو ہماری قدرت کا ایک انداز ہے۔ زمانہ کے حالات کو ہم اسی طرح الٹتے پلٹتے رہتے ہیں یہ اور اس طرح کے حالات تو تمہارے ایمان اور کردار کی بہترین جانچ اور پرکھ کا ذریعہ ہیں۔ اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ حالات کے الٹ پھیر سے تمہارے ایمان کو پرکھتا رہے۔ تمہارے اندورنی میل کچیل کو دور کرتا رہے۔ آخر میں فرمایا کیا کہ تم اس گمان میں نہ رہنا کہ جنت اور اس کی راحتیں یونہی بیٹھے نٹھائے مل جائیں گی بلکہ اس کے لئے عظیم قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ان حالات میں جانچ کی جاتی ہے بہرحال اللہ پر نظر رکھو۔ موت سے آنکھیں ملانے کی اہلیت پیدا کرو۔ بالاخر کامیابی اور غلبہ تمہارا ہی ہے۔ اللہ ظالموں کے غلبہ کو مٹا کر ایک دن تمہیں ضرور کامیاب فرمائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : احد کی ہزیمت کے بعد تسلی دینے کے ساتھ کامیابی کی مشروط ضمانت دی گئی ہے۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے ستر (٧٠) زعماء شہید ہوئے۔ جن میں شیر دل اور بہادر جوان حضرت حمزہ (رض) بھی شامل تھے جنہوں نے معرکۂ بدر میں سب سے زیادہ کفار کو نقصان پہنچایا تھا۔ انہیں احد میں خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کفار نے ان کے جسد اطہر کا مثلہ کیا اور سینہ مبارک چیر کر کلیجہ چبانے کی کوشش کی گئی۔ اس بھاری جانی نقصان کے ساتھ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی کو شدید زخم آئے۔ درّہ والوں کی کوتاہی کی وجہ سے یہ سب کچھ آنًا فاناً ہوا۔ اس شدید نقصان کے بارے میں مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ خاص کر ایسے مجاہد جنہوں نے ایک سال پہلے بدر میں کفار کی کمر توڑ دی تھی۔ اس صورت حال پر انتہائی مغموم اور دل گرفتہ ہوئے۔ یہاں ان کی ڈھارس بندھانے اور ان کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے تسلی دی گئی ہے کہ غمزدہ ہونے اور کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش ایّام کرتے ہیں۔ مجاہد کا ہارنا ‘ شہسوار کا گرنا ‘ اقتدار کا چھننا ‘ جوان کا بوڑھا ہونا ‘ تندرست کا بیمار پڑنا ‘ امیر کا غریب ہونا ‘ غریبوں کو تونگر بنانا ‘ کمزوروں کو طاقت بخشنا ‘ اوقات کا تبدیل ہونا ‘ ایّام کا بدلنا اور قوموں کا عروج وزوال ہماری مشیّت و حکم کا مظہر ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کی قدرت وسطوت کا اعتراف ہوتا رہے۔ ہاں ہمیشہ تم ہی سربلند رہو گے بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو۔ رہی بات تمہیں زخم پہنچنے کی تو اس سے بڑھ کر تم انہیں بدر کے میدان میں زخمی کرچکے ہو۔ وہ شدید زخمی ہونے، جانی ومالی نقصان اٹھانے کے باوجود ہمت نہیں ہارے بلکہ اس سے کئی گنا پرجوش ہو کر تم پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تمہارے پاس حوصلہ ہارنے اور غیر معمولی افسردہ ہونے کا کیا جواز ہے ؟ یہ تو گردش ایّام ہے جس کو لوگوں کے اعمال اور کردار کی وجہ سے ہم پھیرتے رہتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ممتاز کر کے ان سے منافقوں کو الگ کر دے۔ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کے درجے پر فائز فرما دے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کٹ مرنے والا اپنے خون جگر سے عملاً اللہ کے کلمہ کو بلند رکھنے کی گواہی دیتا ہے اس لیے اسے شہید کہا جاتا ہے۔ امام رازی (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے مطابق مرنے کے بعد مومنوں کی ارواح مقام علّیّین میں ہوتی ہیں لیکن شہداء کی ارواح اللہ تعالیٰ کے عرش معلّٰی کے نیچے ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے وہ قیامت سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں شہید کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر رہنے والے۔ مفسّرین نے اللہ تعالیٰ کا منافقوں کو جاننے کا معنٰی ان کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا لیا ہے۔ عربی میں اس طرح کلام کرنے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو کسی حال میں غمگین اور سست نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو ہمیشہ سر بلند رہیں گے۔ ٣۔ احد میں مسلمانوں کو زخم آئے ان کے مقابلہ میں کفار بدر میں زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان دن پھیرتے رہتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو مٹانا اور مومنوں کو ممتاز کرنا چاہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا حکم اور مومن سر بلند رہیں گے : ١۔ اللہ کا حکم بلند رہے گا۔ (التوبۃ : ٤٠) ٢۔ مومن ہی ہر حال میں بلند رہیں گے۔ (آل عمران : ١٣٩) ٣۔ مومن اللہ کا لشکر ہیں اور غالب رہیں گے۔ (المجادلۃ : ٢٢) گردشِ ایّام : ١۔ بدر میں مومنوں کو فتح ہوئی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٢۔ احد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ (آل عمران : ١٤٠) ٣۔ احزاب میں مسلمان فاتح ہوئے۔ (الاحزاب : ٢٥ تا ٢٧) ٤۔ مکہ میں فتح یاب ہوئے۔ (الفتح : ١) ٥۔ حنین میں تکلیف دیکھنا پڑی۔ (التوبۃ : ٢٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد روئے سخن مسلمانون کی طرف پھرجاتا ہے ۔ ان کی دلجوئی کی جاتی ہے ‘ تسلی دی جاتی ہے اور ثابت قدمی کی تلقین کی جاتی ہے۔ وَلا تَهِنُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ…………… ” دل شکستہ نہ ہو ‘ غم نہ کرو ‘ تم ہی غالب رہوگے ‘ اگر تم مومن ہو۔ “ وَلا تَهِنُوا………… یہ لفظ وہن سے نکلا ہے ‘ جس کے معنی ضعیفی کے ہیں اور غم نہ کرو ‘ یعنی ان مصائب پر جو تمہیں پیش آرہے ہیں یا ان مفادات کے لئے جو تم سے چھوٹ گئے ۔ تم غالب اور برتر ہو ‘ اس لئے کہ تمہارا نظریہ حیات برتر ہے ۔ تم صرف اللہ وحدہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو اور وہ لوگ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی مخلوق کے سامنے جھکتے ہیں یا کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک کرکے اس کے سامنے جھکتے ہیں ۔ اور تمہارا نظام حیات ان کے نظام حیات کے مقابلے میں افضل و برتر ہے ۔ تم اس نظام کے مطابق زندگی بسر کررہے ہو جسے اللہ نے بنایا ہے ۔ اور وہ اس نظام زندگی کے پیروکار ہیں جو انسانوں نے بنایا ہے ۔ تمہارا رول ان کے مقابلے میں برتر ہے ۔ تم پوری انسانیت کے لئے حاملین وصیت ہو ‘ اس پوری انسانیت کے لئے ہادی اور راہبر ہو جبکہ وہ اللہ کے اس نظام سے دھتکارے ہوئے ہیں ‘ گمراہ ہوچکے ہیں ۔ اس کرہ ارض پر تمہارا مقام بلند مقام ہے ۔ تم اس وراثت کے حاملین میں سے ہو جس کا تمہارے ساتھ اللہ نے عہد کررکھا ہے ۔ اور ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ عدم اور فنا کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ اس لئے اگر تم سچے مومن بن جاؤ تو تم ہی اس دنیا میں اعلیٰ اور سربلند رہوگے ۔ اور اگر تم سچے مومن ہو تو نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور نہ دل شکستہ ہو ‘ اس لئے کہ یہ اللہ کی سنت ہے کہ کبھی تم پر مصیبت آئے گی اور کبھی تم کامران ہوگے اور جہاد ‘ ابتلا اور کھرے کھوٹے کے درمیان تمیز ہوجانے کے بعد تمہاری عاقبت اچھی ہوگی ۔ ” اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے ۔ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔ تم پر یہ وقت اس لئے لایا گیا ہے کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی (راستی کے ) کے گواہ ہیں ۔ کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں ۔ اور وہ اس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کو سرکوبی کردینا چاہتا تھا۔ “ یہاں اس چوٹ کا ذکر کیا گیا جو اہل اسلام کو لگی اور اس کا بھی ذکر کیا جو جھٹلانے والوں کو لگی تھی ۔ مکذبین کے چوٹ سے مراد غزوہ بدر ہے ۔ اس لئے کہ اس موقعہ پر مشرکین کو چوٹ لگی تھی اور اہل اسلام صحیح وسالم بچ گئے تھے لیکن جھٹلانے والوں کی چوٹ سے مراد غزوہ احد بھی ہوسکتا ہے جس میں ابتداءً گو مسلمانوں کو فتح ہوئی تھی ۔ اہل کفر کو شکست ہوئی تھی اور ان میں سے ستر آدمی قتل ہوگئے تھے ۔ اس کے بعد مشرکین بھاگ نکلے اور مسلمان ان کے تعاقب میں نکلے اور کھوپڑیوں پر ضربات لگاتے رہے ۔ مشرکین کا علم تک گر گیا اور کوئی ایساشخص نہ رہا جو آگے بڑھ کر علم اٹھاتا ۔ آخر کار ایک عورت نے علم اٹھایا۔ اس پر انہیں جرات ہوئی اور اس کے اردگرد جمع ہوگئے ۔ اس کے بعد مشرکین کی باری آئی جب تیراندزوں سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی خلاف ورزی کی ۔ آپس میں اختلاف کیا اور اس معرکے کے آخری دور میں مسلمانوں پر وہ مصیبت آئی جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے اور یہ پوری پوری سزا تھی اس بات کی کہ انہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی خلاف ورزی کی اور آپس میں اختلاف کیا۔ یوں اللہ تعالیٰ کی وہ سنت ظاہر ہوئی جسے اس نے اس کائنات کے لئے مقدر فرمایا ہے ۔ اس لئے تیر اندازوں کی جانب سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی خلاف ورزی اور مشورہ کے باوجود آپس میں اختلاف اس وجہ سے پیدا ہوئے تھے کہ ان کے دلوں میں مال غنیمت کا لالچ پیدا ہوگیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے جہاد و قتال میں مسلمانوں کے لئے نصرت تو بہرحال لکھ دی ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جو صرف جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہیں ۔ اور ان کا مطمح نظر اس دنیائے دنی کو کوئی بےوقعت فائدہ نہیں ہوتا۔ اس واقعہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ایک دوسری سنت کا ظہور بھی ہوا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فتح ونصرت کو لوگوں کے درمیان پھرتے رہتے ہیں ۔ کبھی اہل حق کو فتح ہوتی ہے تو کبھی کبھار اہل باطل کو فتح ہوتی ہے ۔ ان کے اعمال اور ان کی نیتوں کے مطابق ۔ ان ایام کی وجہ سے اہل ایمان اور اہل نفاق کو چھانٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ نیز غلطیوں کا ارتکاب ہوتا ہے اور لوگوں کے دلوں سے نظریاتی کھوٹ نکل جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

تم ہی بلند ہو گے اگر مومن ہو اسباب النزول صفحہ ١٢٠ میں علامہ واحدی حضرت ابن عباس سے نقل فرماتے ہیں کہ جب غزوۂ احد میں صحابہ کو شکست ہوگئی تو خالد بن ولید (جو اس وقت مشرکین کے لشکر میں تھے) مشرکین کے لشکر کو لے کر آگے بڑھے ارادہ یہ تھا کہ پہاڑ کے اوپر سے چڑھ کر پھر حملہ کردیا جائے۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقعہ پر یوں دعا کی : اَللّٰھُمَّ لاَ یَعْلُوْنَ عَلَیْنَا اَللّٰھُمَّ لاَ قُوَّۃَ لَنَا الاَّ بِا للّٰہِ اَللّٰھُمَّ لَیْسَ یَعْبُدُکَ بِھٰذَہ الْبَلَدَۃِ غَیْرَ ھٰٓؤُلَآء النَّفَرِ ” اے اللہ یہ ہم پر بلند نہ ہوجائیں اے اللہ ہمارے پاس کوئی قوت نہیں سوائے آپ کے اس شہر میں ان چند آدمیوں کے علاوہ آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہیں۔ “ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں اور چند مسلمان جو تیر انداز تھے پہاڑ پر چڑھ گئے جنہوں نے مشرکین کی گھوڑے سوار جماعت کو تیروں کا نشانہ بنایا جس سے وہ شکست خوردہ ہو کر واپس چلے گئے۔ مسلمانوں کی ہمت ٹوٹی ہوئی تھی پھر بھی انہوں نے ہمت کرلی اور دشمن کو تیروں کی بوچھاڑ سے مار بھگایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

207 یہاں پھر مضمون جہاد کا اعادہ کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ رکوع 18 میں فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ تک چلا گیا ہے۔ اس ٓیت میں اللہ تعالیٰ نے تشجیع علی القتال اور ترغیب الی الجہاد کی کے ساتے ساتھ مسلمانوں کو جنگ احد کے نقصانات کے بارے میں تسلی بھی دی ہے اور انہیں صبر و استقامت کی تلقین فرمائی ہے۔ عزاھم وسلاھم بما نالھم یوم احد من القتل والجراح وحثھم علی قتال عدوھم ونھاھم عن العجز و الفشل (قرطبی ص 216 ج 4) لَاتَھِنُوْا، وَھْنٌ سے ہے جس کے معنی کمزور دکھانے کے ہیں یعنی اے ایمان والو دشمن کے مقابلہ میں کمزوری اور بدلی مت دکھاؤ اور احد میں جو کچھ ہوچکا اب اس کا غم اور افسوس چھوڑ دو اور یاد رکھو اگر تم ایمان کے تمام تقاضے صحیح معنوں میں پورے کرو گے۔ تو دنیا میں ہمیشہ سر بلند اور غالب رہو گے اور دنیا کی کوئی طاقت تم کو مغلوب ومقہور نہیں کرسکے گی۔ ہاں اگر کبھی وقتی طور پر شکست بھی ہوگئی تو وہ اللہ کی طرف سے آزمائش اور امتحان کے طور پر ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 2 یہ مضمون مذکور عام لوگوں کے لئے ایک کافی بیان ہے اور ہدایت و نصیحت کا موجب ہے ان لوگوں کے لئے خدا سے جو ڈرنے والے ہیں اور تم جو اس وقت مغلوب ہوگئے ہو اس سے ہمت نہ ہارو اور جو لوگ شہید ہوگئے ہیں ان پر غمگین نہ ہو حالانکہ انجام کار تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ پورے پورے مومن رہے اور تمہارا ایمان صحیح رہا۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے کہ جائو اور جا کر کار کا انجام دیکھ لو یہ بیان عبرت حاصل کرنے کو لوگوں کے لئے کافی ہے اور ہدایت و بصیرت ہے اور موعظت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لئے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں اس میں متقیوں کی دونوں قسمیں آگئیں گویا عوام کی عبرت کے لئے کافی بیان ہے اور بصیرت حاصل کرنے کی بات ان کے لئے جو تقویٰ کے اونچے درجہ پر فائز ہیں اور حق و باطل کو سمجھتے ہیں اور نصیحت مسلمانوں کے لئے جو اس کے موافق عمل کریں اور کفار کے اس عارضی غلبے سے ہمتیں پست نہ کرو اور مرنے والوں پر رنج نہ کرو حالانکہ تم ہر اعتبار سے غالب ہو اجنام کے اعتبار سے بھی اور اس امید کے اعتبار سے بھی جو تم کو اللہ تعالیٰ سے ہے وہ ان کو نہیں ہے۔ تمہارے مرنے والے جنت میں اور ان کے مرنے والے جہنم میں پھر دنیا کی جسمانی تکلیف میں دونوں برابر ان تکونوا تالمون فانھم یالمون کما تالمون و ترجون من اللہ مالا یرجعون یا تو اس آیت کا نزول اس وقت ہوا ہو جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ جائو ان کافروں کا تعاقب کرو اور یہ تعاقب مسلمانوں کو شاق گزرا ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی ہو جب خالد بن ولدی جو اس وقت تک کافر تھے ایک جماعت مشرکین کی لے کر آئے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا اللھم لایغلبن علینا اللھم لاقوۃ لنا الا بک یا اللہ ان کو ہم پر غلبہ اور برتری نہ دیجی۔ یا اللہ ! ہم کو سوائے تیرے اور کوئی قوت نہیں ہے۔ چناچہ اس دعا کے بعد مشرکین کو ہزیمت ہوئی اور یہ جو فرمایا ان کنتم مئومنین اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ایمان کا مقتضا ہے اس پر تم ثابت رہے۔ ایمان کا مقتضایہ ہے کہ ثواب کی امید رکھو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کی وجہ سے قلب قوی رہے یا یہ مطلب ہے کہ اگر تمہارا ایمان صحیح رہاتو انجام کار تم کو ہی غلبہ ہوگا اس کا مطلب بھی وہی ہے کہ استقلال اور تقوے کے پابند رہے ہم نے تیسیر میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا ہے اب آگے پھر اسی تقویت اور تسلی کو دوسرے انداز سے بیان فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)