Surat Yaseen

Surah: 36

Verse: 8

سورة يس

اِنَّا جَعَلۡنَا فِیۡۤ اَعۡنَاقِہِمۡ اَغۡلٰلًا فَہِیَ اِلَی الۡاَذۡقَانِ فَہُمۡ مُّقۡمَحُوۡنَ ﴿۸﴾

Indeed, We have put shackles on their necks, and they are to their chins, so they are with heads [kept] aloft.

ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں پھر وہ ٹھوڑیوں تک ہیں جس سے انکے سر اوپرکو الٹ گئے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The State of Those Who are decreed to be among the Doomed Allah says: `In the case of those who are decreed to be among the doomed, إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَلاً فَهِيَ إِلَى الاَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ Verily, We have put on their necks iron collars reaching to the chins, so that their heads are raised up. Allah says: `In the case of those who are decreed to be among the doomed, when it comes to the matter of being guided, We have made them like a person who has a chain around his neck and whose hands are tied together beneath his chin so that his head is lifted up.' As Allah says: فَهُم مُّقْمَحُونَ (so that their heads are raised up). Mentioning the chains around the neck is sufficient and there is no need to mention the hands, although they are referred to by implication. Al-`Awfi said, narrating from Ibn Abbas, may Allah be pleased with him, concerning the Ayah: إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَلاً فَهِيَ إِلَى الاَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ Verily, We have put on their necks iron collars reaching to the chins, so that their heads are raised up. This is like the Ayah: وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ And let not your hand be tied (like a miser) to your neck. (17:29) meaning that their hands are tied to their necks and they cannot stretch them forth in order to do any good deeds. ... فَهُم مُّقْمَحُونَ so that their heads are raised up. according to Mujahid it means their heads are raised, and their hands are placed over their mouths, so they are restrained from doing anything good.

شب ہجرت اور کفار کے سرخاک ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان بدنصیبوں کا ہدایت تک پہنچنا بہت مشکل بلکہ محال ہے ۔ یہ تو ان لوگوں کی طرح ہیں جن کے ہاتھ گردن پر باندھ دیئے جائیں اور ان کا سر اونچا جا رہا ہو ۔ گردن کے ذکر کے بعد ہاتھ کا ذکر چھوڑ دیا لیکن مراد یہی ہے کہ گردن سے ملا کر ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں اور سر اونچے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ بولنے میں ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری چیز کو جو اسی سے سمجھ لی جاتی ہے اس کا ذکر چھوڑ دیتے ہیں عرب شاعروں کے شعر میں بھی یہ بات موجود ہے ۔ غل کہتے ہی ہیں دونوں ہاتھوں کو گردن تک پہنچا کر گردن کے ساتھ جکڑ بند کر دینے کو ۔ اسی لئے گردن کا ذکر کیا اور ہاتھوں کا ذکر چھوڑ دیا ۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان کے ہاتھ ان کی گردنوں سے باندھ دیئے ہیں اس لئے وہ کسی کار خیر کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے ان کے سر اونچے ہیں ان کے ہاتھ ان کے منہ پر ہیں وہ ہر بھلائی کرنے سے قاصر ہیں ، گردنوں کے اس طوق کے ساتھ ہی ان کے آگے دیوار ہے جو حق تسلیم کرنے میں مائع ہے ۔ پیچھے بھی دیوار ہے یعنی حق کو ماننے میں رکاوٹ ہے یعنی حق سے روک ہے ۔ اس وجہ سے تردد میں پڑے ہوتے ہیں حق کے پاس آنہیں سکتے ۔ گمراہیوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ حق کو دیکھ ہی نہیں سکتے ۔ نہ حق کی طرف راہ پائیں ۔ نہ حق سے فائدہ اٹھائیں ۔ ابن عباس کی قرأت میں فاعشیاناھم عین سے ہے ۔ یہ ایک قسم کی آنکھ کی بیماری ہے جو انسان کو نابینا کر دیتی ہے ۔ پس اسلام و ایمان کے اور ان کے درمیان چو طرفہ رکاوٹ ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جن پر تیرے رب کا کلمہ حق ہو چکا ہے وہ تو ایمان لانے کے ہی نہیں اگرچہ تو انہیں سب آیتیں بتا دے یہاں تک کہ وہ درد ناک عذابوں کو خود دیکھ لیں ۔ جسے اللہ روک دے وہ کہاں سے روکنا ہٹا سکے ۔ ایک مرتبہ ابو جہل ملعون نے کہا کہ اگر میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھ لوں گا تو یوں کروں گا اور یوں کروں گا اس پر یہ آیتیں اتریں ۔ لوگ اسے کہتے تھے یہ ہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لیکن اسے آپ دکھائی نہیں دیتے تھے اور پوچھتا تھا کہاں ہیں؟ کہاں ہیں؟ ایک مرتبہ اسی ملعون نے ایک مجمع میں کہا تھا کہ یہ دیکھو کہتا ہے کہ اگر تم اس کی تابعداری کرو گے تو تم بادشاہ بن جاؤ گے اور مرنے کے بعد خلد نشین ہو جاؤ گے اور اگر تم اس کا خلاف کرو گے تو یہاں ذلت کی موت مارے جاؤ گے اور وہاں عذابوں میں گرفتار ہو گے ۔ آج آنے تو دو ۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ کی مٹھی میں خاک تھی آپ ابتداء سورہ یٰسین سے لایبصرون تک پڑھتے ہوئے آ رہے تھے ۔ اللہ نے ان سب کو اندھا کر دیا اور آپ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے تشریف لے گئے ۔ ان بدبختوں کا گروہ کا گروہ آپ کے گھر کو گھیرے ہوئے تھا اس کے بعد ایک صاحب گھر سے نکلے ان سے پوچھا کہ تم یہاں کیسے گھیرا ڈالے کھڑے ہو انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں آج اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے اس نے کہا واہ واہ وہ تو گئے بھی اور تم سب کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے نکل گئے ہیں ۔ یقین نہ ہو تو اپنے سر جھاڑو اب جو سر جھاڑے تو واقعی خاک نکلی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ابو جہل کی یہ بات دوہرائی گئی تو آپ نے فرمایا اس نے ٹھیک کہا فی الواقع میری تابعداری ان کے لئے دونوں جہاں کی عزت کا باعث ہے اور میری نافرمانی ان کے لئے ذلت کا موجب ہے اور یہی ہو گا ، ان پر مہر اللہ کی لگ چکی ہے یہ نیک بات کا اثر نہیں لیتے ۔ سورہ بقرہ میں بھی اس مضمون کی ایک آیت گذر چکی ہے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96۝ۙ ) 10- یونس:96 ) ، یعنی جن پر کلمہ عذاب ثابت ہوگیا ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا گو تو انہیں تمام نشانیاں دکھادے یہاں تک کہ وہ خود اللہ کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ، ہاں تیری نصیحت ان پر اثر کر سکتی ہے جو بھلی بات کی تابعداری کرنے والے ہیں ۔ قرآن کو ماننے والے ہیں دین دیکھنے والے اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور ایسی جگہ بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں جہاں کوئی اور دیکھنے والا نہ ہو ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ ہمارے حال پر مطلع ہے اور ہمارے افعال کو دیکھ رہا ہے ہے ایسے لوگوں کو تو گناہوں کی معافی کی اور اجر عظیم و جمیل کی خوشخبری پہنچا دے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ جو لوگ پوشیدگی میں بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں ان کیلئے مغفرت اور ثواب کبیر ہے ، ہم ہی ہیں جو مردوں کو زندگی دیتے ہیں ہم قیامت کے دن انہیں نئی زندگی میں پیدا کرنے پر قادر ہیں اور اس میں اشارہ ہے کہ مردہ دلوں کے زندہ کرنے پر بھی اس اللہ کو قدرت ہے وہ گمراہوں کو بھی راہ راست پر ڈال دیتا ہے ۔ جیسے اور مقام پر مردہ دلوں کا ذکر کر کے قرآن حکیم نے فرمایا ( اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يُـحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ 17؀ ) 57- الحديد:17 ) ، جان لو کہ اللہ تعالیٰ زمین کو اسکی موت کے بعد زندہ کر دیتا ہے ہم نے تمہاری سمجھ بوجھ کے لئے بہت کچھ بیان فرما دیا اور ہم ان کے پہلے بھیجے ہوئے اعمال لکھ لیتے ہیں اور ان کے آثار بھی یعنی جو یہ اپنے بعد باقی چھوڑ آئے ۔ اگر خیر باقی چھوڑ آئے ہیں تو جزا اور سزا نہ پائیں گے ۔ حضور علیہ السلام کا فرمان ہے جو شخص اسلام میں نیک طریقہ جاری کرے اسے اس کا اور اس طریقہ کو جو کریں ان سب کا بدلہ ملتا ہے ۔ لیکن ان کے بدلے کم ہو کر نہیں ۔ اور جو شخص کسی برے طریقے کو جاری کرے اس کا بوجھ اس پر ہے اور اس کا بھی جو اس پر اس کے بعد کاربند ہوں ۔ لیکن ان کا بوجھ گھٹا کر نہیں ۔ ( مسلم ) ایک لمبی حدیث میں اس کے ساتھ ہی قبیلہ مضر کے چادر پوش لوگوں کا واقعہ بھی ہے اور آخر میں ( اِنَّا نَحْنُ نُـحْيِ الْمَوْتٰى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ڳ وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ 12۝ۧ ) 36-يس:12 ) پڑھنے کا ذکر بھی ہے ۔ صحیح مسلم شریف کی ایک اور حدیث میں ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے تمام عمل کٹ جاتے ہیں مگر تین عمل ۔ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے اور نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے اور وہ صدقہ جاریہ جو اس کے بعد بھی باقی رہے ۔ مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ وہ گمراہ لوگ جو اپنی گمراہی باقی چھوڑ جائیں ۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ہر وہ نیکی بدی جیسے اس نے جاری کیا اور اپنے بعد چھوڑ گیا ۔ بغوی بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس جملے کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ مراد آثار سے نشان قدم ہیں جو اطاعت یا معصیت کی طرف اٹھیں ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اے ابن آدم اگر اللہ تعالیٰ تیرے کسی فعل سے غافل ہوتا تو تیرے نشان قدم سے غافل ہوتا جنہیں ہوا مٹا دیتی ہے ۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے اور تیرے کسی عمل سے غافل نہیں ۔ تیرے جتنے قدم اس کی اطاعت میں اٹھتے ہیں اور جتنے قدم تو اس کی معصیت میں اٹھاتا ہے سب اس کے ہاں لکھے ہوئے ہیں ۔ تم میں سے جس سے ہو سکے وہ اللہ کی فرماں برداری کے قدم بڑھا لے ۔ اسی معنی کی بہت سی حدیثیں بھی ہیں ۔ پہلی حدیث مسند احمد میں ہے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسجد نبوی کے آس پاس کچھ مکانات خالی ہوئے تو قبیلہ بنو سلمہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے محلے سے اٹھ کر یہیں قرب مسجد کے مکانات میں آبسیں جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے؟ کیا ٹھیک ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہا ہاں آپ نے دو مرتبہ فرمایا اے بنو مسلمہ اپنے مکانات میں ہی رہو تمہارے قدم اللہ کے ہاں لکھے جاتے ہیں ۔ دوسری حدیث ابن ابی حاتم کی اسی روایت میں ہے کہ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اس قبیلے نے اپنا ارادہ بدل دیا ۔ بزار کی اسی روایت میں ہے کہ بنو سلمہ نے مسجد سے اپنے گھر دور ہونے کی شکایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کی اس پر یہ آیت اتری اور پھر وہ وہیں رہتے رہے ۔ لیکن اس میں غرابت ہے کیونکہ اس میں اس آیت کا اس بارے میں نازل ہونا بیان ہوا ہے اور یہ پوری سورت مکی ہے ۔ فاللہ اعلم ۔ تیسری حدیث ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جن بعض انصار کے گھر مسجد سے دور تھے انہوں نے مسجد کے قریب کے گھروں میں آنا چاہا اس پر یہ آیت اتری تو انہوں نے کہا اب ہم ان گھروں کو نہیں چھوڑیں گے ۔ یہ حدیث موقوف ہے ۔ چوتھی حدیث مسند احمد میں ہے کہ ایک مدنی صحابی کا مدینہ شریف میں انتقال ہوا تو آپ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھا کر فرمایا کاش کہ یہ اپنے وطن کے سوا کسی اور جگہ فوت ہوتا کسی نے کہا یہ کیوں؟ فرمایا اس لئے کہ جب کوئی مسلمان غیر وطن میں فوت ہوتا ہے تو اس کے وطن سے لے کر وہاں تک کی زمین تک کاناپ کر کے اسے جنت میں جگہ ملتی ہے ۔ ابن جریر میں حضرت ثابت سے روایت ہے کہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے لئے مسجد کیطرف چلا میں جلدی جلدی بڑے قدموں سے چلنے لگا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور اپنے ساتھ آہستہ آہستہ ہلکے ہلکے قدموں سے لے جانے لگے جب ہم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا میں حضرت زید بن ثابت کے ساتھ مسجد کو جا رہا تھا اور تیز تیز قدم چل رہا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا اے انس کیا تہیں معلوم نہیں کہ یہ نشانات قدم لکھے جاتے ہیں؟ اس قول سے پہلے قول کی مزید تائید ہوتی ہے کیونکہ جب نشان قدم تک لکھے جاتے ہیں تو پھیلائی ہوئی بھلائی کیوں نہ لکھی جاتی ہو گی؟ واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کل کائنات جمیع موجودات مضبوط کتاب لوح محفوظ میں درج ہے ۔ جو ام الکتاب ہے یہی تفسیر بزرگوں سے آیت یوم ندعوا کی تفسیر میں بھی مروی ہے کہ ان کا نامہ اعمال جس میں خیر و شر درج ہے ۔ جیسے آیت ( وَوُضِـعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ 49؀ۧ ) 18- الكهف:49 ) ، اور آیت ( وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ 69؀ ) 39- الزمر:69 ) ، میں ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں۔ نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچے کئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزا جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسر التفاسیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٨] تقلید آباء اور رسم و رواج کے طوق :۔ یہ طوق ان کی تقلید آباء کے طوق تھے، ان کی جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم کے طوق تھے، ان کے کبرونخوت کے طوق تھے جنہوں نے ان کے گلوں کو اس حد تک دبا رکھا تھا اور ان کے سر اس قدر جکڑے ہوئے تھے کہ وہ کسی دوسری طرف دیکھ ہی نہ سکتے تھے۔ نہ ہی ان کی نگاہیں نیچے اپنی طرف دیکھ سکتی تھیں کہ وہ کم از کم اپنے اندر ہی موجود اللہ کی نشانیوں اور قدرتوں کو دیکھ کر کچھ سبق حاصل کرسکیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا : ” اَغْلٰلًا “ ” غُلٌّ“ (غین کے ضمّہ کے ساتھ) کی جمع ہے، لوہے کا کڑا یا زنجیر جو مجرم کے گلے میں ڈال کر اسے باندھا جاتا ہے، بعض اوقات اس کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ بھی گردن کے ساتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ یہ قید کی سخت ترین صورت ہے۔ ” الْاَذْقَانِ “ ” ذَقَنٌ“ کی جمع ہے، ٹھوڑیاں۔ ” مُّقْمَحُوْنَ “ ” قَمَحَ الْبَعِیْرُ “ جب اونٹ حوض سے سر اٹھائے اور پانی نہ پیے۔ ” فُلَانٌ أَقْمَحَ الْبَعِیْرَ “ ” فلاں نے اونٹ کا سر اٹھا دیا۔ “ ” مُقْمَحٌ“ اسم مفعول، جس کا سر اوپر اٹھا دیا گیا ہو اور وہ اسے نیچے نہ جھکا سکتا ہو۔ اس آیت میں ان کے کفر پر اصرار اور اڑے رہنے کی نہایت مؤثر تصویر کشی فرمائی ہے، یعنی ہم نے ان انکار کرنے والوں کی گردنوں میں بھاری طوق ڈال دیے ہیں، جو ایک دوسرے کے اوپر اس طرح تہ بہ تہ ہیں کہ ٹھوڑیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ جن کی وجہ سے ان کے سر اوپر اٹھا دیے گئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلًا فَہِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ۝ ٨ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ عنق العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ( ع ن ق ) العنق ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء/اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ غل الغَلَلُ أصله : تدرّع الشیء وتوسّطه، ومنه : الغَلَلُ للماء الجاري بين الشّجر، وقد يقال له : الغیل، وانْغَلَّ فيما بين الشّجر : دخل فيه، فَالْغُلُّ مختصّ بما يقيّد به فيجعل الأعضاء وسطه، وجمعه أَغْلَالٌ ، وغُلَّ فلان : قيّد به . قال تعالی: خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] ، وقال : إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] ( غ ل ل ) الغلل کے اصل معنی کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان سے بہہ رہا ہو اور کبھی ایسے پانی کو غیل بھی کہہ دیتے ہیں اور الغل کے معنی درختوں کے درمیان میں داخل ہونے کے ہیں لہذا غل ( طوق ) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے ۔ جس سے کسی کے اعضار کو جکڑ کر اس کے دسط میں باندھ دیا جاتا ہے اس کی جمع اغلال اتی ہے اور غل فلان کے معنی ہیں اے طوق سے باندھ دیا گیا قرآن میں ہے : خُذُوهُ فَغُلُّوهُ [ الحاقة/ 30] اسے پکڑ لو اور طوق پہنادو ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ [ غافر/ 71] جب کہ ان لی گردنوں میں طوق ہوں گے ۔ ذقن قوله تعالی: وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء/ 109] ، الواحد : ذَقَنٌ ، وقد ذَقَنْتُهُ : ضربت ذقنه، وناقة ذَقُونٌ: تستعین بذقنها في سيرها، ودلو ذَقُونٌ: ضخمة مائلة تشبيها بذلک . ذ ق ن ) ذقن ۔ ( تھوڑی ) اس کی جمع اذقان ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقانِ يَبْكُونَ [ الإسراء/ 109] اور ٹھوڑیوں کے بل گرنے پڑتے ہیں ( اور ) روتے جاتے ہیں ۔ ذقنتہ ۔ میں نے اس کی ٹھوڑی پر مارا ۔ ناقۃ ذقون وہ اونٹنی جو ٹھوڑی کے سہارے پر چلتی ہو ۔ پھر تشبیہ کے طور بڑے ڈول کو جو ایک جانب سے مائل ہوا سے دلو ذقوق کہ دیتے ہیں قمح قال الخلیل : الْقَمْحُ : البرّ إذا جری في السّنبل من لدن الإنضاج إلى حين الاکتناز، ويسمّى السّويق المتّخذ منه قَمِيحَةً ، والقَمْحُ : رفع الرأس لسفّ الشیء، ثم يقال لرفع الرأس كيفما کان : قَمْحٌ ، وقَمَحَ البعیر : رفع رأسه، وأَقْمَحْتُ البعیر : شددت رأسه إلى خلف . وقوله : مُقْمَحُونَ [يس/ 8] تشبيه بذلک، ومثل لهم، وقصد إلى وصفهم بالتّأبّي عن الانقیاد للحقّ ، وعن الإذعان لقبول الرّشد، والتأبّي عن الإنفاق في سبیل الله، وقیل : إشارة إلى حالهم في القیامة إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ وَالسَّلاسِلُ [ غافر/ 71] . ( ق م ح ) القمح ۔ خلیل نے کہا ہے کہ قمح اس گہیوں کو کہتے ہیں جو پکنے کے وقت سے لے کر ذخیرہ اندوزی تک بالی کے اندر ہی رکھا جائے اور اس گہیوں سے جو ستو بنایا جاتا ہے اسے قمیحہ کہا جاتا ہے ۔ اور ستو کی مناسبت سے کوئی چیز پھابکنے کے لئے سراوپر اٹھانے کو القمح ( ف ) کہتے ہیں پھر محض سر اٹھانے پر ( خواہ کسی وجہ سے ہو قمح کہا جانے لگا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے قمح البعیر اونٹ نے ( سیر کے بعد حوض سے ) سر اٹھالیا اقمحت البعیر میں نے اونٹ کا سر اونچا کر کے پچھلی جانب باندھ دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ مُقْمَحُونَ [يس/ 8] تو انکے سر الٹ رہے ہیں ۔ میں تشبیہ اور تمثیل کے طور پر ان کو مقمحون کہا گیا ہے ۔ اور اس سے مقصود قبول حق سے ان کی سر تابی اور سرکشی اور راہ خدا میں خرچ کرنے سے ان کے انکار کو بیان کرنا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قیامت کے دن ان کی اس حالت کی طرف اشارہ ہے جس کا تذکرہ آیت : ۔ إِذِ الْأَغْلالُ فِي أَعْناقِهِمْ وَالسَّلاسِلُ [ غافر/ 71] جب کہ ان کی گردنوں میں طوق اور زنجیریں ہوں گی ۔ میں پایا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہم نے ان کی گردنوں میں لوہے کے طوق ڈال دیے ہیں، پھر وہ ان کی ٹھوڑیوں تک اڑ گئے ہیں جس سے ان کے سر اوپر ہی کو اٹھے رہ گئے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨ { اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِہِمْ اَغْلٰلاً فَہِیَ اِلَی الْاَذْقَانِ فَہُمْ مُّقْمَحُوْنَ } ” ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں اور وہ ان کی ٹھوڑیوں تک ہیں ‘ پس ان کے سر اونچے اٹھے رہ گئے ہیں۔ “ یعنی ان کی کیفیت اس شخص کی سی ہے جس کی گردن میں طوق پڑا ہو اور وہ طوق اس کی ٹھوڑی کے نیچے جاپھنسا ہو۔ ایسے شخص کے چہرے کا رخ مستقل طور پر اوپر کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا۔ مطلب یہ کہ تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ لوگ واضح حقائق کو بھی دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 "Fetters" in this verse implies their own stubbornness which was preventing them from accepting the truth. "Which reach to their chins" and "their standing with heads upright" implies the stiffness of the neck which is caused by pride and haughtiness. Allah means to impress this: "We have made their obstinacy and stubbornness the fetters of their neck, and their pride and haughtiness has made them so stiff-necked that they will not pay heed to any reality, however clear and evident it may be."

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :6 اس آیت میں طوق سے مراد ان کی اپنی ہٹ دھرمی ہے جو ان کے لیے قبول حق میں مانع ہو رہی تھی ۔ ٹھوڑیوں تک جکڑے جانے اور سر اٹھائے کھڑے ہونے سے مراد وہ گردن کی اکڑ ہے جو تکبر اور نخوت کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ ہم نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ان کی گردن کا طوق بنا دیا ہے ، اور جس کبر و نخوت میں یہ مبتلا ہیں اس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑ گئی ہیں کہ اب خواہ کوئی روشن حقیقت بھی ان کے سامنے آ جائے ، یہ اس کی طرف التفات کر کے نہ دیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: یہ ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو بیان کرنے کے لئے ایک استعارہ اور مجازی تعبیر ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے صاف صاف ظاہر ہونے کے باوجود ان لوگوں نے اس طرح ہٹ دھرمی کی روش اختیار کی ہے کہ اپنے آپ کو حق کے دیکھنے سے محروم کرلیا ہے، جیسے ان کے گلوں میں طوق پڑے ہوئے ہوں، اور ان کے ہر طرف ایسی دیوریں کھڑی ہوں کہ ان کو کچھ سمجھائی نہ دے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(36:8) اغلالا۔ طوق۔ غل کی جمع۔ نیز ملاحظہ ہو (34:33) ۔ فھی۔ میں ضمیرھی واحد مؤنث غائب اغلالا کے لئے ہے۔ الاذقان۔ ذقن کی جمع۔ ٹھوڑیاں۔ مقمحون۔ اسم مفعول جمع مذکر، مقمح واحد اقماح (افعال) مصدر قمح مادہ۔ وہ لوگ جو گردن پھنسنے کی وجہ سے سر اوپر کو اٹھائے ہوئے ہوں۔ قمح اس گیہوں کو کہتے ہیں جو پکنے کے وقت سے لے ذخیرہ اندوزی تک بالی کے اندر ہی رکھا جائے اور اس گیہوں سے جو ستو بنایا جاتا ہے اسے قمیحۃ کہتے ہیں (اور ستو کی مناسبت سے ) کوئی چیز پھانکنے کے لئے سر اوپر اٹھانے کو القمح کہا جاتا ہے پھر محض سر اٹھانے پر (خواہ کسی وجہ سے ہو) قمح کہا جانے لگا۔ چناچہ کہا جاتا ہے قمح البعیر اونٹ نے (سیر کے بعد حوض سے ) سر اوپر اٹھا لیا۔ فہم مقمحون۔ بمعنی تو ان کے سر اوپر اٹھ رہے ہیں یعنی ٹھوڑیوں تک طوق ہونے کی وجہ سے ان کی گردنیں اوپر اچکی ہوئی ہیں۔ ان کی آنکھیں بند ہوئی ہیں کسی چیز کو دیکھ نہیں سکتیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 مطلب یہ ہے کہ طوقوں کی وجہ سے وہ نہ سر جھکا سکتے ہیں، اور نہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہاں طوق کا لفظ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہدایت سے محروم ہونے کیلئے بطور مثال ذکر کیا گیا ہے۔ ( ابن کثیر) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی اٹھے رہ گئے نیچے کو نہیں ہوسکتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی اکثریت کیوں ایمان نہیں لاتی ؟ ایمان کی دولت پانے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنی انا اور جہالت سے کنارہ کش ہوجائے۔ جو شخص جہالت اور انا پرستی نہیں چھوڑتا درحقیقت وہ متکبر ہوتا ہے۔ متکبر انسان حقیقت اور سچائی کو تسلیم کرنا اپنے لیے عار سمجھتا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی جس بنا پر ان کے بڑوں نے یہ کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبّوت کا انکار کیا اور کہا کہ نبّوت مکہ یا طائف کے بڑے سرداروں میں سے فلاں کو ملنا چاہیے تھی۔ کچھ لوگوں نے آباء و اجداد کی رسومات کا بہانہ بنا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے اجتناب کیا۔ اس طرح وہ مختلف قسم کے تعصبات اور فخر و غرور میں مبتلا تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑی ہوئی تھیں جیسے ان کی گردنوں میں لوہے کے طوق پڑے ہوئے ہوں۔ جس کی وجہ سے ان کے سر نہیں جھکتے۔ اس استکبار کی وجہ سے مکہ والوں کی حالت یوں ہوچکی تھی جیسے ان کے آگے پیچھے دیوار کھڑی کردی گئی ہو اور ان کے چہروں پر پردہ ڈال دیا گیا ہو جس وجہ سے وہ نہ ہدایت کی طرف آسکتے ہیں اور نہ ہی چشم بصیرت سے دیکھ سکتے ہیں۔ جس شخص یا قوم کی یہ حالت ہوجائے ظاہر ہے کہ اسے کوئی بھی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔ انہیں سمجھانا اور نہ سمجھانا یکساں ہوا کرتا ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ اے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محبوب آپ ! انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اسی بات کو سورة البقرہ کی آیت ٧ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ان کو عظیم عذاب ہوگا “ البقرۃ کی آیت گیارہ میں فرمایا کہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں اب یہ ہدایت نہیں پائیں گے۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِيْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔ ) “ مسائل ١۔ ہدایت کے مقابلے میں تعصب اور تکبر اختیار کرنے والوں کے آگے پیچھے دیوار کردی جاتی ہے۔ ٢۔ گمراہی پر مطمئن ہونے والوں کو سمجھانا اور نہ سمجھانا برابر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن گمراہ لوگوں کی حالت : ١۔ جو ایمان کو کفر کے ساتھ بدل دے وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔ (البقرۃ : ١٠٨) ٢۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النّساء : ١١٦) ٣۔ جو اللہ کے ساتھ کفر کرے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (النساء : ١٣٦) ٤۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ گمراہ ہوگیا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٥۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (الرّعد : ٣٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال کے ساتھ فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ( البقرۃ : ٢٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پامال کرنے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (المائدۃ : ١٢) ٨۔ کفار سے دلی دوستی کرنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ : ١) ٩۔ دین کے معاملات میں غلو کرنے والا سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ : ٧٧) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (ابراہیم : ٣٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انا جعلنا فی اعناقھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فھم لا یبصرون (36: 8 – 9) ” ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے ہیں جن سے وہ ٹھوڑیوں تک جکڑے گئے ہیں ، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کردی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے۔ ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے۔ انہیں اب کچھ نہیں سوجھتا “۔ ان کے ہاتھ طوقوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ پھر یہ ان کی گردنوں کے ساتھ بندھے ہیں اور ان کی ٹھوڑیوں کے نیچے جکڑ دئے گئے ہیں۔ اس طرح ان کے سر مجبوراً اوپر کی طرف اٹھ گئے ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے سامنے کی طرف نیچے راستے کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ چونکہ وہ اس بری حالت میں ہیں۔ اس لیے نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ کچھ کرسکتے ہیں۔ پھر ان کے آگے بھی ایک دیوار ہے اور پیچھے بھی ایک دیوار ہے۔ اس طرح وہ کسی طرح بھی حق تک پہنچنے کے اہل ہی نہیں رہے۔ یہ کسے ہوئے ہیں لہٰذا دیکھ نہیں سکتے۔ آگے پیچھے دیواریں ہیں جن سے ان کی نظریں پار نہیں ہوسکتیں۔ خود اپنی اپنی نالائقی اور بدعملی کی وجہ سے وہ اس نفسیاتی حالت تک پہنچے ہیں۔ یہ منظر حسی ہے اور بڑا شدید منظر ہے لیکن روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بیشمار لوگ ملتے ہیں جن کے بارے میں انسان اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ یہ لوگ واضح سچائی کو نہیں دیکھ پا رہے۔ لہٰذا ان کے سامنے ایسے پردے اور ایسی دیواریں حائل ہیں کہ وہ ان سے اس پار نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ہاتھ پاؤں یوں بندھے ہوئے نہ بھی ہوں اور ان کے سر اوپر کی طرف کس نے بھی دئیے گئے ہوں کہ وہ اوپر ہی کو دیکھ سکتے ہوں ، بلکہ وہ بظاہر صحیح سالم اور آزاد ہوں لیکن ان کی نفسیاتی حالت ایسی ہی ہوتی ہے ، کہ وہ اپنی بصیرت کے ذریعے ہدایت کو نہیں دیکھ پاتے اور دلائل ہدایت اور ان کی سوچ کے درمیان غیر مرئی دیواریں حائل نظر آتی ہیں۔ یہی حالت مکہ کے ان لوگوں کی تھی جنہوں نے قرآن کا استقبال ایسی ہی نفسیاتی حالت کے ساتھ کیا۔ قرآن ان کے سامنے صاف صاف دلائل و نشانیاں پیش کرتا اور وہ انکار پر مصر رہتے۔ پیش کردہ دلائل کے علاوہ قرآن تو بذات خود معجزانہ دلیل اور نشانی تھا جس کے مقابلے میں کوئی صاحب بصیرت انسان نہیں ٹھہر سکتا تھا مگر یہ لوگ انکار پر مصر رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد منکرین کے ایک عذاب کا تذکرہ فرمایا (اِنَّا جَعَلْنَا فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ ) (الآیۃ) کہ ہم ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیں گے یہ طوق ٹھوڑیوں تک ہیں (اور ہاتھ بھی اوپر ہی ان طوقوں میں بندھے ہوئے ہوں گے) لہٰذا ان لوگوں کی کیفیت ایسی ہوجائے گی کہ ان کے سر اوپر ہی کو اٹھے ہوئے رہ جائیں گے نیچے کو نہ جھکا سکیں گے۔ علامہ قرطبی (رض) (جلد ١٥: ص ٩) نے بعض حضرات سے آیت کا یہ مفہوم نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ اہل کفر کے ساتھ یہ معاملہ دوزخ میں ہوگا اور سورة المومن کی آیت کریمہ (اِذِ الْاَغْلٰلُ فِیْ اَعْنَاقِھِمْ وَالسَّلٰسِلُ ) سے استدلال کیا ہے، بظاہر یہ رائے ٹھیک ہے اس میں مجاز اور تمثیل کا ارتکاب نہیں کرنا پڑتا۔ آیات بالا کا شان نزول : اور صاحب روح المعانی نے بحوالہ دلائل النبوۃ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن (مسجد میں) بلند آواز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے قریش مکہ کو اس سے تکلیف ہوئی وہ لوگ جمع ہو کر آپ کے قریب آئے تاکہ آپ کو پکڑ لیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود ان کی پکڑ ہوگئی، ان لوگوں کے ہاتھ گردنوں تک پہنچ کر جام ہوگئے اور نظر آنا بھی بند ہوگیا۔ جب یہ حال ہوا تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم آپ کو اللہ تعالیٰ اور رشتہ داری کے واسطہ دیتے ہیں دعا کیجیے کہ ہماری مصیبت دور ہوجائے، آپ نے ان کے لیے دعا کردی جس سے ان کی وہ حالت ختم ہوگئی اور (یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ) سے لے کر (اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ) تک آیات نازل ہوئیں، لیکن ان میں سے ایک شخص بھی ایمان نہ لایا۔ اس قصہ میں یہ تصریح ہے کہ جب ان لوگوں نے آپ کو پکڑنے کا ارادہ کیا تو ان کی یہ حالت ہوئی کہ ان کے ہاتھ گردنوں سے چپک کر رہ گئے۔ ١ ؂ اگر دنیا میں بھی ایسا واقعہ ہوا ہو جو حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اور آخرت میں اس سے بڑھ کر ہوجائے تو اس میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ صاحب روح المعانی نے ایک قصہ بھی لکھا ہے کہ ایک دن ابو جہل نے پتھر اٹھایا تاکہ آپ پر حملہ کرے، آپ نماز پڑھ رہے تھے، ابو جہل کا ہاتھ گردن تک اٹھا اور وہیں جاکر چپک گیا، وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، کیا دیکھتے ہیں کہ پتھر اس کے ہاتھ میں اور اس کا ہاتھ گردن سے چپکا ہوا ہے، ان لوگوں نے بڑی محنت اور مشقت سے اس کا ہاتھ گردن سے چھڑایا، پھر اس پتھر کو بنی مخزوم کے آدمی نے لے لیا جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ کی روشنی ختم کردی اور وہ واپس لوٹا تو اس کے ساتھی اسے نظر نہ آ رہے تھے انہوں نے آواز دے کر اسے اپنے پاس بلالیا، اب تیسرا شخص اٹھا اس نے پتھر لیا اور یوں کہتا ہوا چلا کہ میں ان کا سر پھوڑوں گا، تھوڑا سا چلا کہ فوراً ایڑھیوں کے بل پیچھے لوٹا یہاں تک کہ گدی کے بل گرپڑا کسی نے کہا ارے تجھے کیا ہوا ؟ کہنے لگا کہ بہت بڑا حادثہ ہوگیا وہ یہ کہ میں جب ان کے قریب گیا تو دیکھتا ہوں کہ وہاں ایک بہت بڑا اونٹ ہے، ایسا اونٹ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، یہ اونٹ میرے اور ان کے درمیان حائل ہوگیا، پھر بتوں کی قسم کھا کر کہا اگر میں ان کے قریب چلا جاتا تو یہ اونٹ مجھے کھائے بغیر نہ چھوڑتا۔ یہ قصہ لکھ کر صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ (اگر اس قصے کو سبب نزول مانا جائے تو) طوق ڈالنا اور آگے پیچھے آڑ بن جانا یہ سب استعارہ ہوگا یعنی وہ تینوں حملہ کرنے والے پیچھے ہٹ گئے اور حملہ نہ کرسکے، ایسے بےبس ہوگئے جیسے کسی کا ہاتھ گردن سے بندھ جائے اور آنکھوں کی روشنی چلی جائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ انا جعلنا الخ یہ ان کے ایمان نہ لانے کی علت ہے یعنی مہر جباریت کا بیان ہے۔ ثم بین سبب ترکھم الایمان فقال انا جعلنا فی اعنقاھم اغلالا۔ (قرطبی ج 15 ص 7) ۔ یہ مہر جباریت کی پہلی تمثیل ہے مشرکین جو ضد اور عناد کی وجہ سے حق کا انکار کرتے ہیں ان کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جن کے گلوں میں ٹھوریوں تک طوق ڈالے گئے ہوں اور ان کے سر اوپر کو اٹھ جائیں اور وہ نیچے نگاہ کر کے راستہ نہ دیکھ سکیں اور نہ گردنوں کو ادہر ادہر موڑ سکیں یہی حال ان معاندین کا ہے کہ عناد و مکابرہ کی وجہ سے وہ حق کی طرف التفات نہیں کرتے نہ حق کے سامنے سر جھکاتے ہیں۔ وجعلنا من بین ایدیہم سدا الخ یہ دوسری تمثیل ہے ان معاندین کی مثال ان لوگوں کی مانند ہے جو ایک طرف تو چار دیوار میں گھرے ہوئے ہوں اور علاوہ ازیں اندھے بھی ہوں جس طرح انہیں بھی کچھ نظر نہیں آتا اسی طرح معاندین ضد اور عناد کی چار دیوار میں گھرے ہوئے ہیں طغیان اور تعنت نے انہیں نور بصیرت سے محروم کردیا ہے۔ اس لیے وہ راہ حق کو نہیں دیکھ سکتے۔ ھذا علی طریق التمثیل ولم یکن ھناک غل ولا سد اراد واللہ سبحانہ انا منعنا ھم عن الایمان بموانع فجعل الاغلال و السد مثلا لذلک فھو تقریر لتصمیہم علی الکفر والطبع علی قلوبھم بحیث لا یغنی عنہم الایات والنذر الخ (مظہری ج 8 ص 73) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں اور وہ طوق ان کی ٹھوڑیوں تک پہنچ گئے ہیں جن کی وجہ سے ان کے سر اوپر کو اٹھے کے اٹھے رہ گئے ہیں۔ یعنی ان کے کفروعناد اور ان کی شقاوت و بدبختی کی مثال ایسی ہے جیسے ہم نے ان کے گلے میں بھاری اور موٹے موٹے طوق ڈال دیئے جن کی وجہ سے ان کے سر نیچے نہیں ہوسکتے کہ یہ سیدھی راہ اختیار کرسکیں کسی جانب التفات ہی نہیں کرسکتے۔ غرض ان کی بداعمالیاں ان کے گلے کا ہار بن گئی ہیں جو ان کو راہ حق کی طرف مائل نہیں ہونے دیں گی۔ ہم سورة بقر میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرچکے ہیں وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ ایک برائی سے دوسری برائی پیدا ہوتی ہے اور آخر نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ حق کو ناحق اور ناحق کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ العیاذ باللہ آگے دوسری مثال ان کی گمراہی کی بیان فرمائی۔