Surat un Nissa

Surah: 4

Verse: 84

سورة النساء

فَقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۚ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفۡسَکَ وَ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّکُفَّ بَاۡسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ اَشَدُّ بَاۡسًا وَّ اَشَدُّ تَنۡکِیۡلًا ﴿۸۴﴾

So fight, [O Muhammad], in the cause of Allah ; you are not held responsible except for yourself. And encourage the believers [to join you] that perhaps Allah will restrain the [military] might of those who disbelieve. And Allah is greater in might and stronger in [exemplary] punishment.

تُو اللہ تعالٰی کی راہ میں جہاد کرتا رہ تجھے صرف تیری ذات کی نسبت حکم دیا جاتا ہے ہاں ایمان والوں کو رغبت دلاتا رہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی کافروں کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالٰی سخت قوّت والا ہے اور سزا دینے میں بھی سخت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Commands His Messenger to Perform Jihad Allah commands; فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ... Then fight in the cause of Allah, Allah commands His servant and Messenger, Muhammad , to himself fight in Jihad and not to be concerned about those who do not join Jihad. Hence Allah's statement, ... لااَ تُكَلَّفُ إِلااَّ نَفْسَكَ ... you are not tasked (held responsible) except for yourself, Ibn Abi Hatim recorded that Abu Ishaq said, "I asked Al-Bara bin Azib about a man who meets a hundred enemies and still fights them, would he be one of those referred to in Allah's statement, وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (And do not throw yourselves into destruction (by not spending your wealth in the cause of Allah). (2:195) He said, `Allah said to His Prophet, فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُوْمِنِينَ (Then fight in the cause of Allah, you are not tasked (held responsible) except for yourself, and incite the believers (to fight along with you))." Imam Ahmad recorded Sulayman bin Dawud saying that Abu Bakr bin Ayyash said that Abu Ishaq said, "I asked Al-Bara, `If a man attacks the lines of the idolators, would he be throwing himself to destruction?' He said, `No, because Allah has sent His Messenger and commanded him, فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللّهِ لاَ تُكَلَّفُ إِلاَّ نَفْسَكَ (Then fight in the cause of Allah, you are not tasked (held responsible) except for yourself). That Ayah is about spending (in Allah's cause)." Inciting the Believers to Fight Allah said, ... وَحَرِّضِ الْمُوْمِنِينَ ... and incite the believers, to fight, by encouraging them and strengthening their resolve in this regard. For instance, the Prophet said to the believers at the battle of Badr, while organizing their lines, قُومُوا إِلى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّموَاتُ وَالاَْرْض Stand up and march forth to a Paradise, as wide as the heavens and Earth. There are many Hadiths that encourage Jihad. Al-Bukhari recorded that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, مَنْ امَنَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَأَقَامَ الصَّلَةَ وَاتَى الزَّكَاةَ وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّـةَ هَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللهِ أَوْ جَلَسَ فِي أَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا Whoever believes in Allah and His Messenger, offers prayer, pays the Zakah and fasts the month of Ramadan, will rightfully be granted Paradise by Allah, no matter whether he migrates in Allah's cause or remains in the land where he is born. The people said, `O Allah's Messenger! Shall we acquaint the people with this good news!' He said, إِنَّ فِي الْجَنَّـةِ مِايَةَ دَرَجَةٍ أَعَدَّهَا اللهُ لِلْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالاَْرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّهُ وَسَطُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَى الْجَنَّةِ وَفَوْقَهُ عَرْشُ الرَّحْمنِ وَمِنْهُ تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّة Paradise has one hundred grades which Allah has reserved for the Mujahidin who fight in His cause, the distance between each two grades is like the distance between the heaven and the Earth. So, when you ask Allah, ask for Al-Firdaws, which is the best and highest part of Paradise, above it is the Throne of the Most Beneficent (Allah) and from it originate the rivers of Paradise. There are various narrations for this Hadith from Ubadah, Mu`adh, and Abu Ad-Darda'. Abu Sa`id Al-Khudri narrated that the Messenger of Allah said, يَا أَبَا سَعِيدٍ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا وَبِالاْاِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍصلى الله عليه وسلّم نَبِيًّا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّـة O Abu Sa`id! Whoever accepts Allah as his Lord, Islam as his religion and Muhammad as the Prophet, then he would rightfully acquire Paradise. Abu Sa`id liked these words and said, "O Allah's Messenger! Repeat them for me." The Prophet repeated his words, then said, وَأُخْرَى يَرْفَعُ اللهُ الْعَبْدَبِهَا مِايَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّـةِ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالاْأَرْض And (there is) another deed for which Allah raises the servant a hundred grades in Paradise, between each two grades is the distance between heaven and Earth. Abu Sa`id said, "What is it, O Allah's Messenger!" He said, الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ الله Jihad in Allah's cause. This Hadith was collected by Muslim. Allah's statement, ... عَسَى اللّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ ... it may be that Allah will restrain the evil might of the disbelievers. means, by your encouraging them to fight, their resolve will be strengthened to meet the enemy in battle, to defend Islam and its people and to endure and be patient against the enemy. Allah's statement, ... وَاللّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلً And Allah is Stronger in might and Stronger in punishing. means, He is able over them in this life and the Hereafter, just as He said in another Ayah, ذَلِكَ وَلَوْ يَشَأءُ اللَّهُ لاَنْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ But if it had been Allah's will, He Himself could certainly have punished them (without you). But (He lets you fight) in order to test some of you with others. (47:4) Interceding for a Good or an Evil Cause Allah said,

حکم جہاد امتحان ایمان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ تنہا اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں چاہیے کوئی بھی آپ کا ساتھ نہ دے ، ابو اسحاق حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان اکیلا تنہا ہو اور دشمن ایک سو ہوں تو کیا وہ ان سے جہاد کرے؟ آپ نے فرمایا ہاں تو کہا پھر قرآن کی اس آیت سے تو ممانعت تاکید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے ہاتھوں آپ ہلاکت میں نہ پڑو تو حضرت براء نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسی آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے اللہ کی راہ میں لڑ تجھے فقط تیرے نفس کی تکلیف دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مومنوں کو بھی اس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکنے والا ہے اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت ہلاکت اتری تو آپ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا مجھے میرے رب نے جہاد کا حکم دیا ہے پس تم بھی جہاد کرو یہ حدیث غریب ہے ۔ پھر فرماتا ہے مومنوں کو دلیری دلا اور انہیں جہاد کی رغبت دلا ، چنانچہ بدر والے دن میدان جہاد میں مسلمانوں کی صفیں درست کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا اٹھو اور بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہے ، جہاد کی ترغیب کی بہت سی حدیثیں ہیں ، بخاری میں ہے جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، صلوۃ قائم کرے ، زکوٰۃ دیتا رہے ، رمضان کے روزے رکھے اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہو جہاں پیدا ہوا ہے وہیں ٹھہرا رہا ہو ، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری ہم نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا سنو جنت میں سو درجے ہیں جن میں سے ایک درجے میں اس قدر بلندی ہے جتنی زمین و آسمان میں اور یہ درجے اللہ نے ان کے لئے تیار کیے ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کریں ۔ پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ بہترین جنت ہے اور سب سے اعلیٰ ہے اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں ، مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول و نبی ہونے پر راضی ہو جائے اس کے لئے جنت واجب ہے حضرت ابو سعید اسے سن کر خوش ہو کر کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ ارشاد ہو آپ نے دوبارہ اسی کو بیان فرما کر کہا ایک اور عمل ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سو درجے بلند کرتا ہے ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنی بلندی ہے جتنی آسان و زمین کے درمیان ہے پوچھا وہ عمل کیا ہے؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد ۔ ارشاد ہے جب آپ جہاد کے لئے تیار ہو جائیں گے مسلمان آپ کی تعلیم سے جہاد پر آمادہ ہو جائیں گے تو پھر اللہ کی مدد شامل حال ہو گی اللہ تعالیٰ کفر کی کمر توڑ دے گا کفار کی ہمت پست کر دے گا ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے پھر کیا مجال کہ دنیا میں بھی انہیں مغلوب کرے اور یہیں انہیں عذاب بھی دے اسی طرح آخرت میں بھی اسی کو قدرت حاصل ہے ، جیسے اور آیت میں ہے ۔ ( وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ) 47 ۔ محمد:4 ) اگر اللہ چاہے ان سے از خود بدلہ لے لے ، لیکن وہ ان کو اور تمہیں آزما رہا ہے ۔ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے تو اسے بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے گا ، اور جو اس کے خلاف کوشش کرے اور بد نتیجہ برآمد کرے اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہوگا ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں سفارش کرو اجر پاؤ گے اور اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر وہ جاری کرے گا جو چاہے ، یہ آیت ایک دوسرے کی سفارش کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس مہربانی کو دیکھئے فرمایا محض شفاعت پر ہی اجر مل جائے گا خواہ اس سے کام بنے یا نہ بنے ، اللہ ہر چیز کا حافظ ہے ، ہر چیز پر حاضر ہے ، ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ، ہر چیز پر قادر ہے ، ہر چیز کو دوام بخشنے والا ہے ، ہر ایک کو روزی دینے والا ہے ، ہر انسان کے اعمال کا اندازہ کرنے والا ہے ۔ سلام کہنے والے کو اس سے بہتر جواب دو : مسلمانو! جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ سے اس کا جواب دو ، یا کم سے کم انہی الفاظ کو دوہرا دو پس زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے ، ابن جریر میں ہے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا السلام علیکم یا رسول اللہ آپ نے فرمایا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے السلام علیک ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ نے جواب میں فرمایا وعلیک تو اس نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلاں اور فلاں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا کچھ زیادہ دعائیہ الفاظ کے ساتھ دیا جو مجھے نہیں دیا آپ نے فرمایا تم نے ہمارے لئے کچھ باقی ہی نہ چھوڑا اللہ کا فرمان ہے جب تم پر سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اسی کو لوٹا دو اس لئے ہم نے وہی الفاظ لوٹا دئیے یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی اسی طرح مروی ہے ، اسے ابو بکر مردویہ نے بھی روایت کیا مگر میں نے اسے مسند میں نہیں دیکھا واللہ اعلم اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کے کلمات میں سے زیادتی نہیں ، اگر ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس آخری صحابی کے جواب میں وہ لفظ کہہ دیتے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص حضور کے پاس آئے اور السلام علیکم یارسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ملیں ، دوسرے آئے اور السلام علیکم ورحمتہ اللہ یا رسول اللہ کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ملیں ، پھر تیسرے صاحب آئے انہوں نے کہا السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ملیں ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کو عام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خلق اللہ میں سے جو کوئی سلام کرے گا اسے جواب دو گو وہ مجوسی ہو ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں سلام کا اس سے بہتر جواب دینا تو مسمانوں کے لئے ہے اور اسی کو لوٹا دینا اہل ذمہ کے لئے ہے ، لیکن اس تفسیر میں ذرا اختلاف ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے مراد یہ ہے کہ اس کے سلام سے اچھا جواب دیں اور اگر مسلمان سلام کے سبھی الفاظ کہہ دے تو پھر جواب دینے والا انہی کو لوٹادے ، ذمی لوگوں کو خود کریں تو جواب میں اتنے ہی الفاظ کہدے ، بخاری و مسلم میں ہے جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے تو خیال رکھو یہ کہ دیتے ہیں السام علیک تو تم کہ دو و علیک صحیح مسلم میں ہے یہود و نصاری کو تم پہلے سلام نہ کرو اور جب راستے میں مڈ بھیڑ ہو جائے تو انہیں تنگی کی طرف مضطر کر ، امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سلام نفل ہے اور جواب سلام فرض ہے اور علماء کرام کا فرمان بھی یہی ہے ، پس اگر جواب نہ دے گا تو گنہگار ہو گا اس لئے کہ جواب سلام کا اللہ کا حکم ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی توحید بیان فرماتا ہے اور الوہیت اور اپنا یکتا ہونا ظاہر کرتا ہے اور اس میں ضمنی مضامین بھی ہیں اسی لئے دوسرے جملے کو لام سے شروع کیا جو قسم کے جواب میں آتا ہے ، تو اگلا جملہ خبر ہے اور قسم بھی ہے کہ وہ عنقریب تمام مقدم و موخر کو میدان محشر میں جمع کرے گا اور وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ، اس اللہ سمیع بصیر سے زیادہ سچی بات والا اور کوئی نہیں ، اس کی خبر اس کا وعدہ اس کی وعید سب سچ ہے ، وہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی مربی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٧] یعنی اگر آپ ہر قت اللہ کی راہ میں لڑنے کو تیار رہیں گے اور مسلمانوں کو بھی ترغیب دیتے رہیں گے تو مسلمان یقینا آپ کے ساتھ مل کر جہاد پر کمر بستہ ہوجائیں گے۔ جس کا اثر یہ ہوگا کہ دشمن آپ کی حرکات اور سکنات دیکھ کر خود ہی لڑائی کے ارادہ سے رک جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا اور انہوں نے حملہ کی ٹھان لی تو اللہ ان سے نمٹنے پر قادر ہے اور انہیں خوب سزا دے سکتا ہے (جیسا کہ جنگ خندق میں فی الواقع ہوا تھا) بہرحال آپ کو جہاد کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ۔۔ : اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب دی، اس کے بعد منافقین کی سر گرمیوں کا ذکر کیا اور اب اس آیت میں فرمایا کہ آپ ان منافقین کے ساتھ ہونے یا نہ ہونے کی پروا نہ کریں، آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ خود جہاد کے لیے نکلیں اور دوسرے مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔ ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا : ” جو شخص مشرکوں پر حملہ کرتا ہے تو کیا وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہے ؟ “ انھوں نے جواب دیا : ” نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مبعوث کیا اور ان سے فرمایا : ( فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ ) اور جس آیت کا آپ حوالہ دے رہے ہیں : ( وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ) [ البقرۃ : ١٩٥ ] اس کا تعلق تو اللہ کے رستے میں خرچ کرنے ( اور نہ کرنے) سے ہے۔ “ [ مسند أحمد : ٤؍٢٨١، ح : ١٨٥٠٦ ] اس سے معلوم ہوا کہ جہاد کے لیے کئی شرطیں لوگ اپنے پاس ہی سے بنا لی ہیں۔ 2 عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ : اللہ تعالیٰ کے لیے ” عسٰی “ کا لفظ یقین کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، پس آیت میں وعدہ کیا جا رہا ہے کہ عنقریب کفار کا زور ٹوٹ جائے گا اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The Background of Revelation When the battle of Uhud came to pass in the month of Shawwal, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، in keeping with the promised date set by the disbelievers, started preparations to confront them at Badr in the month of Dhi-Qa&dah (historians identify which as the minor Badr). At that time, some people betrayed a little hesitation in going along because of having been recently wounded, while some others did so because of rumours. Thereupon, Allah Almighty revealed this verse where guidance has been given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he should ignore the infirm and the scared among Muslims and show no hesitation in marching on to Jihad even if it has to be all alone, for Allah is his helper. With this guidance on hand, he went ahead to Badr Minor with seventy Companions as promised to Abu Sufyan after the battle of Uhud. There it so happened that Allah Almighty put awe and fear in the hearts of Abu Sufyan and his disbelieving accomplices from the tribe of Quraysh. Not one of them showed up for the fight as a result of which they turned out to be false in their solemn promise. Thus, as the text says, Allah Almighty prevented the mischief of the disbelievers and the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم returned back with his companions safely (Qurtubi & Mazhari). The Eloquent style of Qur&anic Injunctions The verse begins with the command to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : &So, fight in the way of Allah&. This direction is addressed to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which implies that he should fight alone - irre¬spective of whether anyone is ready to go with him. But, in the second sentence following immediately, it was also said that he should not shelve or surrender the mission of inducing other Muslims to join in the Jihad. However, if they remain unresponsive even after the effort of persuasion, the mission of the prophet has been accomplished who, from that point onwards, will not be responsible for what they do. In addition to this, the possible danger in having to fight alone has been removed by saying: &It is likely that Allah will prevent the mischief of those who disbelieve&: May be He puts awe in their hearts and they stand subdued and he succeeds all alone. How could such success become possible? The proof follows immediately when it is declared that he is being helped and supported by Allah Almighty whose strength and might at war far exceeds those of such disbe¬lievers, therefore, it is certain that success has got to be his. After that, coupled with this statement about the Divine strength in war, the text relates how Allah is the mightiest in punishing. This punishment may be on the Day of Judgement as obvious, or may come right here in this mortal world as stated by some commentators. Whichever the case, &Allah is the strongest in war and the mightiest in punishing.&

خلاصہ تفسیر (جب جہاد کی ضرورت معلوم ہوئی) پس آپ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی راہ میں (کفار سے) قتال کیجئے (اور اگر فرضاً کوئی آپ کے ساتھ نہ ہو تو کچھ فکر نہ کیجئے کیونکہ) آپ کو بجز آپ کے ذاتی فعل کے (دوسرے شخص کے فعل کا) کوئی حکم نہیں اور (اس کے ساتھ) مسلمانوں کو (صرف) ترغیب دیدیجئے (پھر اگر کوئی ساتھ نہ دے تو آپ بری الذمہ ہیں نہ تو باز پرس کی فکر کیجئے جس کی وجہ مذکور ہوچکی اور نہ تنہا رہ جانے کا غم کیجئے جس کی وجہ یہ ہے کہ) اللہ تعالیٰ سے امید ہے ( اور یہ امید دلانا وعدہ ہے) کہ کافروں کے زور جنگ کو روک دیں گے (اور ان کو مغلوب کردیں گے) اور (گو یہ بڑے زور دار نظر آتے ہیں لیکن) اللہ تعالیٰ اور جنگ میں (ان سے بمداح بےشمار) زیادہ شدید (اور قوی) ہیں اور (مخالف کو) سخت سزا دیتے ہیں۔ معارف و مسائل شان نزول :۔ جب غزوہ احد شوال میں ہوچکا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذیقعدہ میں کفار کے وعدہ کے موافق بدر میں مقابلہ کے لئے جانا چاہا (جس کو مورخین بدر صغری کے نام سے تعبیر کرتے ہیں) اس وقت بعض لوگوں نے تازہ زخمی ہونے کی وجہ سے اور بعض نے افواہیں خبروں کی وجہ سے جانے میں کچھ تامل کیا، تو اللہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت کی گئی کہ اگر یہ کچے مسلمان لڑائی سے ڈرتے ہیں تو اسے رسول تم تنہا اپنی ذات سے جہاد کرنے میں توقف مت کرو اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے، اس ہدایت کو پاتے ہی آپ ستر ہمراہیوں کے ساتھ بدر صغری کو تشریف لے گئے، جس کا وعدہ ابوسفیان کے ساتھ غزوہ احد کے بعد ہوا تھا، حق تعالیٰ نے ابوسفیان اور کفار قریش کے دل میں رعب اور خوف ڈال دیا اور کوئی مقابلہ میں نہ آیا اور وہ اپنے وعدے سے جھوٹے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد کے موافق کافروں کی لڑائی کو بند کردیا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں سمیت سلامتی کے ساتھ واپس تشریف لے آئے۔ (قرطبی، مظہری) قرآنی احکام کا حسن اسلوب :۔ فقاتل فی سبیل اللہ الخ اس آیت کے پہلے جملہ میں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہا آپ تن تنہا جہاد و قتال کے لئے تیار ہوجائیے، کوئی دوسرا آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو یا نہ ہو، مگر ساتھ ہی دوسرے جملہ میں یہ بھی ارشاد فرما دیا کہ دوسرے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دینے کا کام بھی چھوڑیں نہیں، ترغیب کے بعد بھی وہ تیار نہ ہوں تو آپ اپنا فرض ادا کرچکے، ان کے فعل کی آپ سے بازپرس نہ ہوگی۔ اسی کے ساتھ تن تنہا جنگ کرنے میں جو خطرہ ہوسکتا تھا اس کے ازالہ کے لئے فرمایا کہ اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور ان کو مرعوب و مغلوب کر دے اور آپ کو تنہا ہی کامیاب کر دے، پھر اس کے بعد اس کامیاب ہونے پر دلیل بیان فرمائی کہ جب اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے ساتھ ہے جس کی قوت جنگ اور زور جنگ ان کافروں سے بدر جہا زیادہ ہے تو پھر کامیابی بھی یقینا آپ ہی کی ہے، پھر اسی شدت باس کے ساتھ اپنی سزا کی شدت بھی بیان فرمائی، یہ سزا خواہ قیامت میں ہو جیسا کہ ظاہر ہے، یا دنیا میں ہو جیسا کہ بعض نے کہا، بہرحال جس طرح جنگ کرنے میں ہماری قوت و طاقت بڑھی ہوئی ہے اسی طرح سزا دینے میں بھی ہماری سزا بہت سخت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝ ٠ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٠ۚ عَسَى اللہُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا۝ ٠ۭ وَاللہُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا۝ ٨٤ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ كلف وصارت الْكُلْفَةُ في التّعارف اسما للمشقّة، والتَّكَلُّفُ : اسم لما يفعل بمشقّة، أو تصنّع، أو تشبّع، ولذلک صار التَّكَلُّفُ علی ضربین : محمود : وهو ما يتحرّاه الإنسان ليتوصّل به إلى أن يصير الفعل الذي يتعاطاه سهلا عليه، ويصير كَلِفاً به ومحبّا له، وبهذا النّظر يستعمل التَّكْلِيفُ في تكلّف العبادات . والثاني : مذموم، وهو ما يتحرّاه الإنسان مراء اة، وإياه عني بقوله تعالی: قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص/ 86] وقول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أنا وأتقیاء أمّتي برآء من التّكلّف» وقوله : لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] أي : ما يعدّونه مشقّة فهو سعة في المآل . ( ک ل ف ) التکلف ۔ کوئی کام کرتے وقت شیفتگی ظاہر کرنا باوجودیکہ اس کے کرنے میں شفقت پیش آرہی ہو اس لئے عرف میں کلفت مشقت کو کہتے ہیں اور تکلف اس کام کے کرنے کو جو مشقت تصنع یا اوپرے جی سے دکھلادے کے لئے کہا جائے اس لئے تکلیف دو قسم پر ہے محمود اور مذموم اگر کسی کا م کو اس لئے محنت سے سر انجام دے کہ وہ کام اس پر آسان اور سہل ہوجائے اور اسے اس کام کے ساتھ شیفتگی اور محبت ہوجائے تو ایسا تکلف محمود ہے چناچہ اسی معنی میں عبادات کا پابند بنانے میں تکلیف کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ اور اگر وہ تکلیف محض ریا کاری کے لئے ہو تو مذموم ہے ۔ چناچہ آیت : قُلْ ما أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَما أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ [ ص/ 86] اور اے پیغمبر ) کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں ۔ میں تکلیف کے یہی معنی مراد ہیں اور حدیث میں ہے (99) انا واتقیاء امتی برآء من التکلف کہ میں اور میری امت کے پرہیز گار آدمی تکلف سے بری ہیں اور آیت ؛لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ جن احکام کو یہ مشقت سمجھتے ہیں وہ مآل کے لحاظ سے ان کے لئے وسعت کا باعث ہیں حرض الحَرَض : ما لا يعتدّ به ولا خير فيه، ولذلک يقال لما أشرف علی الهلاك : حَرِضَ ، قال عزّ وجلّ : حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف/ 85] ، ( ح ر ض ) الحرض اس چیز کو کہتے ہیں جو نکمی ہوجائے اس لئے جو چیز قریب بہ ہلاکت ہوجائے اس کے متعلق حرض کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ حَتَّى تَكُونَ حَرَضاً [يوسف/ 85] یا تو قریب بہ ہلاکت ہوجاؤ گے ۔ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے كف الْكَفُّ : كَفُّ الإنسان، وهي ما بها يقبض ويبسط، وكَفَفْتُهُ : أصبت كَفَّهُ ، وكَفَفْتُهُ : أصبته بالکفّ ودفعته بها . وتعورف الکفّ بالدّفع علی أيّ وجه کان، بالکفّ کان أو غيرها حتی قيل : رجل مَكْفُوفٌ لمن قبض بصره، وقوله تعالی: وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] أي : كافّا لهم عن المعاصي، والهاء فيه للمبالغة کقولهم : راوية، وعلّامة، ونسّابة، وقوله : وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] قيل : معناه : كَافِّينَ لهم كما يقاتلونکم کافّين «2» ، وقیل : معناه جماعة كما يقاتلونکم جماعة، وذلک أن الجماعة يقال لهم الکافّة، كما يقال لهم الوازعة لقوّتهم باجتماعهم، وعلی هذا قوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] ، وقوله : فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] فإشارة إلى حال النادم وما يتعاطاه في حال ندمه . وتَكَفَّفَ الرّجل : إذا مدّ يده سائلا، واسْتَكَفَّ : إذا مدّ كفّه سائلا أو دافعا، واسْتَكَفَّ الشمس : دفعها بكفّه، وهو أن يضع کفّه علی حاجبه مستظلّا من الشمس ليرى ما يطلبه، وكِفَّةُ المیزان تشبيه بالکفّ في كفّها ما يوزن بها، وکذا كِفَّةُ الحبالة، وكَفَّفْتُ الثوب : إذا خطت نواحيه بعد الخیاطة الأولی. ( ک ف ف ) الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھیلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ الکف کے معنی ہاتھ کی ہتھلی کے ہیں جس کے ساتھ انسان چیزوں کو اکٹھا کرتا اور پھیلا تا ہے ۔ کففتہ کے اصل معنی کسی کی ہتھیلیپر مارنے یا کسی کو ہتھلی کے ساتھ مار کر دو ر ہٹا نے اور روکنے کے ہیں پھر عرف میں دور ہٹانے اور روکنے کے معنی میں استعمال ہونے لگانے خواہ ہتھلی سے ہو یا کسی اور چیز سے رجل مکفو ف البصر جس کی مینائی جاتی رہی ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْناكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ [ سبأ/ 28] اور ( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے تم کو گناہوں سے روکنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ میں کافۃ کے معنی لوگوں کو گناہوں سے روکنے والا کے ہیں ۔ اس میں ہا مبالغہ کے لئے ہے ۔ جیسا کہ روایۃ وعلامۃ اور نشابۃ میں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَقاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَما يُقاتِلُونَكُمْ كَافَّةً [ التوبة/ 36] اور تم سب کے سب مشرکون سے لڑو جیسے وہسب کے سب تم سے لڑتے ہیں میں بعض نے دونوں جگہوں میں کا فۃ کے معنیکا فین یعنی روکنے والے کیے ہیں ۔ اور بعض نے یہ معنی کیا ہے ۔ کہ جماعۃ یعنی اجتماعی قوت کی وجہ سے اسے کافۃ بھی کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً [ البقرة/ 208] مومنوں اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ میں بھی کافۃ بمعنی جماعت ہی ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَأَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلى ما أَنْفَقَ فِيها[ الكهف/ 42] تو جو مالی اس نے اس پر خرچ کیا تھا اس پر حسرت سے ہاتھ ملنے لگا ۔ پشمان ہونے والے کی حالت کی طرف اشارہ ہے ۔ کیونکہ انسان پشمانی کی حالت میں ہاتھ ملتا ہے ۔ تکفف الرجل سوال کے لئے ہاتھ پھیلانا استکف سوال یا مدافعت کیلئے ہاتھ پھیلانا استکف الشمس ہتھلی کے ذریعہ دھوپ کو دفع کرتا اور وہ اس طرح کہ دھوپ کی شعا عوں کو روکنے کے لئے ابرؤں پر بطور سایہ ہاتھ رکھ لے تاکہ جس چیز کو دیکھنا مطلوب ہو آسانی سے دیکھی جا سکے ۔ کفۃ المیزان ترازو کا پلڑا ۔ کیونکہ وہ بھی موزوں چیز کو روک لینے میں ہتھیلی کے مشابہ ہوتا ہے ۔ ایسے ہی کفۃ الحبالۃ ہے جس کے معنی شکاری کے پھندا کے ہیں ۔ کففت التوب ۔ کچی سلائی کے بعد کپڑے کے اطراف کو سینا ۔ بؤس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ : الشدة والمکروه، إلا أنّ البؤس في الفقر والحرب أكثر، والبأس والبأساء في النکاية، نحو : وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا [ النساء/ 84] ، فَأَخَذْناهُمْ بِالْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ [ الأنعام/ 42] ، وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْساءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ [ البقرة/ 177] ، وقال تعالی: بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر/ 14] ، وقد بَؤُسَ يَبْؤُسُ ، وبِعَذابٍ بَئِيسٍ [ الأعراف/ 165] ، فعیل من البأس أو من البؤس، فَلا تَبْتَئِسْ [هود/ 36] ، أي : لا تلزم البؤس ولا تحزن، ( ب ء س) البؤس والباس البُؤْسُ والبَأْسُ والبَأْسَاءُ ۔ تینوں میں سختی اور ناگواری کے معنی پائے جاتے ہیں مگر بؤس کا لفظ زیادہ تر فقرو فاقہ اور لڑائی کی سختی پر بولاجاتا ہے اور الباس والباساء ۔ بمعنی نکایہ ( یعنی جسمانی زخم اور نقصان کیلئے آتا ہے قرآن میں ہے { وَاللهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا } ( سورة النساء 84) اور خدا لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے { فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ } ( سورة الأَنعام 42) پھر ( ان کی نافرمانیوں کے سبب ) ہم انہیوں سختیوں اور تکلیفوں میں پکڑتے رہے { وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ } ( سورة البقرة 177) اور سختی اور تکلیف میں اور ( معرکہ ) کا رزا ر کے وقت ثابت قدم رہیں ۔۔ { بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ } ( سورة الحشر 14) ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔ بؤس یبوس ( باشا) بہادر اور مضبوط ہونا ۔ اور آیت کریمہ ۔ { بِعَذَابٍ بَئِيسٍ } ( سورة الأَعراف 165) بروزن فعیل ہے اور یہ باس یابوس سے مشتق ہے یعنی سخت عذاب میں اور آیت کریمہ ؛۔ { فَلَا تَبْتَئِسْ } ( سورة هود 36) کے معنی یہ ہیں کہ غمگین اور رنجیدہ رہنے کے عادی نہ بن جاؤ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ نكل يقال : نَكَلَ عَنِ الشَّيْءِ : ضَعُفَ وعَجَزَ ونَكَلْتُهُ : قَيَّدْتُهُ ، والنِّكْلُ : قَيْدُ الدَّابَّةِ ، وحدیدةُ اللِّجَامِ ، لکونهما مانِعَيْنِ ، والجمْعُ : الأَنْكَالُ. قال تعالی: إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل/ 12] ونَكَّلْتُ به : إذا فَعَلْتُ به ما يُنَكَّلُ به غيرُه، واسم ذلک الفعل نَكَالٌ. قال تعالی: فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة/ 66] ، وقال : جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة/ 38] وفي الحدیث : «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ النَّكَلَ عَلَى النَّكَلِ» أي : الرَّجُلَ القَوِيَّ عَلَى الفَرَسِ القَوِيِّ. ( ن ک ل ) نکل عن الشئی ۔ کسی کام سے کمزور اور عاجز ہوجانا ۔ نکلتہ ۔ کسی کے پاوں میں بیڑیاں ڈال دینا ۔ اور نکل ۔ جانور کی بیڑی اور لگام کے لوہے کو کہتے ہیں ۔ کیوں کہ یہ بھی چلنے سے مانع ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع انکال ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :إِنَّ لَدَيْنا أَنْكالًا وَجَحِيماً [ المزمل/ 12] کچھ شک نہیں کہ ہمارے پاس بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ ہی ۔ نکلتہ ۔ کسی کو عبرت ناک سزا دینا ۔ اس سے اسم نکال سے ۔ جس کے معنی عبرت ناک سزا کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : فَجَعَلْناها نَكالًا لِما بَيْنَ يَدَيْها وَما خَلْفَها[ البقرة/ 66] اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لئے اور جوان کے بعد آنے والے تھے ۔ عبرت بنادیا ۔ جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ [ المائدة/ 38] ان کے فعلوں کی سزا اور خدا کی طرف سے عبرت ہے ۔ اور حدیث میں ہے (133) ان اللہ یحب النکل علی النکل کہ قوی آدمی جو طاقت ور گھوڑے پر سوار ہو اللہ تعالیٰ کو پیارا لگتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو بدر صغری کی طرف اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لیے روانہ ہونے کی ترغیب بھی دیجیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت امید ہے کہ وہ کفار مکہ زور جنگ کو اپنی تدبیر خاص سے روک دیں گے اور اللہ تعالیٰ بہت سخت سزا دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج ) قتال کے ضمن میں یہ قرآن مجید کی غالباً سخت ترین آیت یہ ہے ‘ لیکن اس میں سختی لفظی نہیں ‘ معنوی ہے۔ (لاَ تُکَلَّفُ الاَّ نَفْسَکَ ) (وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل ایمان کو قتال فی سبیل اللہ کے لیے جس قدر ترغیب و تشویق دے سکتے ہیں دیجیے۔ انہیں اس کے لیے جوش دلایے ‘ ابھاریے۔ لیکن اگر کوئی اور نہیں نکلتا تو اکیلے نکلئے جیسے حضرت ابوبکر (رض) کا قول بھی نقل ہوا ہے جب ان سے کہا گیا کہ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں نرمی کیجیے تو آپ (رض) نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا تو میں اکیلا جاؤں گا ‘ عزیمت کا یہ عالم ہے ! تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو تو یہ کام کرنا ہے ‘ آپ کا تو یہ فرض منصبی ہے۔ آپ کو ہم نے بھیجا ہی اس لیے ہے کہ روئے ارضی پر اللہ کے دین کو غالب کردیں۔ (عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط) ۔ کفار و مشرکین کی جنگی تیاریاں ہو رہی ہیں ‘ بڑی چلت پھرت ہو رہی ہے ‘ یہ تو کچھ عرصے کی بات ہے وہ وقت بس آیا چاہتا ہے کہ ان میں دم نہیں رہے گا کہ آپ کا مقابلہ کریں۔ اور وہ وقت جلد ہی آگیا کہ مشرکین کی کمر ٹوٹ گئی۔ سورة النساء کی یہ آیت ٤ ہجری میں نازل ہوئی اور ٥ ہجری میں غزوۂ احزاب پیش آیا۔ جس کے بعد محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان سے فرمایا کہ (لن تغزوکم قریش بعد عامکم ھذا ولکنکم تغزونھم ) (١) اس سال کے بعد قریش تم پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں کریں گے ‘ بلکہ اب تم ان پر حملہ آور ہو گے۔ “ غزوۂ احزاب کے فوراً بعد سورة الصف نازل ہوئی۔ جس میں اہل ایمان کو فتح و نصرت کی بشارت دی گئی۔ (وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ) اس سے اگلے سال ٦ ہجری میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرے کا سفر کیا ‘ جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ ہوگئی ‘ جسے اللہ تعالیٰ نے فتح مبین قرار دیا (اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا) ۔ اس کے بعد ساتویں سال اللہ تعالیٰ نے فتح خیبر عطا فرما دی اور آٹھویں سال میں مکہ فتح ہوگیا۔ اس طرح ایک کے بعد ایک ‘ سارے بند دروازے کھلتے چلے گئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(84 ۔ 87) ۔ اوپر گذر چکا ہے کہ احد کی لڑائی سے واپسی کے وقت ابو سفیان نے سال آئندہ بدر صغریٰ پر لڑائی کے لئے آنے کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدہ پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سترہ صحابہ کو ساتھ لے کر وقت مقررہ پر بدر صغریٰ کو تشریف لے گئے اور تین روز تک وہاں قیام کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ابو سفیان وغیرہ کے دل میں رعب ڈال دیا۔ اس لئے یہ لوگ وعدہ کے موافق بدر صغریٰ پر نہیں آئے یہ بدر صغریٰ ایک مقام ہے جہاں سالانہ بازار بھرتا ہے۔ اس لڑائی کے سفر کے وقت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ترغیب دلانے پر ستر آدمی باوجود زخمی ہونے کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گئے تھے جن کی تعریف اوپر گذرچ کی ہے اس لئے ان آیتوں میں فرمایا کہ اسی طرح اے نبی اللہ کے تم مسلمانوں کو دین کی لڑائی پر ترغیب دلایا کرو باقی رہی فتح شکست وہ لشکر کی مدد پر منحصر نہی ہے۔ بلکہ فتح شکست اللہ کے حکم سے ہوتی ہے تم تو ان کو فقط دین کی لڑائی کی تاکید کردو اور تم بذات خود اللہ کی راہ میں لڑو۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ یہ جو فرمایا قریب ہے کہ ” اللہ کے بند کرے لڑائی “ یہ ایک غیب کی خبر تھی۔ چناچہ اسی کے موافق ظہور ہوا کہ اس موقع پر ابو سفیان وغیرہ کوئی منکر لڑائی کو نہیں آیا۔ قرآن شریف کی آیتوں میں جگہ جگہ پچھلی امتوں کے تباہ اور برباد ہوجانے کا حال اور دوزخ کے عذاب کا حال یہ لڑائی سے پہلے لڑائی سے پس و پیش کرنے والے مسلمان اور مکہ کے مشرک سب سن چکے تھے اس لئے ان سب کی تنبیہ کے لئے فرمایا کہ اللہ کی لڑائی اور عذاب سخت ہے اس سے ہر ایک کو ڈرنا چاہیے ان آیتوں میں مکہ کے اہل شرک سے دین کی لڑائی کا حکم تھا اور ان اہل شرک میں لوگ ایسے تھے جو مسلمانوں کے قرابت دار بھی تھے اور ان کو مسلمانوں کی لڑائی سے کچھ واسطہ بھی نہ تھا۔ اس واسطے لڑائی کی آیتوں میں باہمی سفارش اور سلام اور دعا کا ذکر فرمایا۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ مکہ کے اہل شرک میں سے وہ لوگ جو لڑائی کے درپے ہیں جنہوں نے اللہ کے رسول اور مسلمانوں کو مکہ سے نکالا تھا۔ ان آیتوں کا حکم ان سے خصوصیت رکھتا ہے مکہ کے بقیہ قرابت داروں اور صلح والے قبیلوں خزاعہ وغیرہ سے آپس کا سلوک منع نہیں ہے سورة ممتحنہ کی تفسیر میں اس کی زیادہ تفصیل آئے گی۔ اسی حکم کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں اور اہل شرک کے قربت داروں میں عمل در آمد بھی جاری رکھا تھا۔ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی بیٹی اسماء (رض) سے صحیحین میں روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اسماء (رض) کی والدہ حالت شرک میں مکہ سے مدینہ کو اپنی بیٹی سے ملنے آئیں انہوں نے ان کے ملنے سے اور کچھ تحفہ جو وہ اپنے ساتھ لائی تھیں اس کے لینے سے انکار کیا اور اپنی ماں کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ حال سنا تو اسماء (رض) سے سفارش فرما کر ان سب باتوں پر ان سے عمل کرا دیا ١۔ اسلام سے پہلے عرب میں سلام علیک کی جگہ حیاک اللہ کہنے کا دستور تھا جس کے معنی ہیں تو جیتا رہ اس سے یہ نہیں نکلتا تھا کہ اس جینے میں صحت و سلامتی بھی ہو یا نہ ہو۔ اس لئے اسلام میں حَیَّاکَ اللّٰہُ کی جگہ سَلاَمٌ عَلَیْکَ ٹھہرایا گیا۔ جو زندگی اور صحت و سلامتی سب کو شامل ہے۔ ابتداء میں سَلَامٌ عَلَیْکَ کرنا سنت کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے جماعت میں سے ایک شخص نے بھی سلام کرلیا تو کافی ہے اگر نہ کیا تو ایک سنت کا ترک ہوا اور سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جماعت میں سے ایک شخص نے بھی جواب دے دیا تو سب کے ذمہ سے فرض ادا ہوگیا۔ ورنہ سب گنہگار ہوں گے۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تو ان سے فرمایا اے آدم تم فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم کہو پھر جو کچھ وہ جواب دیں وہی طریقہ تمہاری اولاد میں جاری رہنا چاہیے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق فرشتوں کی ایک جماعت سے السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جواب میں کہا وعلیک السلام ورحمۃ اللہ ٢۔ معتبر سند سے ترمذی اور ابو داؤد میں عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لفظ سلام علیک سے دس نیکیوں کا ثواب ہوتا ہے اور والسلام علیک ورحمۃ اللہ سے بیس نیکیوں کا اور سلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سے تیس نیکیوں ٣ کا اور ابوہریرہ (رض) کی حدیث معتبر سند سے ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سلام علیک میں کوتاہی کرتا ہے وہ بڑا بخیل ہے ٢۔ ترمذی، ابو داؤد اور نسائی وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی مجلس میں جائے اس وقت بھی سلام کہے اور جب مجلس سے اٹھے اس وقت بھی السلام کہے۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ٣۔ معتبر سند سے اوسط طبرانی میں حذیفہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب ایک شخص مسلمان دوسرے سے مل کر جب سلام علیک و مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جس طرح خزاں کے موسم میں کسی پیڑ کے پتے جھڑ جاتے ہیں ٤۔ اس سے معلوم ہوا گناہوں کی مغفرت کی امید سے ہر سلام علیک کے ساتھ مصافحہ بھی کرنا چاہیے ابوہریرہ (رض) کی حدیث اوپر گذری جس اس کے موافق مجلس سے اٹھ کر چلتے وقت بھی سلام علیک سنت ہے۔ اور حدیفہ (رض) کی اس حدیث کے موافق گناہوں کی مغفرت کی امید سے ہر سلام علیک کے ساتھ مصافحہ بھی کرنا چاہیے تو بعض یہ جو کہتے ہیں کہ چلتے وقت کا مصافحہ جائز نہیں ہے ان کا قول تردد طلب ہے۔ معتبر سند سے طبرانی میں انس (رض) کی روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کا یہ عمل درآمد تھا کہ جب کوئی صحابی سفر کر کے واپس آتا تھا تو بجائے مصافحہ کے اس سے معانقہ کیا کرتے تھے ٥۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سوار پیدل سے اور راہ چلتا بیٹھے ہوئے شخص سے سلام علیک کرے۔ اسی طرح تھوڑے سے ہوں تو وہ بہت سے آدمیوں سے سلام علیکم کہیں ٦۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ چھوٹی عمر والا شخص بڑی عمر والے سے سلام علیک کرے ٧۔ ابو امامہ (رض) سے ترمذی اور ابوداؤد میں ایک روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سلام علیک کی ابتداء کرے وہ اللہ کے نزدیک بہتر ہے ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ٨۔ تفسیر ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں سلمان فارسی (رض) کی روایت ناقابل اعتراض سند سے ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے السلام علیک کہا اس کے جواب میں آپ نے ورحمۃ اللہ بڑھایا۔ دوسرے نے السلام علیک ورحمۃ اللہ کہا اس کے جواب میں آپ نے ورحمۃ اللہ بڑھایا۔ تیسرے نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا تو آپ نے بھی جواب میں یہی لفظ فرمائے ٩۔ یہ حدیث فحیوا باحسن منہا اور ردوھا کی تفسیر ہے۔ سلام علیک کے مسئلہ کی اس سے زیادہ تفصیل بڑی کتابوں میں ہے۔ تحیہ کے معنی دعا دینے کے ہیں جس کا مطلب آیت میں سلام علیک ہے مقیت کے معنی صاحب قدرت۔ حیب کے معنی حساب کرکے جزا دینے والا کہ کس نے سلام علیک کہا۔ اور کس نے ورحمۃ اللہ یا برکاتہ بڑھایا جن لوگوں سے لڑائی کا حکم ان آیتوں میں تھا۔ وہ بت پرست اور منکر حشر تھے اس واسطے ان کی تنبیہ کے لئے آخر پر توحید اور قسم کھا کر حشر کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے۔ پھر جب اس نے توحید اور حشر کے سچے ہونے کی خبر دی ہے۔ تو اسے سب کو ماننا چاہیے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(4:84) فقاتل۔ میں ف جزائیہ ہے۔ اور فقاتل فی سبیل اللہ جواب شرط ہے شرط محذوف ہے تقدیر کلام یوں ہوگی۔ ان افددوک وترکوک وحدک فقاتل فی سبیل اللہ۔ اگر (منافقین) تمہیں تنہا چھور دیں تو تو اللہ کی راہ میں اکیلا ہی لڑ۔ لا تکلف الا نفسک۔ تو صرف اپنی ذات کی حد تک مکلف (ذمہ دار) ہے۔ حرض۔ امر واحد مذکر حاضر۔ تو رغبت دلا۔ تو تاکید کر۔ تو تحریض دلا۔ تو ابھار۔ حرض علی القتال۔ عسی۔ عنقریب ہے۔ شتاب ہے۔ ممکن ہے۔ توقع ہے۔ اندیشہ ہے۔ عسی ان یکف۔ ممکن ہے۔ یا توقع ہے کہ روک دے۔ کف مصدر۔ باب نصر۔ اشد۔ افعل التفضیل کا صیغہ۔ شدید تر۔ باس۔ لڑائی۔ دبدبہ۔ سختی۔ زور۔ جنگ کی شدت۔ توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی جنگ کی شدت کو روک دے۔ کیونکہ لڑائی کی شدت کے طور پر اللہ کی گرفت بہت سخت ہے۔ اشد تنکیلا۔ عذاب دینے۔ سزا دینے۔ یا ضعیف و عاجز کردینے میں اللہ تعالیٰ بہت سخت ہے (ان سے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 اوپر کی آیات میں جہاد کی ترغیب دی اور اس کے بع منافقین کی سرگرمیوں کا ذکر کیا۔ ، اب اس آیت میں فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان منافقین ساتھ ہونے یا نہ ہونے کی پرواہ نہ کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خو دبھی جہاد کے لیے نکلیں اور دوسرے مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس پیشن گوئی کا وقوع ظاہر ہے اگر خاص کفار قریش مراد ہوں جب بھی اور اگر ساری دنیا کے کفار مراد ہوں جب بھی کیونکہ چند ہی روز میں تمام سلطنتیں مسلمانوں نے فتح کرلیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بیٹھ رہنے والوں سے مجاہد افضل ہے۔ لہٰذا افضل کام کو اپنانے اور جہاد کو مضبوط رکھنے کے لیے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو چوکس و مستعد رکھ کر مسلمانوں کو ہر دم قتال کے لیے آمادہ و تیار رکھیں۔ مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے جہادی خطاب کا آغاز یوں کیا تھا کہ اپنے بچاؤ کے لیے ہر وقت اسلحہ پکڑے رکھو اور جنگی حالات کے مطابق گوریلا جنگ کرو یا پورے کے پورے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ پھر منافقوں کی عادات کا ذکر کیا کہ وہ ابن الوقت اور اپنے مفاد کے بندے اور تمہارے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا اللہ کی راہ میں تمہیں لڑنا چاہیے۔ چاہے کمزور ہو یا طاقت ور اور جو بھی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کا تابع فرماں اور مطیع ہوگا۔ اب رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست اللہ کے راستے میں لڑنے کا یہ کہہ کر حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ مومنوں کو قتال کے لیے ترغیب دیں اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر تنہا نکلنا پڑے تو نکلیں۔ گویا کہ پہلے مجاہدین کو خطاب تھا اور اب ان کے کمانڈر کو حکم دیا ہے پھر تسلی اور خوشخبری دی ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کفار کو بےبس کر دے گا۔ وقت آنے والا ہے کہ جب منافقوں کی سازشیں اور کفار کی شرارتیں دم توڑ جائیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی طاقت والا اور لڑنے میں جری نہیں ہوسکتا۔ دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے یہ بنیادی اصول ہے کہ قوم کو ہر دم چوکس، مستعد اور چاک و چوبند رکھنے کے لیے قوم کے ذمہ دار اور فوج کے عہدہ دار نمونے کے طور پر اپنے آپ کو مرنے مارنے کے لیے تیار رکھیں۔ تب جا کر فوج اور قوم کے ایک ایک فرد میں دشمن کے خلاف صف آراء ہونے کا جذبہ اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولولہ انگیز جذبات کا یوں اظہار فرمایا : (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لَوْلَآ أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَاتَطِیْبُ أَنْفُسُھُمْ أَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنِّيْ وَلَآ أَجِدُ مَآ أَحْمِلُھُمْ عَلَیْہِ مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِیَّۃٍ تَغْزُوْفِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُّ أَنِّیْ أُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد، باب تمنی الشھادۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ایمانداروں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ وہ مجھ سے پیچھے رہیں اور میرے پاس اتنی سواریاں نہیں کہ میں ان کو سوار کروں تو میں کسی غزوہ سے بھی پیچھے نہ رہتا۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کردیا جاؤں پھر شہید ہوجاؤں۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا ےُکْلَمُ أَحَدٌ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَنْ یُّکْلَمُ فِیْ سَبِےْلِہٖٓ إِلَّا جَآءَ ےَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَجُرْحُہٗ ےَثْعَبُ الَلَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ وَالرِّےْحُ رِےْحُ مِسْکٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب فضل الجھادو الخروج فی سبیل اللّٰہِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوجاتا ہے اور یہ اللہ جانتا ہے کہ حقیقتاً کون اس کے راستے میں زخمی ہوا تو وہ زخمی قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا ‘ اس کا رنگ خون جیسا ہوگا مگر اس کی خوشبو کستوری کی طرح ہوگی۔ “ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ وَلَمْ ےَغْزُ وَلَمْ ےُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاقٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃِ ، باب ذم من مات ولم یغزولم یحدث نفسہ بالغزو ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نہ تو جہاد کیا اور نہ ہی دل میں جہاد کا خیال لایا تو وہ منافقت کی ایک قسم پر فوت ہوا۔ “ مسائل ١۔ مسلمانوں کے سربراہ کو لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمان مر مٹنے کے لیے تیار ہوجائیں تو اللہ کافروں کا زور توڑ ڈالے گا۔ تفسیر بالقرآن جہاد کی ترغیب : ١۔ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دلائیے۔ (الانفال : ٦٥) ٢۔ مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد کیجیے۔ (النساء : ٧٥) ٣۔ کفارکو ایسی مار مارو کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں۔ (الانفال : ٥٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٨٤۔ اس آیت اور اس سے ماقبل کی آیت کے اندر ہمیں اس وقت کی موجودہ جماعت مسلمہ کے خدوخال اچھی طرح نظر آتے ہیں جس طرح ہر دور میں پائے جانے والے انسانی نفوس کے خدوخال نظر آتے ہیں ۔ (الف) ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت اسلامی صفوں کے اندر سخت بےچینی پائی جاتی تھی اور مکمل اتحاد نہ تھا جنگ سے پہلو تہی ‘ اس کی راہ میں رکاوٹیں اور جنگ سے پیچھے رہنے کی کمزوریاں ابھی تک اسلامی صفوں میں موجود تھیں ۔ یہاں تک کہ لوگوں کو جہاد پر ابھارنے اور جوش دلانے کی خاطر یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مبارک کو حکم دیا گیا کہ آپ جہاد کریں اگرچہ آپ اکیلے ہوں ۔ آپ خود اپنے نفس کے ذمہ دار ہیں ۔ ہاں اس کے ساتھ ساتھ آپ مسلمانوں کو بھی ابھاریں لیکن آپ کی ذات کی طرف سے جہاد میں شرک اس پر موقوف نہیں ہے کہ دوسرے لوگ اس کام کے لئے اٹھتے ہیں یا نہیں۔ اگرچہ عملا یہ ممکن نہ تھا کہ اہل ایمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پکار کو سب کے سب رد کردیتے لیکن یہاں اس انداز میں کلام کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فریضہ بنیادی طور پر آپ پر عائد ہوتا ہے ‘ جس طرح اسلامی تصور حیات کا یہ ایک اساسی اصول ہے کہ ہر شخص اپنی ذات کا ذمہ دار ہے کسی ایک کی ذمہ داری کسی دوسرے پر نہ ہوگی ۔ ہاں دوسروں کو جنگ کے لئے ابھارنا اپنی جگہ پر ہے ۔ (ب) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں مشرکین کے ساتھ جنگ چھیڑنے میں لوگ کس قدر خطرات محسوس کرتے تھے اور اس راہ میں کس قدر مشکلات تھیں ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود مسلمانوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ کافروں کا زور توڑ دے گا اور اس طرح مسلمان خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحفظ کے زیر سایہ ہوں گے ساتھ ساتھ یہ یقین بھی دلایا جاتا ہے کہ اللہ زبردست قوت والا ہے اور جب وہ کسی کو سزا دیتا ہے تو اس کی سزا بہت ہی سخت ہوتی ہے ۔ یہ الفاظ کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے گا ‘ اس بات کا مظہر ہیں کہ اس وقت اہل کفر زور آور تھے ۔ ان کی قوت کی وجہ سے اسلامی صفوں میں خوف محسوس کیا جاتا تھا اور یہ حالات احد اور خندق کے درمیانی دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ احد سے لے کر خندق تک کا دور وہ دور ہے جس میں مدینہ طیبہ کے اندر مسلمان نہایت ہی مشکلات اور خطرات سے دو چار تھے ۔ ان کے اندر منافقین گھسے ہوئے تھے ‘ ان کے اردگرد یہودی پھیلے ہوئے تھے اور ہر وقت مشرکین کو فساد پر آمادہ کرتے رہتے تھے ۔ اور اسلامی صفوں کے اندر اسلامی تصور حیات ابھی تک جاگزیں اور واضح نہ تھا ۔ (ج) اس سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان کو مشکلات میں قدم رکھنا ہوتا ہے تو اس کا سہارا صرف ذات باری ہوتی ہے اور اللہ کا سایہ عاطفت ہی باعث اطمینان ہوتا ہے ۔ اس وقت صرف اللہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ کام دیتا ہے ۔ جب خطرات اپنی آخری انتہاؤں کو چھوتے ہیں اور تمام وسائل کام نہیں کرتے تو پھر ذات باری ہی کام دیتی ہے اور یہ تمام حقائق ایسے ہیں جن کو اسلامی نظام پیش نظر رکھتا ہے ۔ اس لئے کہ نفس انسانی کا خالق اللہ ہے اور اللہ اپنے پیدا کردہ نفس انسانی کو اچھی طرح جانتا ہے کہ سک طرح اس کی تربیت کی جائے گی اور کس طرح اسے بچایا جائے گا اور کس طرح اسے جوش دلایا جائے گا اور کس طرح وہ مشکلات کو انگیز کرنے کے لئے تیار ہوگا ۔ اس سبق کے آخر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا تھا کہ آپ اہل ایمان کو جنگ پر ابھاریں جنگ سے پہلو تہی کرنے والوں اور پیچھے رہنے والوں کا ذکر بھی ہوا تھا ۔ اب یہاں ایک عام اصول بتا دیا جاتا ہے کہ ہر شخص نیکی اور بھلائی کے کام کے لئے سفارش کرے اور لوگوں کو نصیحت کرے لوگوں کو بھلائی کی ہدایات دے ‘ نصیحت کرے اور بھلائی پر تعاون کی تلقین کرے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ کی راہ میں قتال کیجیے، اہل ایمان کو ترغیب دیجیے علامہ بغوی معالم التنزیل صفحہ ٤٥٧: ج ١ میں لکھتے ہیں کہ غزوہ احد کے بعد آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو سفیان سے (جو مشرکین مکہ کا سپہ سالار تھا) وعدہ فرمایا تھا کہ ذیقعدہ میں بدر کے موقعہ پر پھر جنگ ہوگی، وعدہ کے مطابق جنگ کے لیے پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہوئی تو آپ نے لوگوں کو چلنے کے لیے دعوت دی اس پر بعض لوگوں کو نا گوار ہوا۔ لہٰذا اللہ جل شانہٗ نے آیت بالا نازل فرمائی جس میں یہ ارشاد فرمایا کہ آپ اللہ کی راہ میں جنگ کریں اگر کوئی ساتھ نہ دے تب بھی جہاد نہ چھوڑیں آپ صرف اپنی جان کے مکلف ہیں اپنی جان کے ساتھ میدان میں حاضر ہوجائیں اللہ تعالیٰ کا آپ سے نصرت کا وعدہ ہے اور مومنین کو جہاد کی ترغیب دیتے رہیں اور اس کا ثواب بتاتے رہیں۔ جو ساتھ ہوگا وہ ثواب پائے گا۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ستر سواروں کو لے کر نکلے اور اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی قتال کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے وعدہ فرمایا کہ عنقریب اللہ کافروں کے زور کو روک دے گا، اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ زور والا ہے دنیا میں جب اہل ایمان کی مدد فرمائے تو ان پر کوئی غالب ہونے والا نہیں اور دنیا و آخرت میں وہ سخت عذاب دینے والا بھی ہے۔ (کافروں کے لیے سخت عذاب ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 61 فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ سے اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَیْ ءٍ حَسِیْباً تک حکم ثالث یعنی و َ مَالَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ پر تنویر ہے اور بعد عہد کی وجہ سے اس کا اعادہ ہے یہاں دوبارہ قتال کی ترغیب دی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنوں کو جہاد کی ترغیب دینے کا حکم فرمایا۔ تنکیل کے معنی تعذیب یعنی سزا دینے کے ہیں۔ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً الخ یہ وَ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ سے متعلق ہے یعنی آپ مومنوں کو ترغیب الی الجہاد کا وعظ کریں اور جو شخص اچھی بات کا وعظ و نصیحت کرے اور نیک کاموں کی ترغیب دے اسے اللہ کی طرف سے بہت بڑا اجر وثواب ملے گا اور جو شخص کسی برے کام کی ترغیب دے اسے اس کی سزا ملے گی اور مُقِیْتٌ کے معنی اقتدار والا یا حافظ و نگہبان (مُقِیْتاً ) مُقْتَدِراً اَوْ حَفِیظاً (مدارک ج 1 ص 187) ۔ وَاِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ الخ یہ بھی ماقبل سے متعلق ہے اور اس میں خطاب رعیت کو ہے یعنی اگر تمہارے پاس کوئی واعظ جہاد کی ترغیب کے لیے آئے اور تم کو سلام دے تو تم اس کے الفاظ کی نسبت زیادہ اچھا جواب دو مثلاً اگر اس نے السلام علیکم کہا ہے تو تم اس کے جواب میں ورحمۃ اللہ کا اضافہ کرو اور اگر زیادہ نہ کرو تو اس کے الفاظ کے مطابق تو ضرور جواب دو حاصل یہ کہ ان سے خوشی کے ساتھ پیش آؤ۔ اور ان کے حکم کی تعمیل کرو۔ اس آیت سے پہلے اور اس کے بعد چونکہ مضمون جہاد کا ذکر ہے۔ اس لیے سیاق وسباق کی رعایت کر کے مفہوم بیان کیا گیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 بہرحال ! اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر لوگ جہاد سے جان چراتے ہیں تو آپ خود اللہ کی راہ میں کفار سے جہاد کیجیے کیونکہ سوائے اپنی ذات کے اور کسی کے مکلف نہیں اور بجز اپنے ذاتی فعل کے آپ اور کسی کے ذمہ دار نہیں ہیں ہاں۔ مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کی ترغیب دیجیے قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کافرں کی لڑائی کو روک دے اور ان کی قوت اور زور کو توڑ دے اور اللہ تعالیٰ جنگ کرنے کے اعتبار سے بہت طاقتور او قوی ہے اور عذاب کرنے اور سزا دینے کے لحاظ سے بہت سخت سزا دینے والا ہے۔ (تیسیر) مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق بدر صغریٰ سے ہے کیونکہ غزوہ احد میں ابوسفیان نے چلتے وقت کہا تھا کہ تم سے آئندہ موسم حج کے موقعہ پر جنگ کی جائے گی چناچہ ذیقعدہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب وعدہ وہاں تشریف لے گئے اور کامیاب واپس آئے، ابوسفیان مرعوب ہوگیا اور میدان جنگ میں نہ آسکا چونکہ اس موقعہ پر بعض مسلمانوں نے اپنی معذوریاں پیش کیں تھیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ کوئی میرے ساتھ نہیں چلے گا تو میں تنہا اپنی تلوار لے کر چلا جائوں گا اور مجھے خدا سے امید ہے کہ وہ میری مد د فرمائے گا۔ اسو اقعہ کی تفصیل ہم آل عمران میں عرض کرچکے ہیں ۔ بعض کا قول یہ ہے کہ آیت عام بشارت پر مبنی ہے اور اس میں یہ امید دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کی قوت کو مضمحل کر دے گا اور ان کے زور جنگ کو توڑ دے گا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ مکہ معظمہ فتح ہوا اور کفار کی طاقت ہر سمت کمزور ہوگئی۔ (واللہ اعلم) بہرحال آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیغمبر جب جہاد کی فرضیت اور جہاد کی ضرورت معلوم ہوگئی تو اب اگر کوئی آپ کے ہمراہ جہاد کرنے نہ نکلے تو آپ کچھ فکر نہ کیجیے کیونکہ آپ تو اپنے ذاتی فعل کے مکلف ہیں کسی دوسرے کے فعل کے آپ نہ مکلف ہیں اور نہ ذمہ دار ہیں۔ البتہ لوگوں کو جہاد کی تحریص و ترغیب کرتے رہئے اور ان کو جاد کے حکم اور جہاد کے منافع سے آگاہ کرتے رہئے پھر اگر کوئی آمادہ نہ ہو تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں اور آپ سے کوئی باز پرس نہیں۔ جیسا کہ لا تکلف الا نفسک سے ظاہر ہے اور اگر کوئی آپ کے ہمراہ چلنے پر باوجود تحریص و ترغیب کے آمادہ نہ ہو تو اس کی بھی فکر نہ کیجیے کہ آپ تنہا رہ گئے اب کیا ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ کفار کی جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ سے یہ بعید نہیں کہ وہ کفار کی قوت کو توڑ دے کیونکہ جنگ کا بند ہوجانا اور کافروں کا جنگ کو روک دے اور اللہ تعالیٰ سے یہ بعید نہیں کہ وہ کفار کی قوت کو توڑ دے کیونکہ جنگ کا بند ہوجانا اور کافروں کا جنگ نہ کرنا اس کے لئے منجملہ دیگر وجوہات کے بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا زور اور ان کی طاقت ٹوٹ جائے۔ لہٰذا اس امید بلکہ اس وعدہ کا اعلان ان الفاظ میں کیا ہے۔ عسی اللہ ان یکف باس الذین کفروا چونکہ یہ اعلان کفار کی قوت کو کمزور اور مغلوب کرنے کا اعلان ہے اس لئے اس اعلان کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ چونکہ جنگ کرنے میں ان کافروں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے اس لئے ہمارے غالب اور ان کے مغلوب ہونے کا یقین رکھو اور جس طرح اللہ جنگی قوت میں سب سے قوی تر ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بھی سب سے زیادہ شدید ہے اور اس کی سزا سب سزا دینے والوں کی سزا سے زیادہ ہے۔ باس کے معنی شدت اور ناپسند چیز کے ہیں باس اور بئوس کے ایک ہی معنی ہیں لیکن باس عام طور سے جنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور بئوس دوسری قسم کی سختیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے نکال کے معنی عذاب اور عقوبت کے ہیں آیت کی ترتیب عجیب ہے اور ایک فقرہ دوسرے فقرے سے اس طرح وابستہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ مثلاً لوگوں کی بزدلی کے پیش نظر پہلے جملے میں صرف پیغمبر کو حکم دیا گیا کہ آپ تن تنہا اور بہ نفس نفیس جہاد کیجیے۔ آگے دلیل بیان کی کہ آپ صرف اپنے ذاتی فعل کے مکلف ہیں کوئی دوسرا جہاد نہ کرے تو آپ پر اس کی کوئی باز پرس نہیں۔ آگے کے فقرے میں اسی کے ساتھ یہ بیان فرمایا کہ اس ذمہ داری کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ تبلیغ کے فریضہ سے بھی سبکدوش ہوگئے۔ نہیں مسلمانوں کو تبلیغ کرتے رہئے اور جہاد کے منافع سمجھاتے رہئے اسی کے ساتھ تن تنہا جنگ کرنے میں جو خطرہ ہوسکتا تھا اس کا ازالہ فرما دیا کہ تنہا جنگ کرنے سے گھبرانے کی ضرورت نہیں اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کی جنگ کو روک دے اور ان کو مرعوب و مغلوب کر دے اور آپ کو تنہا ہی کامیاب کر دے۔ پھر اس کے بعد کامیاب ہونے پر دلیل بیان فرما دی کہ جب اللہ کی معاونت آپ کے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ کی قوت جنگ اور زور جنگ ان کافروں سے بدر جہا زیادہ ہے اور جب زور آور طاقت آپ کے ساتھ ہے تو آپ کے لئے خوف کی کوئی وجہ نہیں ۔ پھر اسی شدت باس کے ساتھ اپنی سزا کی شدت بھی بیان فرما دی۔ یہ سزا خواہ قیامت میں ہو جیسا کہ ظاہر ہے یا دنیا میں ہو۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے۔ بہرحال ! جس طرح جنگ کرنے میں ہماری قوت و طاقت بڑھی ہوئی ہے اسی طرح سزا دینے میں بھی ہماری سزا بہت سخت ہے۔ اب آگے اسی سلسلے میں ترغیب کی مناسبت سے ایک عام اصول بیان فرمایا یعنی ایک جہاد کی ترغیب پر کیا منحصر ہے ایک اصول ذہن نشین کرلو کسی بھلی بات کی ترغیب دینے والا بھی بھلائی کا حقدار ہوا کرتا ہے اور اگر کوئی بری بات پر کسی کو ابھارتا ہے اور کسی کو ظلم اور ناانصافی پر آمادہ کرتا ہے اور سفارش کرتا ہے تو یہ سفارش کرنے والا بھی برائی کا حقدار بنتا ہے اسی مضمون کو بیان فرماتے ہیں۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)