Surat ul Maeeda

Surah: 5

Verse: 54

سورة المائدة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللّٰہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ۫ یُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۴﴾

O you who have believed, whoever of you should revert from his religion - Allah will bring forth [in place of them] a people He will love and who will love Him [who are] humble toward the believers, powerful against the disbelievers; they strive in the cause of Allah and do not fear the blame of a critic. That is the favor of Allah ; He bestows it upon whom He wills. And Allah is all-Encompassing and Knowing.

اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالٰی بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وہ نرم دل ہوں گے مسلمانوں پر اور سخت اور تیز ہو ں گے کفار پر ، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے یہ ہے اللہ تعالٰی کا فضل جسے چاہے دے ، اللہ تعالٰی بڑی وسعت والا اور زبردست علم والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Threatening to Replace the Believers With Another People if They Revert from Islam Allah emphasizes His mighty ability and states that whoever reverts from supporting His religion and establishing His Law, then Allah will replace them with whomever is better, mightier and more righteous in Allah's religion and Law. Allah said in other Ayat, وَإِن تَتَوَلَّوْاْ يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ ثُمَّ لاَ يَكُونُواْ أَمْثَـلَكُم And if you turn away, He will exchange you for some other people and they will not be your likes. (47:38) and, أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاَرْضَ بِالْحقِّ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ Do you not see that Allah has created the heavens and the earth with truth If He will, He can remove you and bring (in your place) a new creation! And for Allah that is not hard or difficult. (14:19-20) Verily this is not difficult or hard on Allah. Allah said here, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ ... O you who believe! Whoever from among you turns back from his religion..., and turns back from the truth to falsehood, from now until the commencement of the Last Hour. ... فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ... Allah will bring a people whom He will love and they will love Him; Allah said next, ... أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُوْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ ... humble towards the believers, stern towards the disbelievers. These are the qualities of perfect believers, as they are humble with their believing brothers and allies, stern with their enemies and adversaries. In another Ayah, Allah said, مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَأءُ بَيْنَهُمْ Muhammad is the Messenger of Allah. And those who are with him are severe against disbelievers, and merciful among themselves. (48;29) The Prophet is described as the smiling fighter, smiling to his allies and fighting his enemies. Allah's statement, ... يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لايِمٍ ... Fighting in the way of Allah, and never fearing the blame of the blamers. Nothing prevents them from obeying Allah, establishing His Law, fighting His enemies, enjoining righteousness and forbidding evil. Certainly, nothing prevents them from taking this path, neither someone who seeks to hinder them, nor one who blames or chastises them. Imam Ahmad recorded that Abu Dharr said, "My Khalil (intimate friend, the Messenger) has commanded me to do seven deeds. He commanded me to love the poor and to be close to them. He commanded me to look at those who are less than me and not those who are above me. He commanded me to keep the relations of the womb, even if they cut it. He commanded me not to ask anyone for anything, to say the truth even if it was bitter, and to not fear the blame of anyone for the sake of Allah. He commanded me to often repeat, La hawla wa la quwwata illa billah (There is no strength or power except from Allah)', for these words are from a treasure under the Throne (of Allah)." It is confirmed in the Sahih; مَا يَنْبَغِي لِلْمُوْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَه The believer is not required to humiliate himself. He was asked; "How does one humiliate himself, O Messenger of Allah?" So he replied; يَتَحَمَّلُ مِنَ الْبَلَءِ مَا لاَ يُطِيق He takes on tests that he cannot bear. ... ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُوْتِيهِ مَن يَشَاء ... That is the grace of Allah which He bestows on whom He wills. meaning, those who have these qualities, acquired it by Allah's bounty and favor and because He granted them these qualities. ... وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ And Allah is All-Sufficient for His creatures' needs, All-Knower. His favor is ever extending, and He has perfect knowledge of those who deserve or do not deserve His favor and bounty. Allah's statement,

قوت اسلام اور مرتدین اللہ رب العزت جو قادر و غالب ہے خبر دیتا ہے کہ اگر کوئی اس پاک دین سے مرتد ہو جائے تو وہ اسلام کی قوت گھٹا نہیں دے گا ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بدلے ان لوگوں کو اس سچے دین کی خدمت پر مامور کرے گا ، جو ان سے ہر حیثیت میں اچھے ہوں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وان تتلوا ) اور آیت میں ہے ( اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ ) 4 ۔ النسآء:133 ) اور جگہ فرمایا ( اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ ) 35 ۔ فاطر:16 ) ، مطلب ان سب آیتوں کا وہی ہے جو بیان ہوا ۔ ارتداد کہتے ہیں ، حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف پھر جانے کو ۔ محمد بن کعب فرماتے ہیں یہ آیت سرداران قریش کے بارے میں اتری ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں خلافت صدیق میں جو لوگ اسلام سے پھر گئے تھے ، ان کا حکم اس آیت میں ہے ۔ جس قوم کو ان کے بدلے لانے کا وعدے دے رہا ہے وہ اہل قادسیہ ہیں یا قوم سبا ہے ۔ یا اہل یمن ہیں جو کندہ اور سکون بیلہ کے ہیں ۔ ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں بھی یہ پچھلی بات بیان ہوئی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے فرمایا وہ اس کی قوم ہے ۔ اب ان کامل ایمان والوں کی صفت بیان ہو رہی ہے کہ یہ اپنے دوستوں یعنی مسلمانوں کے سامنے تو بچھ جانے والے ، جھک جانے والے ہوتے ہیں اور کفار کے مقابلہ میں تن جانے والے ، ان پر بھاری پڑنے والے اور ان پر تیز ہونے والے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا آیت ( اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ ) 48 ۔ الفتح:29 ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ہے کہ آپ خندہ مزاج بھی تھے اور قتال بھی یعنی دوستوں کے سامنے ہنس مکھ خندہ رو اور دشمنان دین کے مقابلہ میں سخت اور جنگجو ، سچے مسلمان راہ حق کے جہاد سے نہ منہ موڑتے ہیں ، نہ پیٹھ دکھاتے ہیں ، نہ تھکتے ہیں ، نہ بزدلی اور آرام طلبی کرتے ہیں ، نہ کسی کی مروت میں آتے ہیں ، نہ کسی کی ملامت کا خوف کرتے ہیں ، وہ برابر اطاعت الٰہی میں اس کے دشمنوں سے جنگ کرنے میں بھلائی کا حکم کرنے میں اور برائیوں سے روکنے میں مشغول رہتے ہیں ۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے سات باتوں کا حکم دیا ہے ۔ مسکینوں سے محبت رکھنے ، ان کے ساتھ بیٹھنے اٹھنے اور دنیوی امور میں اپنے سے کم درجے کے لوگوں کو دیکھنے اور اپنے سے بڑھے ہوؤں کو نہ دیکھنے ، صلہ رحمی کرتے رہنے ، گو دوسرے نہ کرتے ہوں اور کسی سے کچھ بھی نہ مانگنے ، حق بات بیان کرنے کا گو وہ سب کو کڑوی لگے اور دین کے معاملات میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرنے کا اور بہ کثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھنے کا ، کیونکہ یہ کلمہ عرش کے نیچے کا خزانہ ہے ۔ ( مسند احمد ) ایک روایت میں ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ مرتبہ بیعت کی ہے اور سات باتوں کی آپ نے مجھے یاد دہانی کی ہے اور سات مرتبہ اپنے اوپر اللہ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں اللہ کے دین کے بارے میں کسی بدگو کی بدگوئی کی مطلق پرواہ نہیں کرتا ۔ مجھے بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا مجھ سے جنت کے بدلے میں بیعت کرے گا ؟ میں نے منظور کر کے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے شرط کی کہ کسی سے کچھ بھی نہ مانگنا ۔ میں نے کہا بہت اچھا ، فرمایا اگرچہ کوڑا بھی ہو ۔ یعنی اگر وہ گڑ پڑے تو خود سواری سے اتر کر لے لینا ( مسند احمد ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگوں کی ہیبت میں آکر حق گوئی سے نہ رکنا ، یاد رکھو نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے ، نہ رزق کو دور کر سکتا ہے ۔ ملاحظہ ہو امام احمد کی مسند ۔ فرماتے ہیں خلاف شرع امر دیکھ کر ، سن کر اپنے تئیں کمزور جان کر ، خاموش نہ ہو جانا ۔ ورنہ اللہ کے ہاں اس کی باز پرس ہوگی ، اس وقت انسان جواب دے گا کہ میں لوگوں کے ڈر سے چپکا ہو گیا تو جناب باری تعالیٰ فرمائے گا ، میں اس کا زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا ۔ ( مسند احمد ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے قیامت کے دن ایک سوال یہ بھی کرے گا کہ تو نے لوگوں کو خلاف شرع کام کرتے دیکھ کر اس سے روکا کیوں نہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی اسے جواب سمجھائے گا اور یہ کہہ گا پروردگار میں نے تجھ پر بھروسہ کیا اور لوگوں سے ڈرا ( ابن ماجہ ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے مومن کو نہ چاہئے کہ اپنے تئیں ذلت میں ڈالے صحابہ نے پوچھا ، یہ کس طرح؟ فرمایا ان بلاؤں کو اپنے اوپر لے لے ، جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو ۔ پھر فرمایا اللہ کا فضل ہے جے چاہے دے ۔ یعنی کمال ایمان کی یہ صفتیں خاص اللہ کا عطیہ ہیں ، اسی کی طرف سے ان کی توفیق ہوتی ہے ، اس کا فضل بہت ہی وسیع ہے اور وہ کامل علم والا ہے ، خوب جانتا ہے کہ اس بہت بڑی نعمت کا مستحق کون ہے؟ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارے دوست کفار نہیں بلکہ حقیقتاً تمہیں اللہ سے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں سے دوستیاں رکھنی چاہئیں ۔ مومن بھی وہ جن میں یہ صفتیں ہوں کہ وہ نماز کے پورے پابند ہوں ، جو اسلام کا اعلیٰ اور بہترین رکن ہے اور صرف اللہ کا حق ہے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو اللہ کے ضعیف مسکین بندوں کا حق ہے اور آخری جملہ جو ہے اس کی نسبت بعض لوگوں کو وہم سا ہو گیا ہے کہ یہ ( یؤتون الزکوۃ ) سے حال واقع یعنی رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔ یہ بالکل غلط ہے ۔ اگر اسے مان لیا جائے تو یہ تو نمایاں طور پر ثابت ہو جائے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا افضل ہے حالانکہ کوئی عالم اس کا قائل ہی نہیں ، ان وہمیوں نے یہاں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب نماز کے رکوع میں تھے جو ایک سائل آ گیا تو آپ نے اپنی انگوٹھی اتار کر اسے دے دی ، ( والذین امنوا ) سے مراد بقول عتبہ جملہ مسلمان اور حضرت علی ہیں ۔ اس پر یہ آیت اتری ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی انگوٹھی کا قصہ ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی یہ تفسیر کی ہے لیکن سند ایک کی بھی صحیح نہیں ، رجال ایک کے بھی ثقہ اور ثابت نہیں ، پس یہ واقعہ بالکل غیر ثابت شدہ ہے اور صحیح نہیں ۔ ٹھیک رہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ یہ سب آیتیں حضرت عبادہ بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں یہود کی دوستی توڑی اور اللہ اور اس کے رسول اور با ایمان لوگوں کی دوستی رکھے وہ اللہ کے لشکر میں داخل ہے اور یہی اللہ کا لشکر غالب ہے ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت ( كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ) 58 ۔ المجادلہ:21 ) ، یعنی اللہ تعالیٰ یہ دیکھ چکا ہے کہ میں اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی غالب رہیں گے اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا کبھی پسند نہ آئے گا چاہے وہ باپ بیٹے بھائی اور کنبے قبیلے کے لوگوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ، یہی ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی روح سے ان کی تائید کی ہے ، انہیں اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں لے جائے گا ، جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں ، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ، رب ان سے راضی ہے ، یہ اللہ سے خوش ہیں ، یہی اللہ کے لشکر ہیں اور اللہ ہی کا لشکر فلاح پانے والا ہے ۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کی دوستیوں پر راضی اور رضامند ہو جائے ، وہ دنیا میں فاتح ہے اور آخرت میں فلاح پانے والا ہے ۔ اسی لئے اس آیت کو بھی اس جملے پر ختم کیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا واقعہ نبی کریم کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنہ مرتد کے خاتمے کا شرف حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ 54۔ 2 مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں، 1۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا 2۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا 3۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، 4۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔ 54۔ 3 یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں داری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہوجائے ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اسی لئے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٦] مرتدین کے متعلق پیشین گوئی :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ جب رسول اللہ کی وفات ہوگئی تو اکثر قبائل عرب نے یہ سمجھا کہ اسلام کو جتنی کامیابیاں اور کامرانیاں نصیب ہوئیں۔ اس کا باعث صرف رسول اللہ کی ذات تھی جن پر وحی کے ذریعہ ہر وقت مسلمانوں کے لیے حالات کے مطابق ہدایات نازل ہوتی رہتی تھیں۔ اب چونکہ آپ انتقال کرچکے ہیں۔ لہذا اب پھر کفر کو غلبہ نصیب ہوگا۔ اس خیال سے عرب کے بہت سے قبائل اسلام سے مرتد ہوگئے اور بعض کہنے لگے کہ اب زکوٰۃ ادا کرنے کا اور اسلام کی دوسری پابندیاں سہنے کا کیا فائدہ ؟ آپ کی وفات کے فوراً بعد مسلمانوں کو انتہائی نازک اور ہنگامی حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ ایک تو مسلمانوں کو آپ کی وفات کا سخت صدمہ تھا دوسرے اسی حالت میں بہت سے قبائل مرتد ہوگئے تھے جن سے جہاد لازمی تھا۔ تیسرے بعض قبیلوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے سرے سے انکار کردیا تھا حالانکہ اس وقت جہاد کے لیے بہت زیادہ اخراجات کی ضرورت تھی۔ پھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے آپ اپنی زندگی میں ترتیب دے چکے تھے۔ شامی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اس لشکر کی روانگی بھی ضروری تھی گویا مسلمان اس وقت اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے خطرات سے دوچار تھے اور سب سے بڑی مشکل یہ کہ فنڈز بھی موجود نہ تھے ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ تھا جس کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے لہذا اس کا ذکر ہم ذرا تفصیل سے کریں گے۔ رسول اللہ کی زندگی میں چند جاہ طلب مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ جن میں سرفہرست مسیلمہ ہے جو یمنی قبیلہ بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلہ کا ایک وفد ٩ ھ کو مدینہ آیا۔ اس وفد میں مسیلمہ سمیت سترہ آدمی تھے جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے۔ مگر مسیلمہ جو اس وفد کا سردار تھا، اپنے کبر و نخوت کی وجہ سے کچھ دور دور ہی رہا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بعد مجھے نبوت دینے کا وعدہ کریں تو میں ان کی پیروی کروں گا۔ آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ ثابت بن قیس خطیب انصار کو ساتھ لے کر مسیلمہ کے سر پر جا کھڑے ہوئے۔ مسیلمہ نے اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر آپ چاتے ہیں کہ ہم حکومت کے معاملہ میں آپ کو آزاد چھوڑ دیں تو اپنے بعد اسے آپ ہمارے لیے طے فرما دیجئے۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا & اگر تم مجھ سے اس معاملہ میں یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دینے کا اور یاد رکھو تم اللہ کے فیصلے سے آگے نہیں جاسکتے اور تم نے پیٹھ پھیری تو اللہ تعالیٰ تمہیں توڑ کے رکھ دے گا۔ اور اللہ کی قسم ! میں تو تجھے وہی آدمی سمجھتا ہوں جو مجھے خواب میں دکھلیا گیا ہے۔ & پھر آپ سمجھانے کا معاملہ قیس بن ثابت کے سپرد کر کے خود واپس چلے آئے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب وفد بنی حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن اثال خ سب سے پہلے مرتدین مسیلمہ کذاب اور اس کی امت :۔ واپس جا کر مسیلمہ اس معاملہ پر غور کرتا رہا۔ بالآخر اس نے خود نبوت کا دعویٰ کردیا اور کہا کہ مجھے کاروبار نبوت میں رسول اللہ کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اس نے اپنی قوم کے لیے زنا اور شراب کو حلال کردیا تاہم آپ کی رسالت کی شہادت بھی دیتا رہا یعنی اس نے بھی ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان مراعات سے قوم میں اس کی خوب قدر و منزلت ہوئی اور اسے یمامہ کا رحمان کہا جانے لگا۔ پھر رسول اللہ کو ایک خط لکھا کہ & مجھے آپ کے ساتھ اس کام میں شریک کردیا گیا ہے آدھی حکومت ہمارے لیے ہے اور آدھی قریش کے لیے۔ & آپ نے اسے جواب لکھا کہ & زمین اللہ کے لیے ہے جسے چاہتا ہے اسے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام متقین کے لیے ہے۔ & پھر مسیلمہ نے آپ کی طرف دو قاصد ابن نواحہ اور ابن اثال بھی بھیجے تھے۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا تھا & کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ & وہ کہنے لگے & ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے۔ & آپ نے فرمایا & میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا۔ اگر قاصد کو قتل کرنا جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کردیتا۔ & (مسند احمد۔ بحوالہ مشکوٰۃ ج ٢ ص ٣٤٧) یہی مسیلمہ اور اس کو ماننے والوں کی سب سے پہلی مرتدین کی جماعت تھی۔ چناچہ ربیع الاول ١١ ھ کے آغاز میں ان لوگوں پر فوج کشی کی گئی۔ بنو حنیفہ بڑے جنگجو اور دلیر لوگ تھے وہ بڑی بےجگری سے لڑے اور بڑے گھمسان کا رن پڑا۔ اگرچہ اس جنگ میں، جو جنگ یمامہ کے نام سے مشہور ہوئی، مسلمانوں کے بھی بہت سے قاری شہید ہوئے اور کافی جانی نقصان ہوا تاہم میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔ مسیلمہ کذاب خود وحشی بن حرب کے ہاتھوں اپنے کیفر کردار کو پہنچ گیا۔ یہ وہی وحشی بن حرب ہے جس نے جنگ احد میں آپ کے چچا سیدنا حمزہ کو حربے سے شہید کیا تھا۔ اس جنگ میں اس نے کفارہ کے طور پر اسی حربہ سے مسیلمہ کو قتل کیا۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب غزوہ احد) خ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی :۔ دوسرا مدعی نبوت اسود عنسی تھا۔ ایک دفعہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں دو سونے کے کنگن ہیں اس بات سے مجھے فکر لاحق ہوگئی۔ پھر خواب میں ہی مجھے کہا گیا کہ ان پر پھونک مارو۔ میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ اس کی تعبیر یہی ہے کہ میرے بعد دو جھوٹے نبی نکلیں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب یمامہ والا۔ & (بخاری۔ کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام) اسود عنسی قبیلہ بنو مدلج کا سردار تھا اسے ذوالحمار بھی کہتے ہیں۔ جادوگر تھا۔ اس نے اطراف یمن پر قبضہ کر کے رسول اللہ کے عمال کو نکال دیا تھا۔ آپ نے سیدنا معاذ بن جبل اور یمن کے رئیسوں کو اس کی سرکوبی کے لیے لکھا۔ آخر یہ شخص فیروز دیلمی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ اس کے قتل کی خبر رسول اللہ نے اسی وقت دے دی تھی۔ اگرچہ یمن سے یہ خبر دو ماہ بعد آئی تھی۔ تیسرا مرتد قبیلہ بنو اسد تھے جن کے سردار طلیحہ بن خویلد نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس پر بھی لشکر کشی کی گئی اور وہ شکست کھا کر ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ بعدہ اس نے پھر سچے دل سے اسلام کو اختیار کرلیا۔ یہ تین قبائل تو وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ کی زندگی کے آخری ایام میں ارتداد اختیار کیا تھا اور ان کی بروقت سرکوبی بھی کردی گئی تھی۔ عہد صدیقی میں مرتد ہونے والے قبائل :۔ سات قبیلے ایسے تھے جنہوں نے آپ کی وفات کے بعد ارتداد اختیار کیا تھا : (١) فزارہ عیینہ ابن حصن کی قوم (٢) غطفان قرۃ بن سلمہ قشیری کی قوم (٣) بنو سلیم۔ فجارہ بن عبدیالیل کی قوم (٤) بنو یربوع مالک بن نویرہ کی قوم (٥) بنو تمیم کے بعض لوگ جو سجاح بنت منذر کے مرید ہوگئے اس عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور مسیلمہ سے نکاح کرلیا تھا (٦) کندہ اشعث بن قیس کی قوم اور (٧) بحرین میں بنو بکر بن وائل، حطم بن زید کی قوم۔ لشکر اسامہ کی روانگی :۔ گویا وفات نبوی کے بعد ہنگامی طور پر مسلمانوں کے لیے تشویش ناک حالات پیدا ہوگئے تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ان حالات میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے سب سے پہلے لشکر اسامہ کی روانگی سے متعلق مشورہ کیا تو ایسے نازک حالات میں ساری شوریٰ لشکر اسامہ کی فوری روانگی کے خلاف تھی لیکن سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے ساری شوریٰ کے علی الرغم اپنا دو ٹوک فیصلہ ان الفاظ میں فرمایا & اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں ابوبکر صدیق (رض) کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے آ کر مجھے اچک لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور بھیجوں گا جیسا کہ رسول اللہ نے حکم دیا تھا اور اگر اس بستی میں میں اکیلا ہی رہ جاؤں تب بھی میں یہ لشکر ضرور بھیجوں گا۔ & (طبری ج ٣ ص ٢٢٥) مانعین زکوٰۃ سے جہاد :۔ چناچہ یہ لشکر بھیجا گیا جو چالیس دن کے بعد ظفریاب ہو کر واپس آگیا۔ اب مانعین زکوٰۃ کے متعلق سیدنا ابوبکر صدیق (رض) نے مہاجرین و انصار کو بلا کر تمام صورت حال ان کے سامنے بیان کر کے ان سے مشورہ طلب کیا تو آپ کی تقریر سے مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ طویل خاموشی کے بعد سیدنا عمر نے کہا : اے خلیفہ رسول ! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت نماز ادا کرنے کو ہی غنیمت سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو قوت دے گا تو پھر ان سے نمٹ لیں گے اس وقت تو ہم میں تمام عرب و عجم کے مقابلہ کی سکت نہیں۔ & اس کے بعد ابوبکر صدیق (رض) عثمان (رض) کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے بھی سیدنا عمر کی رائے کی تائید کی پھر سیدنا علی نے بھی اسی کی تائید کردی۔ پھر اس کے بعد تمام انصار و مہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ آپ نے سیدنا عمر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ تم کفر کی حالت میں تو بہت جری اور دلیر تھے اب اسلام میں آ کر کمزوری دکھاتے ہو ؟ & پھر پوری شوریٰ سے خطاب کیا کہ اللہ کی قسم ! میں برابر امر الہی پر قائم رہوں گا اور اس کی راہ میں جہاد کروں گا۔ جب تک یہ لوگ پوری کی پوری زکوٰۃ ادا نہ کریں جو وہ رسول اللہ کو ادا کرتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکوٰۃ میں کوئی فرق نہیں کیا اس واقعہ کو امام بخاری نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ جب آپ کی وفات ہوگئی اور سیدنا ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ بن گئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے تو سیدنا عمر نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) سے کہا : آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ & مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں۔ پھر جس نے یہ شہادت دے دی اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچا لیے الا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کے مال یا جان کا نقصان ہو اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ & اس کے جواب میں ابوبکر صدیق (رض) نے کہا & اللہ کی قسم ! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس لیے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے (جیسے نماز جسم کا) اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ مجھے ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیں گے جو آپ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ & تب سیدنا عمر نے کہا & اللہ کی قسم۔ اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر صدیق (رض) کے دل میں جو لڑائی کا ارادہ ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں پہچان گیا کہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی رائے درست ہے۔ & (بخاری۔ کتاب استتابۃ المعاندین والمرتدین ) چناچہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) خود جہاد کو روانہ ہونے پر تیار ہوگئے۔ سیدنا علی نے انہیں یہ رائے دی کہ آپ کا مدینہ میں موجود رہنا جہاد پر روانہ ہونے سے زیادہ ضروری ہے۔ چناچہ آپ نے مانعین زکوٰۃ اور مرتدین دونوں کی سرکوبی کے لیے سیدنا خالد بن ولید کو سپہ سالار بنا کر روانہ کیا اور اس وقت تک جہاد کا کام جاری رکھا جب تک کہ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کو راہ راست پر نہیں لے آئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس وقت کے مسلمانوں سے تہدید کے طور پر فرماتا ہے کہ اللہ کے دین کی سربلندی کا انحصار تم پر ہی نہیں۔ اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آگے لے آئے گا جن میں یہ اور یہ اوصاف ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی زندگی کے آخری ایام میں اور آپ کی وفات کے بعد جو بیشمار قبائل مرتد ہوگئے تھے ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کون سے لوگ لایا تھا اور ان کا سردار کون تھا جس کے ہاتھ پر یہ وعدہ پورا ہوا ؟ اور جو لوگ تاریخ اسلام سے تھوڑے بہت بھی واقف ہیں وہ بےساختہ کہہ دیں گے کہ ان مرتدوں کے مقابلہ میں صحابہ کرام (رض) انصار و مہاجرین اور اہل یمن کے لوگ اٹھے تھے۔ جنہوں نے ان سب مرتد لوگوں کی سرکوبی کی تھی اور ان کے سردار اور خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) تھے۔ اب اس آیت سے جس طرح رسول اللہ کی نبوت کی اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کی تصدیق ہوتی ہے اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت بھی برحق ثابت ہوتی ہے۔ خ شیعہ حضرات کا نظریہ ارتداد اور اس کا رد :۔ یہ تو تھی فتنہ ارتداد کی تاریخی حیثیت۔ اب شیعہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ دراصل مرتدین کی سرکوبی کرنے والے گروہ کے سردار اور اس وعدہ کی تکمیل کے مہتمم سیدنا علی تھے اور لوگوں کا سیدنا علی کو خلیفہ بنانا اور ان کا حق تلف کر کے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنادینا اور سیدہ فاطمہ کو حق باغ فدک نہ دینا ہی اصل ارتداد ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے سیدنا علی کے بجائے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنایا۔ لہذا وہ سب مرتد ہوگئے۔ اگر شیعہ حضرات کے اس نظریہ ارتداد کو درست تسلیم کیا جائے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صحابہ کرام (رض) سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنانے کی وجہ سے مرتد ہوگئے تھے تو کیا سیدنا علی نے ان کی سرکوبی کی تھی ؟ نیز وہ کونسی قوم تھی جن کے ذریعہ اللہ نے ان مرتدوں کی سرکوبی کر کے اپنے وعدہ کو پورا کیا تھا ؟ نیز یہ کہ کیا اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوا بھی تھا یا نہیں ؟ یہ سوال ان حضرات کے اس نظریہ کی بھرپور تردید کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ہوا یہ تھا کہ سیدنا علی ہمیشہ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) و سیدنا عمر کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن اور ان کے کاموں میں ان کے معاون و مددگار رہے۔ اور مرتدین پر چڑھائی کرنے میں ان کے ساتھ بدل و جان شریک رہے۔ رہا شیعہ حضرات کا یہ احتمال کہ سیدنا علی دل سے شریک نہ تھے تو ایک تو یہ بات (وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ 54؀) 5 ۔ المآئدہ :54) کے خلاف ہے۔ دوسرے اگر سیدنا علی سخود بھی ارتداد کا یہی مطلب سمجھتے تھے تو کم از کم یہ تو کرسکتے تھے کہ خود ان کا ساتھ نہ دیتے اور ان کی مدد نہ کرتے۔ تیسرے یہ کہ ان کا آپس میں باہمی رشتوں کا لین دین بھی تاریخ سے ثابت ہے۔ یہ سب باتیں اس بات پر قوی دلیل ہیں کہ ارتداد سے مراد وہ نہیں جو شیعہ حضرات کہتے ہیں اور نہ ہی سیدنا علی نے اسے ارتداد قرار دیا ہے۔ [٩٧] مومنوں کے حق میں نرم دل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوت مسلمانوں کو دبانے، ستانے یا نقصان پہنچانے میں صرف نہیں ہوتی بلکہ وہ آپس میں نرم خو، رحم دل اور ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے ہیں اور کافر پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ایمان کی پختگی، دیانتداری میں خلوص اور اصول کی مضبوطی سیرت و کردار اور ایمانی فراست مخالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان ثابت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافروں سے بدمزاجی اور درشتی سے پیش آتے ہیں یا انہیں گالیاں دیتے ہیں یا جب انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے چہرہ پر غصہ اور نفرت کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ مومنوں کا دامن ایسے اخلاق رذیلہ سے پاک ہوتا ہے اور ایسے مومنوں کی چوتھی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ مخالفین کے طعن وتشنیع، ان کے اعتراضات اور ان کی پھبتیوں کی مطلق پروا نہیں کرتے اور جادہ حق پر پورے عزم و استقلال کے ساتھ گامزن رہتے ہیں۔ [٩٨] ارتداد کے فتنہ کو کچلنے والے :۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ فضل صحابہ کرام (رض) کی اس جماعت تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ جب بھی کہیں ارتداد کا فتنہ کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے مرتدین کی سرکوبی کے لیے ایسے جاں نثار اور اسلام کے وفادار مسلمان کھڑے کردیتا ہے جو مرتدین سے علم اور قوت دونوں لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں اور اس فتنہ کا زور توڑ کے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے بیشمار فتنے پیدا ہوئے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے اپنے بندے پیدا کرتا رہا اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ اور ایسے لوگوں میں بھی مندرجہ بالا صفات کسی نہ کسی درجہ میں ضرور پائی جاتی ہیں۔ اور یہ ارتداد کے فتنے بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سیاسی دوسرے تحریری۔ دونوں کا سر کچلنے کے لیے اللہ تعالیٰ مناسب لوگوں کو پیدا کرتا رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ اور ان کے لیے بشارت یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ : اللہ تعالیٰ جو ماضی، حال اور مستقبل سب کچھ جانتا ہے، اسے پہلے ہی سے معلوم تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بہت سے عرب قبائل اسلام سے مرتد ہوجائیں گے، اس لیے اس نے آئندہ سے متعلق یہ آیت پہلے ہی نازل فرما دی۔ چناچہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوئے تو تین مقامات مکہ، مدینہ اور بحرین کے علاوہ تمام علاقوں سے عرب قبائل کے مرتد ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ وہ کہنے لگے کہ ہم نماز تو پڑھیں گے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس وقت ابوبکر صدیق (رض) نے ان مرتدین سے جہاد کیا۔ اس فتنۂ ارتداد کا خاتمہ جن لوگوں کے ہاتھوں ہونا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کی پانچ صفات بیان کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ ابوبکر (رض) اور ان کے ساتھی انصار و مہاجرین اور یمن سے آنے والے مجاہدین میں یہ پانچوں خوبیاں موجود تھیں۔ کتنے بےنصیب ہیں وہ لوگ جو ایسے لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کی گواہی ہے : 1 اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ 2 مومنوں پر بہت نرم ہیں۔ 3 کافروں پر بہت سخت ہیں۔ 4 اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں 5 اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے۔ ان خوش نصیب لوگوں کے سردار اور خلیفہ ابوبکر (رض) تھے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر عرب دین سے پھرے تو ابوبکر (رض) نے یمن سے مسلمان بلائے، ان سے جہاد کروایا کہ تمام عرب مسلمان ہوئے، یہ ان کے حق میں بشارت ہے۔ (موضح) ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت اتری تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ اس ( ابو موسیٰ ) کی قوم ہے۔ “ (ابن ابی حاتم، ابن جریر) ” ھدایۃ المستنیر “ کے مصنف نے اس کو حسن قرار دیا ہے۔ الغرض ابوبکر (رض) ، ان کے ساتھی مہاجرین و انصار اور اہل یمن میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔ صاحب الکشاف نے لکھا ہے کہ مرتد ہونے والوں کے بارہ (١٢) فرقے تھے، ان میں سے تین فرقے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی ہی میں مرتد ہوگئے تھے : 1 بنو مدلج جن کا رئیس اسود عنسی تھا، جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اسے فیروز دیلمی نے قتل کیا۔ (کشاف کے محشی نے لکھا ہے کہ اسود عنسی بنو مدلج سے نہیں بلکہ بنو عنس سے تھا) 2 مسیلمہ کذاب کی قوم بنو حنیفہ، جس سے ابوبکر صدیق (رض) نے جنگ کی اور وہ حمزہ (رض) کے قاتل وحشی (رض) کے ہاتھوں قتل ہوا۔ 3 بنو اسد جن کا رئیس طلیحہ بن خویلد تھا، ان کی سرکوبی کے لیے خالد بن ولید (رض) کو بھیجا گیا۔ یہ شخص آخر میں مسلمان ہوگیا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse (54) tells us that the prohibition of intimate friend-ship and intermingling with non-Muslims is for the good of Muslims themselves. Otherwise, Islam is the particular religion the responsibil¬ity to protect which has been taken by Almighty Allah Himself. The crookedness or disobedience of an individual or group is self-destruct in its place. However, should some individual or group from among Muslims were to really abandon Islam itself, turn into an apostate (Murtadd) totally and become a part of non-Muslims, even that too could bring no harm to Islam because Allah who is Absolutely Power¬ful is responsible for its protection and He will immediately bring in some other nation into action which will carry out the duties of pro¬tecting and spreading the Din of Allah. Things He must do depend neither on an individual nor on the largest of the large party or insti¬tution. When He so wishes, He can make straws work for beams and logs, otherwise beams and logs sit in forests turning into compost any-way. As referred to elsewhere in this Commentary, how well this was put in an Arabic couplet: اِنَ المقادیر اذاساعدَت اَلحَقَتِ العَاجِزَ بالقادرِ When Divine decree helps - it can make the weak overtake the mighty. When it was said in this verse that should Muslims become apos¬tates, it does not matter, for Allah will make another set of people rise to take their place, then, right there, some virtues of this set of people have also been enumerated saying clearly that they can be marked out by such and such distinguishable qualities. Those engaged in the ser¬vice of their religion should keep these qualities foremost in their minds because these verses tell us that people who have such quality and character are welcome and dear in the sight of Almighty Allah. 1. Their first quality identified by the Holy Qur&an is that Allah will love them and they will love Allah. There are two parts to this quality. The first one is the love of these people for Almighty Allah. This could be taken, in one or the other degree, within one&s control since one can, even if one does not love someone emotionally or natu¬rally, at least make his intention and determination to work for him in loving intellectually. And even emotional or natural love is though not in one&s control, yet its causes are, for instance, the meditation of the greatness and majesty of Almighty Allah, the conception of His most perfect power and the recapitulative survey of His authorities and blessings over human beings. This would definitely generate even nat¬ural love for Almighty Allah in the heart of a man or woman. But, as far as the other part is concerned, that is, the love of Allah will be with these people, it obviously seems to indicate that this is a matter where human choice and action play no role. So, what is be¬yond our control and choice hardly warrants a description and is obvi¬ously fruitless - one may be tempted to wonder. But, by pondering over some other verses of the Holy Qur&an, one will discover that the causes of this part of love too are within human control. If someone uses these means, the love of Allah will necessari¬ly be with him or her. Those means of achieving this end have been mentioned in the verse of the Qur&an which appears in Surah &Al-` Imran قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ (Say [ 0 Prophet ], |"If you do love Allah, follow me; Allah shall love you|" ... 3:31). This verse tells us that one who wishes to have Allah love him or her should make the Sunnah of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the very pivot of life and develop a committed habit of following Sunnah in whatever one does in each and every department of one&s life. If so, the promise of Allah is there - He will love that person. And this very verse also tells us that the only group of people which can stand up and meet the challenge of Disbelief and Apostasy (Kufr and Irtidad) shall be the group of people which follows the Sunnah conscientiously and habitually - neither falling short in obedience to the injunctions of the Shari` ah, nor initiating and introducing on their own, deeds con¬trary to the Sunnah. 2. The second quality of this group has been identified as: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ (...soft on the believers, hard on the disbelievers ...). Here, the word: ` adhillah& could be, as explained in Qamus, the plural of both dhalil or dhalul. Dhalil means low or despicable while dhalul means soft and tractable, that is, easily controlled, docile. According to the majority of commentators, this is the meaning of ` adhillah& at this place, that is, these people will be soft with Muslims. Even in mat¬ters of dispute, they can be controlled and mollified easily. They would set the dispute aside, even if they are right in it - as said by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in an authentic hadith: اَناَ زعیم ببیت فی رَبصِ الجنۃِ لِمَن تَرَکَ المراَء و ھو مُ حِقُ ;that is, ` I am the guarantor of a home in the middle of Paradise for one who abandons dispute despite being in the right.& Thus, the essential meaning of this word comes to be that these people will have no dispute with Muslims in matters relating to their rights and dealings. The second word is &a&izzah& in: أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ , it Ai (hard on the disbeliev¬ers). Here too, &a&izzah& is the plural of ` Aziz which means dominant, strong and hard. So, the sense is that these people are hard and strong against the enemies of Allah and His Din who would be unable to control or manipulate them. Now, by combining both sentences we can arrive at the essence of the statement - that this will be a set of people whose love and hate, friendship and enmity will be, not for their person or their rights and dealings, but only for Allah, His Mes¬senger and His Din. Therefore, when comes the time to fight, it will not be against the obedient servants of Allah and His Messenger, instead of that, it would be against those who are hostile and disobedient to Allah and His Messenger. The same subject appears in a verse of Surah Al-Fath where the words are: أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ‌ رُ‌حَمَاءُ بَيْنَهُمْ (severe against disbelievers, merciful between themselves - 48:29). 3. The essence of the first quality was the most perfect fulfillment of the rights of Allah, and the essence of the second quality was moder¬ation in the fulfillment of the rights of the servants of Allah by remain¬ing accommodating in dealings. Now, the third quality of these people mentioned here is: يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ that is, they shall keep carrying out Jihad to spread and establish the True Faith. In essence, it means that fighting against forces of disbelief and apostasy is no easy task. In this confrontation, traditionally known devotion to worship in seclu¬sion or a simple softness or hardness of attitude is not enough. Also necessary here is a feeling and fervour for the mission of establishing Din دین . 4. To ensure that this feeling and fervor achieves its desired per¬fection, the fourth quality of these people has been identified as: وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ that is, they will not care for any blame, censure or deroga¬tory criticism directed against them while they are engaged in their ef¬forts to upraise the true word of Allah and establish His Din. A little reflection will show that the leader of a movement usually faces two types of impediments in his efforts which are the power of the adver¬sary and the vilification of his own people. Experience bears out that people who lead a movement resolutely would stand firm against any adversary, even go through arrests, jail sentences, beatings and tor¬tures, yet, when it comes to facing blames and vilifications from their own people, even the most determined leaders tend to falter. Perhaps, it is to stress the importance of this trying situation at this place, that Allah Almighty has considered it sufficient to say that these people go on with their Jihad without taking notice of any blames directed against them. Finally, towards the end of the verse (54), it was added that these good qualities of character are nothing but rewards from Almighty Al¬lah. It is He who gives them to whom He wills. A human being can-not acquire these by dint of his own effort and deed without Divine grace. The Fitnah of Apostasy Through the explanation of the words of this verse, it has already been clarified that the incidence of some from among Muslims turning into apostates will not harm Islam as a religion because Allah will raise a set of people with high morals and superior deeds who would defend and support it. However, the majority of commentators have dwelt further on the Fitnah (trial) of Apostasy (Irtidad). According to them, this verse is actually a prophecy of this Trial and at the same time a good news for the group of people who will fight against it and eliminate it successfully. This coming Fitnah of Apostasy was a seri¬ous problem the germs of which had already started spreading to-wards the lattermost period of Prophethood. But, after the departure of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) from this mortal world, this became an epidemic spreading all over the Arabian Peninsula. The group blessed with the good news was that of the noble Companions (رض) who confronted this onslaught of Apostasy under the command of the first Khalifah of Islam, Sayyidna Abu Bakr As-Siddiq (رض) . Chronologically, Musaylimah al-Kadhdhab (the Liar) was the first to claim prophethood along with the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and was so audacious that he returned his emissaries back with the threat that he would have killed them had it not been for the protocol which pro¬hibited killing of envoys and emissaries. Musaylimah was a liar in his claim. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) did not get the time to wage Ji¬had against him and he left this mortal world. Similarly, Aswad al-` Ansi, the chief of the tribe of Mudhhaj in Ya¬man announced his prophethood. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) or¬dered the Governor of Yaman appointed by him to fight against him. But, the very next day after the night he was killed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) departed from this mortal world. The news about his being killed reached the noble Companions (رض) at the end of Rabi& al-Awwal. Another event like this was reported concerning the tribe of Banu Asad whose chief, Tulayhah ibn Khuwaylid laid a claim to his own prophethood. Groups from these three tribes had turned Apostates during the last sickness of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . The news of his passing away took the lid out of this storm of Apostasy. Seven tribes of Arabia from different places turned against Islam and its legal authority. They refused to pay Zakah as required by Islamic law to the Khalifah of the time, Sayyidna Abu Bakr As-Siddiq (رض) . After the passing away of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) the responsibility of the country and the community fell on the shoulders of Sayyidna Abu Bakr As-Siddiq (رض) . There was the great shock on the one hand, and the flood of trials and rebellions on the other. Sayy¬idah ` A&ishah (رض) says that the shock faced by her father, Sayyid¬na Abu Bakr (رض) ، after the passing away of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، was so great that had it fallen on high mountains they would have been re¬duced to powder. But, Almighty Allah had blessed him with the high station of patience and fortitude by virtue of which he fought against all odds with full determination and courage, and did succeed finally. Rebellion, as obvious, can be quashed by use of force only. But, conditions had reached a point of danger and Sayyidna Abu Bakr (رض) went into consultation with the noble Companions. None of them approved of a hard-line against rebellions. The danger was: If the Companions (رض) were to be committed to internal warfare, foreign powers would run over their new Islamic country. But, Allah Almighty made the heart of His ` True one& strong and settled for Jihad. He gave an eloquent Khutbah before the Companions (رض) of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) which opened up their hearts too in favour of Jihad. The power and perfection of his determination and fortitude is reflected through his words: |"People who, after they have become Muslims, turn back and reject the injunctions given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and the Law of Islam, then, it is my duty that I should wage a Jihad against them. If, against me, they decide to bring along the combined force of all Jinns and human beings, and all trees and rocks of the world, all together, and I have no comrade in arms to support me, even then, I would, all by myself, put my neck on the stake and carry out this Jihad.|" After having said this, he mounted his horse and started moving ahead. Then, the noble Companions, may Allah be pleased with them all, came forward and made Sayyidna Siddiq al-Akbar (رض) sit at his place. In no time, a battle plan was drawn with fronts assigned to different people and the time of their departure set for action. Therefore, Sayyidna ` Ali (رض) ، Hasan al-Basri, Dahhak, Qata¬dah and other Imams of Tafsir have said that this verse has been revealed about Sayyidna Abu Bakr As-Siddiq (رض) . He was the first one of the promised people about whom it was said in this verse that they will appear to defend Islam at the command of Allah. But, not contrary to this, is the possibility that some other group could also be included in the sense of this verse. Therefore, respected elders who have pointed out to Sayyidna Abu Musa al-Ash` ari (رض) or other noble Companions (رض) as being included in the sense of this verse cannot be really taken as contrary to this suggestion. In fact, the most sound and safe position is to believe that all these blessed people, rath¬er every single Muslim due to come right upto the Last Day of Qiymah, who will keep confronting disbelief and apostasy in accordance with the commands of the Qur&an - they all shall be considered as in¬cluded under the purview of this verse. Let us now resume our description of how the moving exhortation of Sayyidna Siddiq Alkbar made a group of Sahabah rise to the occa¬sion and meet the challenge of this trial of Apostasy under the leadership of the first Khalifah of Islam. Assigning an army of fighting men, he sent Sayyidna Khalid ibn Walid (رض) to Yamamah to fight against Mu-saylimah the Liar who had become very poweful in his area. The encounters were tough, but Musaylimah the Liar was ultimately killed at the hands of Sayyidna Wahshi, may Allah be pleased with him. His group repented and returned to the fold of Islam. Again, it was Sayy¬idna Khalid (رض) who went to fight against Tulayhah ibn Khuwaylid. He escaped and went out to some other area. Then, Allah gave him the ability to repent and return to Islam once again. He came back as a Muslim. The news that Aswad al-&Ansi had been killed and his group had surrendered had reached Madinah toward the end of the month of Rabi& al-Awwal, the first month of the Siddiqi Caliphate. This was the very first news of victory which reached Sayyidna Siddiq al-Akbar (رض) under such trying circumstances. So, from this point onwards, the noble Companions (رض) of the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) were also blessed with more clear victories on every front against other tribes which had refused to pay Zakah. Thus, the practical demonstration of the truth of the word of Allah mentioned towards the end of the fifth verse (56): فَإِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (then, the people of Allah are the ones to prevail) was seen by the whole world. Speaking historically and objectively, it is a proven fact that the problem of Apostasy did affect some tribes of the Arabian Peninsula after the passing away of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Then, the group that Allah made to rise and fight against the challenge was that of Sayyid¬na Siddiq al-Akbar (رض) and his colleagues among the Sahabah (رض) . So, it also stands proved from this very verse that the qualities of the promised set of people given in the Qur&an were all present in Sayyidna Siddiq al-Akbar and the Sahabah with him. To restate these, we can say: 1. Allah loves them. 2. They love Allah. 3. They are soft with Muslims and hard against disbelievers. 4. Their Jihad was in the way of Allah in which they were not afraid of any blame. Pointing out to the reality of realities, it was clearly stressed that all these high qualities of character, their timely use and the ultimate success in the Islamic expedition through them were things which are not achieved by simple reliance on planning or power or numbers. This is nothing but the grace of Allah. It is He who bestows this bless¬ing upon whom He wills.

چوتھی آیت میں یہ بتلایا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ گہری دوستی اور خلط ملط کی جو ممانعت کی گئی ہے یہ خود مسلمانوں ہی کے مفاد کی خاطر ہے، ورنہ اسلام وہ دین حق ہے جس کی حفاظت کا ذمہ حق تعالیٰ نے خود لے لیا ہے، کسی فرد یا جماعت کی کجروی یا نافرمانی تو بجائے خود ہے۔ اگر مسلمانوں کا کوئی فرد یا جماعت سچ مچ اسلام ہی کو چھوڑ بیٹھے اور بالکل ہی مرتد ہو کر غیر مسلموں میں مل جائے اس سے بھی اسلام کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قادر مطلق جو اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے فوراً کوئی دوسری قوم میدان عمل میں لے آئے گا جو اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت اور اشاعت کے فرائض انجام دے گی۔ اس کے کام نہ کسی ذات پر موقوف ہیں نہ کسی بڑی سے بڑی جماعت یا ادارہ پر وہ جب چاہتے ہیں تو تنکوں سے شہتیر کا کام لے لیتے ہیں ورنہ شہتیر پڑے کھاد ہوتے رہتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ان المقادیر اذا ساعدت الحقت العاجز بالقادر ” یعنی تقدیر الٓہی جب کسی کی مددگار ہوجاتی ہے تو ایک عاجز و بیکار سے قادر و توانا کا کام لے لیتی ہے “۔ اس آیت میں جہاں یہ ذکر فرمایا کہ مسلمان اگر مرتد ہوجائیں تو پروا نہیں، اللہ تعالیٰ ایک دوسری جماعت کھڑی کر دے گا، وہاں اس پاکباز جماعت کے کچھ اوصاف بھی بیان فرماتے ہیں کہ یہ جماعت ایسے اوصاف کی حامل ہوگی، دین کی خدمت کرنے والوں کو ان اوصاف کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ آیت سے معلوم ہوا کہ ان اوصاف و عادات کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول و محبوب ہیں۔ ان کی پہلی صفت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھیں گے۔ اس صفت کے دو جز ہیں، ایک ان لوگوں کی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ، یہ تو کسی نہ کسی درجہ میں انسان کے اختیار میں سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک انسان کو کسی کے ساتھ اگر طبعی محبت نہ ہو تو کم از کم عقلی محبت اپنے عزم و ارادہ کے تابع رکھ سکتا ہے۔ اور طبعی محبت بھی اگرچہ اختیار میں نہیں، مگر اس کے بھی اسباب اختیاری ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور قدرت کاملہ اور انسان پر اس کے اختیارات و انعامات کا مراقبہ اور تصور لازمی طور پر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت طبعی بھی پیدا کردیتا ہے۔ لیکن دوسرا جز یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت ان لوگوں کے ساتھ ہوگی، اس میں تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اختیار وعمل کا کوئی دخل اس میں نہیں، اور جو چیز ہماری قدرت و اختیار سے باہر ہے اسے سنانے اور بتلانے کا بھی بظاہر کوئی حاصل نہیں نکلتا۔ لیکن قرآن کریم کی دوسری آیت میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ محبت کے اس جز کے اسباب بھی انسان کے اختیار میں ہیں۔ اگر وہ ان اسباب کا استعمال کرے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے ساتھ لازمی ہوگی۔ اور وہ اسباب (آیت) قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی۔ میں مذکور ہیں یعنی اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بتلا دیجئے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت فرمانے لگیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرمائیں اس کو چاہئے کہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی زندگی کا محور بنالے، اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر کام میں سنت کے اتباع کا التزام کرے، تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سے محبت فرمائیں گے۔ اور اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کفر و ارتداد کا مقابلہ وہی جماعت کرسکے گی جو متبع سنت ہو، نہ احکام شرعیہ کی تعمیل میں کوتاہی کرے اور نہ اپنی طرف سے خلاف سنت اعمال کو اور بدعات کو جاری کرے۔ دوسری صفت اس جماعت کی یہ بتلائی گئی ہے کہ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤ ْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ، اس میں لفظ اذلّہ حسب تصریح قاموس ذلیل یا ذلول دونوں کی جمع ہو سکتی ہے۔ ذلیل کے معنی عربی زبان میں وہی ہیں جو اردو وغیرہ میں معروف ہیں۔ اور ذلول کے معنی ہیں نرم اور سہل الانقیاد، یعنی جو آسانی سے قابو میں آجائے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس جگہ یہی معنی مراد ہیں، یعنی یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے نرم ہوں گے۔ اگر کسی معاملہ میں اختلاف بھی ہوا تو آسانی سے قابو میں آجائیں گے۔ جھگڑا چھوڑ دیں گے۔ اگرچہ وہ اپنے جھگڑے میں حق بجانب بھی ہوں۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : انا زعیم ببیت فی ربض الجنة لمن ترک المراء وھو محق، ” یعنی میں اس شخص کو وسط جنت میں گھر دلوانے کی ذمہ داری لیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے “۔ تو حاصل اس لفظ کا یہ ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے اپنے حقوق اور معاملات میں کوئی جھگڑا نہ رکھیں گے۔ دوسرا لفظ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ آیا۔ اس میں بھی اَعِزّة، عزیز کی جمع ہے، جس کے معنی غالب، قوی اور سخت کے آتے ہیں، مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے دین کے مخالفوں کے مقابلہ میں سخت اور قوی ہیں اور وہ ان پر قابو نہ پاسکیں گے۔ اور دونوں جملوں کو ملانے کا حاصل یہ نکل آیا کہ یہ ایک ایسی قوم ہوگی جس کی محبت و عداوت اور دشمنی اپنی ذات اور ذاتی حقوق و معاملات کے بجائے صرف اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر ہوگی۔ اسی لئے ان کی لڑائی کا رخ اللہ و رسول کے فرماں برداروں کی طرف نہیں بلکہ اس کے دشمنوں اور نافرمانوں کی طرف ہوگا۔ یہی مضمون ہے سورة فتح کی اس آیت کا : (آیت) اشداء علی الکفار رحمآء بینھم۔ پہلی صفت کا حاصل حقوق کی تکمیل تھا اور دوسری صفت کا حاصل حقوق العباد اور معاملات کا اعتدال ہے۔ تیسری صفت اس جماعت کی یہ بیان فرمائی : يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، یعنی یہ لوگ دین حق کی اشاعت اور برتری کے لئے جہاد کرتے رہیں گے اس کا حاصل یہ ہے کہ کفر و ارتداد کے مقابلہ کے لئے صرف معروف قسم کی عبادت گزاری اور نرم و سخت ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اقامت دین کا جذبہ بھی ہو۔ اسی جذبہ کی تکمیل کے لئے چوتھی صفت یہ بتلائی گئی وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ، یعنی اقامت دین اور کلمہ حق کے سربلند کرنے کی کوشش میں یہ لوگ کسی ملامت کی پروا نہ کریں گے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی تحریک کو چلانے والے کی راہ میں دو قسم کی چیزیں حائل ہوا کرتی ہیں۔ ایک مخالف قوت کا زور دوسرے اپنوں کے لعن طعن اور ملامت، اور تجربہ شاہد ہے کہ جو لوگ تحریک چلانے کے لئے عزم لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور اکثر حالات میں مخالف قوت سے تو مغلوب نہیں ہوتے، قید و بند اور زخم و خون سب کچھ برداشت کر لتے ہیں۔ لیکن اپنوں کے طعنوں اور تشنیع و تقبیح سے بڑے بڑے عزم والوں کے قدم میں لغزش آجاتی ہے۔ شاید اسی لئے حق تعالیٰ نے اس جگہ اس کی اہمیت جتلانے کے لئے اس پر اکتفاء فرمایا کہ یہ لوگ کسی کی ملامت کی پروا کئے بغیر اپنا جہاد جاری رکھتے ہیں۔ آخر آیت میں یہ بھی بتلا دیا کہ یہ صفات اور خصائل حسنہ اللہ تعالیٰ ہی کے انعام ہیں، وہی جس کو چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں، انسان محض اپنے سعی و عمل سے بغیر فضل خدا وندی کے ان کو حاصل نہیں کرسکتا۔ آیت کے الفاظ کی تشریح سے یہ واضح ہوچکا کہ اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو دین اسلام کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ بلکہ اس کی حفاظت و حمایت کیلئے اللہ جل شانہ ایک اعلیٰ اخلاق و اعمال کی جماعت کو کھڑا کردیں گے۔ جمہور مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیت درحقیقت آنے والے فتنہ کی پیشن گوئی اور اس کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کرکے کامیاب ہونے والی جماعت کے لئے بشارت ہے آنے والا وہ فتنہ ارتداد ہے جس کے کچھ جراثیم تو عہد نبوت کے بالکل آخری ایام میں پھیلنے لگے تھے۔ اور پھر بعد وفات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عام ہو کر پورے جزیرة العرب میں اس کا طوفان کھڑا ہوگیا اور بشارت پانے والی وہ جماعت صحابہ کرام (رض) کی ہے جس نے خلیفہ اول صدیق اکبر (رض) کے ساتھ مل کر اس فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا۔ واقعات یہ تھے کہ سب سے پہلے تو مسیلمہ کذّاب نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک نبوت ہونے کا دعویٰ کیا، اور یہاں تک جرأت کی کہ آپ کے قاصدوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اگر بمصلحت تبلیغ و اصلاح یہ دستور عام نہ ہوتا کہ قاصدوں اور سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تمہیں قتل کردیتا، مسیلمہ اپنے دعوے میں کذاب تھا۔ پھر آپ کو اس کے خلاف جہاد کا موقع نہیں ملا، یہاں تک کہ وفات ہوگئی۔ اسی طرح یمن میں قبیلہ مذجج کے سردار اسودعنسی نے اپنی نبوت کا اعلان کردیا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے مقرر کئے ہوئے حاکم یمن کو اس کا مقابلہ کرنے کا حکم دیدیا، مگر جس رات میں اس کو قتل کیا گیا اس کے اگلے دن ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی، صحابہ کرام تک اس کی خبر ربیع الاول کے آخر میں پہنچی، اسی طرح کا واقعہ قبیلہ بنو اسد میں پیش آیا کہ ان کا سردار طلیحہ بن خویلد خود اپنی نبوت کا مدعی بن گیا۔ یہ تین قبیلوں کی جماعتیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض وفات ہی میں مرتد ہوچکی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی خبر نے اس فتنہ ارتداد کو ایک طوفانی شکل میں منتقل کردیا۔ عرب کے سات قبیلے مختلف مقامات پر اسلام اور اس کی حکومت سے منحرف ہوگئے اور خلیفہ وقت ابوبکر صدیق (رض) کو اسلامی قانون کے مطابق زکوٰة ادا کرنے سے انکار کردیا۔ وفات سرور کائنات کے بعد ملک و ملت کی ذمہ داری خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر (رض) پر عائد ہوئی۔ ایک طرف ان حضرات پر اس حادثہ عظیم کا صدمہ جانگداز اور دوسری طرف یہ فتنوں اور بغاوتوں کے سیلاب عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جو صدمہ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق (رض) پر پڑا اگر وہ مضبوط پہاڑوں پر بھی پڑجاتا تو ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر و استقامت کا وہ اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا کہ تمام آفات و مصائب کا پورے عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بالآخر کامیاب ہوئے۔ بغاوتوں کا مقابلہ ظاہر ہے کہ طاقت استعمال کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ مگر حالات کی نزاکت اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ صدیق اکبر (رض) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو کسی کی رائے نہ ہوئی کہ اس وقت بغاوتوں کے مقابلہ میں کوئی سخت قدم اٹھایا جائے۔ خطرہ یہ تھا کہ حضرات صحابہ اگر اندرونی جنگ میں مشغول ہوجائیں تو بیرونی طاقتیں اس جدید اسلامی ملک پر دوڑ پڑیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے صدیق کے قلب کو اس جہاد کے لئے مضبوط فرما دیا اور آپ (رض) نے ایک ایسا بلیغ خطبہ صحابہ کرام کے سامنے دیا کہ اس جہاد کے لئے ان کا بھی شرح صدر ہوگیا۔ اس خطبہ میں اپنے پورے عزم و استقلال کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ : ” جو لوگ مسلمان ہونے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیئے ہوئے احکام اور قانون اسلام کا انکار کریں تو میرا فرض ہے کہ میں ان کے خلاف جہاد کروں، اگر میرے مقابلہ پر تمام جن وانس اور دنیا کے شجر و حجر سب کو جمع کر لائیں، اور کوئی میرا ساتھی نہ ہو، تب بھی میں تنہا اپنی گردن سے اس جہاد کو انجام دوں گا “۔ اور یہ فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور چلنے لگے، اس وقت صحابہ کرام آگے آئے اور صدیق اکبر (رض) کو اپنی جگہ بٹھلا کر مختلف محاذوں پر مختلف حضرات کی روانگی کا نقشہ بن گیا۔ اسی لئے حضرت علی مرتضیٰ (رض) ، حسن بصری رحمة اللہ علیہ، ضحاک رحمة اللہ علیہ قتادہ وغیرہ جمہور ائمہ تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آئی ہے وہی سب سے پہلے اس قوم کا مصداق ثابت ہوئے۔ جن کے من جانب اللہ میدان عمل میں لائے جانے کا آیت مذکورہ میں ارشاد ہے۔ مگر یہ اس کے منافی نہیں کہ کوئی دوسری جماعت بھی اس آیت کی مصداق ہو، اس لئے جن حضرات نے اس آیت کا مصداق حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) یا دوسرے صحابہ کرام کو قرار دیا ہے، وہ بھی اس کا مخالف نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ یہ سب حضرات بلکہ قیامت تک آنے والا وہ مسلمان جو قرآنی ہدایات کے مطابق کفر و ارتداد کا مقابلہ کریں گے، اسی آیت کے مصداق میں داخل ہوں گے۔ بہرحال صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت حضرت صدیق اکبر (رض) کے زیر ہدایت اس فتنہ ارتداد کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہوگئی۔ حضرت خالد بن ولید (رض) کو ایک بڑا لشکر دے کر مسیلمہ کذاب کے مقابلہ پر یمامہ کی طرف روانہ کیا۔ وہاں مسیلمہ کذاب کی جماعت نے اچھی خاصی طاقت پکڑ لی تھی۔ سخت معرکے ہوئے، بالآخر مسیملہ کذاب حضرت وحشی (رض) کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کی جماعت تائب ہو کر پھر مسلمانوں میں مل گئی۔ اسی طرح طلیحہ بن خویلد کے مقابلہ پر بھی حضرت خالد (رض) ہی تشریف لے گئے۔ وہ فرار ہو کر کہیں باہر چلا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو خود بخود ہی اسلام کی دوبارہ توفیق بخشی اور مسلمان ہو کر لوٹ آئے۔ خلافت صدیقی کے پہلے مہینہ ربیع الاول کے آخر میں اسود عنسی کے قتل اور اس کی قوم کے مطیع و فرمانبردار ہوجانے کی خبر پہنچ گئی اور یہی خبر سب سے پہلی فتح کی خبر تھی جو حضرت صدیق اکبر (رض) کو ان حالات میں پہنچی تھی۔ اسی طرح دوسرے قبائل مانعین زکوٰة کے مقابلہ میں بھی ہر محاذ پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو فتح مبین نصیب فرمائی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد جو تیسری آیت کے آخر میں مذکور ہے فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ ، یعنی اللہ والوں کی جماعت ہی غالب آ کر رہے گی۔ اس کی عملی تفسیر دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لی۔ اور جبکہ تاریخی اور واقعاتی رنگ میں یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد قبائل عرب میں فتنہ ارتداد پھیلا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جو قوم کھڑی فرمائی وہ صدیق اکبر (رض) اور ان کے ساتھی صحابہ کرام ہی تھے۔ تو اس آیت ہی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو اوصاف اس جماعت کے قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں وہ سب صدیق اکبر (رض) اور ان کے رفقائے کار صحابہ کرام میں موجود تھے۔ یعنی : اول یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ یہ سب حضرات مسلمانوں کے معاملات میں نہایت نرم ہیں اور کفار کے معاملہ میں تیز، چوتھے یہ کہ ان کا جہاد ٹھیک اللہ کی راہ میں تھا جس میں انہوں نے کسی کی ملامت وغیرہ کی پرواہ نہیں کی۔ آخر آیت میں اس حقیقة الحقائق کو واضح فرما دیا کہ یہ سب صفات کمال پھر ان کا ہر وقت استعمال پھر ان کے ذریعہ اسلامی مہم میں کامیابی یہ سب چیزیں نری تدبیر یا طاقت یا جماعت کے بل بوتہ پر حاصل نہیں ہوا کرتیں، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہی جس کو چاہتے ہیں یہ نعمت عطاء فرماتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِہٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللہُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّہُمْ وَيُحِبُّوْنَہٗٓ۝ ٠ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ۝ ٠ۡيُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗىِٕمٍ۝ ٠ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللہِ يُؤْتِيْہِ مَنْ يَّشَاۗءُ۝ ٠ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ۝ ٥٤ ردت والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد/ 25] وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] ، أي : عاد إليه البصر، ( رد د ) الرد ( ن ) الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد/ 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف/ 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ ذُّلُّ ( محمود) متی کان من جهة الإنسان نفسه لنفسه فمحمود، نحو قوله تعالی: أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة/ 54] ، وقال : وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران/ 123] ، وقال : فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا [ النحل/ 69] ، أي : منقادة غير متصعّبة، قال تعالی: وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان/ 14] ، أي : سهّلت، وقیل : الأمور تجري علی أذلالها أي : مسالکها وطرقها . پھر اگر انسان کی ذلت خود اس کے اپنے اختیار وار اور سے ہو تو وہ محمود سمجھی جاتی ہے جیسا کہ قرآن نے مومنین کی مدح کرتے ہوئے فرمایا : : أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ المائدة/ 54] جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں ۔ وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ [ آل عمران/ 123] اور خدا نے جنگ بدر میں بھی تمہاری مدد کی تھی اور اس وقت بھی تو تم بےسرو سامان تھے ۔ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا[ النحل/ 69] يعنی بغیر کسی قسم سر کشی کے نہایت مطیع اور منقاد ہوکر اپنے پر وردگاڑ کے صرف راستوں پر چلی جا اور آیت کریمہ : وَذُلِّلَتْ قُطُوفُها تَذْلِيلًا[ الإنسان/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ وہ گچھے اس طرح جھکے ہوئے ہوں گے کہ ان کو نہایت آسانی سے توڑ سکیں گے محاورہ ہے ۔ ( مثل ) کہ تمام امور اپنے راستوں پر اور حسب مواقع جاری ہیں ۔ عز العِزَّةُ : حالةٌ مانعة للإنسان من أن يغلب . من قولهم : أرضٌ عَزَازٌ. أي : صُلْبةٌ. قال تعالی: أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] ( ع ز ز ) العزۃ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان کو مغلوب ہونے سے محفوظ رکھے یہ ارض عزاز سے ماخوذ ہے جس کے معنی سخت زمین کے ہیں۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعاً [ النساء/ 139] کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت تو سب خدا ہی کی ہے ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ فضل الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر فعلی ثلاثة أضرب : فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات . وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله : وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] ، يعني : المال وما يکتسب، ( ف ض ل ) الفضل کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء/ 70] اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل/ 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء/ 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراخ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) اسد وغطفان اور قبیلہ کندہ و مراد کے جو آدمی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت کی بعد دین سے پھرجائیں تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو لائے گا جنھیں اللہ تعالیٰ سے محبت ہوگی اور وہ مسلمانوں کے ساتھ بہت نرم دل اور مہربان ہوں گے اور اطاعت خداوندی میں سر بسجود ہوں گے کسی ملامت سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یہ تمام خوبیاں فضل الہی ہیں، جو اس کا اہل ہوتا ہے، اس کو دیتا ہے وہ بڑی وسعتوں والا ہے اور جس کو دیتا ہے اس کو جاننے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ ) یہاں پر جو لفظ یَرْتَدَّ آیا ہے اس کے مفہوم میں ایک تو قانونی اور ظاہری ارتداد ہے۔ جیسے ایک شخص اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوجائے ‘ یہودی یا نصرانی ہوجائے۔ یہ تو بہت واضح قانونی ارتداد ہے ‘ لیکن ایک باطنی ارتداد بھی ہے ‘ یعنی الٹے پاؤں پھرنے لگنا ‘ پسپائی اختیار کرلینا۔ اوپر اسلام کا لبادہ تو جوں کا توں ہے ‘ لیکن فرق یہ واقع ہوگیا ہے کہ پہلے غلبۂ دین کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے ‘ محنتیں کر رہے تھے ‘ وقت لگا رہے تھے ‘ ایثار کر رہے تھے ‘ انفاق کر رہے تھے ‘ بھاگ دوڑ کر رہے تھے ‘ اور اب کوئی آزمائش آئی ہے تو ٹھٹک کر کھڑے رہ گئے ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ (آیت ٢٠) میں ارشاد ہے : (کُلَّمَا اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ط) جب ذرا روشنی ہوتی ہے ان پر تو اس میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب کیفیت یہ ہے کہ نہ صرف کھڑے رہ گئے ہیں بلکہ کچھ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ایسی کیفیت کے بارے میں فرمایا گیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمہارا محتاج ہے ‘ بلکہ تم اللہ کے محتاج ہو۔ تمہیں اپنی نجات کے لیے اپنے اس فرض کو ادا کرنا ہے۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہٹائے گا اور کسی دوسری قوم کو لے آئے گا ‘ کسی اور کے ہاتھ میں اپنے دین کا جھنڈا تھما دے گا۔ یہاں پر مؤمنین صادقین کے اوصاف کے ضمن میں جو تین جوڑے آئے ہیں ان پر ذرا دوبارہ غور کریں : (١) (یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ ) اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ (اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُم ! ) (٢) (اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز) وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت سخت ہوں گے۔ یہی مضمون سورة الفتح (آیت ٢٩) میں دوسرے انداز سے آیا ہے : (اَشِدِّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ ) آپس میں بہت رحیم و شفیق ‘ کفار پر بہت سخت۔ بقول اقبالؔ : ؂ ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن ! (٣) (یُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ءِمٍ ) اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں کریں گے۔ ان کے رشتہ دار ان کو سمجھائیں گے ‘ دوست احباب نصیحتیں کریں گے کہ کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟ دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا ؟ تم fanatic ہوگئے ہو ؟ تمہیں اولاد کا خیال نہیں ‘ اپنے مستقبل کی فکر نہیں ! مگر یہ لوگ کسی کی کوئی پروا نہیں کریں گے ‘ بس اپنی ہی دھن میں مگن ہوں گے۔ اور ان کی کیفیت یہ ہوگی : ؂ واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی خیریت جاں ‘ راحتِ تن ‘ صحت داماں سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری تنہا پس زنداں ‘ کبھی رسوا سر بازار کڑکے ہیں بہت شیخ سر گوشۂ منبر گرجے ہیں بہت اہل حکم بر سر دربار چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت اِس عشق ‘ نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت ! یہ ایک کردار ہے جس کو واضح کرنے کے لیے دو دو اوصاف کے یہ تین جوڑے آئے ہیں۔ ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمیں اس کردار کو عملاً اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ اگر تم اپنے بھائیوں ‘ عزیزوں ‘ دوستوں ‘ ساتھیوں اور رفیقوں کو دیکھتے ہو کہ ان پر اللہ کا بڑا فضل ہوا ہے ‘ انہوں نے کیسے کیسے مرحلے َ سر کرلیے ہیں ‘ کیسی کیسی بازیاں جیت لیں ہیں ‘ تو تم بھی اللہ سے اس کا فضل طلب کرو۔ اللہ تمہیں بھیّ ہمت دے گا۔ اس لیے کہ اس دین کے کام میں اس قسم کا رشک بہت پسندیدہ ہے۔ جیسے حضرت عمر (رض) کو ‘ رشک آیاحضرت ابوبکر صدیق (رض) پر۔ جب غزوۂ تبوک کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو آپ (رض) نے سوچا کہ آج تو میں ابوبکر (رض) سے بازی لے جاؤں گا ‘ کیونکہ اتفاق سے اس وقت میرے پاس خاصا مال ہے۔ چناچہ انہوں (رض) نے اپنے پورے مال کے دو برابر حصے کیے ‘ اور پورا ایک حصہ یعنی آدھا مال لا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں ڈال دیا۔ لیکن حضرت ابوبکرصدیق (رض) کے گھر میں جو کچھ تھا وہ سب لے آئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر (رض) نے کہا میں نے جان لیا کہ ابوبکر (رض) سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ تو دین کے معاملے میں اللہ کا حکم ہے : (فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ) (المائدۃ : ٤٨) یعنی نیکیوں میں ‘ خیر میں ‘ بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہو ! اب پھر اہل ایمان کو دوستانہ تعلقات کے معیار کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اہل ایمان کی دلی دوستی کفار سے ‘ یہود ہنود اور نصاریٰ سے ممکن ہی نہیں ‘ اس لیے کہ یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر دین کی غیرت و حمیت ہوگی ‘ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت دل میں ہوگی تو ان کے دشمنوں سے دلی دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

87. To be 'humble towards believers' signifies that a person should never use his strength against the believers. His native intelligence, shrewdness, ability, influence, wealth, physical prowess should not be used for the purpose of either suppressing, persecuting or causing harm to the Muslims. Among themselves, the Muslims should always find him gentle, merciful, sympathetic and mild tempered. To be 'firm towards unbelievers', on the contrary, means that by virtue of the intensity of his faith, the sincerity of his conviction, his strict adherence to his principles, his strength of character and his insight and perspicacity born of faith, a man should be firm as a rock in his dealings with the opponents of Islam, so that they find it impossible to dislodge him. There should be no doubt in their minds that the believer would rather lay down his life than compromise his position by yielding to external pressures. 88.In following the religion of God, in implementing His injunctions, in judging things to be either right or wrong according to the criteria of the faith, the believer will be afraid of nothing. He will be impervious to opposition, reproach, denunciation, name-calling and scorn. Even when public opinion happens to be hostile, and his efforts to follow Islam single him out for the scorn of the whole world, the man of faith will still follow the way which he recognizes in his heart to be true.

سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :87 ”مومنوں پر نرم“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اہل ایمان کے مقابلے میں اپنی طاقت کبھی استعمال نہ کرے ۔ اس کی ذہانت ، اس کی ہوشیاری ، اس کی قابلیت ، اس کا رسوخ و اثر ، اس کا مال ، اس کا جسمانی زور ، کوئی چیز بھی مسلمانوں کو دبانے اور ستانے اور نقصان پہنچانے کے لیے نہ ہو ۔ مسلمان اپنے درمیان اس کو ہمیشہ ایک نرم خو ، رحم دل ، ہمدرد اور حلیم انسان ہی پائیں ۔ ”کفار پر سخت“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن آدمی اپنے ایمان کی پختگی ، دینداری کے خلوص ، اصول کی مضبوطی ، سیرت کی طاقت اور ایمان کی فراست کی وجہ سے مخلالفین اسلام کے مقابلہ میں پتھر کی چٹان کے مانند ہو کہ کسی طرح اپنے مقام سے ہٹایا نہ جا سکے ۔ وہ اسے کبھی موم کی ناک اور نرم چارہ نہ بنائیں ۔ انہیں جب بھی اس سے سابقہ پیش آئے ان پر یہ ثابت ہو جائے کہ یہ اللہ کا بندہ مر سکتا ہے مگر کسی قیمت پر بک نہیں سکتا اور کسی دباؤ سے دب نہیں سکتا ۔ سورة الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر :88 یعنی اللہ کے دین کی پیروی کرنے میں ، اس کے احکام پر عمل درآمد کرنے میں ، اور اس دین کی رو سے جو کچھ حق ہے اسے حق اور جو کچھ باطل ہے اسے باطل کہنے میں انہیں کوئی باک نہ ہوگا ۔ کسی کی مخالفت ، کسی کی طعن و تشنیع ، کسی کے اعتراض اور کسی کی پھبتیوں اور آوازوں کی وہ پروا نہ کریں گے ۔ اگر رائے عام اسلام کی مخالف ہو اور اسلام کے طریقے پر چلنے کے معنی اپنے آپ کو دنیا بھر میں نکو بنا لینے کے ہوں تب بھی وہ اسی راہ پر چلیں گے جسے وہ سچے دل سے حق جانتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں لوگوں کے مرتد ہوجانے سے پہلے یہ بات تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اور خلفاء کے زمانہ میں کچھ لوگ اسلام لانے کے بعد اسلام سے پھر جاویں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے علم غیب کے طور پر اس آیت میں ان لوگوں کی خبر پہلے سے دی ہے۔ چناچہ ما بعد میں اس علم غیب کا ظہور ہوا کہ گیارہ فرقے عرب کے مرتد ہوئے تین فرقے خود آنحضرت کے اخیر زمانہ میں اس طرح مرتد ہوئے کہ اسود عنسی کے ساتھ بنی مدلج فرقہ مرتد ہوا اور یمن کے تمام شہروں پر اس اسودعنسی کا تسلط ہوگیا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عاملوں کو اس نے یمن کے شہروں سے اٹھا دیا۔ آخر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو اس کی سرکوبی کے لئے مقرر کیا اور یمن کے مسلمانوں نے حضرت معاذ بن جبل (رض) کی مدد کی آخر کار فیروز ویلمی (رض) کے ہاتھ سے اسود عنسی مارا گیا۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے ایک روز پہلے اسود کے مارے جانے کی خبر مدینہ میں آئی۔ یہ اسود ایک کاہن تھا دوسرا فرقہ بنی حنیفہ مسیلمہ کذاب کے ساتھ مرتد ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے عہد تک مسیلمہ کا زور رہا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خالد بن ولید (رض) کو مسیلمہ کی سرکوبی کے لئے مقرر کیا اور وحشی قاتل حضرت امیر حمزہ (رض) کے ہاتھ سے مسیلمہ مارا گیا۔ چناچہ وحشی کا یہ مقولہ مشہور ہے کہ قَتَلْتُ خَیْرَ النَّاسِ وَ شَرَ النَّاسِ جس کا مطلب یہ ہے کہ حالت کفر میں جس طرح امیر حمزہ (رض) جیسے اچھے آدمی جنگ احد میں میرے ہاتھ سے شہید ہوئے اسی طرح حالت اسلام میں بد ترین خلائق مسیلمہ کو میں نے قتل کیا۔ تیسرا فرقہ بن اسد مرتد ہوا اور خالد بن ولید کے ہاتھ سے شکست پاکر پھر اسلام لایا اس فرقہ کا سر غنہ ایک شخص طلیحہ بن خویلد تھا یہ طلیحہ آخر کو پھر مسلمان ہو کر آخر تک مسلمان رہے ٢ ؎۔ ان فرقوں کے علاوہ اور سات فرقے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے عہد میں زکوٰۃ کے منکر اور مرتد ہوئے اور فرقہ غسان حضرت عمر (رض) کے عہد میں مرتد ہوا جن کی لڑائی کی کیفیت سیر اور تاریخ کی کتابوں میں ہے حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں زیادہ لوگ مرتد ہوئے اس لئے حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ میرے باپ کی خلافت میں مصیبتیں پیش آئیں کہ پہاڑ بھی ان مصیبتوں کو نہیں جھیل سکتا۔ حق تو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقہ (رض) نے ان سات فرقوں سے لڑنے میں بڑی جواں مردی کی۔ جب صحابہ عمومًا اور حضرت عمر (رض) خصوصاً ان لوگوں سے لڑنے میں حضرت ابو بکرصدیق (رض) کے مخالف ہوئے تو آپ اکیلے تن تنہا ہتھیار لگا کر میدان جنگ کو روانہ ہوئے آخر آپ کو اکیلا جتے ہوئے دیکھ کر سب لوگ ساتھ ہوئے۔ اس پر آشوب زمانہ میں اہل یمن اور جن لوگوں نے دین کی حمایت کی ہے انہیں لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنا پیارہ فرمایا ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ان پیاروں کے سردار حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں اور اب بھی کسی فتنہ و فاسد کے وقت اسی طرح جو شخص دین کی حمایت کرے گا وہ بھی اللہ کا پیارا ضرور ہے۔ مرتد اس شخص کو کہتے ہں۔ جو اپنے دین سے پھر جاوے اس زمانہ کے لوگ جو دین سے پھرگئے تھے ان میں بعض تو پھر بت پرست بن گئے تھے جیسے بنی اسد طلحہ بن خویلد کے ساتھ اور بعض نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے منکر ہو کر اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کو نبی جاننے لگے تھے۔ بعض آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد زکوٰۃ کو امام کے پاس بھیجنے کے قائل نہیں تھے اور یہ کہتے تھے کہ آیت { خُدْمِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تَطَھِّرْھُمْ وَ تُزَّکِیْہِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صْلٰوتَکَ سَکَنٌ لَہُمْ } ( ٩: ١٠٣) کے موافق زکوٰۃ کا حکم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے تک تھا ١ ؎۔ کیونکہ زکوٰۃ لینے کے بعد زکوٰۃ دینے والے کے لئے دعا کرنا اور اس دعا کا مفید ہونا یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا۔ یہ آیت سورة توبہ کی ہے۔ سورة توبہ کی تفسیر میں آوے گا کو جو لوگ تبوک کی لڑائی میں نہیں گئے تھے ان پر اللہ تعالیٰ کی خفگی ہوئی اور خفگی کے بعد جب ان کی توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ جس مال کی الفت اور حفاظت نے ہم کو تبوک کے سفر سے روکا اس مال کو ہم اللہ کی راہ میں خیرات کرنا چاہیے ہیں اس پر یہ آیت نازل فرمائی ٢ ؎۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو سب مال کے تیسرے حصہ کی خیرات کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت فرضی زکوٰۃ کے باب میں نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ میں ثلث مال نہیں لیا جاسکتا اور جب یہ آیت فرضی زکوٰۃ کے باب میں نہیں تو ما نعین زکوٰۃ نے اس آیت سے مطلب جو نکالا تھا کو زکوٰۃ کا دینا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک تھا وہ مطلب بھی صحیح نہ رہا غرض اس قسم کے وجوہات سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور حضرت عمر (رض) کے فیما بین ان ما نعین زکوٰۃ سے لڑنے اور نہ لڑنے میں بڑی بحث رہی جس کی تفصیل سوا ابن ماجہ کے صحاح کی سب کتابوں میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہے ١ ؎۔ آخر ابوبکر صدیق (رض) کی رائے پر سب صحابہ کا اتفاق ہوا۔ اور ان لوگوں سے لڑائی ہوئی اور لڑائی کے بعد یہ لوگ زکوٰۃ کے قائل ہوئے اگرچہ اسودعنسی کے قتل کی خبر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے ایک دن پہلے وحی کے ذریعے معلوم ہوگئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھیوں کی پوری سرکوبی حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ میں ہوئی اور اس کے بعد سوائے فرقہ غسان کے واقعہ کے اور سب لڑائیاں بھی ان ہی کی خلافت میں ہوئی اس لئے یہ سب لڑائیاں ان کی خلافت کی کہلاتی ہیں۔ ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خواب دیکھا کہ کسی نے سونے کے دو کڑے آپ کے ہاتھوں میں پہنا دئیے ہیں۔ ان کڑوں کڑوں کو ہاتھوں میں دیکھ کر آپ کا دل بہت گھبرایا اس لئے کسی نے آپ سے خواب میں یہ بھی کہا کہ ان کڑوں کو پھونک مار کر اڑا دو آپ نے یہی کیا۔ اس خواب کی تعبری آپ نے یہ قرار دی کہ اسودعنسی اور مسیلمہ کذاب یہ دونوں آخر کو مارے جاویں گے۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ہے ابوہریرہ (رض) کے واسطے سے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے بھی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس خواب کے بعد اپنی قوم کے اییووں کے ساتھ مسیلمہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھی آیا اور آپ سے کہنے لگا کہ مجھ کو نبوت میں بھی شریک کرلیا جائے۔ اتفاق سے اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کھجور کی شاخ تھی اس واسطے آپ نے فرمایا کہ تو یہ کھجور کی شاخ بھی مانگے گا تو میں تجھ کو نہ دوں گا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تو اپنی حد سے قدم باہر نہ رکھ ورنہ ہلاک ہوجائے گا ٢ ؎۔ اسود اور مسیلمہ مرتد ہونے کی حالت میں قتل ہونے والے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا حال اپنے رسول کو خواب میں دکھادیا تاکہ معلوم ہوجاوے کہ طلیحہ بن خویلد کا حال ان دونوں کی طرح نہیں ہے طلیحہ بن خویلد بن نوفل نے بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرار بن (رض) الازدراسدی کو طلیحہ اور ان کے ساتھیوں کی سرکوبی کے لئے بھیجا تھا لیکن اس سر کو بی کے خاتمہ سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی اس لئے یہ سر کو بی ادہوری رہ گئی آخر پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خالد بن ولید (رض) کے ہاتھ پر یہ سرکوبی پوری ہوئی شکست کے بعد طلیحہ بن خویلد نے پھر اسلام قبول کیا اور ١٥ ھ؁ میں قادسیہ کے وقت اہل اسلام کو بڑی مدددی۔ یہ قادسیہ کی لڑائی حضرت عمر (رض) کی خلافت کے زمانہ میں ہوئی ہے۔ صحح بخاری و مسلم کی سہل بن سعد (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان پہچان کے بعض شخصوں کو حوض کوثر پر سے نکال دیا جاوے گا ١ ؎ اسلام سے پھرجانے کے ہنگامے جو اوپر گزرے یہ لوگ ان ہی ہنگاموں کے جیسے ہوں گے جو اسلام سے پھر کر اسی حالت میں مرگئے منافقوں کا حل اوپر گزرا کہ ظاہر میں اسلام کا ساتھ دیتے تھے اور باطن میں مخالف اسلام لوگوں کے اولاہنے اور الزام سے ڈر کر ادھر بھی ملے رہتے تھے خالص ایمان داروں کا یہ ذکر فرمایا کہ یہ لوگ راہ خدا میں جس کام کی کوشش کرتے ہیں وہ سچے دل سے کرتے ہیں کسی کے اولاہنے سے ڈر کر اوپرے دل سے نہیں کرتے۔ پھر فرمایا کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل اگرچہ بہت بڑا ہے لیکن اس کو ہر ایک کے دل کا حال معلوم ہے دل کے نیک ارادہ کی حالت جانچ کر جس پر وہ چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(5:54) اذلۃ۔ نرم دل۔ کمزور ۔ ذلیل ۔ ذلیل کی جمع قلت۔ ذلیل کے معنی کبھی تو متواضع اور نرم دل کے ہوتے ہیں (جیسا کہ یہاں مراد ہے) اور کبھی کمزور اور ذلیل کے۔ اعزۃ۔ زبردست۔ سخت (جیسا کہ یہاں مراد ہے) عزت والے۔ عزیز کی جمع۔ لومۃ لائم۔ لام یلوم (نصر) لومۃ مصدر، کسی چیز کو براسمجھ کر ملامت کرنا (خواہ وہ چیز بری ہو یا نہ ہو) لائماسم فاعل واحد مذکر

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرامائی کیونکہ اسے پہلے سے یہ معلوم تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بہت سے عرب قبائل اسلام سے مرتد وہو جائیں گے چناچہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہو اتوتین مقامات مکہ، مدینہ، بحرین کے علاوہ تمام مقامات سے عرب قبائل کے ارتداد کی خبریں آنے لگیں وہ کہنے لگے ہم نماز تو پڑہینگے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس وقت حضرت ابوبکر (رض) صدیق نے ان مرتدین سے جہاد کی اس لیے حضرت علی (رض) حسن (رض) ضحاک (رح) اور بہت سے دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت میں جن لوگوں کا یہ کہہ کر ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ سے محبت کریں گے اور اللہ ان سے محبت رے گا ان سے مراد حضرت ابوبکر (رض) صدیق اور ان کے ساتھی ہیں (ابن کثیر، شوکانی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر عرب دین سے پھرے تو حضرت صدیق (رض) نے یمن سے مسلمان بلائے ان سے جہاد کر وایا کہ تمام عرب مسلمان ہوئے یہ ان کے حق میں بشارت ہے (موضح) صاحب الکشاف نے لکھا ہے کہ اہل ردہ کے گیارہ فرقے تھے تین فرقے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں ہی مرتعد ہوگئے بنو مدیح جن کارنیس اسود عنسی تھا اور فیروز دیلمی نے اس کو قتل کیا تھا، مسیلمہ کذاب کی قوم بنو حنیفہ جس سے حضرت ابوطکر (رض) نے جنگ کی اور حضرت حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کے ہاتھ سے مسیلمہ کذاب قتل ہوا بنو اسدجن کا رئیس طلیحہ بن خویلد تھا آنحضرت نے خالد (رض) کو اس کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا تھا (کبیر) ایک مرفوع حیدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابومو سی اشعری (رض) کی طرف اشارہ کر ہو فرمایا ھم قوم ھذا کہ وقہ اس شخص کی قوم کے لوگ ہیں ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیت نمبر 54 لغات القرآن : یرید (وہ پلٹ جاتا ہے) ۔ یحب (محبت کرتا ہے۔ پسند کرتا ہے) ۔ اذلۃ (ذلیل) ۔ جھکاؤ۔ مراد ہے نرم دل) اعزۃ (عزیز) ۔ عزت۔ سختی کرنا) ۔ یجاھدون (وہ جہاد کریں گے) ۔ لایخافون (وہ کو ف نہ کریں گے) ۔ لومۃ (طعنہ دینا۔ ملامت کرنا) ۔ لائم (ملامت کرنے والا۔ طعنہ دینے والا) ۔ فضل اللہ (اللہ کا فضل وکرم) ۔ تشریح : منافقوں کے بعد اب مرتدین کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے اور مرتد کے مقابلے میں مجاہد کا۔ جو لوگ کچے دل سے دنیاوی مصلحت کے تحت حلقہ اسلام میں آگئے ہیں ان کے لئے تین ہی راستے ہیں۔ یا تو پکے دل سے مخلص مومن بنیں یا منافق بنے رہیں۔ آدھا ادھر آدھا ادھر اللہ کو پسند نہیں ہے۔ یا پھر کھلم کھلا کفار کی صف میں واپس چلے جائیں ۔ اسلام سے نکل کر کفر میں چلے جانا یعنی ارتداداتنا بڑا جرم ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ اس آیت میں اللہ نے مرتد ین کو خبردار کیا ہے کہ ان کے چلے جانے سے اسلام کا کچھ نہیں بگڑے گا خواہ چند اشخاص مرتد ہوجائیں یا ایک پوری جماعت ہی مرتد ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کی جگہ مجاہدین فی سبیل اللہ کی ایک ایسی جماعت اٹھائے گا جو اپنے بھائی مسلمانوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرے گی اور دشمنوں پر اپنی ہمت اور طاقت کا پورا مظاہرہ کرکے دکھائے گی۔ اور ضرورت پڑی تو تلوار کا معاملہ کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے گی۔ ان لوگوں کی خاص پہچان یہ ہوگی کہ کسی کے لعن طعن، الزام تراشی، پھبتی، بدنام کرنے کی کوشش کی ہرگز پرواہ نہ کریں گے۔ انہیں اپنے کام سے کام ہوگا۔ اور کوئی انہیں ورغلا نہ سکے گا۔ نہ ڈرا سکے گا نہ خرید سکے گا۔ وہ فضول کانٹوں میں الجھ کر اپنی راہ کھوٹی نہیں کریں گے۔ ایک اور عظیم الشان پہچان ان کی بتائی گئی ہے ۔ وہ یہ کہ اللہ انہیں چاہے گا اور وہ اللہ کو چاہیں گے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے اگر تم لوگ اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اس کے نتیجے میں اللہ تم سے محبت کرے گا۔ چناچہ ظاہر ہوا کہ یہ لوگ سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ پر پورا عمل کریں گے اور ہر قسم کی بدعات سے پرہیز کریں گے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قبل از وقت ہوشیار کردیا ہے کہ عنقریب فتنہ ارتداد پھیلے گا مگر اسلام کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ کیونکہ مرتدین کے مقابلے کے لئے مجاہدین کھڑے کر دئیے جائیں گے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے وقت اور پھر بعد میں فتنہ ارتداد طوفان بن کر کھڑا ہوگیا۔ مسلیمہ کذاب، اسود عنسی، شناع بنت خویلد ، طلیحہ بن خویلد (یہ آخر الذکر آگے چل کر مومن ہوگئے اور زمرہ صحابہ میں شامل ہوگئے تھے) وغیرہ وغیرہ۔ ان سب نے ارتداد کی اور ختم نبوت سے انکار کی بڑی بڑی مسلح تحریکیں چلائیں۔ ان کے علاوہ مانعین زکوٰۃ بھی کچھ کم نہ تھے۔ ان سب کا کامیاب مقابلہ حضرت صدیق اکبر (رض) اور ان کے ساتھ دیگر مجاہدین نے کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد جو صدمہ میرے والد صاحب کے سامنے آیا اگر کسی مضبوط پہاڑ پر آتا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ اس آیت نے مرتدین کے مقابلے میں مجاہدین کی جو علامتیں بتائی ہیں وہ سب کی سب سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے ساتھیوں پر صادق آتی ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ محبت اور نرمی کا اخلاق دکھاتے ہیں لیکن مرتدین اور کافروں کے مقابلے میں جنگ جو اور سخت گیر ہیں۔ وہ صرف مسجد کی بےخطر عبادتوں پر قناعت نہیں کرتے بلکہ میدان کی پر خطر عبادتوں میں بھی پیش پیش ہیں۔ (1) ان کا جہاد خالص فی سبیل اللہ تھا۔ (2) انہوں نے کسی برا بھلا کہنے والے الزام تراش کی پرواہ نہ کی۔ (3) مجاہدین کی اس قوم کو اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے پیدا فرمایا تھا۔ (4) یہ تمام علامتیں خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر (رض) میں بدرجہ کمال موجود تھیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ چناچہ بعض لوگ مرتد ہوگئے تھے لیکن اللہ نے اپنی اس پیشن گوئی کے موافق مومنین مخلصین کے ہاتھوں عہد صدیقی میں ان کا استیصال فرما دیا اور بعض نے توبہ کرلی تھی بہر حال اسلام کو کوئی ضعف یاضرر نہیں پہنچا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کی خصلتوں کے مقابلے میں مومنوں کی خوبیوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو ایک طرح کا چیلنج دیتا ہے کہ اگر تم اپنے دین سے مرتد ہوجاؤ تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللہ عنقریب ایسے لوگوں کو دین کے میدان میں لاکھڑا کرے گا۔ جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرئے گا اور وہ لوگ اللہ سے محبت کریں گے وہ دین اور اللہ کی محبت میں اس قدر فنا ہوں گے کہ اپنوں کے ساتھ نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔ یہی جذبہ انھیں جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کرے گا اور انھیں جہاد کرتے ہوئے ملامت کرنے والوں کی ملامت اور کسی کے پراپیگنڈہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ کفار کا مسلمانوں کے خلاف یہ بھی ایک حربہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کے لیے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلمان وحشی اور جنگجو لوگ ہیں۔ اسلام دنیا کے امن کو تباہ کردینے والا مذہب ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ قرآن نے صدیوں پہلے کفار کی جس ملامت کی طرف اشارہ کردیا تھا وہ کس طرح حرف بحرف پوری ہورہی ہے۔ آج پوری دنیا کے کافر جب خودعراق، افغانستان، بوسنیا اور کشمیر پر بم باری کرتے ہیں تو انھیں کوئی شرم نہیں آتی جب مجاہدین دفاع کرتے ہیں تو انھیں تخریب کار اور کیا کیا لقب دیتے ہیں کاش مسلمان سربراہ قرآن کی آواز سنیں اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادانہ کریں۔ اکثر محدثین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو آئندہ ہونے والے کچھ لوگوں کے ارتداد کے بارے میں خبر دی گئی ہے۔ اور ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو ارتداد کے دور میں دین پر پکے اور مرتدین کے خلاف جہاد کریں گے۔ چناچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے فوراً بعد صحابہ کرام (رض) کو مرتدین کا سامنا کرنا پڑا۔ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ جس کی سرکوبی کے لیے خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے خالد بن ولید (رض) کی کمان میں فوج روانہ کی اس جنگ میں کئی صحابہ (رض) شہید ہوئے۔ ان میں بہت سے حفاظ صحابہ (رض) بھی شامل تھے۔ اس کے بعد کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے جہاد کا اعلان کیا۔ بڑے بڑے صحابہ (رض) نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ ان کے خلاف جہاد کیونکر ہوسکتا ہے ؟ جبکہ یہ لوگ دین کے باقی ارکان پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن صدیق اکبر (رض) نے فرمایا جو زکوٰۃ اور نماز میں فرق کرے گا میں اس کے خلاف جہاد ضرور کروں گا۔ بالآخر حضرت عمر (رض) اور ان کے ہم نوا صحابہ کرام (رض) کو اس مسئلہ میں انشراح صدرہوا اور انھوں نے خلیفۃ المسلمین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جس کے نتیجے میں مانعین زکوٰۃ نے زکوٰۃ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ان بحرانوں کے ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ لشکر اسامہ کو روانہ کیا جائے یا کہ بحرانی کیفیت کی بنا پر کچھ عرصہ کے لیے روک لیا جائے۔ اس پر خلیفہ اول نے بڑا مضبوط موقف اختیار فرمایا۔ جس سے امت اعتقادی، مالی، اور سیاسی بحران سے بچ گئی۔ ان حالات میں بہت سے لوگوں نے حضرت ابو بکرصدیق (رض) کو مشورہ دیا کہ وہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر جیش اسامہ کو نہ بھیجیں، کیونکہ اسے امن و سلامتی کی حالت میں تیار کیا گیا تھا۔ مشورہ دینے والوں میں حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے، مگر حضرت ابوبکر (رض) نے اس بات کو قبول نہ کیا اور جیش اسامہ کو روکنے سے سختی سے انکار کیا اور فرمایا خدا کی قسم ! میں اس جھنڈے کو نہیں کھولوں گا جس کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باندھا ہے۔ خواہ پرندے اور درندے ہمیں مدینے کے ارد گرد سے اچک لیں۔ اگر امہات المومنین کے پاؤں کو کتے گھسیٹ لیں تو بھی میں ضرور جیش اسامہ کو بھیجوں گا۔ اور مدینہ کے ارد گرد کے محافظوں کو حکم دوں گا کہ وہ اس کی حفاظت کریں اور جیش اسامہ کا اس حالت میں جانابڑے مفاد میں رہا اور وہ عرب کے جس قبیلے کے پاس سے بھی گزرے وہ ان سے خوف زدہ ہوجاتا اور وہ لوگ کہتے کہ یہ لوگ اس لیے نکلے ہیں کہ ان کو بڑی قوت حاصل ہے۔ (البدایہ والنہایہ) اس آیت میں مومنین کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ ١۔ مومن اللہ سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ٢۔ مومن آپس میں نرم خو اور خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ٣۔ کفار کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کی بجائے ان کے کفر سے شدید نفرت کرتے ہیں ٤۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش پیہم میں مصروف رہتے ہیں۔ ٥۔ دین کی محبت اور جہاد کے راستے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ جہاں تک کفار کے ساتھ سخت گیر ہونے کا تعلق ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ مسلمان سماجی اور معاشرتی لحاظ سے بداخلاق ہوتے ہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے دین پر غیر متزلزل ایمان رکھتا ہو اور جہاد کے وقت کسی رشتہ اور مروّت کی پروا کیے بغیر کفار کے خلاف ڈٹ جائے۔ اس راستے میں بھی حضرت ابوبکر صدیق (رض) تمام صحابہ سے افضل ہیں۔ جب غزوۂ بدر کے بعد ان کا بیٹا عبدالرحمن مسلمان ہوا تو اس نے بدر کا معرکہ بیان کرتے ہوئے اپنے والد ابوبکر (رض) سے کہا جنگ کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب آپ میرے نشانے پر تھے، لیکن میں نے اس لیے آپ پر وار نہ کیا کہ آپ میرے والد گرامی ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ اگر تم میرے نشانے میں ہوتے تو میں تم پر وار کرنے سے ہرگز نہ چوکتا۔ (البدایہ والنہایہ) اللہ تعالیٰ سے اس کی اور نیک لوگوں کی محبت مانگنی چاہیے : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ احْتُبِسَ عَنَّا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلَی حُبِّکَ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ، باب ومن سورة ص ] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آنے سے رک گئے۔۔ اے اللہ میں تم سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس کی محبت جو تم سے محبت رکھتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تمہاری محبت کے قریب کر دے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو پسند فرماتا ہے جو آپس میں نرم اور کافروں پر سخت ہوں۔ ٣۔ مومن اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں۔ ٤۔ مومن کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٥٤ تا ٥٦۔ اس صورت میں اور اس مقام پر مسلمانوں کو یہ تنبیہ کرنا کہ وہ مرتد نہ ہوجائیں ‘ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ارتداد اور یہود ونصاری کے ساتھ دوستی اور تعلق موالات کے درمیان گہرا ربط ہے۔ خصوصا اس ریمارک کے بعد کہ جو شخص ان کے ساتھ محبت وموالات کا تعلق قائم کرے گا وہ انہیں میں شمار ہوگا ۔ وہ جماعت مسلمہ سے خارج تصور ہوگا اور ان کافر اور آدمی ہوگا ۔ (آیت) ’ ومن یتولھم منکم فانہ منھم) (تم میں سے جو ان کے ساتھ موالات کرے گا وہ ان میں سے ہوگا) اس مفہوم کی رو سے یہ دوسری پکار پہلی ہی تاکید وتائید ہوگی اور اس پکار کے بعد جو تیسری پکار آرہی ہے وہ بھی اس مفہوم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ وہاں اہل کتاب اور کفار دونوں کے ساتھ تعلق موالات کی ممانعت کا ذکر ہے اور ان کو ایک صف میں کھڑا کردیا گیا ہے کہ اہل کتاب اور کفار کے ساتھ موالات کا درجہ ایک ہی ہے اور یہ کہ اسلام میں اہل کتاب اور دوسرے کفار کے ساتھ بعض تعلقات میں جو فرق کیا گیا ہے وہ ہدایات تعلق موالات پر لاگو نہیں ہیں ان میں موالات شامل نہیں ہے ۔ (آیت) ” یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَن یَرْتَدَّ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَلاَ یَخَافُونَ لَوْمَۃَ لآئِمٍ ذَلِکَ فَضْلُ اللّہِ یُؤْتِیْہِ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(54) ” اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ‘ اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے ۔ (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے ‘ جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ یہ اللہ کا فضل ہے ‘ جسے چاہے عطا کرتا ہے ۔ اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے ۔ کسی ایک گروہ اور جماعت کو اللہ کے کام پر لگانا اللہ کی منشا کو پورا کرنا ہے ۔ اگر ایسا گروہ اس کرہ ارض پر اللہ کے دین کی اقامت کے لئے دست قدرت کا آلہ کار ہو ‘ اور اور اس کے ذریعے دنیا میں عوام الناس پر اللہ کی حکومت قائم ہو ‘ ان کی زندگی میں اللہ کے احکام وہدایت نافذ ہوں ‘ انہی کے مطابق ان کی انتظامیہ ہو ‘ ان کی عدالتوں میں اسلامی شریعت نافذ ہو اور بھلائی ‘ خیر ‘ پاکیزگی اور ترقی کا دور دورہ ہو اور یہ اسلامی نظام کی وجہ سے دنیا کو حاصل ہو تو اس گروہ کا اس کام کے منتخب ہونا اور کیا جانا ہی اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل وکرم ہے ۔ اب اگر کوئی اپنے آپ کو اللہ کے اس فضل وکرم سے محروم کرتا ہے تو یہ اس کی اپنی بدبختی ہوگی ۔ اللہ تعالیٰ غنی بادشاہ ہے اور ان محروم ہونے والوں کے علاوہ بھی اللہ کے علم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس فضل وکرم کے مستحق ہیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ان مختاران الہی کی جو تصویر کشی فرماتے ہیں اس کے خدوخال نہایت ہی واضح ہیں اور ان کی صفات کا ذکر بھی نہایت ہی واضح طور پر کردیا گیا ہے ۔ یہ تصویر نہایت ہی روشن اور پرکشش ہے ۔ (آیت) ” فسوف یاتی اللہ بقوم یحبونہ “۔ (٥ : ٥٤) ” اللہ بہت سے لوگ پیدا کر دے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا “۔ یعنی ان کے اور ان کے رب کے درمیان رابطہ اور تعلق محبت کے متبادل تحفے ہوں گے ۔ محبت کیا ہے ؟ ایک روح ہے جو نہایت ہی لطیف ‘ روشن ‘ پر رونق اور نہایت ہی ہشاش وبشاش روح ہے ۔ جو اس قوم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رابطے کا کام دیتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی قدروقیمت کا ادراک صرف اس شخص کو ہو سکتا ہے جس کو معرفت ربانی حاصل ہو اور انہیں صفات سے متصف ہو جو اللہ نے خود بیان کی ہیں ۔ نیز صرف وہی شخص اس کا تصور کرسکتا ہے جس کے حس ‘ شعور اور نفس وشخصیت پر ان صفات کا پر تو پڑا ہو۔ یہ فضل وکرم اسی شخص کے ادراک میں آسکتا ہے جو اس داتا کی حقیقت سے واقف ہو ‘ جو جانتا ہو کہ اللہ کون ہے ؟ اس عظیم کائنات کا مالک اور صانع کون ہے ؟ اور اس کائنات میں اس چھوٹے سے کیڑے انسان کا بھی وہ خالق ہے جو نہایت اونچی عظمتوں والے کے اقتدار میں ہے اور وہ اس کی خدمت میں ہے جو خالص اسی کا ہے اور اس کی بادشادہی میں ہے ۔ اور وہ ذات کون ہے اور یہ انسان کیا ہے جس پر ذات فضل وکرم کر رہی ہے ۔ اس کے ساتھ محبت کر رہی ہے حالانکہ انسان خود اس کا بنایا ہوا ہے ۔ وہ پاک ہے ‘ جلیل القدر ‘ عظیم المرتبہ ‘ الحی ‘ الدائم ‘ الارفیع ‘ الابدی ‘ الاول ‘ الاخر اور الظاہر والباطن ہے ۔ کسی بندے کا اپنے اللہ کے ساتھ محبت کرنا اس بندے کے لئے ایک نعمت ہے اور اس کی صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس کو اس کا ذوق ہو اور اللہ کی جانب سے کسی بند کے ساتھ محبت کرنا تو ایک عظیم بات ہے اور یقینا عظیم اور بھرپور اور فضل جزیل ہے ۔ اسی طرح اللہ کا اپنے بندوں کو ہدایت دینا ‘ ان کی تعریف کرنا بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔ ان کے اندر اس ذوق جمیل کا پیدا ہونا اور ایک ایسا ذوق محبت پیدا ہونا جس کی دنیا کی محبتوں میں کوئی نظیر نہ ہو ‘ تو یہ بھی ایک عظیم وانعام واکرام ہے اور ایک عظیم فضل وکرم ہے ۔ جس طرح اللہ کی جانب سے بندے کے ساتھ محبت ناقابل بیان ہے اسی طرح بندے کی جانب سے اللہ کے ساتھ محبت بھی ناقابل بیان ہے ۔ دنیا کے محبت کرنے والوں کے کلام میں اور عبادات میں اس کا اظہار ممکن نہیں ہے ۔ اور یہ وہ شعبہ ہے جس میں صوفیا میں سے واصل باللہ لوگ ہی برتری کے حامل ہیں ۔ لیکن صوفیوں کے لباس میں ‘ نام نہاد صوفیوں کی جو فوجیں پھرتی نظر آتی ہیں اور عوام کے درمیان معروف ہیں ان میں ایسے واصل باللہ بہت ہی کم نظر آئیں گے ۔ اس سلسلے میں رابعہ عدویہ کے کچھ اشعار میرے ذہن کی اسکرین پر آتے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں : فلیتک تحلوا والحیاۃ مریرۃ ولیتک ترضی والانام غضاب (اے کاش کہ آپ میٹھے ہوں اور زندگی کڑوی ہو اور اے کاش کہ آپ راضی ہوں اور تمام لوگ مجھ پر غضبناک ہوں) ولیست الذی بینی وبینک عامر وبینی وبین العلمین خراب : (اے کاش کہ میرے اور آپ کے درمیان ہے وہ بستا رہے اور میرے اور لوگوں کے درمیان جو ہے وہ خراب ہو) یعنی تعلق ورابطہ ۔ اذا صح منک الحب فالکل ھین وکل الذی فوق التراب تراب : (اگر آپ کی جانب سے محبت درست ہوجائے تو پھر سب کچھ آسان اور حقیقت یہ ہے کہ اس مٹی کے اوپر جو مخلوق بھی چلتی پھرتی ہے وہ مٹی ہی ہے) اللہ جل شانہ کی طرف سے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے ساتھ یوں اظہار محبت اور ایک عاجز بندے کی طرف سے اللہ کے ساتھ اظہار محبت جو منعم حقیقی ہے اور جو حقیقی فضل کرنے والا ہے ایک انعام ہے ۔ یہ محبت اس پوری کائنات میں پھیل جاتی ہے اور یہ محبت بھی ہر زندہ چیز کا مزاج بن جاتی ہے ہے پھر ایک فضا ہوتی ہے اور ایک سایہ ہوتا ہے جو اس پورے وجود کائنات پر چھا جاتا ہے اور انسان جو محبت بھی ہے اور محبوب بھی ‘ اس کی زندگی کا پیمانہ تو اس محبت سے پوری طرح بھر جاتا ہے ۔ اسلامی تصور حیات ایک مومن اور اس کے رب کے درمیان اس طرح کا محبوب رابطہ قائم کرتا ہے جو نہایت ہی عجیب اور نہایت ہی پیارا ہوتا ہے ۔ یہ دائمی محبت کا رابطہ ایسا نہیں ہوتا کہ اچانک قائم ہوجائے یا ایک چمک پیدا ہو اور چلی جائے ۔ یہ اسلامی تصور حیات میں ایک بنیادی اور حقیقی عنصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت) ” ان الذین وعملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا) ” وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے رحمن محبت کرنے والا ہے) اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” ان ربی رحیم ودود “۔ ” بیشک میرا رب رحم کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے ) اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” واذا سئلک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان) ” اور جب تم سے میرے بندے ‘ میرے بارے میں پوچھیں و بیشک میں قریب ہوں میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں ‘ جب وہ پکارتا ہے ۔ “ (آیت) ” والذین امنوا اشد حب اللہ) ” اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کے ساتھ شدید محبت رکھتے ہیں ۔ “ اور دوسری جگہ ہے ۔ (آیت) ” قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ‘ ” کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو ‘ تم سے اللہ محبت کرے گا) وغیرہ وغیرہ بیشمار ایسی آیات ہیں جو اس مضمون کا ظاہر کرتی ہیں۔ ان لوگوں پر تعجب ہے کہ وہ اس مضمون کی آیا پڑھتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ اسلامی تصور حیات ایک خشک سخت اور کرخت تصور ہے اور اس میں خدا بندے کے درمیان تعلق قہر وغضب سزا گوشمالی اور سختی اور دوری کا تعلق ہے ۔ اس میں کوئی ایسا تصور نہیں جس طرح مسیحی تصور میں مسیح کو اقانیم الوہیت میں سے ایک اقنوم تصور کیا جاتا ہے ۔ اور لوگوں میں اور اللہ میں ایک گہرا ربط بلکہ من تو شدم تو من شدی کا تصور پیدا ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تصور حیات کی صفائی اور اس میں حقیقت الوہیت اور مقام بندگی کے اندر مکمل فرق و امتیاز کرنے کی وجہ سے ‘ الفت و محبت کی پرنم فضا میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ اللہ اور بندے کے درمیان اس تصور میں نہایت ہی گہرا ربط موجود ہے لیکن یہ ربط وتعلق رحمت اور عدل کا تعلق ہے ۔ اس تعلق کا ایک رخ باہم محبت ہے تو دوسرا رخ مکمل پاکیزگی کا ہے ۔ ایک طرف محبت ہے اور دوسری جانب اللہ کی ذات کے لئے پاکیزگی ہے یہ نہایت ہی جامع اور مانع تصور ہے ۔ اور اس سے وہ تمام بشری تقاضے پورے ہوتے ہیں جو اپنے رب کے حوالے سے انسان کو درکار ہیں۔ چناچہ اس ” مومن رجمنٹ “ کی صفت سے متعلق ‘ جسے اس دین کے لئے اٹھایا گیا ہے اس آیت میں یہ الفاظ آتے ہیں اور بار بار ذہن میں پھرتے ہیں۔ (آیت) ” یحبھم ویحبونہ “۔ (وہ اللہ سے محبت کرتا اور اللہ اس سے محبت کرتے ہیں) اس فضائے محبت میں جب یہ رجمنٹ اپنے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے نکلتی ہے اور یہ بوجھ اٹھاتی ہے تو اس کے دل میں یہ شعور ہوتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اس خصوصی خدمت کے لئے بھرتی کیا ہے اور وہ اللہ جل شانہ کی خصوصی رجمنٹ ہے ۔ اس کے بعد اس رجمنٹ کی باقی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں ۔ (آیت) ” اذلۃ علی المومنین “۔ (٥ : ٥٤) (مومنوں پر نرم ہوں گے) یہ ایک ایسی صفت ہے جو اطاعت ‘ نرمی اور یسر سے لی گئی ہے اور لفظ یہ استعمال کیا ہے کہ وہ مومنین کے مقابلے میں اپنے آپ کو ذلیل کر کے رکھیں گے ۔ لیکن اگر کوئی مومنین کے مقابلے میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے تو وہ ذلت نہیں ہے اور نہ اس میں توہین کا پہلو ہے اس لئے کہ ایک مومن دوسرے مومن کے مقابلے میں اپنے نفس کو ذلیل کرتا ہے تو وہ ذلت نہیں ہے اور نہ اس میں توہین کا پہلو ہے اس لئے ایک مومن دوسرے مومن کے مقابلے میں نہایت ہی نرم ہوتا ہے ‘ سخت اور نافرمان نہیں ہوتا ۔ آسان اور نرم ‘ جلدی لبیک کہنے والا ‘ روادار ‘ محبت کرنے والا ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کے لئے اس لفظ کے استعمال میں ذلت بمعنی حقارت کا مفہوم نہیں ہے بلکہ اس سے اخوت ‘ محبت ‘ عدم تکلف ‘ نفسیاتی اتحاد اور نظریاتی لگاؤ کے معانی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایک مومن اور دوسرے مومن کے درمیان کوئی پردہ اور راز نہیں رہتا۔ جب انسان بعض چیزیں اپنی ذات کے لئے اٹھا رکھتا ہے تو یہ جذبہ اسے اپنے دوسرے بھائی کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ‘ بخیل اور کنجوس بنا دیتا ہے ۔ لیکن جب ایک شخص اپنے آپ کو ایک کمپنی یا رجمنٹ کا فرد بنا لیتا ہے تو وہ اپنا سب کچھ اس کے لئے قربان کردیتا ہے اور اس کی انفرادیت کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے ۔ پھر اس کمپنی کے علاوہ وہ اپنے لئے کچھ اٹھا نہیں رکھتا جبکہ ان کی کمپنی اخوت اسلامی کی کمپنی ہوتی ہے اور وہ اللہ کے نام اور نظام پر جمع ہوئے ہیں۔ اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الہی ہی ان میں مشترک ہے اور یہ اسے باہم تقسیم کرتے ہیں ۔ (آیت) ” اعزۃ علی الکفرین “۔ (٥ : ٥٤) (جو کفار پر سخت ہوں گے) یعنی کافروں کے مقابلے میں ان کے اندر برتری ‘ ناپسندیدگی اور برتری کے جذبات پائے جاتے ہیں اور چونکہ مقابلہ کفار کے ساتھ ہے اس لئے ان کے مقابلے میں ان جذبات کا ہونا مناسب ہے ۔ ان جذبات کا اظہار ان کے مقابلے میں محض ذاتی عزت کے اظہار کے لئے نہیں ہے اور نہ صرف اپنی خودی بلند کرنا مطلوب ہوتا ہے بلکہ ان کی جانب سے عزت کا اظہار اسلامی نظریہ حیات کی طرف سے عزت کا اظہار ہوگا اس جھنڈے کی برتری ہوگی جس کے نیچے اہل ایمان کھڑے ہوں گے اور اہل کفار کے مقابلے میں ہوں گے ۔ اس سے اس بات کا اظہار ہوگا کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ خیر ہے اور ان کا مقام یہ ہے کہ وہ دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر اس بھلائی کے تابع کردیں ، یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اس چیز کے تابع ہوجائیں جس کے وہ دوسرے حامل ہیں اور وہ خیر نہیں ہے ۔ اس اظہار برتری اور سختی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر دین کے بارے میں خود اعتمادی ہے اور وہ ہوا وہوس کے دین پر قابو پا چکے ہیں ۔ انکے ہاں اللہ کی قوت تمام دوسری قوتوں پر غالب ہے اور اللہ کی جماعت تمام احزاب پر غالب ہے ۔ اگر وہ بعض معرکوں میں شکست بھی کھا جائیں تو پھر بھی وہ بلند عزم لئے ہوئے ہیں کیونکہ اسلامی جدوجہد کی طویل راہ میں بھی کبھی لغزش بھی تو ہو سکتی ہے ۔ (آیت) ” یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم “۔ (٥ : ٥٤) ” وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔ “ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہوگا ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ زمین پر اسلامی نظام قائم کیا جائے ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ لوگوں پر اللہ کی بادشاہت کا اعلان کیا جائے ‘ یہ اس لئے ہوگا کہ ملک کے اندر اسلامی شریعت کے مطابق فیصلے ہوں اور ملک کے اندر بھلائی ترقی اور اصلاح بین الناس کا دور دورہ ہو ۔ یہ ہے ایک دوسری صفت اسلامی رجمنٹ کی ۔ اور اسے اللہ تعالیٰ نے محض اس لئے قائم کیا ہے کہ وہ اس کی زمین پر وہ فریضہ سرانجام دے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ یہ رجمنٹ فی سبیل اللہ جہاد کرے گی ‘ اپنے ذاتی مقصد کے لئے نہ کرے گی ۔ نہ اپنی قوم کے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ اپنے وطنی مقاصد میں سے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ اپنے وطنی مقاصد میں سے کسی مقصد کے لئے لڑے گی ‘ نہ وہ کسی نسل کے لئے کام کرے گی ۔ اس رجمنٹ کے ارکان صرف اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور یہ جہاد اسلامی نظام حیات کے قیام کے لئے ہے ‘ اللہ کی حکومت کے قیام کے لئے ہے ‘ اور اللہ کی شریعت کے نفاذ کے لیے ہے اور اس راہ میں تمام لوگوں کی بھلائی ہے ۔ اس میں ان کی ذاتی کوئی غرض نہیں ہے ‘ نہ ان کا اپنا کوئی حصہ ہے ۔ یہ گروہ صرف اللہ کے لئے ہے اور اس میں کوئی اور شریک نہیں ہے ۔ یہ رجمنٹ اللہ کے راستے میں لڑنے مرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی لحاظ نہ رکھے گی ۔ اس کو لوگوں کا کیا خوف ہوگا اور وہ کیا پرواہ کرے گی وہ تو اللہ کی محبت میں سرشار ہوگی اور یہی محبت اس کے لئے امام ضامن ہے ۔ لوگوں کے ہاں رائج مقامات قیام پر وہ سٹاپ نہ کرے گی ۔ سوسائٹی کی اقدار اس کی نظروں میں ہیچ ہوں گی اور جاہلیت کے ہاں معروف اس کے لئے معروف نہ ہوگا ۔ وہ تو سنت الہی کی رجمنٹ ہوگی اور وہ اسلامی نظام حیات پیش کرنے والی ہوگی ۔ لوگوں کی ملامت سے تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اپنی اقدار اور ہدایات لوگوں کی خواہشات کے مطابق کرنے والی ہوں گی ۔ لوگوں کی ملامت سے تو وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اقدار اور ہدایات لوگوں کی خواہشات کے مطابق تشکیل دیتے ہیں اور جن کی قوت اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں لیکن جس جماعت کا رخ اللہ کی اقدار اور پیمانوں کی طرف ہوگا وہ تو کلمہ حق کو عوام کی اقدار اور پیمانوں پر غالب کرنے کی سعی کرے گی اور لوگوں کی خواہشات کے برعکس کام کرے گی تو وہ لوگوں سے کیا ڈرے گی ۔ جس شخص کی قوت اور اقدار کا سرچشمہ ذات باری ہو ‘ تو کیا پرواہ ہو سکتی ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں ۔ وہ تو یہ سمجھے گا کہ گویا لوگ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔ ان لوگوں کی صورت حالات جو ہو سو ہو ‘ ان لوگوں کی تہذیب و تمدن جو ہو سو ہو ‘ وہ اپنی راہ پر رواں دواں رہے گا ۔ ہم لوگ تو دیکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہتے ہیں ‘ لوگ کرتے ہیں ‘ لوگوں کے پاس کیا فکر وعمل ہے ‘ لوگ کن اصطلاحات میں بات کرتے ہیں ‘ لوگوں کی عملی زندگی کیا ہے اور ان میں کیا اقدار اور پیمانے ملحوظ ہیں ۔ ہمارا یہ رویہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اصل اصول کو بھلا دیا ہے جس کے مطابق ہم نے ان اعتبارات کے مقابلے میں ایک پیمانہ بنانا ہے ‘ جس کے مطابق ہم نے اپنے حساب کو درست کرنا ہے اور جس کے مطابق ہم نے آپ کو تولنا ہے ۔ اور وہ اصول ہے اسلامی نظام حیات اسلامی شریعت اور اللہ کے احکام اصل بات یہ ہے کہ یہی ہے اصول حق اور اس کے ماسوا سب باطل ہے ۔ اگرچہ یہ لاکھوں کروڑوں کے لئے معروف ومتداول ہو۔ اگرچہ کئی نسلیں اسے صدیوں تک مانتی چلی آئی ہوں ۔ کسی صورت حال ‘ کسی رواج ‘ کسی عادت یا کسی قدر کی یہ کوئی قیمت (VAlue) نہیں ہے کہ وہ موجود ہے یا وہ امر واقعہ ہے یا لاکھوں لوگ اس کے ماننے والے والے ہیں یا لاکھوں لوگ اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں یا تمام لوگ اسے اصول حیات تسلیم کرتے ہیں ۔ اس قسم کے پیمانے کو اسلامی تصور حیات سلیم نہیں کرتے بلکہ کسی صورت حال ‘ کسی رواج ‘ کسی عادت ‘ کسی قدر کی قیمت یہ ہوگی کہ اسلامی تصور حیات میں اس کی کوئی قیمت ہے یا نہیں ہے اس لئے کہ تمام اقدار اور پیمانوں کا معیار اسلامی نظام ہے ۔ یہ وجہ ہے کہ یہ اسلامی رجمنٹ اللہ کی راہ میں جہاد کرے گی اور وہ کسی امامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہ کھائے گی ، یہ ہے نشانی ان مومنین کی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس رجمنٹ میں بھرتی کیا ہوگا ۔ اور یہ بھرتی بھی اللہ کرے گا اور پھر اس رجمنٹ کے سپاہیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو بہت گہرا پیار ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنے ان بہادروں کی نشانیاں بتا رہا ہے ۔ ان کے پتے بتا رہا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ان بہادروں کے دلوں میں جو اطمینان ہوگا اور جس ثابت قدمی کے ساتھ راہ جہاد پر وہ رواں دواں ہوں گے یہ بھی اللہ کا فضل وکرم ہوگا ۔ (آیت) ” ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ واسع علیم “۔ (٥ : ٥٤) ” وہ جسے چاہتا ہے ذرائع دے دیتا ہے اور علم کے مطابق دیتا ہے ۔ اور اللہ کا دین بہت ہی وسیع ہے اور اس کے لئے جسے چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے “۔ اب اللہ تعالیٰ دھمکی کے بعد ‘ اس بات کا تعین فرماتے ہیں کہ اہل ایمان کی دوستی اور موالات کس کے ساتھ ہوگی اس کی تصریح کی جاتی ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مسلمان اگر دین سے پھرجائیں تو اللہ تعالیٰ دوسری قوم کو مسلمان بنا دیگا ان آیات میں اللہ جل شانہ، نے اول تو مسلمانوں کو خطاب کر کے یوں فرمایا کہ دین اسلام کا چلنا چمکنا اور آگے بڑھنا کوئی تم پر موقوف نہیں ہے اگر تم مرتد ہوجاؤ یعنی اسلام سے پھر جاؤ (العیاذ باللہ) تو اسلام پھر بھی باقی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو ایمان قبول کریں گے اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کریں گے۔ یہ لوگ اللہ کے محبوب ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ یہ لوگ اہل ایمان سے تواضع اور نرمی اور مہربانی کیساتھ پیش آئیں گے اور کافروں کے مقابلہ میں قوت اور طاقت اور عزت اور غلبہ کی شان دکھائیں گے۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لئے جان و مال کی قربانیاں دیں گے کافروں سے لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ ان لوگوں کی صفات مذکورہ بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ) کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے عطا فرمائے اس میں ہر دور کے مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ ایمان اور ایمان کے تقاضوں پر چلنے اور اللہ کی راہ میں قربانیاں دینے کو اپنا ذاتی کمال نہ سمجھیں اور مغرور نہ ہوں یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و انعام ہے جسے چاہے ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت سے نواز دے۔ منت مکن خدمت سلطان ہمی کنی شکر خدا کن کہ موافق شدی بخیر منت شناس از و کہ بخدمت بداشتت زفضل و انعامش مطعل نہ گذاشت (وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) (اور اللہ بڑی وسعت والا ہے اور بڑے علم والا ہے) وہ جسے چاہے دے اور جتنا دے اسے اختیار ہے اور جسے نعمت ملے وہ شکر گزار ہو یا ناشکرا بنے اسے سب کا علم ہے۔ اہل ایمان کی صفت خاصہ کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اہل ایمان کی جو صفات بیان فرمائیں اس میں ایک یہ ہے کہ اللہ ان سے محبت فرمائے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ درحقیقت یہی مومن بندوں کی اصل صفت ہے، سورة بقرہ میں فرمایا (وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ) (اور جو لوگ اللہ پر ایمان لائے وہ اللہ کی محبت کے اعتبار سے بہت سخت ہیں) نیز ارشاد فرمایا (قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ) (آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔ اور تمہارے گناہوں کو معاف فرما دیگا) ۔ جب اللہ سے محبت ہوگی جو صالح بندہ ہو تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی محبت ہوگی جن کی اتباع کو محبت کا معیار قرار دیا ہے، اللہ کے رسول سے محبت ہوگی تو اللہ کی کتاب سے بھی محبت ہوگی اور ہر اس بندہ سے محبت ہوگی جو صالح بندہ ہو جو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرماں بردار ہو۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تین خصلتیں ایسی ہیں وہ جس کسی شخص میں ہونگی ایمان کی مٹھاس محسوس کریگا ایک خصلت تو یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو سب سے زیادہ محبوب ہوں (اللہ اور رسول سے جو محبت ہو اس جیسی اور کسی سے محبت نہ ہو) دوسرے یہ کہ جس کسی بندہ سے محبت کرے تو یہ محبت صرف اللہ ہی کے لئے ہو۔ تیسرے یہ کہ جب اللہ نے اسے کفر سے بچا دیا تو اب کفر میں واپس جانے کو ایسا ہی برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو براجانتا ہے۔ (راوہ البخاری ص ٧ ج ١) اہل ایمان کی دوسری صفت کہ وہ مومنوں کے لئے نرم اور کافروں کے لئے سخت ہیں اہل ایمان کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی (اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ) (کہ یہ لوگ ایمان والوں کے لئے نرم اور رحم دل ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ میں غلبہ اور دبدبہ والے ہوں گے) اس کو سورة فتح میں یوں بیان فرمایا (مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ ) (محمد رسول اللہ اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں سخت ہیں کافروں پر اور حم دل ہیں آپس میں) یہ صفت بھی بہت بڑی ہے اس کے بغیر ایمانی برادری کا اجتماعی مزاج نہیں بنتا اور جاندار وحدت وجود میں نہیں آتی، کافروں کے مقابلہ میں سخت ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان پر ظلم کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ کافر یہ محسوس کرتے رہیں کہ یہ لوگ قوی ہیں عزت اور شوکت والے ہیں ان سے ہم مقابلہ نہیں کرسکتے اپنا اجتماعی اور انفرادی طور طریقہ ایسا رکھیں کہ کافر یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہم سے برتر ہیں قوت میں زیادہ ہیں اس کو سورة توبہ میں فرمایا۔ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غَلْظَۃً ) (اے ایمان والو ! ان لوگوں سے جنگ کرو جو تمہارے قریب ہیں اور وہ تمہارے اندر سختی محسوس کریں) ۔ کفر و ایمان کی جنگ تو ہمیشہ رہی ہے اور کافروں سے بیزاری ظاہر کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ سورة ممتحنہ میں ارشاد ہے۔ (قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِِبْرٰھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِِنَّا بُرَء آ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ وَحْدَہٗٓ) (تمہارے لئے نیک پیروی موجود ہے ابراہیم (علیہ السلام) میں اور ان لوگوں میں جو ابراہیم کے ساتھ تھے، جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا ہم بےتعلق ہیں تم سے اور ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو ہم میں اور تم میں ظاہر ہوگئی دشمنی اور بغض ہمیشہ کے لئے جب تک کہ تم ایمان نہ لاؤ اللہ پر جو تنہا ہے۔ ) درحقیقت جب تک کافروں سے براءت اور بیزاری نہ ہو اور ان سے بغض اور دشمنی نہ ہو اس وقت تک کافروں کی موالات یعنی دوستی کا جذبہ ختم ہو ہی نہیں سکتا۔ گزشتہ آیت میں جو کافروں کو دوست نہ بنانے کا حکم فرمایا ہے اس پر عمل ہونے کا یہی راستہ ہے کہ ان کو دشمن سمجھا جائے جو کافر مسلمانوں کی عملداری میں رہتے ہیں جن کو شریعت کی اصطلاح میں ذمی کہا جاتا ہے اصول شریعت کے مطابق ان سے رواداری رکھی جائے اس طرح جو مسلمان کافروں کے ملک میں رہتے ہیں وہ وہاں کے کافروں سے خریدو فروخت کی حد تک اور امور انتظامیہ میں (جو شرعاً درست ہوں) میل جول رکھیں لیکن دوستی نہ کریں، آج مسلم ممالک کے حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ کافروں سے ان کا جوڑ زیادہ ہے جو لوگ کافر ملکوں کے سربراہ ہیں ان کے سامنے بچھے جاتے ہیں اور جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ سختی کرتے ہیں مسلمانوں کے ایک ملک کے ذمہ دار دوسرے مسلم ممالک کے مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکالتے ہیں اور ان پر قید و بند کی سختیاں کرتے ہیں اور جو کافر اپنے پاس رہتے ہیں ان کو عہدے بھی دیتے ہیں اور ان کی امداد بھی کرتے ہیں بلکہ ان کو راضی کرنے کے لئے قرآن و حدیث کے قوانین جاری کرنے کو راضی نہیں، یہ سب دنیا داری کے تقاضے ہیں قرآن حدیث کی تصریحات کے خلاف ہیں۔ اہل ایمان کی تیسری صفت کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اہل ایمان کی ایک اور صفت بیان فرمائی (یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں لفظ جہاد جہد سے لیا گیا ہے، عربی زبان میں محنت اور کوشش اور تکلیف اٹھانے کو جہد کیا جاتا ہے اللہ کا دین پھیلانے کے لئے اس کا بول بالا کرنے کے لئے جو بھی محنت اور کوشش کی جائے وہ سب جہاد ہے اور کافروں سے جو جنگ کی جائے وہ بھی جہاد کی ایک صورت ہے اور چونکہ اس میں جان و مال کی قربانی دی جاتی ہے اس لئے اس کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ اسلام میں جو قتال مشروع ہوا ہے کفر اور شرک کو مٹانے اور نیچا دکھانے کے لئے ہے۔ خالق کائنات جل مجدہ کی سب سے بڑی بغاوت اور نافرمانی یہ ہے کہ اس پر ایمان نہ لائیں اسے وحدہ لا شریک نہ جانیں اس کے ساتھ عبات میں کسی دوسرے کو شریک کرلیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات اور اس کی خالقیت اور مالکیت کو سامنے رکھا جائے اور اہل کفر کی بغاوت کو دیکھا جائے تو جہاد کی مشروعیت بالکل سمجھ میں آجاتی ہے اللہ تعالیٰ کے باغیوں سے اس کے بندے قتال کریں تو اس پر کیوں طعن کیا جاتا ہے جب ایمان اور کفر کی دشمنی ہی ہے تو اہل ایمان دشمن کے خلاف جو بھی کاروائی کریں جو شریعت اسلامیہ کے موافق ہو اسے ظلم نہیں کہا جائے گا۔ آخر کافر بھی تو مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں ان کو قتل کرتے ہیں ان کی دکانیں جلاتے ہیں ان کے ملکوں پر قبضہ کرتے ہیں اور سالہا سال انہوں نے صلیبی جنگیں لڑی ہیں، مسلمان دشمنی کا جواب دشمنی سے دیتے ہیں تو اس میں اعتراض کا کیا موقعہ ہے ؟ مسلمانوں کو دبنگ ہو کر رہنا چاہئے ورنہ اہل کفر دبا لیں گے۔ (جہاد کے بارے میں انور البیان ج ١ ص ٣٩٥) کا مضمون بھی دیکھ لیا جائے۔ سورة توبہ اور سورة تحریم فرمایا۔ (یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِءْسَ الْمَصِیْرُ ) (اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بری جگہ ہے) ۔ بعض ملکوں میں مسلمانوں نے کافروں سے اس حد تک دوستی کر رکھی ہے (اور اس کا نام رواداری اور یک جہتی رکھا ہوا ہے) کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر حرام چیزیں بھی کھا پی لیتے ہیں او ان کے مذہبی تہواروں میں بھی شریک ہوجاتے ہیں حدیہ کہ ان کے عبادت خانوں کو بنانے میں ان کی مدد بھی کردیتے ہیں ایسی رواداری کرنے کی شریعت ہرگز اجازت نہیں دیتی بہت بڑا خطرہ ہے کہ ایسی رواداری کرنے والوں کو اور ان کی نسلوں کو یہ رواداری کافر نہ بنادے۔ (والعیاذ باللہ ) ۔ اہل ایمان کی چوتھی صفت کہ وہ کسی کی ملامت سے نہیں ڈرتے اہل ایمان کی ایک صفت یوں بیان فرمائی کہ (وَ لاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآءِمٍ ) (وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے) یہ بھی اہل ایمان کی ایک عظیم صفت ہے جب اللہ پر ایمان لے آئے اور اللہ سے محبت کرتے ہیں تو مخلوق کی کیا حیثیت رہ گئی اللہ کے بارے کسی کے برا بھلا کہنے کا خیال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے حکم کی برتری ابھی تک دل میں نہیں بیٹھی۔ یہ سوچنا کہ اگر ہم اسلام پر عمل کریں گے، سفر حضر میں نماز پڑھیں گے تو کافر برامانیں گے اذان دیں گے تو کافر کیا کہیں گے اگر ڈاڑھی رکھ لی تو لوگ بری نظروں سے دیکھیں گے کافروں فاسقوں کا لباس نہ پہنا تو سوسائٹی میں برے بنیں گے۔ یہ سب ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے مومن کو اس سے کیا مطلب کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرنا ہے مومن تو اللہ کا بندہ ہے اسی کا فرمانبردار ہے مخلوق راضی ہو یا ناراض، اچھا کہے یا برا اسے اپنے رب کے پسند فرمودہ راستہ پر چلنا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

98 یہ خطاب مسلمانوں سے ہے اور ان پر زجر ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ سے دوستی اور ان کی حمایت کر کے ارتداد کی راہ اختیار نہ کریں بین ان موالاتھم مستدعیۃ للارتداد عن الدین (روح ج 6 ص 160) ۔ لیکن اگر انہوں نے منافقین کی طرح ان سے موالات کرلی تو اس سے اللہ کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی خدمت کے لیے ایسے لوگوں کو میدان میں لے آئے گا جو اس سے بجان و دل محبت کریں گے اور ظاہر و باطن میں اس کے مطیع و فرمانبردار ہوں گے اور ان کی ان خوبیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی ان کو محبوب رکھے گا اور دین و دنیا میں ان کی مدد کرے گا اور ان کو اپنے انعامات سے نوازے گا۔ اَذِلَّۃٍ اور اَعِزَّۃٍ یہ دونوں قَوْمٍ کی صفتیں۔ اذلۃ۔ ذلیل بمعنی عاجز کی جمع ہے اور علی بمعنی لام ہے۔ اَعِزَّۃٍعزیز بمعنی غالب اور سخت گیر کی جمع ہے یعنی وہ اپنے مومن بھائیوں کے سامنے عاجز اور ان پر مہربان ہوں گے لیکن کافروں کے حق میں سخت ہوں گے اور ان کے سامنے کبھی نہیں جھکیں گے وہ اللہ کی راہ میں محض اللہ کی خوشنودی کے لیے اور اس کے دین کی سربلندی کی خاطر جہاد کریں گے اور کسی کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اے ایمان والو ! جو کوئی تم میں سے اپنے دین کو چھوڑ کر واپس ہوجائیگا اور مرتد بن جائیگا تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ان مرتدین کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے گا جن کے اعمال اور ان کی فرمانبرداری کو اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا اور وہ بھی لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہوں گے وہ مسلمانوں پر مہربان ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ میں ان کا برتائو سخت اور تیز ہوگا وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوں گے اور وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ صفات اور یہ خوبیاں اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے بہرہ مند فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اپنا فضل عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت صاحب وسعت اور بڑا صاحب علم ہے۔ (تیسیر) عام مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ ایک پیشین گوئی ہے جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معرفت دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس امت میں کچھ قبائل دین اسلام سے مرتد ہو کر کفر میں واپس چلے جائیں گے اور ان مرتدین کا قلع قمع اللہ تعالیٰ کچھ مخلص اہل فضائل کے ہاتھوں سے کرا دے گا چناچہ نبوت کے آخری دور میں کچھ جھوٹے نبوت کے مدعی ہوئے اور کچھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد زکوۃ کے منکر ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کی سرکوبی حضرت صدیق اکبر (رض) اور ان کے ساتھیوں سے کرا دی۔ اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا اور قبیلہ بنی مدلج اس کے ہمراہ ہو کر مرتد ہوا پھر ان لوگوں نے یمن کے علاقہ میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کارندوں اور نقبا کو یمن سے نکال دیا دوسرا شخص مسلیمہ کذاب تھا اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اور فرقہ بنی حنیفہ اس کے ہمراہ ہوگیا اور سا کا ایک عرصہ تک زور رہا ایک اور شخص طلیحہ بن خویلد تھا یہ بھی مرتد ہوا اور اس نے بھی خاصی جماعت اپنے ساتھ لگا لی اور بھی تقریباً سات فرقے زکوۃ کے انکار سے حکومت کے باغی تسلیم کئے گئے صرف ایک فرقہ جس کو غسان کہا جاتا ہے یہ حضرت عمر (رض) کی خلافت میں مرتد ہوا بہرحال ان میں سے کچھ لوگ توبت پرست ہی بن گئے اور کچھ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کیا اور اسود عنسی اور مسلیمہ کذاب کی نبوت پر ایمان لے آئے اور کچھ فرقے زکوۃ امام کو دینے اور بیت المال میں جمع کرنے کے منکر ہوگئے اس ارتداد کے سیلاب کو اللہ تعالیٰ نے حسب وعدہ ایک ایسی قوم یعنی حضرت صدیق اکبر (رض) اور ان کے اصحاب کے ہاتھوں سے دفع کرایا جو ان صفات کے ساتھ متصف تھے جن صفات کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ مانعین زکوۃ کے بارے میں تو اکثر صحابہ (رض) بلکہ حضرت عمر (رض) تک حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے موافق نہ تھے ۔ آخر میں جا کر حضرت عمر (رض) …… نے ان کی موافقت کی ورنہ ہر شخص یہی کہتا تھا کہ بھلا کلمہ پڑھنے والوں کے خلاف جہاد کیسے ہوسکتا ہے لیکن حضرت صدیق اکبر (رض) کے ثبات اور ان کی اوالعزمی نے اور ان کی روحانی قوت نے حضرت عمر (رض) کو شرح صدر کی دولت بخشی اور وہ خلیفہ اول کی رائے کے موافق ہوئے اسود عنسی کو فیروز و ملیمی (رض) نے اور مسلیمہ کذاب کو خالد بن ولید (رض) کی فوج کے ایک پختہ کار سپاہی وحشی نے قتل کیا اور اللہ اللہ کر کے یہ فتنہ حضرت ابوبکر (رض) کی شجاعت اور ہمت سے سر ہوا انہی مصائب کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ (رض) فرمایا کرتی تھیں کہ میرے باپ کی خلافت میں جو مصائب میرے باپ کو پیش آئے اگر وہ کسی پہاڑ کو بھی پیش آتے وہ اپنی جگہ پر قائم نہ رہتا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جب حضرت کی وفات پر عرب دین سے پھرے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے یمن سے مسلمان بلائے ان سے جہاد کروایا کہ تمام عرب پھر مسلمان ہوئے یہ ان کے حق میں بشارت ہے۔ (موضح القرآن) بہرحال آیت میں خواہ کسی مخصوص جماعت کی طرف اشارہ ہو لیکن آیت ان تمام انقلابات کو ظاہر کرتی ہے جو مختف قوموں میں ہوتے رہتے ہیں جب کسی قوم میں سرکشی اور ایذا رسانی اور ظلم کی فراوانی ہوجاتی ہے اور وہ دنیا میں امن و انصاف نہیں قائم رکھ سکتی تو خدائی سطو و جبروت کی گرفت نمایاں ہوتی ہے اور وہ ظالموں کی جگہ اچھے امن پسند اور منصف مزاج لوگوں کو لے آتا ہے۔ جیسا کہ متعدد جگہ ارشاد ہوتا ہے۔ ان یشا یذھبکم ایھا الناس ویات باخرین۔ ان یشا یذھبکم و یستخلف من بعد کو ما یشآء اور فرمایا ثم جعلنکم خلائف فی الارض من بعدھم وان تتولوا یستبدل قوما غیر کم۔ اور یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کفر کو برداشت کرلیتا ہے لیکن ظلم اور بد امنی کو گوارہ نہیں کرتا۔ بہرحال ! آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ مسلمان اپنے دین سے پھرگئے تو اللہ تعالیٰ کی شان استغنا کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا وہ اور کسی قوم کو لے آئے گا اور تم کو ان کے ہاتھ سے مٹا ڈالے گا اور تباہ کر دے گا وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوں گے اور اس سے محبت بھی کرنے والوں میں ہوں گے۔ اذلتہ علی المئومنین اعزۃ علی الکافرین کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ اپنوں کا سا سلوک کریں گے اور منکروں کو بیگانہ سمجھ کر ان سے ان کے لائق برتائو کریں گے۔ اشداء علی الکفار رحماء بینھم جہاد کرنے کا اللہ کی راہ میں مطلب یہ ہے کہ دین کے دشمن اور اسلام کو نقصان پہنچانے والے لوگوں کا مقابلہ کریں گے اور مقابلہ میں کسی بدگو اور ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر ان کو نہ ہوگا اور اس امر کا ان کا اندیشہ نہ ہوگا کہ یہ لوگ ہم کو کیا کہیں گے۔ حضرت ابو ذر غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات حکم دیئے ہیں۔ 1 مساکین سے محبت کرنا۔ 2 مساکین کے قریب ہونا۔ 3 اپنے سے کم درجہ کی طرف دیکھنا اور اپنے سے اعلیٰ کی طرف نظر نہ کرنا۔ 4 اور گود پیٹ کے رشتوں سے اچھا برتائو کرنا اگر وہ ظلم بھی کریں تو اس کا خیال کئے بغیر صلہ رحمی کرنا۔5 بکثرت لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے رہنا کیونکہ یہ خزانہ عرش الٰہی کی چیز ہے۔ 6 اور یہ کہ میں حق بات کہوں خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو اس حق گوئی کے مقابلہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کروں۔7 اور یہ کہ لوگوں سے سوال کرنا ترک کردوں۔ (مسند احمد) اب آگے مسلمانوں کی حقیقی ولایت کے مستحقین کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)