Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 205

سورة الأعراف

وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ وَ لَا تَکُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۲۰۵﴾

And remember your Lord within yourself in humility and in fear without being apparent in speech - in the mornings and the evenings. And do not be among the heedless.

اور اے شخص! اپنے رب کی یاد کیا کر اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زور کی آواز کی نسبت کم آوازکے ساتھ صبح اور شام اور اہل غفلت میں سے مت ہونا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Remembering Allah in the Mornings and Afternoons Allah says; وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَإِنَّكُمْ لاَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَا غَايِبًا إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلِته بِالْغُدُوِّ وَالاصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ in the mornings and in the afternoons, and be not of those who are neglectful. These texts encourage the servants to invoke Allah in Dhikr often, especially in the mornings and afternoons, so that they are not among those who neglect remembering Him. This is why Allah praised the angels who praise Him night and day without tiring,

اللہ کی یاد بکثرت کرو مگر خاموشی سے اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ صبح شام اس کی بکثرت یاد کر ۔ یہاں بھی یہ فرمایا اور جگہ بھی ہے آیت ( فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب ) یعنی اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کیا کرو سورج طلوع اور سورج غروب ہونے سے پہلے ۔ یہ آیت مکیہ ہے اور یہ حکم معراج سے پہلے کا ہے غدو کہتے ہیں دن کے ابتدائی حصے کو اصال جمع ہے اصیل کی ۔ جیسے کہ ایمان جمع ہے یمین کی ۔ حکم دیا کہ رغبت ، لالچ اور ڈر خوف کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اللہ کی یاد اپنے دل میں اپنی زبان سے کرتے رہو چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں ۔ اسی لئے مستحب یہی ہے کہ پکار کے ساتھ اور چلا چلا کر اللہ کا ذکر نہ کیا جائے ۔ صحابہ نے جب حضور سے سوال کیا کہ کیا ہمارا رب قریب ہے کہ ہم اس سے سرگوشی چپکے چپکے کر لیا کریں یا دور ہے کہ ہم پکار پکار کر آوازیں دیں ؟ تو اللہ تعالیٰ جل و علا نے یہ آیت اتاری ( واذا سألک عبادی عنی الخ ) ، جب میرے بندے تجھ سے میری بابت سوال کریں تو جواب دے کہ میں بہت ہی نزدیک ہوں ۔ دعا کرنے والے کی دعا کو جب بھی وہ مجھ سے دعا کرے قبول فرمالیا کرتا ہوں ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ لوگوں نے ایک سفر میں باآواز بلند دعائیں کرنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر ترس کھاؤ تم کسی بہرے کو یا کسی غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکارتے ہو وہ تو بہت ہی پست آواز سننے والا اور بہت ہی قریب ہے تمہاری سواری کی گردن جتنی تم سے قریب ہے اس سے بھی زیادہ وہ تم سے نزدیک ہے ، ہو سکتا ہے کہ مراد اس آیت سے بھی وہی ہو جو آیت ( ولا تجھر بصلاتک الخ ) ، سے ہے ۔ مشرکین قرآن سن کر قرآن کو جبرائل کو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور خود اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ نہ تو آپ اس قدر بلند آواز سے پڑھیں کہ مشرکین چڑ کر بکنے جھکنے لگیں نہ اس قدر پست آواز سے پڑھیں کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں بلکہ اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈ نکالیں یعنی نہ بہت بلند نہ بہت آہستہ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ بہت بلند آواز سے نہ ہو اور غافل نہ بننا ۔ امام ابن جریر اور ان سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے فرمایا ہے کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اوپر کی آیت میں قرآن کے سننے والے کو جو خاموشی کا حکم تھا اسی کو دہرایا جا رہا ہے کہ اللہ کا ذکر اپنی زبان سے اپنے دل میں کیا کرو ۔ لیکن یہ بعید ہے اور انصاف کے منافی ہے جس کا حکم فرمایا گیا ہے اور یہ کہ مراد اس سے یا تو نماز میں ہے یا نماز اور خطبے میں اور یہ ظاہر ہے کہ اس وقت خاموشی بہ نسبت ذکر ربانی کے افضل ہے ۔ خواہ وہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر پس ان دونوں کی متابعت نہیں کی گئی ۔ پس مراد اس سے بندوں کو صبح شام ذکر کی کثرت کی رغبت دلانا ہے تاکہ وہ غافلوں میں سے نہ ہو جائیں ۔ ( ان دونوں بزرگوں کے علاوہ حضرت عبداللہ بن عباس وغیرہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ تفسیر بیضاوی وغیرہ میں بھی یہی ہے دونوں آیتوں کے ظاہری ربط کا تقاضا بھی یہی ہے واللہ اعلم ) اسی لئے فرشتوں کی تعریف بیان ہوئی کہ وہ رات دن اللہ کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں بالکل تھکتے نہیں ۔ پس فرماتا ہے کہ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ۔ ان کا ذکر اس لئے کیا کہ اس کثرت عبادت و اطاعت میں ان کی اقتدا کی جائے ، اسی لئے ہمارے لئے بھی شریعت نے سجدہ مقرر کیا فرشتے بھی سجدہ کرتے رہتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے تم اسی طرح صفیں کیوں نہیں باندھتے جیسے کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں باندھتے ہیں کہ وہ پہلے اول صف کو پورا کرتے ہیں اور صفوں میں ذرا سی بھی گنجائش اور جگہ باقی نہیں چھوڑتے ۔ اس آیت پر اجماع کے ساتھ سجدہ واجب ہے پڑھنے والے پر بھی اور سننے والے پر بھی ۔ قرآن میں تلاوت کا پہلا سجدہ یہی ہے ۔ ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کو سجدے کی آیتوں میں سے گنا ۔ الحمد اللہ سورہ اعراف کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠٣] تلاوت قرآن کے آداب :۔ صبح و شام سے مراد یہ دونوں مخصوص وقت بھی ہوسکتے ہیں اور صبح و شام کی نمازیں بھی اور صبح و شام بطور محاورہ استعمال ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر وقت اللہ کو یاد کرتے رہنا یا دل میں اس کی یاد رکھنا چاہیے۔ اسی طرح ذکر سے مراد قرآن کریم کی تلاوت بھی ہوسکتی ہے کیونکہ سب سے بڑا ذکر تو خود قرآن کریم ہے اور نمازیں بھی ہوسکتی ہیں جن میں اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اور ہر وقت دل میں یاد رکھنا بھی مراد ہوسکتا ہے اور جس ذکر میں دل اور زبان دونوں مشغول ہوں تو دل میں عاجزی اور خضوع ہونا چاہیے اور آواز پست ہونا چاہیے خواہ یہ ذکر جہراً ہی کیا جا رہا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا یہی تقاضا ہے۔ [٢٠٤] سب سے بڑی غفلت تو یہی ہے کہ انسان یہ بھول جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اس دنیا میں جو دارالامتحان ہے اسے اللہ کا بندہ بن کر ہی رہنا چاہیے۔ نیز یہ بھول جائے کہ آخرت میں اس کے سب اعمال پر جواب طلبی اور مواخذہ ہوگا۔ دنیا میں جب بھی کوئی فتنہ و فساد پیدا ہوا ہے تو اسی قسم کی غفلت سے پیدا ہوا ہے اسی لیے مسلمانوں کو بار بار تاکید کی جا رہی ہے کہ انہیں کسی وقت بھی ایسی غفلت میں نہ رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنا چاہیے جو اس غفلت کا صحیح علاج ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِك۔۔ : ” بِالْغُدُوِّ “ سے مراد فجر سے لے کر سورج طلوع ہونے تک کا وقت ہے اور ” الْاٰصَالِ “ ” اَصِیْلٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” اَیْمَانٌ“ ” یَمِیْنٌ“ کی جمع ہے، اس سے مراد عصر سے لے کر مغرب تک کا وقت ہے۔ ان اوقات میں دل کی حاضری کے ساتھ اللہ کا ذکر غفلت دور کرنے میں بیحد مفید ہے۔ بعض اوقات صبح و شام بول کر ہر وقت بھی مراد لیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی تاکید اور اس کے آداب بیان ہوئے ہیں : 1 ” فِيْ نَفْسِكَ “ ذکر دل کے ساتھ کرے، صرف زبان چل رہی ہو اور دل حاضر نہ ہو تو خاص فائدہ نہیں۔ 2 ” تَضَرُّعًا “ ذکر خوب عاجزی کے ساتھ اور گڑ گڑا کر کیا جائے۔ 3 ” خِيْفَةً ‘ اللہ کا خوف دل پر طاری ہو اور اپنی عملی کوتاہی اور اللہ تعالیٰ کی گرفت کا ڈر ہو۔ 4 ” َدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ “ اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک تو یہ کہ آواز کے بغیر ہو، کیونکہ یہ اخلاص سے قریب اور ریا سے دور ہے۔ دوسرا یہ کہ ذکر اور قرآن کی تلاوت نہ بالکل آہستہ ہو نہ بہت بلند آواز سے، بلکہ درمیانی آواز کے ساتھ پڑھا جائے۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (١١٠) اور جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز تہجد میں ابوبکر (رض) کو آواز کچھ بلند کرنے اور عمر (رض) کو کچھ پست کرنے کا حکم دیا تھا۔ [ أبوداوٗد، التطوع، باب فی رفع الصوت۔۔ : ١٣٢٩ ] دونوں صورتوں میں دل کی حاضری کے ساتھ زبان سے الفاظ کا ادا ہونا بھی ضروری ہے، صرف دل میں ذکر کو فکر کہتے ہیں، ذکر نہیں۔ اگر کوئی شخص نماز صرف دل سے پڑھتا جائے، زبان سے الفاظ ادا نہ کرے تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔ 5 ” وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ “ ذکر ہر وقت جاری رہے، خصوصاً صبح و شام کے اوقات میں اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary That the Holy Qur&an should be listened to and that due etiquette should be observed when doing so was the subject in previous verses. Described in the present two verses, as held by the majority of commentators, is the injunction to remember Allah, in an absolute sense, as well as its attending etiquette - which includes the recitation of the Qur&an. However, according to Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) the word: ذِکر (dhikr: remembrance) as it appears in this verse means the Qur&an, and the rules of etiquette enunciated therein are also related to its recitation. But, this does not make much of a difference because according to the consensus of all, other modes of remem¬brance (adhkar: plural of dhikr), in addition to the Qur&an, are governed by the same injunction and the same rules of etiquette. In short, in this verse, human beings have been commanded to remember Allah and told when to do it and how to do it. Rules of Voiced and Voiceless Remembrance [ Dhikr ] The first rule of etiquette relates to the doing of Dhikr in a lowered or loud voice. The Holy Qur&an has given two choices about that in this verse. It can be made secretly and voicelessly and it can be made openly and loudly. About the voiceless Dhikr, it was said: وَاذْكُر‌ رَّ‌بَّكَ فِي نَفْسِكَ which has been translated here literally as &and remember your Lord in yourself (or, in your heart). This too would, take two forms: (1) That one does not move his tongue and simply thinks of Allah and His attributes in his heart that is known as al-dhikr-al-khafiyy (Dhikr of the heart) or tafakkur (pondering). (2) That one brings his tongue in alignment with what is happening in the deep recesses of his heart, lowers his voice and renders the letters carrying Divine names. The most preferred form of doing it is to first understand the sense of what is being said. Then, in synchronization with it, let him do two things simultaneously: Be fully conscious of its presence in his heart with his span of attention riveted to it and then, verbalize it too. The reason is that this is a form in which the tongue also joins in the Dhikr along with the heart. And if someone were to remain devoted to the thought within his heart alone, without uttering any word from his tongue, that too is a reward-worthy act in its own place. However, the lowest degree of it would be uttering the words of Dhikr but the heart stays denuded with it, even heedless towards it. About a Dhikr like that, the great sage, Rumi said: بر زبان تسبیح و در دل گا ؤخَر ایں چنییں تسبیح کے دارد اثر On the tongue, glory to God، Cow and donkey in the heart! What remembrance is it? How effective will it be? What sage Rumi means is that Dhikr made through a heedless heart brings no vestiges and blessings of the genuine act of Dhikr. It does not rule out the reward and benefit that may issue forth from what may be a bland verbal Dhikr because there are occasions when this very verbal Dhikr becomes the channel, source and cause of the Dhikr of the heart. The constant utterance of the tongue starts affecting the heart as well. In case that does not materialize, no less is the satisfaction that there is at least one part of the body busy with the Dhikr of Allah. If so, that too is not devoid of its benefits and rewards. Therefore, people who fail to experience peace, attention and sense of presence in their Dhikr and Tasbih (act of remembrance and glorification of Allah) should not abandon it as something useless. They should, rather, continue with it and keep trying to attain the required degree of attention. The second method of Dhikr has been given within this verse by saying: وَدُونَ الْجَهْرِ‌ مِنَ الْقَوْلِ (and without speaking loudly). It means that it has to be in a lowered voice as compared to a raised voice. In other words, the person who is engaged in the Dhikr of Allah does have the option of doing a voiced Dhikr but its etiquette demands that one should not do it too loudly reaching the outer limits of shouting and screaming. Doing it in an average voice with due regard for the rever¬ence-worthy nature of the activity is better. The fact is that doing the Dhikr of Allah and the recitation of the Qur&an very loudly is a sign of disrespect one has in his heart for the addressee. Is it not that one cannot naturally speak up in a loud voice before someone he reveres by heart? Therefore, when the usual Dhikr of Allah or the recitation of the Qur&an is made vocally, one has to be careful not to let the voice be raised any more than necessary. To sum up, three methods of the Dhikr of Allah and the recitation of the Qur&an come out of this verse. (1) Concentrate on the Dhikr of the heart only, that is, consider it sufficient to imagine and deliberate on the meanings of the Qur&an, and Dhikr, while keeping the tongue totally unmoved. (2) Also move the tongue along with the Dhikr of the heart, without raising the voice to the level of being heard by others. Both these methods are included under the Divine command of: وَاذْكُر‌ رَّ‌بَّكَ فِي نَفْسِكَ (And remember your Lord in yourself). (3) The third method of Dhikr is that, alongwith attention by heart, there is a movement of tongue with voice, but it should not be raised any higher than neces¬sary, in fact, it should be limited to the average level. This method has been proposed in the Qur&anic statement: وَدُونَ الْجَهْرِ‌ مِنَ الْقَوْلِ (and without speaking loudly). Another verse of the Qur&an has explained it further by saying: وَلَا تَجْهَرْ‌ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا . It commands the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) that he should not recite the Qur&an in a voice rising too high nor in a voice lowered too much. Instead, he should maintain a middle level between the two - [ 17:110]. This was the instruction given by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to Sayyidna Abu Bakr and Sayyidna ` Umar (رض) about the recitation of the Qur&an in Sa1ah. According to an authentic Hadith, once the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) came out of the house late at night. When he reached the house of Sayyidna Abu Bakr (رض) he saw him busy with Salah but he was reciting in a lowered voice. Then he reached the house of Sayyidna ` Umar, (رض) عنہ and saw that he was reciting in a raised voice. When these two companions came to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in the morning, he said to Sayyidna Abu Bakr &when I went to you last night, I noticed that you were reciting in a lowered voice.& Sayy¬idna Abu Bakr submitted, &ya rasiiallah, the One I was reciting for has heard it. That is sufficient.& Similarly, he said to Sayyidna ` Umar, &you were reciting in a raised voice.& He submitted, &By raising my voice in the recitation, I intended to drive away sleep and Shaitan both.& Giving his verdict, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) instructed Sayyidna Abu Bakr (رض) عنہ to raise his voice a little bit and asked Sayyidna ` Umar (رض) to somewhat lower it. (Abu Dwud) According to a report in Tirmidhi, some Companions asked Sayy¬idah ` A&ishah (رض) about the recitation of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) whether he did it in a raised voice or a lowered voice. She said, &at times he would do it loudly and at others, in a lowered voice. He recited both ways.& Some early elders have favored reciting loudly during nafl Salah at night and in recitations outside the Salah, while some others have preferred reciting softly in a lowered voice. Therefore, Imam Abu Hanifah (رح) has said that the person reciting has the choice of reciting either way. However, it is unanimously agreed that reciting loudly has some conditions to it. Firstly, there should be no apprehension of showing off in doing so. Secondly, the voice of the person reciting should not cause any inconvenience or pain to others. For example, it should not interfere in the Salah or recitation being made by others, or in their work, or rest. Under such eventualities, reciting in a low voice is more meritorious as unanimously held by all. Then, the rule that applies to the recitation of the Qur&an also applies to other Adhkar and Tasbihat in that these could be made in a voice loud or low. It is permissible to do it either way - subject to the condition that the voice should not be so loud as to be against the norms of humbleness of heart and the formal etiquette of spiritual devotion. In addition to that, the voice of the person so engaged in remembering Allah and glorifying Him should cause no disruption in the activities of people working or resting. As to what is more meritorious - loud or low - it depends on who is doing it and under what conditions. The verdict differs. For some, loud is better, for others, low. Then, there are times when loud is better and there are other times when keeping it low or voiceless is beneficial. (Tafslr Mazhari, Ruh al-Bayan etc.) The second rule of etiquette mentioned in the verse under discus¬sion requires that Tilawah and Dhikr should be made humbly which is the outcome of one&s realization that Allah Ta` ala is great and most exalted and that one keeps the meaning and sense of what he or she is saying in sight. The third rule of etiquette comes out from the word: خُفْيَةً (khifah: fear) in this very verse (205). Here, we have been told that one should be in a state of awe and fear while reciting or making Dhikr. As for fear, it means the fear of not being able to do justice to the great task of worshipping Allah and recognizing His greatness - perhaps, we may fall short or do something contrary to His reverence due on us. In addi¬tion to that, we have to be actively conscious of our sins and be fearful of His punishment, fearful of what would happen to us in the end for we do not know what and how it will be. So then, Dhikr and Tilawah have to be done in the manner of a person who has been subdued by an aura of awe and fear. These rules have also appeared in an earlier verse of this very Surah al-A&raf where they relate to prayer: ادْعُوا رَ‌بَّكُمْ تَضَرُّ‌عًا وَخُفْيَةً (Supplicate to your Lord humbly and secretly - 7:55). Here, instead of خُفْيَةً (kh &fah: fear), the word: خُفْيَةً (khufyah: secretly) has been used which means saying it softly in a low voice - as though, it is also a rule of etiquette that Dhikr and Tilawah should be done softly in a lowered voice. But, this verse makes it clear at the same time that doing voiced Dhikr is not prohibited, however, it is subject to the condition that one does not raise his voice more than necessary, definitely not so high as would cause the state of fear and humbleness to disappear. Given towards the end of the verse are the timings of Dhikr and Tilawah - that it should be done in the mornings and evenings. It could also mean that one should be busy with the remembrance of Allah at least twice a day in the morning and the evening. And it is also possible that by saying mornings and evenings, the reference is to all timings of the day and night on the analogy of saying East and West and thereby meaning the whole world. If so, the verse would mean that one must remain committed to Dhikr and Tilawah always, under all conditions. Sayyidah ` A&ishah (رض) says that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was devoted to the remembrance of Allah at all times and under all conditions. At the end of the verse, it was said: وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِين is (and do not be among the heedless) which means that abandoning the remembrance of Allah and joining the heedless is a great loss. The last verse (206) depicts the particular state and style of those close to Allah so that others may learn their lesson from it. It is said that those who are close to Allah Ta` ala show no arrogance against worshipping Him. Being &with& Allah Ta` ala means being among those approved of and accepted by Him. This includes all angels and all blessed prophets and the most righteous men and women of the Muslim community. As for the sense of arrogance in this context, it means that they do not assume airs and do not fall short in their acts of worship on the false assumption of being big and special. Instead of doing anything of that sort, they take themselves to be weak and needy before Allah and keep devoting themselves to His remembrance, worship and glorification showing their ultimate humility by pros-trating before their Lord in sajdah. From here, we also learn that people who are blessed with the ability to engage in perpetual worship and remembrance of Allah are blessed with the sign that they are ` with& Allah all the time and fortu¬nate to have His company.

خلاصہ تفسیر اور (آپ ہر شخص سے یہ بھی کہہ دیجئے) اے شخص اپنے رب کی یاد کیا کر (قرآن سے یا تسبیح وغیرہ سے خواہ) اپنے دل میں (یعنی آہستہ آواز سے) عاجزی کے ساتھ اور (خواہ) زور کی آواز نسبت کم آواز کے ساتھ (اسی عاجزی اور خوف کے ساتھ) صبح و شام (یعنی علی الدوام) اور (دوام کا مطلب یہ ہے کہ) اہل غفلت میں شمار مت ہونا ( کہ اذکار مامور بہا بھی ترک کردو) یقینا جو (ملائکہ) تیرے رب کے نزدیک (مقرب) ہیں اس کی عبادت سے ( جس میں اصلی عقائد ہیں) تکبر نہیں کرتے اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں (جو کہ اطاعت لسانی ہے) اور اس کو سجدہ کرتے ہیں (جو کہ اعمال جوارح سے ہے) ۔ معارف و مسائل ان سے پہلی آیات میں قرآن مجید سننے کا ذکر اور اس کے آداب کا بیان تھا، ان دو آیتوں میں جمہور کے نزدیک مطلق ذکر اللہ کا حکم اور اس کے آداب کا بیان ہے جس میں تلاوت قرآن بھی شامل ہے، اور حضرت عبداللہ بن عباس کے نزدیک اس میں بھی ذکر سے مراد قرآن ہی ہے اور جو آداب اس میں بیان ہوئے ہیں وہ بھی تلاوت قرآن ہی سے متعلق ہیں، لیکن یہ کوئی اختلاف نہیں کیونکہ علاوہ قرآن کے دوسرے اذکار کا بھی سب کے نزدیک یہی حکم اور یہی آداب ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں انسان کو اللہ کی یاد اور ذکر کا حکم اور اس کے ساتھ اس کے اوقات اور آداب کا بیان ہے۔ ذکر خفی اور ذکر جہر کے احکام : پہلا ادب ذکر کے آہستہ یا بلند آواز سے کرنے کے متعلق ہے اس کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں دو طرح کا اختیار دیا ہے، ذکر خفی اور ذکر جہر۔ ذکر خفی کے بارے میں فرمایا (آیت) وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ یعنی اپنے رب کو یاد کیا کرو اپنے دل میں، اس کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ بغیر زبان کی حرکت کے صرف دل میں دھیان اور خیال اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا رکھے جس کو ذکر قلبی یا تفکر کہا جاتا ہے، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان سے بھی آہستہ آواز میں اسماء الہیہ کے حروف ادا کرے، سب سے افضل اور بہتر صورت یہی ہے کہ جو ذکر کررہا ہے اس کے مفہوم کو سمجھ کر دل میں بھی اس کا پورا استحضار اور دھیان ہو اور زبان سے بھی ادا کرے کیونکہ اس صورت میں قلب کے ساتھ زبان بھی ذکر میں شریک ہوجاتی ہے اور اگر صرف دل میں دھیان اور تفکر میں مشغول رہے زبان سے کوئی حرف ادا نہ کرے وہ بھی بڑا ثواب ہے اور سب سے کم درجہ اس کا ہے کہ صرف زبان پر ذکر ہو اور قلب اس سے خالی اور غافل ہو، ایسے ہی ذکر کو مولانا رومی نے فرمایا ہے : بر زباں تسبیح و در دل گاؤ خر ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر اور مقصد مولانا رومی کا یہ ہے کہ قلب غافل کے ذکر کرنے سے ذکر کے آثار و برکات کامل حاصل نہیں ہوتے، اس کا انکار نہیں کہ یہ صرف زبانی ذکر بھی ثواب اور فائدہ سے خالی نہیں، کیونکہ بعض اوقات یہ زبانی ذکر ہی قلبی ذکر کا ذریعہ اور سبب بن جاتا ہے، زبان سے کہتے کہتے قلب بھی متاثر ہونے لگتا ہے اور کم از کم ایک عضو تو ذکر میں مشغول ہے ہی، وہ بھی ثواب سے خالی نہیں، اس لئے جن لوگوں کو ذکر و تسبیح میں دل جمعی اور دھیان اور استحضار نہیں ہوتا وہ بھی ایسے ذکر کو بےفائدہ سمجھ کر چھوڑیں نہیں، جاری رکھیں اور استحضار کی کوشش کرتے رہیں۔ دوسرا طریقہ ذکر کا اسی آیت میں یہ بتلایا (آیت) وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ، یعنی زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ یعنی ذکر اللہ میں مشغول ہونے والے کو یہ بھی اختیار ہے کہ آواز سے ذکر کرے مگر اس کا ادب یہ ہے کہ بہت زور سے چیخ کر نہ کرے متوسط آواز کے ساتھ کرے جس میں ادب و احترام ملحوظ رہے، بہت زور سے ذکر و تلاوت کرنا اس کی علامت ہوتی ہے کہ مخاطب کا ادب و احترام اس کے دل میں نہیں، جس ہستی کا ادب و احترام اور رعب انسان کے دل میں ہوتا ہے اس کے سامنے طبعی طور پر انسان بہت بلند آواز سے نہیں بول سکتا، اس لئے عام ذکر اللہ ہو یا تلاوت قرآن جب آواز سے پڑھا جائے تو اس کی رعایت رکھنا چاہئے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت سے ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کے تین طریقے حاصل ہوئے، ایک یہ کہ صرف ذکر قلبی یعنی معانی قرآن اور معانی ذکر کے تصور اور تفکر پر اکتفاء کرے، زبان کو بالکل حرکت نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس کے ساتھ زبان کو بھی حرکت دے مگر آواز بلند نہ ہو جس کو دوسرے آدمی سن سکیں، یہ دونوں طریقے ذکر کے ارشاد ربانی (آیت) وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ میں داخل ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ استحضار قلب اور دھیان کے ساتھ زبان کی حرکت بھی ہو اور آواز بھی، مگر اس طریق کے لئے ادب یہ ہے کہ آواز کو زیادہ بلند نہ کرے، متوسط حد سے آگے نہ بڑھائے، یہ طریقہ ارشاد قرآنی (آیت) وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ میں تلقین فرمایا گیا ہے، قرآن کریم کی ایک دوسرے آیت نے اس کی مزید وضاحت ان لفظوں میں فرمائی ہے، (آیت) ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا، اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہے کہ اپنی قرأت میں نہ زیادہ جہر کیا کریں اور نہ بالکل اخفاء بلکہ جہر اور اخفاء کے درمیانی کیفیت رکھا کریں۔ نماز میں قرأت قرآن کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر اور فاروق اعظم (رض) کو یہی ہدایت فرمائی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر رات میں گھر سے نکلے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ وہ نماز میں مشغول تھے مگر تلاوت آہستہ کررہے تھے، پھر حضر عمر بن خطاب (رض) کے مکان پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت بلند آواز سے تلاوت کر رہے تھے، جب صبح کو یہ دونوں حضرات حاضر خدمت ہوئے تو آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا کہ میں رات تمہارے پاس گیا تو دیکھا کہ تم پست آواز سے تلاوت آپ کر رہے تھے، صدیق نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے جس ذات کو سنانا تھا اس نے سن لیا یہ کافی ہے، اسی طرح فاروق اعظم سے فرمایا کہ آپ بلند آواز سے تلاوت کررہے تھے، انہوں نے عرض کیا کہ قرأت میں جہر کرنے سے میرا مقصد یہ تھا کہ نیند کا غلبہ نہ رہے اور شیطان اس کی آواز سے بھاگے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ فیصلہ فرمایا کہ صدیق اکبر کو یہ ہدایت کی کہ ذرا کچھ آواز بلند کیا کریں اور فاروق اعظم کو یہ کہ کچھ پست کیا کریں۔ ( ابوداؤد) ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ (رض) سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کے بارے میں بعض حضرات نے سوال کیا کہ جہرا کرتے تھے یا سِرًّا ؟ انہوں نے فرمایا کہ کبھی جہرا کبھی سرا دونوں طرح تلاوت فرماتے تھے۔ رات کی نفل نماز میں اور خارج نماز تلاوت میں بعض حضرات نے جہر پسند کیا بعض نے آہستہ کو، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا کہ تلاوت کرنے والے کو اختیار ہے جس طرح چاہے تلاوت کرے، البتہ آواز سے تلاوت کرنے میں چند شرائط سب کے نزدیک ضروری ہیں، اول یہ کہ اس میں نام و نمود اور ریاء کا اندیشہ نہ ہو، دوسرے اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کا حرج یا تکلیف نہ ہو، کسی دوسرے شخص کی نماز و تلاوت یا کام میں یا آرام میں خلل انداز نہ ہو، اور جہاں نام و نمود اور ریاء کا یا دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل کا اندیشہ ہو تو سب کے نزدیک آہستہ ہی پڑھنا افضل ہے۔ اور جو حکم تلاوت قرآن کا ہے وہی دوسرے اذکار و تسبیح کا ہے کہ آہستہ اور بلند آواز سے دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ آواز اتنی بلند نہ ہو جو خشوع و خضوع اور ادب کے خلاف ہو نیز اس کی آواز سے دوسرے لوگوں کے کام یا آرام میں خلل نہ آتا ہو۔ اور اس کا فیصلہ کہ سراً اور جہراً میں سے افضل کیا ہے، اشخاص اور حالات کے اعتبار سے مختلف ہے، بعض لوگوں کے لئے جہر بہتر ہوتا ہے بعض کے لئے آہستہ، نیز بعض اوقات جہر بہتر ہوتا ہے بعض وقت سرا، (تفسیر مظہری و روح البیان وغیرہ) دوسرا ادب تلاوت اور ذکر کا یہ ہے کہ عاجزی اور تضرع کے ساتھ ذکر کیا جاوے جو نتیجہ اس کا ہوتا ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ کی عظمت و جلال مستحضر ہو اور جو ذکر کررہا ہے اس کے معنی و مفہوم پر نظر ہو۔ تیسرا ادب اسی آیت میں لفظ خیفہ سے یہ بتلایا گیا کہ ذکر و تلاوت کے وقت انسان پر ہیبت اور خوف کی کیفیت ہونا چاہئے، خوف اس کا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور عظمت کا حق ادا نہیں کرسکتے، ممکن ہے کہ ہم سے کوئی بےادبی ہوجائے، نیز اپنے گناہوں کے استحضار سے عذاب الہی کا خوف نیز انجام اور خاتمہ کا خوف کہ معلوم نہیں ہمارا خاتمہ کس حال پر ہونا ہے، بہرحال ذکر و تلاوت اس طرح کیا جائے جیسے کوئی ہیبت زدہ ڈرنے والا کیا کرتا ہے۔ یہی آداب دعا اسی سورة اعراف کے شروع میں بھی ایک آیت میں اس طرح آئے ہیں (آیت) اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ، اس میں خیفة کے بجائے خفیة کا لفظ آیا ہے جس کے معنی آہستہ آواز سے ذکر کرنے کے ہیں، گویا ذکر و تلاوت کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ آہستہ پست آواز سے کیا جائے، لیکن اس آیت نے اس کے معنی بھی واضح کردیئے کہ اگرچہ آواز سے ذکر کرنا بھی ممنوع نہیں، مگر شرط یہ ہے کہ ضرورت سے زائد آواز بلند کرے، نیز اتنی بلند نہ کرے جس میں خشوع خضوع اور عاجزی و تضرع کی کیفیت جاتی رہے۔ آخر آیت میں ذکر و تلاوت کے اوقات بتلائے کہ صبح و شام ہونا چاہئے اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ کم از کم دن میں دو مرتبہ صبح اور شام ذکر اللہ میں مشغول ہونا چاہئے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صبح شام بول کر مراد تمام لیل و نہار کے اوقات ہوں جیسے مشرق مغرب بول کر سارا عالم مراد لیا جاتا ہے، اس صورت میں معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ انسان پر لازم ہے کہ ہمیشہ ہر حال میں ذکر و تلاوت کا پابند رہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ، یعنی اللہ کی یاد کو چھوڑ کر غفلت والوں میں شامل نہ ہوجانا کہ یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ دوسری آیت میں لوگوں کی عبرت و نصیحت کے لئے مقربان بارگاہ الہی کا ایک مخصوص حال بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ کے پاس ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کا مقبول ہونا ہے، جس میں سب فرشتے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین امت شامل ہیں، اور تکبر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھ کر ان عبادات میں قصور نہیں کرتے بلکہ اپنے کو عاجز و محتاج سمجھ کر ہمیشہ اللہ کی یاد اور عبادت میں مشغول اور تسبیح کرتے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو دائمی عبادت اور یاد خدا کی توفیق ہوتی ہے تو یہ اس کی علامت ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کے پاس ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معیت ان کو حاصل ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَــہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ۝ ٢٠٥ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، وقوله تعالی: وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] ، وقوله : هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] ، وقوله : أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] ، أي : القرآن، وقوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] ، وقوله : وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] ، أي : شرف لک ولقومک، وقوله : فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] ، أي : الکتب المتقدّمة . وقوله قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] ، فقد قيل : الذکر هاهنا وصف للنبيّ صلّى اللہ عليه وسلم «2» ، كما أنّ الکلمة وصف لعیسی عليه السلام من حيث إنه بشّر به في الکتب المتقدّمة، فيكون قوله : ( رسولا) بدلا منه . وقیل : ( رسولا) منتصب بقوله ( ذکرا) «3» كأنه قال : قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلو، نحو قوله : أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] ، ف (يتيما) نصب بقوله (إطعام) . ومن الذّكر عن النسیان قوله : فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] ، ومن الذّكر بالقلب واللّسان معا قوله تعالی: فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] ، وقوله : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] ، وقوله : وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] ، أي : من بعد الکتاب المتقدم . وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ وَهذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ [ الأنبیاء/ 50] اور یہ مبارک نصیحت ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے ؛هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي [ الأنبیاء/ 24] یہ میری اور میرے ساتھ والوں کی کتاب ہے اور مجھ سے پہلے ( پیغمبر ) ہوئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنا [ ص/ 8] کیا ہم سب میں سے اسی پر نصیحت ( کی کتاب ) اتری ہے ۔ میں ذکر سے مراد قرآن پاک ہے ۔ نیز فرمایا :۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ [ ص/ 1] اور ایت کریمہ :۔ وَإِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ [ الزخرف/ 44] اور یہ ( قرآن ) تمہارے لئے اور تمہاری قوم کے لئے نصیحت ہے ۔ میں ذکر بمعنی شرف ہے یعنی یہ قرآن تیرے اور تیرے قوم کیلئے باعث شرف ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ [ النحل/ 43] تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ میں اہل ذکر سے اہل کتاب مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْراً رَسُولًا [ الطلاق/ 10- 11] خدا نے تمہارے پاس نصیحت ( کی کتاب ) اور اپنے پیغمبر ( بھی بھیجے ) ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں الذکر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصف ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ کی وصف میں کلمۃ قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے ۔ کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الذکر اس لحاظ سے کہا گیا ہے ۔ کہ کتب سابقہ میں آپ کے متعلق خوش خبردی پائی جاتی تھی ۔ اس قول کی بنا پر رسولا ذکرا سے بدل واقع ہوگا ۔ بعض کے نزدیک رسولا پر نصب ذکر کی وجہ سے ہے گویا آیت یوں ہے ۔ قد أنزلنا إليكم کتابا ذکرا رسولا يتلوجیسا کہ آیت کریمہ ؛ أَوْ إِطْعامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيماً [ البلد/ 14- 15] میں کی وجہ سے منصوب ہے اور نسیان کے بعد ذکر کے متعلق فرمایا :َفَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ أَنْ أَذْكُرَهُ [ الكهف/ 63] قو میں مچھلی ( وہیں ) بھول گیا اور مجھے ( آپ سے ) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ اور ذکر قلبی اور لسانی دونوں کے متعلق فرمایا :۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آباءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْراً [ البقرة/ 200] تو ( مبی میں ) خدا کو یاد کرو جسطرح اپنے پاب دادا کیا کرتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ وَاذْكُرُوهُ كَما هَداكُمْ [ البقرة/ 198] تو مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں خدا کا ذکر کرو اور اسطرح ذکر کرو جس طرح تم کو سکھایا ۔ اور آیت کریمہ :۔ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء/ 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی تورات ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ میں الذکر سے کتب سابقہ مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر/ 1] انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے کہ وہ کوئی چیز قابل ذکر نہ تھی ۔ ضرع الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية/ 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ : أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام/ 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام/ 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف/ 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام/ 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ. ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية/ 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام/ 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام/ 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف/ 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام/ 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں ) خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ جهر جَهْر يقال لظهور الشیء بإفراط حاسة البصر أو حاسة السمع . أمّا البصر فنحو : رأيته جِهَارا، قال اللہ تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] ، أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ( ج ھ ر ) الجھر ( ف) اس کے اصل معنی کسی چیز کا حاسہ سمع یا بصر میں افراط کے سبب پوری طرح ظاہر اور نمایاں ہونے کے ہیں چناچہ حاسہ بصر یعنی نظروں کے سامنے کسی چیز کے ظاہر ہونے کے متعلق کہا جاتا ہے رایتہ جھرا کہ میں نے اسے کھلم کھلا دیکھا قرآن میں ہے :۔ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً [ البقرة/ 55] کہ جب تک ہم خدا کو سامنے نمایاں طور پر نہ دیکھ لیں تم پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً [ النساء/ 153] ہمیں نمایاں اور ظاہر طور پر خدا دکھا دو ۔ غدا الْغُدْوَةُ والغَدَاةُ من أول النهار، وقوبل في القرآن الغُدُوُّ بالآصال، نحو قوله : بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] ، وقوبل الغَدَاةُ بالعشيّ ، قال : بِالْغَداةِ وَالْعَشِيِ [ الأنعام/ 52] ، غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] ( غ د و ) الغدوۃ والغداۃ کے معنی دن کا ابتدائی حصہ کے ہیں قرآن میں غدو ( غدوۃ کی جمع ) کے مقابلہ میں اصال استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : ۔ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] صبح وشام ( یا د کرتے رہو ) ( غدو ( مصدر ) رواح کے مقابلہ میں ) جیسے فرمایا : ۔ غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ [ سبأ/ 12] اس کا صبح کا جانا ایک مہینہ کی راہ ہوتی ہے اور شام کا جانا بھی ایک مہینے کی ۔ أصل وأَصْلُ الشیء : قاعدته التي لو توهّمت مرتفعة لارتفع بارتفاعه سائره لذلک، قال تعالی: أَصْلُها ثابِتٌ وَفَرْعُها فِي السَّماءِ [إبراهيم/ 24] ، وقد تَأَصَّلَ كذا وأَصَّلَهُ ، ومجد أصيل، وفلان لا أصل له ولا فصل . بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الأعراف/ 205] أي : العشایا، يقال للعشية : أَصِيل وأَصِيلَة، فجمع الأصيل أُصُل وآصَال، وجمع الأصيلة : أَصَائِل، وقال تعالی: بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفتح/ 9] . ( ا ص ل ) اصل الشئی ( جڑ ) کسی چیز کی اس بنیاد کو کہتے ہیں کہ اگر اس کا ارتفاع فرض کیا جائے تو اس شئے کا باقی حصہ بھی معلوم ہوجائے قرآن میں ہے : { أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء } [إبراهيم : 24] (14 ۔ 25) اس کی جڑ زمین میں ) پختگی سے جمی ہے اور شاخیں آسمان میں ۔ اور تاصل کذا کے معنی کسی چیز کے جڑ پکڑنا ہیں اس سے اصل اور خاندانی بزرگی مجد اصیل کہا جاتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ فلان لااصل لہ ولا فصل یعنی نیست اور احسب ونہ زبان ۔ الاصیل والاصیلۃ کے معنی ( عشیۃ ) عصر اور مغرب کے درمیانی وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ { وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا } [ الأحزاب : 42] اور صبح و شام کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ اصیل کی جمع اصل واٰصال اور اصیلۃ کی جمع اصائل ہے قرآن میں ہے ۔ غفل الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] ( غ ف ل ) الغفلتہ ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق/ 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ امام ہوں تو صرف آپ ہی عاجزی اور خوف کے ساتھ قرأت کیجیے، زور کی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ صبح وشام یعنی صبح کی نماز اور مغرب و عشاء کی نمازوں میں اور اگر آپ اکیلے ہوں یاتنہا نماز پڑھ رہے ہوں تو نماز میں قرآن حکیم کی قرأت کو نہ چھوڑیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٥ (وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً ) اس عاجزی کی انتہا اور عبدیت کاملہ کا مظہر تو وہ دعائے ماثور ہے جو میں نے نقل کی ہے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق نامی اپنے کتابچے کے آخر میں۔ ان دونوں آیات (قرآن کی عظمت اور دعا میں عاجزی) کے حوالے سے اس دعا کے مندرجہ ذیل الفاظ کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں اتارنے کی کوشش کریں : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں ! وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ اَمَتِکَ تیرے ایک ناچیز غلام اور ادنیٰ کنیز کا بیٹا ہوں ! وَفِیْ قَبْضَتِکَ ‘ نَا صِیَتِیْ بِیَدِکَ اور مجھ پر تیرا ہی کامل اختیار ہے ‘ میری پیشانی تیرے ہی ہاتھ ہے۔ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ ‘ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاءُ کَ نافذ ہے میرے بارے میں تیرا ہر حکم ‘ اور عدل ہے میرے بارے میں تیرا ہر فیصلہ۔ اَسْءَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ ‘ سَمَّیْتَ بہٖ نَفْسَکَ میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں تیرے ہر اس اسم کے واسطے سے جس سے تو نے اپنی ذات مقدس کو موسوم فرمایا اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ یا اپنی کسی کتاب میں نازل فرمایا اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدً ا مِنْ خَلْقِکَ یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تلقین فرمایا اَوِاسْتَأثَرْتَِ بہٖ فِیْ مَکْنُوْنِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ یا اسے اپنے مخصوص خزانہ غیب ہی میں محفوظ رکھا اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَ نُوْرَ صَدْرِیْ وَجِلَا ءَ حُزْنِیْ وَ ذَھَابَ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ (١) کہ تو بنا دے قرآن مجید کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے رنج و حزن کی جلا اور میرے تفکرات اور غموں کے ازالے کا سبب ! آمِیْن یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ! ایسا ہی ہو اے تمام جہانوں کے پروردگار ! (وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ ) البتہ جب آدمی دعا مانگے تو اس طرح مانگے کہ خود سن سکے تاکہ اس کی سماعت بھی اس سے استفادہ کرے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو قراءت ایسے کرے کہ خود سن سکے ‘ اگرچہ سری نماز ہی کیوں نہ ہو۔ (بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ ) (اور اس طرح آپ اپنے رب کا ذکر کرتے رہیں ) صبح کے وقت بھی اور شام کے اوقات میں بھی جیسے سورة الانعام کی پہلی آیت کی تشریح کے ضمن میں ذکر آیا تھا کہ لفظ نور قرآن میں ہمیشہ واحد آتا ہے جبکہ ظُلُمات ہمیشہ جمع ہی آتا ہے ‘ اسی طرح لفظ غُدُوّ (صبح) بھی ہمیشہ واحد اور آصال (شام) ہمیشہ جمع ہی آتا ہے۔ یہ اَصِیل کی جمع ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ صبح کی نماز تو ایک ہی ہے یعنی فجر ‘ جبکہ سورج ذرا مغرب کی طرف ڈھلناشروع ہوتا ہے تو پے در پے نمازیں ہیں ‘ جو رات تک پڑھی جاتی رہتی ہیں یعنی ظہر ‘ عصر ‘ مغرب اور عشاء۔ سورة بنی اسرائیل کی آیت ٧٨ (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

154. The command to remember the Lord signifies remembrance in Prayer as well as otherwise, be it verbally or in one's mind. Again the directive to remember God in the morning and in the evening refers to Prayer at those times as well as remembering God at all times. The purpose of so saying is to emphasis constant remembrance of God. This admonition - that man ought to remember God always - constitutes the conclusion of the discourse lest man becomes heedless of God. For every error and corruption stems from the fact that man tends to forget that God is his Lord and that in his own part he is merely, a servant of God who is being tested in the world; that he will be made to render, after his death, a full account to his Lord of all his deeds. All those who care to follow, righteousness would, therefore, be ill-advised not to let these basic facts slip out of their minds. Hence Prayer, remembrance of God and keeping ones attention ever focused on God are frequently stressed in the Qur'an.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :154 یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی ، خواہ وہ زبان سے ہو یا خیال سے ۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں اور ان اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے ، اور صبح و شام کا لفظ”دائماً“ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے ۔ یہ آخری نصیحت ہے جو خطبہ کو ختم کرتے ہوئے ارشاد فرمائی گئی ہے اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ تمہارا حال کہیں غافلوں کا سا نہ ہو جائے ۔ دنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو فساد بھی رونما ہوا ہے اس کا سبب صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ خدا اس کا رب ہے اور وہ خدا کا بندہ ہے اور دنیا میں اس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا ۔ پس جو شخص راہ راست پر چلنا اور دنیا اس پر چلانا چاہتا ہو اس کو سخت اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ بھول کہیں خود اس کو لاحق نہ ہو جائے ۔ اسی لیے نماز اور ذکر الہٰی اور دائمی توجہ الی اللہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٠٥۔ اللہ پاک نے قرآن مجید پڑھنے کے وقت خاموش رہنے کا حکم دے کر اپنے رسول صلعم کو خطاب فرمایا کہ صبح وشام اپنے رب کو جی میں یاد کرو اور نہایت ہی خلوص کے ساتھ گڑگڑا کر ہو اور یہ یاد الٰہی بہت چلا کر نہ ہو کیونکہ مشرکین قرآن کو سن کر خدا اور اس کے رسول کو برا کہتے ہیں نہ اتنا چیخ کر پڑھو کہ وہ لوگ سن کر برا کہیں اور نہ اتنا آہستہ پڑھو کہ تمہارے ساتھ کے لوگ بھی نہ سن سکیں اللہ پاک نے قرآن میں اکثر جگہ بیان فرمایا ہے کہ میں تو پکارنے والے کے رگ گردن سے بھی نزدیک ہوں صحیحین میں ابوموسیٰ اشعری کی حدیث ہے کہ لوگوں نے بعض مرتبہ سفر میں بلند آواز سے دعائیں مانگنی شروع کیں تو آپ نے فرمایا کہ اے لوگو اپنے جی کو روکو تم ایسے کو نہیں پکار رہے ہو جو بہرہ ہے یا غائب کہیں دور ہے بلکہ جسے تم پکار رہے ہو وہ تو بہت جلد سن لیتا ہے اور نہایت ہی قریب ہے تمہاری سواریوں کی گردنوں سے بھی زیادہ نزدیک تر ہے ١ ؎۔ صبح وشام کا حکم اس واسطے دیا گیا ہے کہ جب انسان سو کر اٹھے تو پہلا شغل اس کا ذکر اللہ رہے کیونکہ موت میں نیند میں تھوڑا ہی فرق ہے سونے والا اور مردہ برابر ہوتا ہے اہل علم نیند کو اخ الموت کہتے ہیں بہر حال شام کو بھی جب سونے لگے تو خدا کی یاد کے بعد سوئے ممکن ہے کہ سونے کے بعد پھر اٹھنا نصیب نہ ہو ہمیشہ کے لئے خواب عدم ہی میں رہے بعضے علماء نے صبح وشام کے فوائد میں یہ بیان کیا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد اور عصر کے بعد اور نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اس لئے خدا کا حکم ہوا کہ اس وقت خدا کی یاد کیا کرو تاکہ کوئی وقت خدا کے ذکر سے خالی نہ جائے اور بعضوں نے یہ بیان کیا ہے کہ بندوں کے عمل صبح وشام اٹھائے جاتے ہیں رات کے عمل صبح کے وقت اور دن کے عمل شام کے وقت اس لئے مستحب ہے کہ صبح وشام خدا کا ذکر کیا جاوے تاکہ عمل کی ابتدا اور اس کا اختتام خدا کے ذکر ہی پر ہو صحیح بخاری ومسلم میں ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ یاد الٰہی سے غافل ہیں ان کی مثال مردہ لوگوں کی سی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کا نیک عمل بند ہوجاتا ہے اس لئے جیتے جی جن لوگوں نے یاد الہی جیسے نیک عمل کو چھوڑ رکھا ہے ان کا نیک عمل مردوں کی طرح بند ہے۔ ذکر الہی کی فضیلت اور تاکید میں اور ذکر الٰہی سے غفلت کی مذمت میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں یہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں کیونکہ آیت میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ذکر الہی کا حکم فرما کر اس سے غفلت کرنے کو منع فرمایا ہے امت کے حق میں وہی بات ان حدیثوں میں اللہ کے رسول نے فرمایا ہے :۔ ١ ؎ مشکوٰۃ جل ١٩٦ باب ذکر اللہ عزوجل والتقرب الیہ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:205) تضرعا بروزن تفعل مصدر ہے۔ عاجزی کرنا۔ گڑگڑانا۔ خیفۃ۔ خاف یخاف (فتح) کا مصدر ہے۔ خوف۔ ڈر۔ امام راغب لکھتے ہیں کہ خیفۃ کے معنی ہیں خوف کی حالت۔ قرآن میں ہے کہ : فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔ قلنا لاتخف (20:67) (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔ ہم نے کہا (اے موسیٰ ) مت ڈر۔ کبھی خیفۃ بمعنی خوف بھی آتا ہے۔ مثلاً والملئکۃ من خیفتہ (13:13) اور فرشتے سب اس کے خوف سے۔ دون الجھر۔ چپکے چپکے۔ بغیر بلند آواز کئے۔ اتعدو صبح صبح کا نکلنا، صبح صبح کو پہنچنا، فجر اور طلوع آفتاب کا درمیانی وقت۔ دن کا ابتدائی حصہ میں چلنا۔ یہ الغدوۃ کی جمع بھی ہے الاصال۔ شام ۔ شام کا وقت۔ اصل کی جمع ہے۔ جس کے معنی شام کے وقت کے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 صحیح سے مراد فجر کی نماز کے بعد سے لی کے طلوع شمس تک کا وقت مرد ہے ان اوقات میں حضور قلب سے ذکر سے الہی دل کو غفلت دور کنے میں بےحد مفید ہے۔ ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ حاصل ادب کا یہ ہے کہ دل اور ہییت میں تذلل اور خوف ہو اور آواز کے اعتبار سے جہر مفرط نہ ہو یا تو بالکل آہستہ ہو یعنی مع حرکت لسانی کے اور یا جہر معتدل ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تبلیغ کے میدان میں ایک مبلغ کو کفار سے جھگڑنے اور الجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ سورۃ الاعراف کا آغاز اس فرمان سے ہوا تھا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ قرآن آپ کی طرف اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو ان کے برے اعمال کے نتیجے سے ڈرائیں بیشک یہ کام مشکل ہے لیکن اس پر آپ کے دل میں کوئی گھٹن محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو مومنوں کے لیے ایک ذکر اور نصیحت ہے اب اس سورة کا اختتام بھی قرآن اور ذکر سے کیا جا رہا ہے کیونکہ قرآن مجید ملائکہ کے سردار جبرائیل امین (علیہ السلام) کے واسطے سے نازل ہوا ہے۔ اس لیے یہاں ملائکہ کی عجز و عاجزی اور ان کے ذکر اور عبادت سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو بھی ہر قسم کے تکبر سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر دم عاجزی کا اظہار، اس کی عبادت میں انہماک اور اس کی زبان رب کی یاد میں محور رہنے کے ساتھ اس کا سر اللہ کے حضور جھکا رہنا چاہیے۔ جہاں تک ذکر کا تعلق ہے اس میں نمود و نمائش کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ذکر سے مراد نماز بھی ہے کیونکہ سورة العنکبوت آیت ٤٥ میں نماز کو ذکر اکبر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے نماز کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ جہری نماز میں قرأت درمیانی آواز میں ہونی چاہیے اور اگر ذکر سے عام ذکر مراد لیا جائے تو اس کے لیے بھی یہی اصول ہے کہ جہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلند آواز سے ذکر کیا ہے وہاں بلند آواز سے اور جہاں آہستہ اور خفیہ انداز میں کیا ہے وہاں خفیہ طریقہ ہونا چاہیے جیسا کہ فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ اللہ اکبر اور تین دفعہ استغفر اللہ بلند آواز سے کہنا اور باقی اذکار آہستہ کرنے چاہییں۔ حج وعمرہ کا احرام باندھنے کے بعد تلبیہ بلند آواز سے کہنا چاہیے ایسا ہی ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد آپ ہر نماز کے بعد بلند آواز سے تکبیرات کہا کرتے تھے اور عیدین کے وقت بھی بلند آواز سے تکبیرات کہنا سنت سے ثابت ہے جہاں تک بعض لوگ نماز کے بعد اور اجتماعی شکل میں اللہ ھو یا کلمہ کا ورد کرتے ہیں اس کا حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ (عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ “ یعنی جو ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہے جو ذکر نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَأَنَا مَعَہٗ إِذَا ذَکَرَنِی فَإِنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِی نَفْسِی وَإِنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِی یَمْشِی أَتَیْتُہٗ ہَرْوَلَۃً ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ویحذرکم اللہ نفسہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میں اپنے بندے کے خیال کے مطابق ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس جماعت سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں (مراد فرشتوں میں) اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زبان تر رہنی چاہیے۔ ٢۔ ذکر انتہائی عاجزی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن سجدہ صرف ” اللہ “ کو کرنا چاہیے : ١۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم : ٦٢) ٢۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس ذات کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ (حٰم السجدۃ : ٣٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس سورت کا خاتمہ اس ہدایت پر ہوتا ہے کہ ذکر الہی کی طرف منہ موڑ لو۔ خواہ یہ ذکر نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ عام حالات میں ہو۔ ابن کثیر فرماتے ہیں " اللہ حکم دیتے ہیں کہ اسے دن کے شروع میں یاد کیا جائے ، دن کے آخر میں یاد کیا جائے اور بڑی کثرت سے یاد کیا جائے۔ اور دوسری جگہ حکم دیا ہے کہ ان اوقات میں اللہ تسبیح اور بندگی کرو۔ فسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب۔ پس اللہ کی تعریف کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے " یہ حکم اس وقت تھا جبکہ اسراء کی رات میں ابھی پانچ نمازیں فرض نہ ہوئی تھیں۔ یاد رہے کہ یہ آیت مکی ہے لیکن اس آیت میں لفظ غدو اور آصال استعمال ہوا ہے۔ غدو کے معنی دن کا اول حصہ ہے ، آصال اصل کی جمع ہے جس طرح ایمان جمع یمین ہے۔ تضرعا و خفیۃ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کو اپنے دل میں نہایت ہی عاجزی اور خوف و رجا کی حالت میں یاد کرو۔ زبان سے بھی ذکر الٰہی کرو مگر جہراً نہ کرو۔ اس لیے دون الجہر من القول کہا گیا۔ یعنی ہلکی آوز میں۔ ذکر الہی کا مستحب طریقہ یہی ہے کہ یہ چیخ و پکار کی صورت میں نہ ہو اور جب صحابہ کرام نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ دریافت کیا " کیا ہمارے رب قریب ہیں تاکہ ہم اس کو ہلکی آواز میں پکاریں یا دور رہیں تاکہ ہم اسے بلند آواز سے پکاریں ، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔ واذا سالک عبادی عنی فانی اقریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دیجئے کہ میں قریب ہوں اور پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت موجود ہے۔ کہتے ہیں کہ سفروں میں سے کسی سفر میں لوگوں نے خدا تعالیٰ کو بلند آواز سے پکارنا شروع کردیا۔ ان سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا " اے لوگو ، ذرا اپنی آواز کو اپنے تک محدود رکھو ، تم نہ کسی غائب ذات کو پکار رہے ہو اور نہ کسی گونگی بہری ذات کو۔ جسے تم پکار رہے وہ سمیع بھی ہے اور قریب بھی ہے ، وہ تم میں سے ہر شخص کی سواری کی گردن سے زیادہ قریب ہے۔ ابن کثیر اس بارے میں ابن جریر اور عبدالرحمن ابن زید ابن اسلم کی رائے کو قبول نہیں کرتے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم کو سن رہا ہو وہ ہلکی آواز سے اللہ کو یاد کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے اس قول پر کوئی دلیل انہوں نے پیش نہیں کی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے مراد بندوں کی طرف سے صبح و شام مطلق ذکر الہی ہے تاکہ وہ غافل نہ ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کے آخر میں فرشتوں کے ذکر میں کہا گیا ہے کہ وہ رات اور دن ذکر الہی میں مشغول رہتے ہیں۔ اور وہ اپنی بندگی اور ذکر میں نکلتے ہیں۔ اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ ۔ اس کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ مسلمان ان کی تقلید کریں اور اللہ کی اطاعت کریں اور کثرتے سے اسے یاد کریں اور بندگی بجا لائیں۔ امام ابن کثیر نے اس سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے اور جو احادیث نقل کی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم دور اول کے مسلمانوں کی تربیت کس طرح کر رہا تھا۔ حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی عربوں کی نفسیاتی تربیت اور رب تعالیٰ کی معرفت میں انہیں نہایت ہی لطیف حقائق سے آگاہ کرتے رہے تھے نیز ان کو بتایا جاتا تھا کہ ان کے ارگرد پھیلی ہوئی کائنات کی حقیقت کیا ہے۔ ان لوگوں کے سوالات اور اللہ کی جانب سے اور رسول اللہ کی جانب سے جوابات کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے فکر و عمل میں کس قدر عظیم اور دور رس انقلاب برپا کردیا گیا تھا اور یہ کتاب اللہ اور سنت رسول کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ یہ ایک عظیم اور دور رس انقلاب تھا جو ان لوگوں کے لیے باعث رحمت تھا لیکن اے کاش کہ لوگ جانتے۔ یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ ان نصوص میں جس ذکر کے بارے میں کہا گیا ہے وہ صرف زبانی ذکر نہیں ہے بلکہ اس سے مراد قلبی ذکر ہے ، اس لیے کہ جس ذکر سے مومن اور ذاکر کا دل مرتعش نہ ہو ، جس سے اس کا وجدان اور شعور متاثر نہ ہو ، جس ذکر کا اثر انسان کی ذات اور اعمال پر نہ ہو اور وہ ذکر عاجزی ، تضرع اور خوف کے ساتھ نہ کیا جائے تو اسے ذکر نہ سمجھا جائے گا بلکہ بعض حالات میں تو وہ اللہ کی شان میں گستاخی تصور ہوگا ذکر کا مفہوم تو یہ ہے کہ انسان نہایت ادب ، نہایت عاجزی اور نہایت ہی خوف و رجا کی حالت میں اللہ کو یاد کرے اور اللہ کی یاد کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظمت اور جلالت شان کا تصور بھی کیا جائے اور دعا کی جائے کہ انسان اللہ کے غضب سے محفوظ ہوں ، صرف اس ذکر سے انسان کو روحانی جلا نصیب ہوسکتی ہے۔ جب زبان ضمیر اور قلب کے ساتھ حرکت کرتی ہو ، اور ہونٹ جب روح کے ہمرکاب ہوں تو یہ اس صورت میں ہوں کہ خشوع اور خضوع میں فرق نہ آئے ، نہایت ہی دھیمی آواز میں ہو اور چیخ و پکار اور شور و شغب کی صورت میں نہ ہو اور نہ ترنم اور غنا کی صورت مناسب ہے۔ اور نہ پریڈ میں اور طربیہ انداز میں۔ ذرا آیت پر دوبارہ نگاہ ڈالیں۔ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ ۔ اے نبی اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو ، دل ہی دل میں ، زاری اور خوف کے ساتھ ، اور زبان سے بھی ہلکی آواز میں۔ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ " صبح و شام " یعنی دن طلوع ہوتے وقت اور دن کے آخری وقت ہیں ، اس طرح کہ دن کے دونوں حصوں میں۔ انسان کا قلب اللہ کے ساتھ جڑا ہوا ہو ، ذکر الہی ان اوقات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، اللہ کی یاد تو ہر وقت قلب و نظر میں ہونا چاہیے۔ ہر وقت دل پر اللہ کی نگرانی قائم رہنا چاہیے ، ان اوقات کا خصوصاً ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ ان میں کائنات کے صفحات پر ایک نمایاں تغیر رونما ہوتا ہے ، رات سے دن اور دن سے رات نمودار ہوتی ہے۔ اور ایک حساس انسان کا دل اپنے ماحول میں اللہ کے عظیم کارناموں میں تغیرات اور انقلابات دیکھتا ہے۔ اس کائنات کے ظاہری احوال بدلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ ان اوقات میں انسان کا دل اور اس کا نفس قبولیت کے قریب تر ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں بکثرت ایسے اوقات میں ذکر الٰہی کی ہدایت کی گئی ہے جن میں انسان کے قلب و نظر پر یہ کائنات بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ اور اس طرح انسان کا دل نرم ہوتا ہے۔ اور وہ باری تعالیٰ کی ذات سے تعلق قائم کرنے کے لیے خوب تیار ہوتا ہے۔ مثلا مشکلات کے وقت فاصبر علی ما یقولون و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل الغروب و من اللیل فسبحہ وادبار السجود۔ جو باتیں یہ لوگ کرتے ہیں ان پر صبرو کرو ، اپنے رب کی تعریف کرو ، اس کی تسبیح کرو طلوع شمس اور غروب سے پہلے۔ رات کو بھی اللہ کی تسبیح کو اور سجدوں کے بعد بھی۔ ومن اللیل فسبح و اطراف النہار لعلک یرضی ۔ اور رات کے حصے میں تسبیح کرو۔ دن کے اطراف کے وقت بھی ، شاید کہ تم راضی ہوجاؤ۔ واذکر السم ربک بکرۃ واصیلا و من اللیل فاسجد لہ ، و سبحہ لیلا طویلا۔ اور اپنے رب کو صبح و شام یاد کرو ، رات کے ایک حصے میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوا کرو اور طویل رات میں اس کی تسبیح کرو۔ یہاں کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ان اوقات میں ذکر الٰہی کا حکم فرضیت صلوۃ سے پہلے نازل ہوا تھا ، جس کے اوقات معلوم ہیں اور اب ان اوقات میں ذکر الہی کی ضرورت یا حکم نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں جس ذکر کا بیان ہورہا ہے یہ نماز سے عام ہے اور اس ذکر کے اوقات فرض نمازوں کے اوقات کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ یہ ذکر نماز کی شکل کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے ، یہ قلبی ذکر ہے ، یا قلب اور زبان دونوں کے ساتھ ہوسکتا ہے ، بلکہ یہ ان صورتوں سے بھی زیادہ عام ہے۔ ہر وقت اللہ کا مستحضر رہنا اور ہر وقت اللہ کی جلالت کا قلب و نظر پر جاری رہنا اور خفیہ اور اعلانیہ ہر حالت میں ، چھوٹے معاملے میں یا بڑے معاملے میں حرکت میں اور سکون میں ، نیت میں اور اعمال میں ، غرض ہر حال میں اللہ کو یاد کرنا ان آیات کا ماحصل ہے۔ صبح و شام کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے کیا گیا ہے کہ ان اوقات میں انسان کا قلب اور نظر قبولیت کے لیے تیار ہوتی ہے۔ اور اللہ جانتا ہے کہ اس وقت انسانی پر کائناتی اثرات ہوتے ہیں۔ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ۔ ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت کا شکار ہیں۔ یعنی ایسے لوگوں میں سے نہ بنو جو اللہ کی یاد سے غافل ہیں۔ جن ہونٹوں پر اور جن کی زبان پر اللہ کا نام نہیں آتا ، نہ ان کے قلب و نظر میں تصور خدا ہوتا ہے۔ جواب ذکر نہیں کرتے جس کے ساتھ دل کی دھڑکن وابستہ ہو ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان راہوں پر نہیں چلتے جن پر اللہ تعالیٰ چلنے کو پسند نہیں کرتے جسے اللہ دیکھے تو انہیں شرمندہ ہونا پڑے۔ وہ چھوٹی اور بڑی ہر بات میں اللہ کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ایسا ہی ذکر ان آیات کا مفہوم ہے۔ اگر کسی ذکر کا اثر انسان کے اعمال اور اس کے طرز عمل پر نہیں ہوتا اور وہ اللہ کا اتباع نہیں کرتا تو وہ ذکر ذکر بھی نہین ہے اور نہ اس آیت کا مطلوبہ ذکر ہے۔ یعنی ایسے لوگوں میں سے نہ بنو جو اللہ کی یاد سے غافل ہیں۔ جن ہونٹوں پر اور جن کی زبان پر اللہ کا نام نہیں آتا ، نہ ان کے قلب و نظر میں تصور خدا ہوتا ہے۔ جواب ذکر نہیں کرتے جس کے ساتھ دل کی دھڑکن وابستہ ہو ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان راہوں پر نہیں چلتے جن پر اللہ تعالیٰ چلنے کو پسند نہیں کرتے جسے اللہ دیکھے تو انہیں شرمندہ ہونا پڑے۔ وہ چھوٹی اور بڑی ہر بات میں اللہ کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ایسا ہی ذکر ان آیات کا مفہوم ہے۔ اگر کسی ذکر کا اثر انسان کے اعمال اور اس کے طرز عمل پر نہیں ہوتا اور وہ اللہ کا اتباع نہیں کرتا تو وہ ذکر ، ذکر بھی نہیں ہے اور نہ اس آیت کا مطلوبہ ذکر ہے۔ یعنی اللہ کو یاد کرو ، اور اس سے غفلت نہ کرو۔ تمہارا دل اس بات سے غافل نہ ہو کہ وہ مسلسل نگرانی کر رہا ہے انسان اس بات کا سخت محتاج ہے کہ ہر وقت اس کا جوڑ اللہ کے ساتھ رہے۔ صرف اس صورت میں وہ شیطانی وساوس سے بچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭاِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۔ اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اس سورة کے آغاز میں آدم و ابلیس کے معرکے کا تفصیلی بیان آیا تھا۔ پھر اس پوری سورة میں قافلہ ایمان کی کہانی بیان ہوتی رہی ہے۔ اور اس قافلے کی راہ میں جنوں اور انسانوں کے شیاطین جو رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں ، مثلا اس شخص کی مثال کا بھی تفصیلی ذکر ہوا جسے اللہ نے اپنی نشانیاں دی تھیں۔ لیکن وہ ان سے نکل بھاگا۔ شیطان نے اس کا پیچھا کیا اور اسے گمراہوں کے ٹولے میں شامل کرکے چھوڑا۔ سورت کے آخر میں شیطان کے اکسانے کا ذکر ہوا اور حکم دیا گیا کہ ایسی حالت میں مداوا یہ ہے کہ تم اللہ کی پناہ میں چلے جاؤ۔ وہ جاننے اور سننے والا ہے۔ غرض قرآن مسلسل اور مربوط کلام ہے اور اس کے آخر میں حکم دیا جاتا ہے کہ ہر وقت نہایت ہی عاجزی کے ساتھ اللہ کو یاد کیا کرو۔ اور غفلت سے بچو۔ یہ حکم اس بات کے دوران آتا ہے جس میں اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیتے ہیں کہ عفو و درگزر کو اپنا شعار بناؤ۔ معروف باتوں کا حکم دو اور جاہلوں سے پہلو تہی کرو۔ لہذا یاد الہی در حقیقت اسلامی انقلاب کے نشانات منزل کا تکملہ اور آخری منزل ہے۔ اور یہ راہ رو منزل کے لیے وہ توشہ ہے جس کے ذریعے وہ مشکل ترین منازل طے کرسکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ذکر اللہ کا حکم اور اس کے آداب اس سے پہلی آیات میں قرآن مجید کو بصائر اور ہدایت و رحمت بتایا اور قرآن کا ادب سمجھایا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو دھیان سے سنو اور چپ رہو، اب یہاں مطلق ذکر کا حکم فرمایا ہے اور اس کے بعض آداب بتائے ہیں۔ اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اسی کی وجہ سے ساری دنیا آباد ہے۔ صحیح مسلم ص ٨٤ ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا نماز بھی اللہ کے ذکر کے لیے ہے کما قال تعالیٰ (وَ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) سورة عنکبوت میں فرمایا (وَ لَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ) (اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے) سورة بقرہ میں فرمایا (فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَ لَا تَکْفُرُوْنِ ) (سو تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری نہ کرو) ۔ صحیح مسلم ص ١٢٦ ج ١ میں ہے کان النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللّٰہَ عَلیٰ کُلِّ اَحْیَانِہٖ (کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے) مومن بندے دل کو بھی اللہ کے ذکر سے معمور رکھیں اور زبان سے بھی اللہ کی یاد میں مشغول رہیں۔ تسبیح تحمید تکبیر تہلیل یہ سب اللہ کا ذکر ہے ان کی فضیلتیں بہت سی احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ اگر زندگی کے مختلف اوقات میں متعلقہ مسنون دعائیں پڑھیں اور ان دعاؤں کا اہتمام کریں تو زندگی کے عام حالات میں اور مختلف اوقات میں اللہ کی یاد ہوتی رہے گی، سوتے جاگتے کھاتے پیتے وقت، گھر سے نکل کر اور گھر میں داخل ہو کر اور کپڑا پہنتے وقت سواری پر سوار ہوتے وقت، سفر کے لیے روانہ ہوتے وقت، کسی منزل پر اترنے کے بعد، جہاد کرتے وقت، ابتلاء مصائب کے مواقع میں، بازار میں پہنچ کر اور ہر مجلس میں وہ دعائیں پڑھی جائیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں اور صبح شام کے اوقات کو خاص طور پر ذکر میں مشغول رکھا جائے۔ ان اوقات کی مسنون دعائیں بھی اہتمام سے پڑھی جائیں، علامہ جزری (رح) نے حصن حصین میں مختلف احوال و اوقات کی دعائیں لکھ دی ہیں اور راقم الحروف نے بھی اپنی کتاب فضائل دعاء میں جمع کردی ہیں۔ تلاوت بھی ذکر ہے اور دعاء بھی، تہلیل تحمید تکبیر بھی ذکر ہے اور درود شریف بھی ذکر میں شامل ہے کیونکہ اس میں اللہ سے سوال کیا جاتا ہے کہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت بھیجے، استغفار بھی ذکر ہے ان سب چیزوں میں مشغول رہنا چاہئے۔ ذکر خفی کی فضیلت : اللہ کا ذکر آہستہ آہستہ کرنا افضل ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ خیر الذکر الخفی (رواہ احمد فی مسندہ ص ١٧٢ ج ١ عن سعد بن مالک مرفوعاً ) (کہ بہتر ذکر وہ ہے جو پوشیدہ ہو) اور صرف دل دل میں بلا حرکت زبان اللہ کی ذات وصفات کا دھیان کرنا جس کو تفکر و مراقبہ کہا جاتا ہے یہ بھی ذکر خفی ہے۔ ذکر پوشیدہ ہو اور تضرع اور زاری کے ساتھ ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ہو اس کا بہت بڑا مرتبہ ہے اور زور سے ذکر کرنا بھی درست ہے لیکن ایسانہ چیخے کہ جان کو تھکا ڈالے، بلند آواز بھی ہو تو ہلکی آواز ہو اسی کو فرمایا (وَ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ ) حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے بیان فرمایا ہے کہ ایک مرتبہ سفر میں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے لوگوں نے زور زور سے اللہ اکبر کہنا شروع کیا، آپ نے فرمایا کہ اے لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کھاؤ تم ایسے معبود کو نہیں پکار رہے ہو جو بہرا ہو اور غائب ہو، تم تو ایسی ذات کو پکار رہے ہو جو سمیع ہے اور بصیر ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔ قسم اس ذات کی جسے تم پکار رہے ہو وہ تم سے اس سے بھی زیادہ قریب ہے جتنی قریب تمہاری اونٹنی کی گردن ہے، یہ بیان فرما کر حضرت ابو موسیٰ (رض) نے بیان فرمایا کہ میں آپ کے پیچھے تھا اور دل میں لَا حَوْلَ وَ لَا قُوّۃَ اِلَّا بِا للّٰہِ پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن قیس (یہ ابو موسیٰ (رض) کا نام ہے) کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتادوں ؟ پھر فرمایا کہ وہ خزانہ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِا للّٰہِ ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٠١ از بخاری و مسلم) ذکر جہر کرنے میں یہ بھی دھیان رہے کہ نمازیوں کو تشویش نہ ہو اور سونے والوں کی نیند خراب نہ ہو۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ ہر نیک کام اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہئے جو بھی کوئی کام دکھاوے کے لیے یا مخلوق کو معتقد بنانے کے لیے یا اپنی بزرگی جمانے کے لیے ہو گو بظاہر نیک ہی ہو وہ حقیقت میں نیک نہیں ہوتا اور نہ صرف یہ کہ اس کا ثواب نہیں ملتا بلکہ و بال اور عذاب کا سبب بن جاتا ہے۔ اور اگر کوئی شخص (احکام و آداب کی رعایت کرتے ہوئے) زور سے ذکر کرے لیکن مقصود اللہ کی رضا ہو تو اس کا ثواب ملے گا اور اگر کوئی شخص ذکر خفی کرے اور پھر ترکیب سے لوگوں کو ظاہر کر دے تاکہ لوگ اس کے معتقد ہوں تو ایسا ذکر خفی بھی مقبول نہیں ہوگا اور یہ عمل باعث مواخذہ ہوگا، ریا کاری کا تعلق اندر کے جذبہ سے ہے لوگوں کے سامنے عمل کرنے کا نام ریا نہیں ہے بلکہ لوگوں میں عقیدت جمانے کے جذبہ کا نام ریا ہے۔ آیت شریفہ میں اول تو یہ فرمایا کہ اپنے رب کی عاجزی کے ساتھ اپنے دل میں اور ڈرتے ہوئے یاد کرو پھر یہ فرمایا کہ ایسی آواز سے یاد کرو جو زور کی آواز کی بہ نسبت کم آواز ہو۔ صبح شام اللہ کا ذکر کرنا : پھر فرمایا (بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ ) کہ صبح شام اپنے رب کو یاد کرو، صاحب روح المعانی (ص ١٠٠ ج ٩) لکھتے ہیں کہ صبح شام کا خصوصی ذکر اس لیے کیا گیا کہ یہ فراغت کے اوقات ہیں۔ ان اوقات میں دل کی توجہ ذکر کی طرف زیادہ ہوتی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان اوقات میں فرشتوں کا آنا جانا ہوتا ہے ایک جماعت آتی ہے دوسری جاتی ہے۔ اس لیے ان اوقات کو خاص طور سے ذکر فرمایا اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے دوام ذکر مراد ہے کہ ہر وقت ذکر کرو۔ غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ : پھر فرمایا (وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ ) (غفلت والوں میں سے نہ ہوجانا) یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگے رہنا اور اس کی یاد سے غافل نہ ہونا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

195: یعنی صرف اللہ ہی کو پکار اور اس کی پکار میں کسی کو شریک نہ کر جیسا کہ زمر رکوع 5 میں ہے “ وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰهُ وَحْدَهٗ ” یہ مطلب نہیں کہ اللہ کا ذکر بہت کرو کیونکہ یہ تو ایک امر مستحب ہے اور امر مستحب کا ترک موجب وعید نہیں ہوتا اور یہاں فرمایا “ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ ” یہ ایک قسم کی وعید ہے کیونکہ غافلین سے مراد مشرکین ہیں۔ قال العطار :“ ذکر حق ہمچوں نماز فرض داں ”۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

205 اور اے مخاطب اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کے ساتھ گڑگڑاکر اور خوف کے ساتھ صبح اور شام اور اتنی آواز کے ساتھ جو بلند آواز کی نسبت سے ہلکی ہو یاد کرتا رہ اور غفلت کرنے والوں اور غافل رہنے والوں میں سے نہ ہو یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر پر مداومت رہنی چاہئے اور ذکر الٰہی میں عاجزی اور خوف ہو اور آہستہ آہستہ ہو جو پکار کو بولنے کی نسبت سے کم ہو البتہ اگر کوئی ضرورت داعی ہو تو جہر کے ساتھ بھی ذکر کرنے میں مضائقہ نہیں۔ ذکر کے آداب و فضائل کا یہ موقع نہیں یہاں اتنی ہی بات یاد رکھنی چاہئے کہ ترک ذکر کو غفلت فرمایا ہے اور غفلت روحانی موت کا نام ہے۔