Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 69

سورة البقرة

قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا لَوۡنُہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوۡلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفۡرَآءُ ۙ فَاقِعٌ لَّوۡنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِیۡنَ ﴿۶۹﴾

They said, "Call upon your Lord to show us what is her color." He said, "He says, 'It is a yellow cow, bright in color - pleasing to the observers.' "

وہ پھر کہنے لگے کہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالٰی بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ فرمایا وہ کہتا ہے کہ وہ گائے زرد رنگ کی ہے ، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے والا اس کا رنگ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said, "Call upon your Lord for us to make plain to us its colour." He said, "He says, `It is a yellow cow, bright in its colour, pleasing the beholders."' In his Tafsir Al-Awfi reported from Ibn Abbas that, فَاقِـعٌ لَّوْنُهَا (bright in its colour), "A deep yellowish white." As-Suddi said, تَسُرُّ النَّاظِرِينَ (pleasing the beholder), meaning, that it pleases those who see it. This is also the opinion of Abu Al-Aliyah, Qatadah and Ar-Rabi bin Anas. Furthermore, Wahb bin Munabbih said, "If you look at the cow's skin, you will think that the sun's rays radiate through its skin." The modern version of the Tawrah mentions that the cow in the Ayah was red, but this is an error. Or, it might be that the cow was so yellow that it appeared blackish or reddish in color. Allah's knows best.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُہَا۝ ٠ ۭ قَالَ اِنَّہٗ يَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفْرَاۗءُ۝ ٠ ۙ فَاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِيْنَ۝ ٦٩ لون اللَّوْنُ معروف، وينطوي علی الأبيض والأسود وما يركّب منهما، ويقال : تَلَوَّنَ : إذا اکتسی لونا غير اللّون الذي کان له . قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها [ فاطر/ 27] ، وقوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] فإشارة إلى أنواع الألوان واختلاف الصّور التي يختصّ كلّ واحد بهيئة غير هيئة صاحبه، وسحناء غير سحنائه مع کثرة عددهم، وذلک تنبيه علی سعة قدرته . ويعبّر بِالْأَلْوَانِ عن الأجناس والأنواع . يقال : فلان أتى بالألوان من الأحادیث، وتناول کذا ألوانا من الطّعام . ( ل و ن ) اللون ۔ کے معنی رنگ کے ہیں اور یہ سیاہ سفید اور ان دونوں سے مرکب یعنی ہر قسم کے رنگ پر بولا جاتا ہے ۔ تلون کے معنی رنگ بدلنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها[ فاطر/ 27] اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کی دھار یاں ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم/ 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف الوادع و اقسام کے رنگوں اور شکلوں کے مختلف ہونے کی طرف اشارہ ہے اور باوجود اس قدر تعداد کے ہر انسان اپنی ہیئت کذائی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز کذابی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز نظر آتا ہے ۔ اس سے خدا کی وسیع قدرت پر تنبیہ کی گئی ۔ اور کبھی الوان سے کسی چیز کے لوادع و اقسام مراد ہوتے ہیں چناچہ محاورہ ہے اس نے رنگا رنگ کی باتیں کیں اور الوان من الطعام سے مراد ہیں قسم قسم کے کھانے ۔ صفر الصُّفْرَةُ : لونٌ من الألوان التي بين السّواد والبیاض، وهي إلى السّواد أقرب، ولذلک قد يعبّر بها عن السّواد . قال الحسن في قوله تعالی: بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة/ 69] ، أي : سوداء»، وقال بعضهم : لا يقال في السواد فاقع، وإنّما يقال فيها حالکة . قال تعالی: ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر/ 21] ، كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات/ 33] ، قيل : هي جمع أَصْفَرَ ، وقیل : بل أراد الصُّفْرَ المُخْرَجَ من المعادن، ومنه قيل للنّحاس : صُفْرٌ ، ولِيَبِيسِ البُهْمَى: صُفَارٌ ، وقد يقال الصَّفِيرُ للصّوت حكاية لما يسمع، ومن هذا : صَفِرَ الإناءُ : إذا خلا حتی يُسْمَعَ منه صَفِيرٌ لخلوّه، ثم صار متعارفا في كلّ حال من الآنية وغیرها . وسمّي خلوّ الجوف والعروق من الغذاء صَفَراً ، ولمّا کانت العروق الممتدّة من الکبد إلى المعدة إذا لم تجد غذاء امتصّت أجزاء المعدة اعتقدت جهلة العرب أنّ ذلک حيّة في البطن تعضّ بعض الشّراسف حتی نفی النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : «لا صَفَرَ» «4» أي : ليس في البطن ما يعتقدون أنه فيه من الحيّة، وعلی هذا قول الشاعرولا يعضّ علی شرسوفه الصَّفَرُ والشّهر يسمّى صَفَراً لخلوّ بيوتهم فيه من الزّاد، والصَّفَرِيُّ من النِّتَاجِ : ما يكون في ذلک الوقت . ( ص ف ر ) الصفرۃ ( زردی ) ایک قسم کا رنگ جو سیاہی اور سفیدی کے مابین ہوتا ہے مگر اس پر چونکہ سیاہی غالب ہوتی ہے اس لئے کبھی اس کے معنی سیاہی بھی آتے ہیں ۔ اسی بناپر حسن رضہ نے آیت ۔ بَقَرَةٌ صَفْراءُ فاقِعٌ لَوْنُها[ البقرة/ 69] اس کا رنگ گہرا زردہ ہو ۔ میں صفراء کے معنی سیاہی کے ہیں مگر بعض نے کہا ہے کہ اگر اس کے معنی سیاہ ہوتے تو اس کی صفت فاقع نہ آتی بلکہ صفراء کے بعد حالکتہ کہا جاتا ہے ۔ نیز فرمایا : ثُمَّ يَهِيجُ فَتَراهُ مُصْفَرًّا[ الزمر/ 21] پھر وہ خشک ہوجاتی ہے تو تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد ہوگئی ہے ۔ اور آیت کریمہ : كأنّه جمالات صُفْرٌ «3» [ المرسلات/ 33] گو یا زرد رنگ کے اونٹ ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں صفرا صفر کی جمع ہے اور بعض نے کہا جاتا ہے کہ صفر ایک دہات کا نام ہے جس کے ساتھ زردی میں تشبیہ دی گئی ہے اسی سے نحاس ( پتیل ) کو صفر اور خشک بھمی ( گھاس ) کو سفار کہا جاتا ہے اور کبھی صفیر کا لفظ ہر اس آواز کی حکایت پر بولا جاتا ہے جو ( دور سے ) سنائی دے اسی سے صفرالاناء کا محاورہ ہے جس کے اصل معنی تو اس خالی برتن کے ہیں جس سے صفیر کی سی آواز سنائی لگے ہیں خواہ وہ برتن ہو یا اور کوئی چیز اور پیٹ اور رگوں کے غزا سے خالی ہونے کی صفر کہا گیا ہے اور ان رگوں کو جو جگر اور معدہ کے مابین پھیلی ہوئی ہیں جب غزا میسر نہ ہو تو وہ معدہ کے اجزا کو چوسنے لگتی ہیں اس بنا پر جاہل عربوں نے یہ عقیدہ بنارکھا تھا کہ صفر پیٹ میں ایک سانپ کا نام ہے جو بھوک کے وقت پسلیوں کا کاٹتا ہے ۔ حتی کہ آنحضرت کو لاصفر کہہ کر اس عقیدہ کی نفی کرنا پڑی ( 5) یعنی پیٹ میں اس قسم کا سانپ نہیں ہوتا جس کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( ع بیط ) اور نہ اس کی پسلیوں کی صفر سانپ کاٹتا ہے ۔ اور ماہ صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ( اس مہینہ میں ان کے گھر توشہ خالی ہوجاتے تھے اس لئے اسے صفر کہتے تھے اور جو بچہ ماہ صفر میں پیدا ہوا اسے صفری کہا جاتا ہے ۔ فقع يقال : أصفر فَاقِعٌ: إذا کان صادق الصّفرة، کقولهم : أسود حالک . قال تعالی: صَفْراءُ فاقِعٌ [ البقرة/ 69] ، والْفَقْعُ : ضرب من الکمأة، وبه يشبّه الذّليل، فيقال : أذلّ من فَقْعٍ بقاع قال الخلیل : سمّي الفُقَّاعُ لما يرتفع من زبده، وفَقَاقِيعُ الماء تشبيها به . ( ف ق ع ) اصفر فاقع کے معنی گہرے زردرنگ کے ہیں اور یہ اصفر کی تاکید ہے جس طرح اسود حالک میں حالک کا لفظ اسود کی تاکید بن کر استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : صَفْراءُ فاقِعٌ [ البقرة/ 69] گہرا زرد رنگ ۔ فقع : ایک قسم کی کھمبی ہے جس کے ساتھ ذلیل آدمی کو تشبیہ دے کر کہاجاتا ہے ۔ ھواذل من فقع بقاع : وہ جنگل کی کھمبی سے بھی زیادہ ذلیل ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ شراب کو فقاع اس لئے کہاجاتا ہے ک اس پر جھاگ ابھر آتی ہے اور تشبیہ کے طور پر پانی کے بلبلے کو بھی فقاقیع الماء بولتے ہیں ۔ سُّرُورُ : ما ينكتم من الفرح، قال تعالی: وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11] ، وقال : تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة/ 69] ، وقوله تعالیٰ في أهل الجنة : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 9] ، وقوله في أهل النار :إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 13] ، تنبيه علی أنّ سُرُورَ الآخرة يضادّ سرور الدّنيا، والسَّرِيرُ : الذي يجلس عليه من السّرور، إذ کان ذلک لأولي النّعمة، وجمعه أَسِرَّةٌ ، وسُرُرٌ ، قال تعالی: مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] ، فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية/ 13] ، وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف/ 34] ، وسَرِيرُ الميّت تشبيها به في الصّورة، وللتّفاؤل بالسّرور الذي يلحق الميّت برجوعه إلى جوار اللہ تعالی، وخلاصه من سجنه المشار إليه بقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «الدّنيا سجن المؤمن» السرور قلبی فرحت کو کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً [ الإنسان/ 11]( تو خدا ) ان کو تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا ۔ تَسُرُّ النَّاظِرِينَ [ البقرة/ 69] کہ دیکھنے والے ( دل ) کو خوش کردیتا ہو ۔ اسی طرح اہل جنت کے متعلق فرمایا : وَيَنْقَلِبُ إِلى أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 9] اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش خوش آئے ۔ اور اہل نار کے متعلق فرمایا :إِنَّهُ كانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُوراً [ الانشقاق/ 13] یہ اپنے اہل و عیال میں مست رہتا تھا ۔ تو اس میں تنبیہ ہے کہ آخرت کی خوشی دنیا کی خوشی کے برعکس ہوگی ۔ السریر ( تخت ) وہ جس پر کہ ( ٹھاٹھ سے ) بیٹھا جاتا ہے یہ سرور سے مشتق ہے کیونکہ خوشحال لوگ ہی اس پر بیٹھتے ہیں اس کی جمع اسرۃ اور سرر آتی ہے ۔ قرآن نے اہل جنت کے متعلق فرمایا : مُتَّكِئِينَ عَلى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ [ الطور/ 20] تختوں پر جو برابر بچھے ہوئے ہیں تکیہ لگائے ہوئے ۔ فِيها سُرُرٌ مَرْفُوعَةٌ [ الغاشية/ 13] وہاں تخت ہوں گے اونچے بچھے ہوئے ۔ وَلِبُيُوتِهِمْ أَبْواباً وَسُرُراً عَلَيْها يَتَّكِؤُنَ [ الزخرف/ 34] اور ان کے گھروں کے دروازے بھی ( چاندی کے بنا دئیے ) اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ۔ اور میت کے جنازہ کو اگر سریر المیت کہا جاتا ہے تو یہ سریر ( تخت ) کے ساتھ صوری مشابہت کی وجہ سے ہے ۔ یا نیک شگون کے طور پر کہ مرنے والا دنیا کے قید خانہ سے رہائی پا کر جوار الہی میں خوش و خرم ہے جس کی طرف کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : الدنیا سجن المومن : کہ مومن کو دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُہَا ط) (قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفْرَآءُلا فاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ ) ” یہ خوبیاں اس گائے کی تھیں جو ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ مقدس سمجھی جاتی تھی۔ اگر پہلے ہی حکم پر وہ عمل پیرا ہوجاتے تو کسی بھی گائے کو ذبح کرسکتے تھے۔ لیکن یکے بعد دیگرے سوالات کے باعث رفتہ رفتہ ان کا گھیراؤ ہوتا گیا کہ جس گائے کے تقدس کا تأثر ان کے ذہن میں زیادہ سے زیادہ تھا اسی کو focus کردیا گیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

بقوۃ صفرائ۔ موصوف صفت ، زردرنگ کی گائے۔ صفراء صفت مشبہ کا صیغہ واحد مؤنث ہے اس کی جمع بروزن فعلائ۔ فعل، صفر ہے۔ صفراء صفت اول ہے بقرۃ کی۔ فاقع لونھا۔ فاقع اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ لونھا مضاف مضاف الیہ مل کر فاقع کا فاعل ۔ اسم فاعل اپنے فاعل سے مل کر بقرہ کی صفت ثانی ہے۔ فاقع شوخ زرد رنگ۔ تسر۔ مضارع واحد مذکر غائب، سرور (باب نصر) وہ بھاتی ہے۔ خوش آتی ہے۔ تسر الناظرین دیکھنے والوں کو بھاتی ہے، بھلی لگتی ہے۔ یہ صفت سوم ہے بقرۃ کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ” پھر کہنے لگے ، اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ “ یوں سہ بارہ وہ کہتے ہیں ۔” اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو “ اس لئے ان کے اصرار و تکرار کے نتیجے میں یہ ضروری ہوگیا کہ بالتفصیل انہیں جواب دیا جائے ۔ چناچہ جواب آیا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ” موسیٰ نے کہا ” وہ فرماتے ہیں زرد رنگ کی گائے ہونی چاہئے جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہوجائے۔ “ یوں ان بدبختوں نے اپنا وسیع دائرہ اختیار کم کردیا۔ اس سے پہلے اس حکم میں بڑی وسعت اور گنجائش تھی لیکن اب وہ صرف کوئی ایک گائے ذبح کرنے کے مکلف نہیں ، بلکہ ایک ایسی گائے انہیں ذبح کرنی ہے جو ادھیڑ عمر کی ہو ، نہ بوڑھی ہو اور نہ بچھیا ہو ، پھر اس کا رنگ بھی زرد ہو اور اس میں بھی شوخ رنگ گائے ہو ۔ پھر وہ دبلی پتلی اور بدصورت بھی نہ ہو بلکہ ایسی ہو کہ اسے دیکھ کر جی خوش ہوجائے اور ظاہر ہے کہ دیکھنے والے کا سرور تب ہی مکمل ہوسکتا ہے کہ جب مطلوبہ گائے خوب موٹی تازی ، حیات ونشاط سے بھرپور ، اچھلتی کودتی چمکدار ہو ۔ کیونکہ مویشیوں میں یہ صفات لوگوں کے نزدیک پسندیدہ صفات ہیں اور لوگ بالعموم زندگی سے بھرپور اور متوسط عمر کے اور خوبصورت جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور دبلے پتلے ، بدصورت جانوروں سے نفرت کرتے ہیں ۔ غرض اب تک بنی اسرائیل نے لیت ولعل سے کام لیا ۔ غالباً وہ کافی بلکہ ضرورت سے بھی زیادہ تھا۔ لیکن وہ اب بھی بس نہیں کرتے ۔ اپنی غلط روش میں آگے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ، معاملے کو اور پیچیدہ بناتے چلے جاتے ہیں ۔ اپنے اوپر اور سختی کررہے ہیں ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ بھی ان کی روش کے مطابق اپنے حکم اور سخت کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس قدر تفصیلات آچکنے کے بعد ، وہ اچانک دوبارہ گائے کی ماہیت اور حقیقت کو پوچھنے لگتے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

141 جب عمر کے متعلق اطمینان ہوگیا تو اب رنگ کے متعلق سوال کردیا صَفْرَاۗءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا۔ فاقع کے معنی تیز زرد رنگ والے کے ہیں شدید الصفرۃ تکاد من صفر تھا تبیض (ابن کثیر ص 111 ج 1) تَسُرُّ النّٰظِرِيْنَ یعنی اس کا تیز اور گہرا زرد رنگ بد نما نہ ہو بلکہ ایسا خوشمنا ہو کہ دیکھنے والے اسے دیکھ کر راحت اور سرور محسوس کریں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi