Surat Saba

Surah: 34

Verse: 16

سورة سبأ

فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ سَیۡلَ الۡعَرِمِ وَ بَدَّلۡنٰہُمۡ بِجَنَّتَیۡہِمۡ جَنَّتَیۡنِ ذَوَاتَیۡ اُکُلٍ خَمۡطٍ وَّ اَثۡلٍ وَّ شَیۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِیۡلٍ ﴿۱۶﴾

But they turned away [refusing], so We sent upon them the flood of the dam, and We replaced their two [fields of] gardens with gardens of bitter fruit, tamarisks and something of sparse lote trees.

لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب ( کا پانی ) بھیج دیا اور ہم نے ان کے ( ہرے بھرے ) باغوں کے بدلے دو ( ایسے ) باغ دیئے جو بدمزہ میووں والے اور ( بکثرت ) جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَعْرَضُوا ... But they turned away, means, from worshipping Allah alone and from giving thanks to Him for the blessings that He had bestowed upon them, and they started to worship the sun instead of Allah, as the hoopoe told Suleiman, peace be upon him: فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِيْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ إِنِّى وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَىْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَـنُ أَعْمَـلَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لاَ يَهْتَدُونَ "I have come to you from Saba' (Sheba) with true news. I found a woman ruling over them, she has been given all things, and she has a great throne. I found her and her people worshipping the sun instead of Allah, and Shaytan has made their deeds fair seeming to them, and has barred them from the way, so they have no guidance." (27:22-24) ... فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ ... so We sent against them flood released from the dam, Some, including Ibn Abbas, Wahb bin Munabbih, Qatadah and Ad-Dahhak said that; when Allah wanted to punish them by sending the flood upon them, he sent beasts from the earth to the dam, large rats, which made a hole in it. Wahb bin Munabbih said, "They found it written in their Scriptures that the dam would be destroyed because of these large rats. So they brought cats for a while, but when the decree came to pass, the rats overran the cats and went into the dam, making a hole in it, and it collapsed." Qatadah and others said, "The large rat is the desert rat. They gnawed at the bottom of the dam until it became weak, then the time of the floods came and the waters hit the structure and it collapsed. The waters rushed through the bottom of the valley and destroyed everything in their path -- buildings, trees, etc." As the water drained from the trees that were on the mountains, to the right and the left, those trees dried up and were destroyed. Those beautiful, fruit-bearing trees were replaced with something altogether different, as Allah says: ... وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَى أُكُلٍ خَمْطٍ ... and We converted their two gardens into gardens producing bitter bad fruit (ukul khamt), Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah, Ata' Al-Khurasani, Qatadah and As-Suddi said, "It refers to Arak (Zingiber officinale) and bitter bad fruit." ... وَأَثْلٍ ... and Athl, Al- Awfi and Ibn Abbas said that this means tamarisk. Others said that it means a tree that resembles a tamarisk, and it was said that it was the gum acacia or mimosa. And Allah knows best. ... وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ and some few lote trees. Because the lote trees were the best of the trees with which the garden was replaced, there were only a few of them. This is what happened to those two gardens after they had been so fruitful and productive, offering beautiful scenes, deep shade and flowing rivers: they were replaced with thorny trees, tamarisks and lote trees with huge thorns and little fruit. This was because of their disbelief and their sin of associating others with Allah, and because they denied the truth and turned towards falsehood. Allah said: ذَلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلاَّ الْكَفُورَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1 6 ۔ 1 یعنی انہوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے اور بند تعمیر کرکے پانی کی جو رکاوٹ کی تھی اور اسے زراعت وباغبانی کے کام میں لاتے تھے ہم نے تندو تیز سیلاب کے ذریعے سے ان بندوں اور پشتوں کو توڑ ڈالا اور شاداب اور پھل دار باغوں کو ایسے باغوں سے بدل دیا جن میں صرف قدرتی جھاڑ جھنکاڑ ہوتے ہیں جن میں اول تو کوئی پھل لگتا ہی نہیں اور کسی میں لگتا بھی ہے تو سخت کڑوا کسیلا اور بدمزہ جنہیں کوئی کھا ہی نہیں سکتا البتہ کچھ بیری کے درخت تھے جن میں بھی کانٹے زیادہ اور بیر کم تھے۔ عرم، عرمۃ کی جمع ہے پشتہ یا بند یعنی ایسا زور کا پانی بھیجا جس نے اس بند میں شگاف ڈال دیا اور پانی شہر میں بھی آگیا جس سے ان کے مکانات ڈوب گئے اور باغوں کو بھی اجاڑ کر ویران کردیا یہ بند سد مارب کے نام سے مشہور ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٢٧] پھر جب یہ قوم اپنی خوشحالی میں ہی مست ہو کر رہ گئی اور دنیا کے مال و دولت اور اس کی دلفریبیوں میں مستغرق ہو کر اپنے منعم حقیقی کو یکسر بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء مبعوث فرمائے۔ کہتے ہیں وقتاً فوقتاً ان کی طرف تیرہ انبیاء مبعوث ہوئے تھے۔ لیکن ہر بدمست قوم کی طرف انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ ان کی اس معاشی ترقی اور زرعی ترقی کا اصل سبب تو ہمارا اپنا نظام آب پاشی یا ہماری اپنی ذہانت اور محنت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کیا دخل ہے۔ تو انہوں نے انبیاء کی دعوت کو رد کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں سنبھلنے کی کافی مہلت دی لیکن انہوں نے اس سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ تو آخر ان پر اللہ کی گرفت کا وقت آگیا۔ ان کا سب سے بڑا اور عالیشان بند (ڈیم) مارب میں تھا جس میں بہت سے لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے۔ جنہیں بوقت ضرورت اٹھا لیا جاتا اور پانی چھوڑ دیا جاتا ان دروازوں کا دوسرا بڑا فائدہ یہ تھا کہ وہ جس طرح چاہتے پانی کا رخ موڑ لیتے اور نہروں کے ذریعہ قابل کاشت زمین کو سیراب کرلیتے تھے۔ اسی بند میں نیچے رخنے پڑنے شروع ہوگئے اوپر سے اللہ تعالیٰ نے زور دار بارش برسا دی اور پانی اس قدر وافر مقدار میں آجمع ہوا جس نے اس بند کو توڑ پھوڑ دیا۔ اس کے پانی میں اتنی فراوانی اور بہاؤ میں اتنی شدت تھی جس سے باقی بند بھی از خود ٹوٹتے چلے گئے اور یہ سارا قابل کاشت علاقہ زیر آب آگیا۔ جس سے فصلیں اور کھیتیاں سب کچھ گل سڑ کر تباہ و برباد ہوگئیں۔ جب کچھ مدت بعد زمین خشک ہوئی تو پورے آب پاشی کے نظام کی تباہی کے باعث اس سرزمین میں کوئی چیز بھی بار آور نہ ہوسکتی تھی۔ اب وہی سرزمین جو سونا اگلا کرتی تھی اس سرزمین پر جھاڑ جھنکار، خار دار پودے، تھوہر کے درخت اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں از خود پیدا ہوگئیں۔ جنہیں اکھاڑے بغیر نئی فصل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور یہ خاصا محنت طلب کام تھا آجا کے اگر کوئی کھانے کی چیز وہاں اگی تو وہ چند بیریوں کے درخت تھے جن سے وہ کسی حد تک اپنا پیٹ بھرسکتے تھے۔ یہ تھا ان کی زرعی ترقی کا حشر جس پر وہ اس قدر پھولے ہوئے تھے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَعْرَضُوْا : یعنی انھوں نے انابت و رجوع کے بجائے اعراض اور سرکشی کو اور بندگی اور شکرگزاری کے بجائے کفر اور ناشکری کو اختیار کیا اور پیغمبروں اور نیکی کا حکم کرنے والوں کی نصیحتوں سے منہ موڑ لیا۔ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ : ” الْعَرِمِ “ ” عَرِمَۃٌ“ کی جمع ہے، تہ بہ تہ پتھر، مراد پتھروں کا بنا ہوا بند ہے۔ یعنی ان کی سرکشی اور اعراض کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر بند کا سیلاب بھیجا۔ زور دار مسلسل بارشوں سے اتنا پانی جمع ہوا کہ اس کے سامنے بند ٹھہر نہ سکا اور ٹوٹ پھوٹ گیا۔ پانی کی شدت اتنی تھی کہ باقی بند بھی ٹوٹتے چلے گئے اور سارا قابل کاشت علاقہ زیر آب آگیا۔ پانی کے ریلے سے باغ اور کھیت ہی تباہ نہیں ہوئے بلکہ زمین بھی کٹاؤ کا شکار ہوگئی اور اس کی زرخیز تہ اتر گئی۔ بند اور نہریں ختم ہونے سے آئندہ کے لیے زمین کی سیرابی کا ذریعہ ختم ہوگیا۔ جہاں کبھی پانی کی فراوانی تھی وہاں لوگ پینے کے پانی کو بھی ترسنے لگے۔ سیلاب میں اکثر لوگ اور ان کے مال مویشی غرق ہوگئے، جو بچے وہ جان بچا کر مختلف ملکوں کی طرف نکل گئے اور ایسے بکھرے کہ ان کا بکھرنا عربی زبان کا ایک محاورہ بن گیا، چناچہ کہا جانے لگا کہ فلاں قوم ” سبا “ کی طرح بکھر گئی۔ وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ۔۔ : ” ذَوَاتَىْ “ یہ ” ذَاتٌ“ کا تثنیہ ہے، والے۔ ” اُكُلٍ “ پھل۔ ” خَمْطٍ “ بکھٹا، گلے میں اٹکنے والا، بدمزہ۔ ” وَّاَثْلٍ “ جھاؤ۔ یعنی میلوں پھیلی ہوئی وادیوں کی دونوں جانب بہترین پھلوں والے باغوں کی جگہ ہم نے ان کے لیے ایسے دو رویہ باغ اگا دیے جن میں یا تو بکھٹے، کسیلے اور بدمزہ پھلوں والے درخت تھے، یا جھاؤ کے درخت یا تھوڑی سی بیریوں کا کچھ حصہ۔ بکھٹے اور بدمزہ پھلوں اور جھاؤ پر مشتمل قطعوں کو باغ نہیں کہا جاسکتا، بطور تہکم اور مذاق صرف لفظی طور پر باغ کے مقابلے میں باغ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، البتہ بیری میں لذت ہوتی ہے۔ اس کی قلت بیان کرنے کے لیے دو لفظ استعمال فرمائے، ایک ” قَلِيْلٍ “ اور دوسرا اس میں سے بھی کچھ تھوڑا سا حصہ یعنی ” وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ “ کا لفظ استعمال فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The &flood of the dam& (sayl al-&arim) and the Dam of Ma&arib (the sadd of Ma` arib) The word: عرم (` arim) in: فَأَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِ‌مِ (So We sent to them the flood of the dam - 16) carries several recognized meanings in terms of Arabic lexical usage and the scholars of tafsir have explained this verse in terms of every such meaning. But, the meaning more in consonance with the context of the Qur&an is the one that appears in the Arabic lexicons like Qamus, Sihah of Jawhari and others, that is, &arim& means a dam that is made to block water. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has also given the meaning of &arim as dam. (Qurtubi) The episode regarding the &flood of the dam& referred: to in this verse, according to the statement of Ibn Kathir, is that in the country of Yemen, three miles away from its capital, San&a&, there was a city by the name of Ma&arib settled in which the people of Saba& used to live. The city was located in between two mountains. Water from rains used to come from the two mountains, leaving the city inundated. The city had the reputation of being a target of such deluges. Rulers of the city (of those, Queen Bilquis has been mentioned particularly) built a strong and fortified dam between these two mountains, a dam that would remain unaffected by the flow of water. This dam stopped the serial surges of flooded water that entered from the two mountains and turned the place into a great big storage of water. Even the water from rains falling on the mountains started flowing in there. Provided inside this dam, there were three gates at appropriate levels, so that this storage of water could be released systematically for people of the city to irrigate their farms and gardens. To accomplish this objective, they would first open the topmost gate and use water as needed. When no water remained at that level, they would open the gate in the middle and after that came the turn of the third and last gate until came the time of rains next year, and the whole dam would stand filled to the brim all over again. Then, engineered and built under the dam, there was a huge big tank in which twelve outlets of water were provided to supply water to twelve canals serving different parts of the city with water flowing in all canals uniformly and was used to take care of various needs of the city. (Mazhari) The slopes of the two mountains to the right and left of the city were landscaped with rows of gardens fed by canals of water. These gardens stood adjacent to each other in two continuous rows by the slopes of the mountains. Though many in number, but the Qur&an identified them as: جَنَّتَان (jannatan: Two gardens) because it has taken all the gardens in one row to be one due to their proximity, and then all the gardens on the other side as the other garden. Trees and fruits of all sorts used to grow in these gardens so abundantly that, according to the statement of the leading early authority, Qatadah, and others, a woman would walk with an empty basket perched on her head, and it would automatically get filled with fruits falling off from the trees without the least need to make use of her hands. (Ibn Kathir) The second sentence of verse 15: كُلُوا مِن رِّ‌زْقِ رَ‌بِّكُمْ وَاشْكُرُ‌وا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَ‌بٌّ غَفُورٌ‌(Eat of the provision from your Lord, and be grateful to Him-- (You have) a good city, and a Most-Forgiving Lord - 34:15) means that Allah Ta’ ala had ordered them through His prophets that they should make use of their extended means of livelihood provided by Allah Ta’ ala and continue to be grateful to Him through their good deeds and unfailing obedience to Divine injunctions, for He had made that city of theirs a really good city. It had a moderate climate without any extremes of heat or chill, so healthy, clean and bracing - to the extent that there was no trace of any hurting life forms like mosquitoes, flies, fleas, snakes and scorpions anywhere throughout the city. In fact, when travelers from outside would reach the city - having lice or other harmful parasites in their clothes - these would die off naturally as soon as they arrived there (Ibn Kathir) At the end of the verse (15), by adding: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَ‌بٌّ غَفُورٌ‌(a good city) along with (a Most Forgiving Lord), reference to divine blessings has been made all the more perfect by suggesting that &this good life is not restricted to the life of the present world, in fact, should you remain consistent with your gratefulness, the promise of greater and more everlasting blessings of the Hereafter also holds good. The reason is simple. He is the creator and master-dispenser of all blessings and the one who sustains you - and should you, at one or the other time, inadvertently fail to be grateful or betray by negligence or shortcoming, Allah Ta’ ala is a great forgiver too and will forgive your shortcomings.& In verse 16, it was said: فَأَعْرَ‌ضُوا فَأَرْ‌سَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِ‌مِ (Then they turned away. So We released over them the flood of the dam). In other words, &when the people of Saba& flouted the commandments of Allah through their contumacy and rebellion, despite having such blessings and despite having been warned by the noble prophets, We released a flood from the dam over them.& We already know that &arim means a dam. This flood was attributed to &arim for the reason that this very &arim, a source of security and prosperity, was transformed by Allah Ta’ ala into a source of calamity for them. According to an account of the event given by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، Wahb Ibn Munnabih, Qatadah, Dahhak and other early Tafsir authorities, when Allah Ta’ ala decided to undo the dam of Ma&rib (&arim) and punish and destroy these people through a flood, blind rats were set upon this great dam, who weakened its foundation and made it hollow. When came the time of rains and the flooding of water, the pressure of water broke through the already weakened foundation creating gaps and crevices in the dam. Ultimately, the water collected behind the dam ran over the entire valley in which this city of Ma&rib was located. Houses collapsed. Trees were uprooted. The water feeding the twin rows of gardens by the mountain slopes was dried up. It appears in the report of Wahb Ibn Munabbih that it was already predicted in the books of these people that rats will destroy this dam. When people saw rats near the dam, they were alerted by the danger. As a defensive measure, a large number of cats were released under the dam in the hope that they would stop the rats from coming close to the dam. But, when came the divine decree, the rats overcame the cats and entered into the foundation of the dam. Then there are historical narratives that also say that as soon as some smart and far-sighted people saw the rats, they decided to leave the place and move to somewhere else. In fact, they made the necessary arrangements and got out of there one by one. Others stayed. But, once came the flood, they too shifted. However, there were many who were swallowed by the flood. In short, the whole city was destroyed. Some details about residents of the city who had migrated to towns in other countries have been given in the Hadith of the Musnad of Ahmad appearing earlier. Six of their tribes were scattered in Yemen, four in Syria and some of these very tribes came to be the forerunners of the larger population of Madinah-at-Taiyyibah. Related details appear in books of history. What happened to the twin rows of gardens after the coming of flood and the destruction of the city? This has been stated in the second sentence of verse 16 as: وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ‌ قَلِيلٍ (and replaced their two gardens with two gardens having fruits of bitter taste, and Tamarisk and some of the lot-trees), that is, their trees that yielded fruit having good taste were replaced by trees that bore fruit having an evil taste. As for the word: خَمْطٍ (Khamt), most commentators take it to mean the arak (a pungent, thorny desert tree). The lexicographer, Jawhari says that there is a kind of arak which bears some fruit and which is eaten. But, the fruit that grew on this tree was bad in taste. And ` Abu ` Ubaidah (رض) said that every tree that is thorny and of bitter taste is called: خَمْطٍ (khamt). The next word: اثل (athl) means a kind of tree that is also known in Arabic as طرفاء (turfa) according to the majority of commentators and both are generally equated with tamarisk in English. No fruit it bears is worth eating. Some commentators said that اثل &athl& in the sense of samr (Mimosa, Egyptian thorn) or babul or کِیکَر kikar, (Acacia Arabica found in the subcontinent) is a thorny tree the fruit of which is fed to goats. The word: سِدر (sidr) means بیری beri or بَیر ber in Urdu and is translated in English as the lote-fruit or lotus tree in English. Sidr is of two kinds. The one planted on farms bears fruits of pleasant taste (something close to crunchy pears) and carries more of fruits and less of thorns. The other kind is wild and grows in the form of thorny shrubs and trees with more thorns and less fruits that are bitter as well. At this place, the use of the word:& قَلِیل (qalil: little, some) along with (sidr: bair or lote) perhaps indicates that this too was wild which bears less fruit and is bitter. Allah knows best.

سیل عرم اور سدمآرب : (آیت) فارسلنا علیہم سیل العرم، لفظ عرم کے عربی لغت کے اعتبار سے کئی معنی معروف ہیں اور علماء تفسیر نے ہر معنی کے اعتبار سے اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے، مگر ان میں سیاق قرآن کے مناسب وہ معنی ہیں جو قاموس اور صحاح جوہری وغیرہ کتب لغت میں ہیں کہ عرم کے معنی سد یعنی بند کے ہیں جو پانی روکنے کے لئے بنایا جاتا ہے جو آج کل ڈیم کے نام سے معروف ہے، حضرت ابن عباس نے بھی عرم کے معنی سد یعنی بند کے بیان فرمائے ہیں۔ (قرطبی) واقعہ اس بند (ڈیم) کا حسب بیان ابن کثیر یہ ہے کہ ملک یمن میں اس کے دارالحکومت صنعاء سے تین منزل کے فاصلہ پر ایک شہر مآرب تھا، جس میں قوم سبا آباد تھی۔ دو پہاڑوں کے درمیان وادی میں شہر آباد تھا، دونوں پہاڑوں کے درمیان سے اور پہاڑوں کے اوپر سے بارش کا سیلاب آتا تھا، یہ شہر ہمیشہ ان سیلابوں کی زد میں رہتا تھا۔ ایک شہر کے بادشاہوں نے (جن میں ملکہ بلقیس کا نام خصوصیت سے ذکر کیا جاتا ہے) ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک بند (ڈیم) نہایت مستحکم مضبوط تعمیر کیا جس میں پانی اتر نہ سکے۔ اس بند نے پہاڑوں کے درمیان سے آنے والے سیلابوں کو روک کر پانی کا ایک عظیم الشان ذخیرہ بنادیا، پہاڑوں کی بارش کا پانی بھی اس میں جمع ہونے لگا، اس بند کے اندر اوپر نیچے پانی نکالنے کے لئے تین دروازے رکھے گئے تاکہ پانی کا یہ ذخیرہ انتظام کے ساتھ شہر کے لوگوں کے اور ان کی زمین و باغ کی آب پاشی کے کام آوے۔ پہلے اوپر کا دروازہ کھول کر اس سے پانی لیا جاتا تھا، جب اوپر کا پانی ختم ہوجاتا تو اس سے نیچے کا اور اس کے بعد سب سے نیچے کا تیسرا دروازہ کھولا جاتا تھا، یہاں تک کہ دوسرے سال کی بارشوں کا زمانہ آ کر پھر پانی اوپر تک بھر جاتا۔ بند کے نیچے ایک بہت بڑا تالاب تعمیر کیا گیا تھا، جس میں پانی کے بارہ راستے بنا کر بارہ نہریں شہر کے مختلف اطراف میں پہنچائی گئی تھیں، اور سب نہروں میں پانی یکساں انداز میں چلتا اور شہر کی ضرورتوں میں کام آتا تھا۔ (مظہری) شہر کے داہنے بائیں جو دو پہاڑ تھے ان کے کناروں پر باغات لگائے گئے تھے جن میں پانی کی نہریں جاری تھیں، یہ باغات ایک دوسرے کے متصل مسلسل دو رویہ پہاڑوں کے کناروں پر تھے، یہ باغات اگرچہ تعداد میں بہت تھے، مگر قرآن کریم نے ان کو جنتان یعنی دو باغ کے لفظ سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ ایک رخ کے تمام باغوں کو بوجہ اتصال کے ایک باغ اور دوسرے رخ کے تمام باغوں کو دوسرا باغ قرار دیا ہے۔ ان باغوں میں ہر طرح کے درخت اور ہر قسم کے پھل اس کثرت سے پیدا ہوتے تھے کہ ائمہ سلف قتادہ وغیرہ کے بیان کے مطابق ان باغوں میں ایک عورت اپنے سر پر خالی ٹوکری لے کر چلتی تو درختوں سے ٹوٹ کر گرنے والے پھلوں سے خود بخود بھر جاتی تھی، اس کو ہاتھ بھی لگانا نہ پڑتا تھا۔ (ابن کثیر) (آیت) کلوا من رزق ربکم واشکروالہ بلدة طیبة ورب غفور، حق تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ ان کو یہ حکم دیا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس رزق وسیع کو استعمال کرو اور اس کی شکر گزاری اعمال صالحہ اور اطاعت احکام آلٰہیہ کے ساتھ کرتے رہو، کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس شہر کو بلدہ طیبہ بنایا ہے، جس میں سردی گرمی کا بھی اعتدال تھا اور آب وہوا ایسی صحت بخش نظیف ولطیف تھی کہ ان کے پورے شہر میں مچھر، مکھی، پسو اور سانپ بچھو جیسے موذی جانوروں کا نام ونشان نہ تھا، بلکہ باہر سے آنے والے مسافر جب اس شہر میں پہنچتے تو اگر ان کے کپڑوں میں جوئیں یا دوسرے موذی حشرات ہوتے تھے وہ یہاں پہنچ کر خود بخود مر جاتے تھے۔ (ابن کثیر) بلدة طیبة کے ساتھ رب غفور، فرما کر اپنی نعمت کو اس طرح مکمل کردیا کہ یہ عیش و راحت صرف دنیا کی زندگی تک نہیں، بلکہ اگر تم شکر گزاری پر قائم رہے تو آخرت میں اس سے بڑی اور دائمی نعمتوں کا بھی وعدہ ہے، کیونکہ ان تمام نعمتوں کا خالق ومالک اور تمہیں پالنے والا غفور ہے، کہ اگر کبھی اتفاقی طور پر شکرگزاری میں کمی یا غفلت و کوتاہی بھی ہوگئی تو اس کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ (آیت) فاعر ضوافارسلنا علیہم سیل العرم، یعنی اللہ تعالیٰ کی ایسی وسیع نعمتوں اور انبیاء (علیہم السلام) کی تنبیہات کے باوجو جب قوم سبا کے لوگوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور روگردانی کی تو ہم نے ان پر سیل عرم چھوڑ دیا۔ عرم کے معنی اوپر گزر چکے ہیں کہ بند کے ہیں۔ اس سیلاب کو عرم کی طرف اس لئے منسوب کیا کہ جو عرم ان کی حفاظت اور خوش حالی کا ذریعہ تھا اسی کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آفت و مصیبت بنادیا۔ واقعہ اس کا حضرت ابن عباس، وہب بن منبہ، قتادہ، ضحاک وغیرہ ائمہ تفسیر نے یہ بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو سزا دینے کے لئے سد مآرب یعنی عرم کو توڑ کر سیلاب سے تباہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس پانی کے عظیم الشان بند پر اندھے چوہے مسلط کردیئے جنہوں نے اس کی بنیاد کو کھوکھلا اور کمزور کردیا۔ جب بارش اور سیلاب کا وقت آیا تو پانی کے دباؤ نے اس کمزور بنیاد کو توڑ کر رخنے پیدا کردیئے، اور بالآخر اس بند کے پیچھے جمع شدہ پانی اس پوری وادی میں پھیل گیا جس میں یہ شہر مآرب واقع تھا۔ تمام مکانات منہدم اور درخت تباہ ہوگئے، اور دو طرف پہاڑوں پر جو باغات تھے ان کا پانی خشک ہوگیا۔ وہب بن منبہ کی روایت میں ہے کہ ان لوگوں کی کتابوں میں یہ بات لکھی چلی جاتی تھی کہ اس بند کی خرابی و تباہی چوہوں کے ذریعہ ہوگی، جب لوگوں نے اس بند کے قریب چوہوں کو دیکھا تو خطرہ پیدا ہوگیا۔ اس کی تدبیر یہ کی گئی کہ بند کے نیچے بہت سی بلیاں پالی گئیں جو چوہوں کو بند کے قریب نہ آنے دیں مگر جب تقدیر الٰہی نافذ ہوئی تو یہ چوہے بلیوں پر غالب آگئے اور بند کی بنیاد میں داخل ہوگئے۔ (ابن کثیر) اور تاریخی روایات میں یہ بھی ہے کہ کچھ ہوشیار دور اندیش لوگوں نے چوہوں کو دیکھتے ہی یہ جگہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کا قصد کرلیا اور تدریجاً انتظام کر کے نکل گئے، باقی لوگ وہاں رہے، مگر جب سیلاب شروع ہوا، اس وقت منتقل ہوگئے، اور بہت سے وہیں سیلاب کی نذر ہوگئے۔ غرض یہ پورا شہر تباہ و برباد ہوگیا، شہر کے کچھ باشندے جو دوسرے ملکوں میں شہروں کی طرف چلے گئے، ان کی کچھ تفصیل مسند احمد کی حدیث میں جو اوپر گزر چکی ہے مذکور ہے۔ چھ قبیلے ان کے یمن میں پھیلے اور چار شام میں، مدینہ طیبہ کی آبادی بھی انہی قبائل میں سے بعض سے شروع ہوئی، جس کی تفصیل کتب تاریخ میں مذکور ہے۔ سیلاب آنے اور شہر تباہ ہونے کے بعد دو رویہ باغات کا جو حال ہوا وہ آگے اس طرح ذکر فرمایا کہ : (آیت) وبدلنہم بجنتیہم جنتین ذواتی اکل خمط واثل وشئی من سدر قلیل، یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے قیمتی پھلوں اور میووں کے درختوں کے بدلے اس میں ایسے درخت اگا دیئے، جن کے پھل بدمزہ خراب تھے۔ لفظ خمط کے معنی اکثر حضرات مفسرین درخت اراک کے کئے ہیں، اور جوہری لغوی نے لکھا ہے کہ درخت اراک کی ایک قسم ایسی بھی ہے جس پر کچھ پھل ہوتا ہے اور کھایا جاتا ہے، مگر اس درخت کے پھل بھی بدمزہ تھے۔ اور ابو عبیدہ نے فرمایا کہ خمط ہر ایسے درخت کو کہا جاتا ہے جو خاردار بھی ہو کڑوا بھی اور لفظ اثل جمہور مفسرین کے نزدیک ایک قسم طرفاء کی ہے، جس کو اردو میں جھاؤ کہا جاتا ہے۔ اس پر کوئی پھل کھانے کے قابل نہیں ہوتا۔ اور بعض حضرات نے کہا کہ اثل بمعنی سمر یعنی ببول اور کیکر کا درخت جو خاردار ہوتا ہے جس کا پھل بکریوں کو کھلایا جاتا ہے۔ سدر کے معنی بیری کے ہیں۔ یہ دو قسم کی ہوتی ہے، ایک وہ جو باغات میں اہتمام سے لگائی جاتی ہے، اس کا پھل شیریں خوش ذائقہ ہوتا ہے، اس کے درخت میں کانٹے کم اور پھل زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری قسم جنگلی بیری کی ہے جو جنگلوں میں خودرو اور خاردار جھاڑیاں ہوتی ہیں ان میں کانٹے زیادہ اور پھل کم ہوتا ہے، اور پھل بھی ترش ہوتا ہے۔ آیت مذکورہ میں سدر کے ساتھ قلیل کے لفظ سے غالباً اشارہ اس طرف ہے کہ بیری بھی جنگلی خودرو تھی جس پر پھل کم اور ترش ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰہُمْ بِجَنَّتَيْہِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَىْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ۝ ١٦ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ سال سَالَ الشیء يَسِيلُ ، وأَسَلْتُهُ أنا، قال : وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] ، أي : أذبنا له، والْإِسَالَةُ في الحقیقة : حالة في القطر تحصل بعد الإذابة، والسَّيْلُ أصله مصدر، وجعل اسما للماء الذي يأتيك ولم يصبک مطره، قال : فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] ( س ی ل ) سال الشئی یسبیل کے معنی کسی چیز کے بہنے کے ہیں اور اسلنا کے معنی بہا دینے کے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ/ 12] اور ان کے لئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا ۔ یاہں اسلنا کے معنی پگھلا دینے کے ہیں ۔ لیکن فی الحقیقت اسالۃ کا لفظ قطر کی اس حالت پر بولا جا تا ہے جو پگھلا نے کے بعد ہوتی ہے ۔ السیل ( ض ) یہ اصل میں سال یسبیل کا مصدر ہے جس کے معنی بہنے کے ہیں اور بطور اسم اس پانی پر بولا جاتا ہے ۔ جو دور سے بہہ کر کسی جگہ پر آجائے اور وہاں بر سانہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَداً رابِياً [ الرعد/ 17] پھر اور رساتی ) نالے پر پھولا ہوا جھاگ آگیا ۔ عرم العَرَامَةُ : شراسةٌ وصعوبةٌ في الخُلُقِ ، وتَظْهَرُ بالفعل، يقال : عَرَمَ فلانٌ فهو عَارِمٌ ، وعَرَمَ «3» : تَخَلَّقَ بذلک، ومنه : عُرَامُ الجیشِ ، وقوله تعالی: فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ [ سبأ/ 16] ، قيل : أراد سيلَ الأمرِ العَرِمِ ، وقیل : العَرِمُ المَسْنَاةُ «4» ، وقیل : العَرِمُ الجُرَذُ الذَّكَرُ ، ونسب إليه السّيلُ من حيث إنه نَقَبَ المسناةَ. ( ع ر م ) العرامۃ کے معنی مزاج کی تندی اور درشتی کے ہیں ۔ جس کا اثر انسان کے عمل پر ظاہر ہو کہاجاتا ہے عرم فلان فلاں سخت مزاج ہوگیا چناچہ ایسے شخص کو عارم کہاجاتا ہے ۔ اسی سے عرام الجیش ہے جس کے معنی لشکر کی تندی وتیزی اور کثرت کے ہیں اور آیت کریمہ : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ [ سبأ/ 16] کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ ہم نے ان پر سخت سیلاب بھیجا اور بعض نے العرم کے معنی بند کئے ہیں اور ہیں اور بعض نے العرم سے جنگلی چوہا مراد لیا ہے اور اس سیلا ب کو اس کی طرف اسلئے منسوب کیا ہے کہ چوہوں نے اس بند میں نقاب ڈالے تھے اور وہ بند ٹوٹ گیا تھا ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ خمط الخمط : شجر لا شوک له، قيل : هو شجر الأراك، والخَمْطَة : الخمر إذا حمضت، وتَخَمَّط : إذا غضب، يقال : تَخَمَّطَ الفحل هدر ( خ م ط ) الخمط ۔ درخت بےخار بعض نے کہا کہ خمط ۔ پیلو کے درخت کو کہتے ہیں ۔ الخمطۃ ۔ ترش شراب تخمط ۔ غضبناک ہونا ۔ کہا جاتا ہے ۔ تخمطا لفخل ۔ سانڈکا مستی سے بربرانا ۔ أثل قال تعالی: ذَواتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ/ 16] . أَثْل : شجر ثابت الأصل، وشجر متأثّل : ثابت ثبوته، وتأثّل كذا : ثبت ثبوته . وقوله صلّى اللہ عليه وسلم في الوصيّ : «غير متأثّل مالًا» أي : غير مقتنٍ له ومدّخر، فاستعار التأثّل له، وعنه استعیر : نحتّ أثلته : إذا اغتبته . ( ا ث ل ) اثل ( جھاؤ کا درخت ) قرآن میں ہے :۔ { ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ } [ سبأ : 16] یعنی دو ایسے باغ دیئے جن کے میوی بدمزہ اور جھاؤ اور کچھ سبزیال تھیں اثل ۔ یعنی وہ درخت جس کی جڑ خوب مضبوط ہو اسی سے شجرمتاثل کا محاورہ ہے یعنی وہ درخت جس جڑ اثل کی طرح مضبوط ہو ۔ تاثل کذا وہ چیز اثل کی طرح مضبوطی سے جم گئی اس نے جڑ پکڑ لی اور آنحضرت کا وصی کے متعلق ، ، غیر متاثل مالا (5) فرمایا ہے ( یعنی یتیم کے مال سے بقدر ضرورت لے اور ذخیرہ اندوزی نہ کرے ) یہ مال کے اذخار اوراقتنار سے کنایہ ہے اور اسی سے بطور استعارہ نحت اثلتلہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی غیبت اور بدگوئی کرنا کے ہیں ۔ سدر السِّدْرُ : شجر قلیل الغناء عند الأكل، ولذلک قال تعالی: وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ/ 16] ، وقد يخضد ويستظلّ به، فجعل ذلک مثلا لظلّ الجنة ونعیمها في قوله تعالی: فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة/ 28] ، لکثرة غنائه في الاستظلال، وقوله تعالی: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم/ 16] ، فإشارة إلى مکان اختصّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فيه بالإفاضة الإلهية، والآلاء الجسیمة، وقد قيل : إنها الشجرة التي بویع النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم تحتها»، فأنزل اللہ تعالیٰ السّكينة فيها علی المؤمنین، والسّدر : تحيّر البصر، والسَّادِرُ : المتحيّر، وسَدَرَ شَعْرَهُ ، قيل : هو مقلوب عن دَسَرَ. ( س د ر ) السدر ( بیری کا ) درخت جس کا پھل بہت کم غذائیت کا کام دیتا ہے ۔ اسی بنا پر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ۔ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ [ سبأ/ 16] اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں ۔ اور کبھی ( گابھا دے کر ) اسے بےکانٹا کر کے اس سے یہ حاصل کیا جاتا ہے اس لئے اسے جنت کے آرام اور اس کی نعمتوں کے لئے بطور مثال کے ذکر کیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ [ الواقعة/ 28] بےخار کی بیریوں میں ( مزے کر رہے ) ہوں گے ۔ کیونکہ ایسا درخت بہت زیادہ سایہ دار ہوتا ہے اور آیت : ۔ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ ما يَغْشى[ النجم/ 16] جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا ۔ میں السدرۃ سے اس مقام کی طرف اشارہ ہے جہاں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیوضات الہیہ اور بھاری انعامات سے خاص طور پر نوازا گیا تھا بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ درخت ہے جس کے نیچے آنحضرت نے بیعت رضوان لی تھی اور وہاں اللہ تعالیٰ نے مومنین پر سکینت الہیہ نازل فرمائی تھی ۔ السدر کے معنی خیرہ چشم ہونے کے ہیں اور خیرہ چشم کو سادر کہا جاتا ہے اور سدر شعرہ کے معنی بال لٹکانے کے ہیں ۔ بعض کے نزدیک یہ ( دسر ) سے مقلوب ہے ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

مگر ان لوگوں نے ایمان لانے اور انبیاء کرام کی بات ماننے سے انکار کیا اور اس طرح شکر خداوندی نہیں اد ا کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر بند کا پانی چھوڑ دیا کہ اس پانی سے تمام باغات مکانات اور ہر قسم کی نعمتوں کو ہلاک کردیا۔ ارم یمن میں ایک وادی کا نام ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایک ود رویہ بند تھا جس سے پانی روکتے تھے اور اوپر نیدے اس بند میں پانی کے آمد و رفت کے سات دروازے تھے اللہ تعالیٰ نے اس پانی سے انہیں ہلاک کردیا اور ان تباہ شدہ باغوں کے بدلے ایسے باغ دے دیے جن میں یہ چیزیں رہ گئیں بد مزہ پھل اور جنگلی بیر، جس میں کانٹے زیادہ اور پھل کم تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦ { فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ } ” تو انہوں نے اعراض کیا ‘ چناچہ ہم نے بھیج دیا ان پر سیلاب بہت زور کا “ اس قوم نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور اعراض و سرکشی کی روش اختیار کی تو ان پر اللہ کا عذاب اس انداز سے آیا کہ ایک عظیم سیلاب نے ان کے بند کو توڑ دیا جس سے ان کی بستیاں تباہ ہوگئیں اور ان کے باغات کے سلسلے بھی برباد ہوگئے۔ { وَبَدَّلْنٰـہُمْ بِجَنَّتَیْہِمْ جَنَّـتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُکُلٍ خَمْطٍ وَّاَثْلٍ وَّشَیْئٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ } ” اور ہم نے بدل دیے ان کے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ ‘ جن میں کڑوے کسیلے پھل ‘ جھائو کے درخت اور کچھ تھوڑی سی بیریاں تھیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 That is, "They adopted the way of disobedience and ingratitude instead of obedience and gratefulness." 29 The word 'arim as used in sayl al- arim in the Text is derived from the South Arabic word ariman, which stands for a "dam". In the ancient inscriptions that have been unearthed in the ruins of the Yaman, this word has been commonly used in this meaning. For example, in an inscription dated 542 or 543 A.D., which Abraha, the Abyssinian governor of the Yaman, had got installed after the repairs to the great dam of Maa`rib, this word has been used repeatedly in the meaning of a dam. Therefore, sayl al- arim implies a flood that comes when a dam breaks. 30 That is, "As a result of the flood that came after the dam burst, the whole land was laid waste. The canals which the Sabaeans had dug out by building dams between the mountains, were ruined and the irrigation system destroyed. Then the same land which had been like a garden before, became a jungle of wild growth and no eatable plants were left in it except the small plumlike fruit of the lote bushes."

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :28 یعنی بندگی و شکر گزاری کے بجائے انہوں نے نافرمانی و نمک حرامی کی روش اختیار کر لی ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :29 اصل میں لفظ سَیْلُ الْعَرِم استعمال کیا گیا ہے ۔ عَرِم جنوبی عرب کی زبان کے لفظ عرمن سے ماخوذ ہے جس کے معنی بند کے ہیں ۔ یمن کے کھنڈروں میں جو قدیم کتبات موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں ان میں یہ لفظ اس معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً 542ء یا 543ء کا ایک کتبہ جو یمن کے حبشی گورنر اَبرہہ نے سدّ مارِب کی مرمت کرانے کے بعد نصب کرایا تھا اس میں وہ اس لفظ کو بار بار بند کے معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ لہٰذا سیل العَرِم سے مراد وہ سیلاب ہے جو کسی بند کے ٹوٹنے سے آئے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :30 یعنی سیل العَرِم کے آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا علاقہ برباد ہو گیا ۔ سبا کے لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان بند باندھ باندھ کر جو نہریں جاری کی تھیں وہ سب ختم ہو گئیں اور آب پاشی کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا ۔ اس کے بعد وہی علاقہ جو کبھی جنت نظیر بنا ہوا تھا خود رو جنگلی درختوں سے بھر گیا اور اس میں کھانے کے قابل اگر کوئی چیز باقی رہ گئی تو وہ محض جھاڑی بوٹی کے بیر تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(34:16) فاعرضوا۔ ماضی جمع مذکر غائب اعراض (افعال) مصدر انہوں نے منہ پھیرلیا۔ ف تعقیب کا ہے پھر انہوں نے منہ پھیرلیا۔ یعنی سرتابی کی۔ فارسلنا۔ میں ف عطف سببی کے لئے ہے۔ سو ہم نے ان پر (سیل العرم) بھیج دیا۔ سیل العرم۔ مضاف مضاف الیہ۔ سیل۔ سیلاب۔ عرم۔ تیز رو، زور دار، سخت۔ یہ عرامۃ والعرامۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے العرامۃ کے معنی مزاج کی تندی اور درشتی کے ہیں۔ لہٰذا جملہ کے معنی ہوں گے ! سو ہم نے ان پر سخت سیلاب بھیجا۔ بعض نے العرم کے معنی بند کے کئے ہیں کہ یہ سیلاب بند کے ٹوٹنے کی وجہ سے آیا تھا ۔ بعض نے العرم سے جنگلی چوہا مراد لیا ہے کہ یہ سیلاب چوہے کے بند میں شگاف کرنے اور نتیجۃ بند ٹوٹنے سے آیا تھا۔ (سد مارب کی طرف اشارہ ہے تفصیل کے لئے کسی بھی مفصل تفسیر کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے) ۔ بجنتیہم۔ ان کے دو باغوں کے بدلے جنتین۔ (ایسے) دو باغ۔ ذواتی۔ ذات کا تثنیہ۔ رکھنے والیاں۔ صاحب۔ اکل۔ میوہ ۔ پھل ۔ جو کھایا جائے۔ فعل کے وزن پر۔ خمط۔ کسیلا۔ بدمزہ۔ پیلو اور اس کا پھل (بغوی) ہر وہ سبزی جس کے مزہ میں اتنی تلخی پیدا ہوجائے کہ اس کو کھایا نہ جاسکے۔ (زجاج) ۔ ذواتی اکل خمط۔ ذواتی مضاف اکل خمط موصوف وصفت مل کر مضاف الیہ۔ بدمزہ اور کسیلے پھلوں والے باغ۔ اثل۔ ای ذواتی اثل۔ اثل جھائو کے درخت کو کہتے ہیں اس کی جمع اثلاث و اثال۔ اثول (جن میں جھائو کے درخت تھے) ۔ وشیء من سدر قلیل۔ ای ذواتی شیء قلیل من سدر۔ اور جن میں تھوڑے سے درخت بیری کے تھے۔ فائدہ : یہ حالت بند ٹوٹنے سے ہوگئی بند ٹوٹا اور اس کا سیلاب باغات، فصلات کی فوری تباہی کا سبب بن گیا۔ بند کے ٹوٹنے سے ذریعہ آبپاشی برباد ہوگیا۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں وہ جنت مثال علاقہ بنجر و برباد ہو کر رہ گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی بلند وادیوں سے آنے والے پانی کو روک کر مآرب کے پہاڑوں کے درمیان جو بند انہوں نے باندھا تھا اور جس سے وہ اپنے باغوں کو سال بھر سیراب کرتے تھے اسے توڑ کر ہم نے زور کا سیلاب بھیجا جس نے ان کے باغ اور مکان سیلاب بھیجا جس نے ان کے باغ اور مکان سب تباہ کر ڈالے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ ” سدمآب “ بلق کے پہاڑوں کے درمیان تقریباً 800 ق م باندھا گیا تھا جو ایک سو پچاس فٹ لمبی اور پچاس فٹ چوڑی دیوار ہے تقریباً پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں یہ بند ٹوٹ گیا جس سے ملک کا تمام نظام آبپاشی تباہ و برباد ہوگیا۔ اس بند کی دیوار کا کچھ حصہ تا حال باقی ہے۔ پوری تفصیلات ” ارض القرآن “ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 3 یعنی یا تو ان کے دائیں بائیں ایسے باغ تھے جن میں طرح طرح کے عمدہ اور مزید ار پھل پیدا ہوتے تھے یا جب سیلاب آیا اور اس نے پہلے باغ تباہ کردیئے تو انہوں نے نئے باغ لگائے مگر ان میں کوئی مزیدار پھیل پیدا نہہوا۔ کچھ خراب قسم کے پھل اور کچھ جھاڑی بوٹی کے بیر رہ گئے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جو سیلاب بند سے رکا رہتا تھا بند ٹوٹ کر اس سیلاب کا پانی چڑھ آیا جس سے ان کے دو رویہ باغات سب غارت ہوگئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاعرضوا فارسلنا ۔۔۔۔۔ من سدر قلیل (16) ” “۔ انہوں نے اللہ کے شکر بجالانے سے منہ موڑ لیا۔ نیک کام کرنا چھوڑ دیا۔ اللہ کے انعامات میں غلط تصرفات کرنا شروع کر دئیے۔ لہٰذا اللہ نے ان سے وہ خوشحالی چھین لی جس میں وہ زندگی بسر کررہے تھے۔ ان پر اس قدر شدید سیلاب بھیجا جو راستے میں آنے والے پتھروں کو بھی بہا کرلے جا رہا تھا۔ العرم کے معنی پتھر ہیں۔ یوں یہ ڈیم ٹوٹ گیا۔ پانی نے سیلاب کی شکل اختیار کرلی۔ یہ گاؤں اور باغات تباہ ہوگئے۔ اور ازسرنو پانیوں کے ذخیرہ کرنے کا انتظام ان سے نہ ہوسکا۔ اس لیے خوشحالی کی جگہ خشک سالی نے لی۔ زمین خشک ہوکر جل گئی اور سرسبز باغات بیرویوں کی جھاڑیون میں بدل گئے اور سرسبز زمین صحرا میں بدل گئی۔ وبدلنھم بجنتھم ۔۔۔۔۔ من سدر قلیل (34: 16) ” اور ان کے پچھلے دو باغوں کے بدلے دو اور باغ انہیں دئیے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں “۔ خمط اراک کے درخت کو کہتے ہیں۔ ہر خاردار درخت کو بھی خمط کہتے ہیں۔ اور اٹل ایک درخت ہے جو الفرفاء کے مماثل ہوتا ہے یعنی جھاؤ۔ اور سدر بیری کو کہتے ہیں اور یہ بیری جواب ان کے لیے بہترین پھل رہ گئی تھی یہ بھی قلیل مقدار میں تھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ فاعرضوا الخ : قوم سبا نے اللہ کے شکر سے اعراض کیا اور عیش و عشرت اور مال و دولت کے نشہ میں مخمور خدا کا احسان ہی بھول گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ناسپاسی اور کفران کی سزا یہ دی کہ ان پر ایک نہایت ہی زبردست سیلاب بھیجا جو ان کے باغوں، کھیتوں اور مکانوں کو تباہ و برباد کرکے بہا لے گیا۔ اور خوشبو دار اور لذیذ میوہ دار درختوں کے طویل و عریض باغات کا نام و نشان مٹ گیا اور جنگلی خود رو جھاڑ، بد مزہ پھل، جھاؤ کے درخت اور کچھ بیری کے درخت باقی رہ گئے۔ اس صورت میں یہ موصوف صفت ہوں گے امام ابو عبیدہ کے نزدیک خمطٍ ہر بد مزہ اور خار دار جھاڑ کو کہتے ہیں۔ اس صورت میں خمط، اکل سے سے بدل ہوگا۔ کذا فی الروح واختارہ الشیخ قدس سرہ۔ العرم : مضبوط بند جو پانی کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہو۔ اس سے رماد وہ بند ہے جو ملک سبا میں بارشوں کے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ دو پہاڑوں کو آپس میں ملاتا تھا اور اسے ملکہ سبا نے بنایا تھا۔ ان بلقیس کان عمدت الی جبال بینہا شعب فسدت الشعت حتی کانت میاہ الامطار و العیون یجتمع فیہا و تصیر کالبحر (کبیر ج 7 ص 12) ۔ جب اللہ تعالیٰ نے قوم سبا سے نا سپاسی کا انتقام لینا چاہا۔ اس بند کو توڑ کر ذخیرہ آب کو ایک قیامت خیز سیلاب کی صورت میں ان پر مسلط کردیا۔ اکل خمط : بد مزہ پھل۔ اثل : جھاؤ کا درخت۔ سدر : بیری کا درخت۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(16) پھر انہوں نے اعراض اور بےپروائی کا شیوہ اختیار کیا اور پھر انہوں گ نے منہ پھیرلیا تو ہم نے ان پر بند توڑ کر زور کا سیلاب اور پانی کی تیز رو کو بھیج دیا اور ہم نے ان کے دورویہ باغوں کے بدلے میں اور دو باغ ان کو دے دیئے جن میں بدمزہ پھل اور جھائو اور کچھ قدرے قلیل بیری کے درخت تھے۔ مطلب یہ ہے کہ پانی کا بند ٹوٹ گیا اور پانی کی رو آگئی اور وہ دورویہ باغ بہہ گئے۔ آبادی تباہ ہوگئی اور تمام زمین ایسی ہوگئی جیسے دریا کے قریب بیلا۔ کچھ جھائو، جوانسا، بدمزہ پھلوں کے درخت کچھ جنگلی بیری کے بیر۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب چاہا اللہ نے عذاب بھیجے گھونس پیدا ہوئی اس پانی کے بند میں اس کی جڑ کرید ڈالی ایک بار پانی نے زور کیا بند کو توڑ دیا وہ پانی عذاب کا تھا سرخ رنگ کا جس زمین پر پھر گیا کام سے جاتی رہی۔ پیچھے وہ قوم ویران ہو کر جدا جدا ہوگئی اور کچھ جو رہی تھی ان باغوں کے بدلے یہ چیزیں پانے لگی۔ خلاصہ : یہ کہ پورا ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تباہ ہوگیا اور لوگ مختلف قبیلوں میں بٹ گئے۔