DeterminerNoun

ٱلْأَسْبَابُ

the relations

تمام اسباب

Verb Form
Perfect Tense Imperfect Tense Imperative Active Participle Passive Participle Noun Form
سَبَّ
يَسُبُّ
سُبّ/اُسْبُبْ
سَابّ
مَسْبُوْب
سَبّ
Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلسَّبَبُ: اصل میں اس رسی کو کہتے جس سے درخت خرما وغیرہ پر چڑھا (اور اس سے اترا) جاتا ہے اس کی جمع اسباب ہے۔ قرآن پاک میں ہے: (فَلۡیَرۡتَقُوۡا فِی الۡاَسۡبَابِ) (۳۸:۱۰) تو ان کو چاہیے کہ سیڑھیاں لگاکر (آسمان پر) چڑہیں۔ اور یہ معنوی لحاظ سے آیت: (اَمۡ لَہُمۡ سُلَّمٌ یَّسۡتَمِعُوۡنَ فِیۡہِ) (۵۲:۳۸) یا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے کہ اس پر چڑھ کر (آسمان سے باتیں) سن کر آتے ہیں۔ کے مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ پھر اسی مناسبت سے ہر اس شے کو سَبَبٌ کہا جاتا ہے جو دوسری شے تک رسائی کا ذریعہ بنتی ہو۔ چنانچہ قرآن میں ہے: (وَ اٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا) (۱۸:۸۴) اور اسے ہر قسم کے ذرائع بخشے سو وہ ایک راہ پر چلا۔ مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے ہر چیز کی معرفت اور سامان و ذرائع عطا کئے تھے جس کے ذریعہ وہ اپنے مقصود تک پہنچ سکتا تھا چنانچہ اس نے ایک ذریعہ اختیار کیا اور آیت کریمہ: (لَّعَلِّیۡۤ اَبۡلُغُ الۡاَسۡبَابَ … اَسۡبَابَ السَّمٰوٰتِ) (۴۰:۳۶،۳۷) تاکہ جو آسمان تک پہنچنے کے ذرائع ہیں ہم ان تک جاپہنچیں۔ میں بھی اسباب سے مراد ذرائع ہی ہیں۔ یعنی تاکہ ہم ان اسباب و ذرائع کا پتہ لگائیں جو آسمان میں پائے جاتے ہیں اور ان سے موسیٰ (علیہ السلام) کے مزعومہ خدا کے متعلق معلومات حاصل کریں اور عمامہ، دوپٹہ اور ہر لمبے کپڑے کو طول میں رسی کے ساتھ تشبیہ دے کر بھی سَبَبٌ کہا جاتا ہے۔ اسی جہت سے شاہراہ کو بھی سَبَبٌ کہہ دیا جاتا ہے جیساکہ شاہراہ کو بھی خیّطٌ (دھاگہ) اور کبھی محدود کپڑے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ اَلسَّبُّ: (مصدرن) کے معنیٰ مغلظات اور فحش گالی دینا کے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے: (لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ) (۶:۱۰۸) تو جو لوگ خدا کے سوا (دوسرے) معبودوں کو حاجت روائی کے لئے بلایا (یعنی ان کی پرستش کیا کرتے ہیں ان کو برا نہ کہو کہ یہ لوگ بھی ازراہ نادانی ناحق، خدا کو برا کہہ بیٹھیں گے۔ ان کے اﷲ تعالیٰ کو گالیاں دینے کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ وہ صریح الفاظ میں اﷲ تعالیٰ کو گالیاں دیں گے۔ کیونکہ اس طرح تو کوئی مشرک بھی نہیں کرتا بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جوش میں آکر شانِ الٰہی میں گستاخی کریں گے۔ اور ایسے الفاظ استعمال کریں گے جو اس کی ذات کے شایان شان نہیں، جیساکہ عام طور پر مجادلہ کے وقت ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے۔ (1) فَمَا کَانَ ذَنْبُ بَنِیْ مَالِکٍ بِاَنْ سُبَّ مِنْھُمْ غُلَامٌ فَسَبَّ بِاَبْیَضَ ذِیْ شَطْبٍ قَاطِعٍ یَقُدُّ الْعِظَامَ وَیُبْرِی الْقَصَبَ بنی مالکا صرف اتنا گاہ ہے کہ ان میں سے ایک لڑکے کو بخل پر عار دلائی گئی اور اس نے عار کے جواب میں سفید دھاری دار قاطع تلوار سے اپنی موٹی اونٹنیوں کو ذبح کر ڈالا جو ہڈیوں کو کاٹ ڈالتی ہو اور قصب یعنی بانس کو تراش دیتی ہو۔ ان اشعار میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کو دوسرے شاعر نے یوں ادا کیا ہے۔ (2) نَشْتِمْ بِالْاَفْعَالِ لَا بِالتَّکَلُّمِ کہ ہم زبان کی بجائے افعال سے گالی دیتے ہیں۔ اور سِبٌّ (فِعٌْ) بمعنی دشنام دہندہ کے لئے آتا ے۔ شاعر نے کہا ہے۔ (3) لَاتُسُبَّنِیْ فَلَسْتَ بِسِبِیْ اِنَّ سِبِیْ مِنَ الرِّجَالِ الْکَرِیْمِ مجھے گالی نہ دو تم مجھے گالی دینے کے لائق نہیں ہو کیونکہ نہایت شریف درجہ کا ادمی ہی مجھے گالی دے سکتا ہے۔ اَلسُّبَّۃُ: ہر وہ چیز جو عار وننگ کی موجب ہو اور کنایہ کے طور پر دبر کو بھی سُبَّۃٌ کہا جاتا ہے۔ جیساکہ اسے سوْئَ ۃٌ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اَلسَّابَّۃُ انگشت شہادت یعنی انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کیونکہ گالی دیتے وقت اس کے ساتھ اشارہ کیا جاتا ہے جیساکہ اس انگلی کو مُسَبِّحَۃٌ (انگشت شہادت) کہا جاتا ہے کیونکہ تسبیح کے وقت اشارہ کے لئے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے۔

Lemma/Derivative

9 Results
سَبَب